دیکھو کسی پر اعتبار نہ کرنا

مصنف : مارگن پیٹرک (لاہور)

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : اپریل 2007

             میرا نام مارگن ہے ، مذہباً عیسائی ہوں۔عمر انیس سال ہے ۔میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد معاشی پریشانی کی وجہ سے مجھے نوکری تلاش کرنا پڑی لہذا میٹرک کے رزلٹ کے بعد میں نے شارٹ ہینڈ اور ٹائپ کا ڈپلومہ کیا۔ بڑی کوشش کے بعد ایک اشتہاری ادارے میں جاب ملی۔ مجھے یہاں کام کرتے ہوئے تین سال ہو چکے ہیں۔ ان تین سالوں کے پہلے ایام میں میرے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ اگر خداوند مسیح میری مدد نہ کرتا تو نہ جانے مجھ پر کیا بیت جاتی ۔

            میں روزانہ صبح ساڑھے چھ بجے نواں کوٹ سے بس پر روانہ ہو کر بیس منٹ میں اپنے آفس کے سٹاپ پر پہنچتی اس کے بعد وہاں سے پندرہ منٹ پیدل فاصلہ طے کرکے دفتر پہنچتی ۔میرے دفتر سے تقریبا ایک فرلانگ کے فاصلے پر ایک خوبصورت گھر تھا۔مجھے روزانہ وہاں سے گزرنا پڑتا لہذااس کے مکینوں کی پہچان ہو گئی تھی۔وہاں ایک موٹی سی عورت نظر آتی البتہ کبھی کبھی ایک دبلی پتلی لڑکی بھی نظر آتی ۔اس کے علاوہ مجھے اس گھر میں کوئی فرد نظر نہ آتا۔مجھے یہاں آتے جاتے تین ماہ بیت چکے تھے ایک روز آفس پہنچی تو پتا چلا کہ آفس کسی ہنگامی حالت کی وجہ سے بند ہے واپس لوٹی تو اسی خوبصورت گھر کے قریب اسی عورت پر نظر پڑی جو کارمیں بیٹھی تھی اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کسی کا انتظارکر رہی ہو۔میں قریب سے گزری تواس نے پہلی بار آواز دے کر مجھے بلایا اور کہا آپ کو کہاں جانا ہے ۔ میں نے تھوڑی پس و پیش کے بعد اس کی لفٹ قبول کر لی۔ اس مختصر سی ملاقات کے بعد میرے لیے یہ خاتون اجنبی نہ رہی اور نہ ہی وہ لڑکی۔ایک ہفتے کے بعد انہوں نے مجھے آفس سے لوٹتے ہوئے گھر آنے کی دعوت دی۔میرے والد کمزور اور ضعیف آدمی ہیں اس کے باوجود وہ وقت مقررہ پر مجھے لینے کے لیے اسٹاپ پر کھڑے ہوتے تا کہ مجھے گھر کا راستہ اکیلے نہ طے کرنا پڑے۔مجھے اسی بات کا خیا ل تھا کہ ابو میری راہ دیکھ رہے ہو ں گے اس لیے میں نے یہ مجبوری بتا کر اس خاتون سے معذرت کر لی۔ اس پر اس نے مجھ سے یہ وعد ہ لیا کہ کل میں آدھے یوم کی رخصت لے کر ان کے گھرضرور آؤں گی۔ مجھے ابھی باہر کی دنیا میں آئے ہوئے ایک سال بھی نہیں ھوا تھا۔زندگی غربت اوراپنوں کی بے توجہی میں گزری تھی پہلی بار ایسا خلوص ملا تو میں پگھل گئی۔

            میرے ابو مجھے کسی سے بھی تعلقات نہ رکھنے کی ہدایت کرتے تھے اس لیے میں نے گھرمیں اس بات کا چرچا نہ کیا اور ایک بار جانے کے بعد ہر دوسرے تیسرے روز اس ملنسار خاتو ن کے ہاں جانے لگی۔ یہ خاتون مجھے بازؤوں میں لے کر بچوں کی طرح پیار کرتی مجھے کھانے کے لیے مزے مزے کی اشیا دیتی ۔ میں نے اس خاتون سے کئی تحفے بھی قبول کیے اور گھر میں چھپا کر رکھے ۔میں اکثر انکے ہاں چلی جاتی اورواپسی میں دیر ہو جاتی ۔ابو تین تین گھنٹے بس سٹاپ پڑ کھڑ ے رہتے ۔ اور میں مختلف بہانے تراش کر انہیں مطمئن کر تی ۔

            ایک روز آفس سے چھٹی تھی لیکن میں نے گھر نہ بتایااورآفس کاکہہ کر گھر سے نکلی اور اس خاتو ن کے ہاں جا پہنچی۔اس خاتو ن نے والہانہ انداز میں میرا استقبال کیااور مجھے اپنے ڈرائنگ روم میں لے گئی جہاں اس کی بھتیجی (شہرو) نیم عریا ں لباس میں مسہری پر دراز تھی۔ اس لڑکی نے بھی میرے ساتھ بڑے ہی پیار و محبت کی باتیں شروع کر دیں اور باتوں باتو ں میں مجھے کہنے لگی کہ مارگن تو نہیں جانتی میرے ایک بھائی ہیں جو کوئٹہ سے یہاں آئے ہیں رات میں نے تیری تصویر انہیں دکھائی تو وہ میرے سر ہو گئے کہ ہم اس خوبصورت لڑکی سے ضرور ملیں گے ۔ میں نے پہلی بار اپنے حسن کی تعریف سنی تو آپے سے باہر ہو گئی حالانکہ میں حسین بالکل بھی نہیں۔میں نے تھوڑی پس و پیش کے بعد اس ملاقات کی اجازت دے دی۔شہرو نے بستر چھوڑا اور دوسرے کمرے میں بھاگ گئ۔تھوڑی ہی دیر بعد وہ ایک خوش شکل مرد کے ساتھ اندڑ آئی میری عمر ہی کیا تھی کہ میں معاملے کو سمجھتی میں نے اپنے طور پر خوش اخلاقی دکھائی اوروہ حضرت بھی بے تکلفانہ اندازمیں بات چیت کر کے چلے گئے ۔واپسی کے لیے بس میں بیٹھی تو میرے ساتھ ایک اورسنجید ہ لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے میرے ساتھ باتیں شروع کر دیں ۔ پتا نہیں کیا ہوا کہ میں نے اسے ساری کہانی سنا دی۔ اس لڑکی نے کہانی سننے کے بعد کہا بہن یہ راستہ بہت غلط رخ جاتا ہے اس سے بچنا ضروری ہے اس دنیا میں کسی پر اعتبار نہ کرنا ۔ بلاوجہ کون کسی سے محبت کرتا ہے ۔ تم اس عورت سے بچ کر رہو۔

            پہلی بار مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس روز کے بعد میں نے احتیاط شروع کر دی ۔تین چار روز تک میں انکے ہاں نہ گئی تو ایک روز اس نے راستے میں اصرار کرکے مجھے گھر بلا لیا۔پہلے تو شکوہ شکایت کرتی رہی پھر مجھے کھانے کی میز پر لے گئی۔وہاں شہرو کے وہی بھائی صاحب اور ایک اورصاحب پہلے سے موجود تھے۔میں نے چلنے کا ارادہ کیا تو شہرو مجھ سے لپٹ گئی کہ آج تو یہیں رہ جاؤ ۔ بھائی جان کااصرار ہے۔مجھے پھر بس والی لڑکی کی باتیں یاد آئیں تو میں پھر معذرت کر کے جانے لگی تو وہ خاتون کہنے لگیں کہ بیٹا کھانے کے بعد ہم لوگ کچھ پیتے پلاتے ہیں تھوڑی دیر اوررک جاؤ پھر چلی جانا۔میں سمجھی شاید کوئی مشروب ہو گا لیکن وہاں تو شراب کا دور شروع ہو گیا۔میں لاکھ عیسائی سہی لیکن مشرقی لڑکی ہونے کے ناطے مجھے اپنی اور اپنے والدین کی عزت کا پورا خیال تھا لہذا میں پہلے تو بہانے کرتی رہی اور دیکھا کہ جب وہ لوگ پوری طرح اس میں مشغول ہو گئی ہیں تو میں چپکے سے باہر کو بھاگ آئی۔

            میں خود پر لعنتیں بھیج رہی تھی کہ میں نے بس والی لڑکی کی بات کیوں نہ مانی میں اگر اپنی نادانی سے کسی مشکل میں پڑ جاتی تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتی۔اس روز کے بعد میں نے بس سٹاپ کا راستہ بدل لیا ایک دو بار وہ لوگ نظر بھی آئے لیکن میں کنی کترا گئی میں نہیں جانتی کہ یہ کون لوگ تھے اور ان کا کاروبار کیا تھالیکن یہ بات اچھی طرح سمجھ گئی ہوں کہ وہ عورت بھولی بھالی لڑکیوں کو گنا ہ کے راستے پر لانے کے لیے بڑے خوفناک ہتھیار رکھتی تھی خدانے مجھے بال بال بچا لیا۔بروقت میری آنکھوں سے پٹی اتر گئی۔