اجتماعی قتل کی پلاننگ کرنے والے یہ سنگ دل حکمران

مصنف : اشتیاق بیگ

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : اپریل 2007

اسے آخرت کے سفر پر روانہ ہونا تھا اس کے پاس وقت بہت کم تھا’ چنانچہ اس نے چند اوراق تحریر کیے’ جن میں ان واقعات اور لوگوں کی نشاندہی کی جو اس کی موت کے ذمہ دار تھے۔ اس سے فارغ ہوکر وہ باپ کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا اور اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اسلام قبول کرکے ایک مسلم کی حیثیت سے مرنا چاہتا ہے’ اس نے اپنے والد سے یہ بھی درخواست کی کہ مرنے کے بعد اس کی تدفین اسلامی روایات کے مطابق کی جائے۔

یہ کسی فلم کی کہانی نہیں بلکہ ایک حقیقی واقعہ ہے جس کا کردار ۴۴ سالہ سابق روسی ایجنٹ الیگزینڈر لٹوینکیو ہے’ جسے گذشتہ دنوں لندن میں پلوٹینم ۲۱۰ زہر کے ذریعے موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا قتل ہے جس میں انگلینڈ کی سرزمین پر کسی غیرملک نے اپنے ایجنٹوں کو بھیج کر اپنے ایک مخالف کو ایک نہایت انوکھے اور خطرناک طریقے سے قتل کروایا۔ اس قتل کو یورپ میں تابکاری قتل (raditation murder) کا نام دیا گیا۔ ۸۰ء کی دہائی میں الیگزینڈر نے سیکرٹ ایجنٹ کی حیثیت سے کے جی بی میں شمولیت اختیار کی۔ ۲۰ سالہ کیریئر میں اس کا شمار روس کے انتہائی ذہین اور چوٹی کے جاسوسوں میں ہونے لگا۔ اس کی مردانہ وجاہت سے بھرپور شخصیت کو دیکھ کر اسے روس کا جیمزبانڈ بھی کہا جاتا تھا۔ نومبر ۱۹۸۸ء میں اس وقت جب پیوٹن روسی سیکرٹ ایجنسی کا سربراہ تھا تو الیگزینڈر اور اس کے پانچ سینئر ساتھیوں کو بعض اہم شخصیات کے قتل کی ذمہ داری سونپی گئی’ جس کا انکشاف انھوں نے ۱۹۹۸ء میں ایک پریس کانفرنس کے ذریعے کیا’ اس کے بعد الیگزینڈر اور اس کے ساتھیوں کو برطرف کر کے انھیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ رہائی کے بعد وہ ایک جعلی پاسپورٹ کے ذریعے ترکی کے راستے برطانیہ فرار ہوگیا’ جہاں اس نے سیاسی پناہ کی درخواست کی’ روس کی خفیہ ایجنسی کے اس اہم اور چوٹی کے جاسوس کو برطانیہ نے فوراً سیاسی پناہ دے دی اور بعد میں اسے اپنی شہریت بھی دی’ تاکہ اس کے ذریعے اہم معلومات حاصل کی جا سکیں’ کریملن کے لیے یہ ایک بہت بڑا صدمہ تھا۔

الیگزینڈر نے اپنے انگلینڈ میں قیام کے دوران ایک کتاب بعنوان Blowing up Russia: Terror from within تحریر کی جس میں اس نے وہ اہم راز افشا کیے ’ جو پیوٹن اور اس کی حکومت کے لیے نہایت شرمندگی کا سبب بنے۔ اس نے اپنی کتاب میں جو انکشافات کیے’ ان میں ایک یہ بھی تھا کہ ۱۹۹۹ء میں ماسکو کی عمارتوں میں جو دھماکے ہوئے’ جس میں ۳۰۰ سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور جس کی ذمہ داری چیچن مسلمانوں پر عائد کی گئی ’ وہ دراصل روسی خفیہ ایجنسی نے کروائے تھے’ اس کے علاوہ ۲۰۰۲ء میں سامکو تھیٹر میں لوگوں کو یرغمال بنانے کا جو واقعہ پیش آیا’ مبینہ طور پر اس میں بھی چیچن مسلمانوں کو ملوث ظاہر کیا گیا’ جب کہ اس میں بھی روسی سیکرٹ سروس کے ایجنٹ ملوث تھے جو روسی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کر رہے تھے۔ روس میں ہونے والے ان واقعات کا جنھیں چیچن مسلمانوں کی طرف منسوب کیا گیا اور جن کا مقصد پورے روس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فضا پیدا کرنا اور چیچنیا کے خلاف فوج کشی کا جواز پیدا کرنا تھا’ جس کے نتیجے میں پیوٹن کو ہیرو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی’ جو چیچن مسلمانوں کو کچل سکتا ہے اور اس کے بعد پیوٹن کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔

الیگزینڈر کی کتاب میں ان واقعات کے علاوہ بھی سیکڑوں انکشافات ہیں’ جن میں ایک ارب پتی بزنس مین کے قتل کا منصوبہ’ بم دھماکوں کی تفتیش کرنے والے غیرجانب دار ممبران پارلیمنٹ کے پُراسرار قتل کی حقیقت اور کچھ دیگر اہم لوگوں کے قتل کے منصوبوں کا احوال شامل ہے’ جو بقول الیگزینڈر روسی خفیہ ایجنسی کے کارنامے تھے۔ یہ تمام انکشافات کریملن اور پیوٹن کے لیے پوری دنیا میں بدنامی کا باعث بن رہے تھے’ لہٰذا الیگزینڈر کو منظرعام سے ہٹانے کے لیے ایک منفرد اور نہایت خطرناک منصوبہ تیار کیا گیا۔ دو روسی سیکرٹ ایجنٹوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی جو الیگزینڈر سے لندن کے ایک فائیواسٹار ملینیم ہوٹل کی بار میں ملے اور نہایت چالاکی سے نمک کے ذروں کے برابر پلوٹینم ۲۱۰ اس کی گلاس میں ڈال دی۔ جیمزبانڈ کی طرح نظر آنے والے الیگزینڈر کے کچھ ہی دنوں میں تمام بال گر گئے اور اس کا گوشت گل گیا اور وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا اور تین ہفتوں میں ایک کربناک موت کا شکار ہوا۔ پلوٹینم ۲۱۰ انتہائی تابکار مادہ ہے’ جس کے ذریعے کسی کو ختم کرنا یورپ اور امریکہ کے لیے بالکل نیا واقعہ ہے۔ روسی پارلیمنٹ نے حال ہی اسے میں بیرون ملک دشمنوں کے خلاف طاقت کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے۔

الیگزینڈر نے مرنے سے قبل اپنی آخری تحریر میں لکھا ہے کہ میں اسپتال میں لیٹا موت کے فرشتوں کی آہٹ محسوس کر رہا ہوں’ میں دوران سروس موت کے فرشتے کو کئی بار چکمے دے کر بھاگتا رہا’ لیکن آج میرے قدم میرا ساتھ نہیں دے رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ میں ان کو بے نقاب کروں’ جو میری موت کے ذمہ دار ہیں۔ اس نے پیوٹن کو مخاطب کر کے کہا : اگرچہ تم نے مجھے مروا کر خاموش کرا دیا ہے’ لیکن اپنے مخالفین کے اس الزام کو ثابت کر دیا ہے کہ تم ایک بے رحم اور وحشی ہو’ تمھارے نزدیک انسانی زندگی اور مہذب قدروں کی کوئی اہمیت نہیں ہے’ تم نے اپنے آپ کو اس منصب (روسی قیادت) کے لیے نااہل ثابت کردیا ہے۔ مسٹر پیوٹن! تم نے ایک شخص کو تو خاموش کر دیا ہے’ لیکن دنیا بھر سے اٹھنے والی چیخ و پکار کو تم خاموش نہیں کر سکتے۔

انگلینڈ کے قانون کے مطابق جب اس کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تو واضح ہو گیا کہ الیگزینڈر کو پلوٹینم ۲۱۰ کے ذریعے مارا گیا ہے’ اس کے کچھ ذرے انتہائی طاقتور جانور کو بھی بہت کم وقت میں مارنے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ الیگزینڈر چونکہ برطانوی شہریت کا حامل تھا’ لہٰذا برطانیہ نے اسے اپنے ایک شہری کا قتل تصور کیا’ اسکاٹ لینڈیارڈ کی پولیس نے تفتیش کے لیے اپنی ایک ٹیم روس روانہ کی ہے’ تاکہ ان دو افراد سے جو الیگزینڈر سے آخری بار ہوٹل میں ملے تھے’ کو شامل تفتیش کر کے حقائق معلوم کیے جائیں’ اس قتل کے بعد لندن میں لوگوں میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی اور تقریباً ۲۰۰ لوگ جو الیگزینڈر اور ان دو روسی ایجنٹوں کی ملاقات کے وقت بار میں موجود تھے’ ان میں سے چھ افرادکے ٹیسٹ میں تابکاری کے اثرات پائے گئے’ برٹش ایئرویز کا وہ طیارہ جس میں ان دو ایجنٹوں نے سفر کیا تھا’ اس میں بھی تابکاری کے اثرات پائے گئے ہیں۔

الیگزینڈر کی موت نے انسانی ضمیر کو بیدار کرنا شروع کر دیا ہے اور صرف برطانیہ ہی میں نہیں’ بلکہ دنیا بھر میں اس کے قتل کی شدید مذمت کی جارہی ہے۔ الیگزینڈر کے انکشافات اور اس کی موت عالمی میڈیا کا اہم موضوع ہے۔ سچائی کئی پردوں میں چھپا دی گئی تھی’ لیکن اب یہ پردے سامنے سے ہٹ رہے ہیں اور سچائی سامنے آنا شروع ہو رہی ہے اور خدا کرے کہ یہ سچائی دنیا بھر کے انسانوں کی آنکھیں کھول دے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز مہم کا خاتمہ ہو اور دنیا امن و سکون کا گہوارا بن جائے۔

(بشکریہ ماہنامہ بیداری’ جنوری ۲۰۰۷ء)