شہید بالاکوٹ، شاہ محمد اسماعیلؒ

مصنف : آباد شاہ پوری

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : مارچ 2007

آخری قسط

            یہ دعوتی و تبلیغی دورے تقریباً تین برس جاری رہے ۔ سفر حج پر سید صاحب او ران کے ساتھی جولائی 1821 (شوال المکرم 1236 ھ ) روانہ ہوئے اور دو سال دس ماہ بعد اپریل 1824 (شعبان 1239 ھ) میں واپس آئے ۔ سفر حج پر جانے سے پہلے بھی سید صاحب اپنے اصل مقصد یعنی جہاد فی سبیل اللہ اور اسلامی حکومت کے قیام کی جدوجہد کرنے سے غافل نہیں رہے تھے اور اس کے لیے تیاری کرتے اور اپنے ساتھیوں کو اس کی ترغیب دیتے رہے تھے ۔ کسی نہ کسی صورت میں اہل قافلہ کو محنت و مشقت کے کاموں میں ہمیشہ مصروف رکھا۔ جب بھی کوئی دراز قامت مضبوط قد کاٹھ کا جوان بیعت کو حاضر ہوتا سید صاحب اس پر اظہار مسرت فرماتے کہ ایسے ہی جوان ہمارے کام کے ہیں ۔ حج سے واپسی کے بعد تو شب و روز اسی کام کے لیے وقف ہو گئے ۔ اب شاہ صاحب کی تقریروں کا موضوع جہاد فی سبیل اللہ ہوتا ۔ ان تقریروں کے بارے میں سر سید نے لکھا : ‘‘بموجب ارشاد سید اصفیا یعنی پیر طریق ہدی اسی طرح تقریر و وعظ کی بنیاد ڈالی کہ مسائل جہاد فی سبیل اللہ بیشتر بیان ہوئے ۔ یہاں تک کہ آپ کی صیقل تقریر سے مسلمانوں کا آئینہ باطن مصفا و مجلا ہو گیا اور وہ اس طریق سے راہ حق میں سرگرم ہوئے کہ ہر شخص بے اختیار چاہنے لگا کہ اس کا سر راہ حق میں فدا اور جان اس کی اعلا لوائے دین محمدی میں صرف ہو ۔’’

            جہاد فی سبیل اللہ کی تحریص و ترغیب کا یہ کام پونے دو سال تک پورے جوش و خروش سے جاری رہا ۔ شاہ صاحب کی تقریروں نے دلوں میں شوق شہادت کی آگ بھڑکا دی ۔ جگہ جگہ مجاہدین کی جماعتیں سید صاحب کے حکم کا انتظار کرنے لگیں ۔ اسی زمانے میں شاہ صاحبؒ نے مشہور کتاب تقویۃ الایمان لکھی ۔ رد شرک و بدعات اور اتباع توحید و سنت پر شاہ صاحب کی تقریروں نے دہلی سے کلکتہ تک لاکھوں انسانوں کے دل و دماغ میں ہلچل بپا کر دی تھی ۔ ہزاروں بندگان خدا ان کی بدولت جہالت و جاہلیت کی دلدل سے نکلے اور مشرکانہ عقائد اور غیر اسلامی رسوم سے تائب ہوئے اور کتاب و سنت کو اپنی زندگی کا رہنما بنایا ۔

 9

            جنوری 1826 میں سید صاحب اور ان کے مجاہدین نے بغرض جہاد راہ ہجرت میں قدم رکھا اور راجپوتانہ ، سندھ ، بلوچستان ، قندھاراور کابل سے ہوتے ہوئے 20 نومبر کو پشاور پہنچے ۔ وہاں سے چار سدہ کے راستے نوشہرہ میں وارد ہوئے اور 20 دسمبر 1826 کو جہاد بالسیف کا آغاز ہوا ۔

            جہاد کے اگلے پانچ برسوں میں شاہ صاحب ہر محاذ پر صف اول میں رہے ۔ وہ سید صاحب کی جماعت کا دماغ بھی تھے اور اس کے سپہ سالار بھی ۔ جنگ اور مصالحت کی گفتگو اور دیگر تمام امور ریاست میں سید صاحب کے مشیر خاص تھے ۔ بیعت امامت جہاد کا بندوبست بھی شاہ صاحب ہی نے کیا اور بیعت شریعت کے سلسلے میں علمائے سرحد سے تمام مذاکرات بھی انہوں نے کیے ۔ عشر کے انتظام میں بھی وہ قاضی القضاۃ سید محمد حبان کے مشیر خاص تھے ۔ اکثر جنگی منصوبے انہی کی جنگی بصیرت اور ذہانت کے مرتب کردہ ہوتے ۔ بڑے بڑے معرکے شاہ صاحب ہی کی کمان میں لڑے گئے اور جو جنگ بھی لڑی ، کھلے میدان میں لڑی ۔ جنگ شیدو کے موقع پر پشاور کے حکمران سردار یار محمد خان نے سید صاحب کو سکھوں کے ایما پر کھانے میں زہر کھلا دیا اور عین دوران جنگ میں سید صاحب کی حالت غیر ہو گئی تو شاہ صاحب ہی نے انہیں محفوظ مقام پر پہنچایا ۔ جنگ شنکیاری میں پندرہ سولہ افراد کی جمعیت کے ساتھ سکھوں کی بھاری فوج کو زبردست جنگ کے بعد شکست دی ۔ اس جنگ میں شاہ اسماعیل اور ان کے غازیوں نے خرق عادت شجاعت کا مظاہرہ کیا ۔ شاہ صاحب کے ہاتھوں بارہ سکھ مارے گئے ۔ سکھ گولیاں برسا رہے تھے اور شاہ صاحب کھلے میدان میں ڈٹے ہوئے تھے ۔ انہوں نے پے در پے تین سکھوں کو جو تلوار سے حملہ آور ہوئے گولی مار کر ڈھیر کیا ۔ تیسری گولی چلاتے ہوئے دشمن کی ایک گولی شاہ صاحب کی انگشت شہادت پر لگی اور وہ چوتھی مرتبہ بندوق خون سے تر ہو جانے کی وجہ سے نہ بھر سکے ۔ اسی عالم میں چوتھاسکھ تلوار سونتے سر پر پہنچ گیا ۔ شاہ صاحب نے خالی بندوق کی نالی کا رخ اس کی طرف کر دیا اور وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا ۔ ادھر دوسرے غازی بھی لاشوں پہ لاشیں بچھا رہے تھے ۔ اس صورت حال سے سکھ اس قدر دہشت زدہ ہوئے کہ بھاگ کر گڑھی میں جا پناہ گزیں ہوئے ۔ وہ اپنے پیچھے دو ڈھائی سو لاشیں چھوڑ گئے تھے ۔ غازیوں میں پانچ شہید ہوئے جو زندہ بچے وہ سب کے سب زخمی تھے۔ شاہ صاحب اپنی زخمی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالی قبول کرے تو یہی انگلی میری نجات کے لیے کافی ہے ۔ ورنہ انسان کتنے ہی زخم کھاتا ہے لیکن ثواب سے محروم رہتا ہے ۔

            ہنڈ کا مضبوط و مستحکم قلعہ چھوٹی سی فوج کے ساتھ فتح کیا ۔ اس جنگ میں دشمن کے دو آدمی مارے گئے اور کسی غازی کو خراش تک نہ آئی۔

            جنگ زیدہ میں صرف سات سو مجاہدین سے درّانیوں کی آٹھ ہزار فوج کو شکست دی ۔ مایار کی جنگ میں مخالف فوج بارہ ہزار تھی اور مجاہدین صرف ساڑھے تین ہزار لیکن شاہ صاحبؒ کی جنگی تدبیر نے درانیوں کو پیٹھ پھیرنے پر مجبور کر دیا ۔ امب ، عشرہ اور مردان کی لڑائیوں میں بھی شاہ صاحب کی باکمال قیادت اور جنگی تدابیر کی بدولت اسلامی فوج فتح سے ہمکنار ہوئی ۔

            الغرض دعوتی اور تبلیغی مہمات کی طرح جہاد کی تیاریوں سے لیکر معرکہ بالا کوٹ میں شہادت تک ، شاہ صاحبؒ پوری تحریک کے روح رواں بنے رہے ۔ ان جنگوں میں ان کی شجاعت کی ہیبت سکھوں او ردرانیوں کے دلوں پر ایسی بیٹھی کہ سکھ مائیں اپنے بچوں کو ان کا نام لیکر ڈراتی تھیں ایک بار ایک درّانی سپاہی نے ایک خاتون کا مال چھیننا چاہا ۔ اس خاتون نے شاہ صاحبؒ کا نام لیا تو وہ درانی سپاہی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر رفو چکر ہو گیا۔

            شاہ اسماعیلؒ ہر محاذ پر شجاعت اور سرفروشی کے ساتھ معرکہ آزما رہے اور بالا کوٹ کے آخری محاذ پر بھی وہ اسی شجاعت سے لڑتے ہوئے کلمہ حق سر بلند کرنے کے اس نصب العین پر اپنی جان نچھاور کر گئے جس کو انہوں نے سید صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے اپنایا تھا۔ شاہ صاحبؒ نے جب سے اس مرد جلیل و جمیل کا دامن تھاما اور وفا کا عہد باندھا تھا ، سفر میں حضر میں ان کے ساتھ رہے تھے الا یہ کہ خود سید صاحب نے انہیں کسی دعوتی و تحریکی کام کے لیے کہیں بھیجا ہو ۔ شاہ صاحب کو ان کی فرقت ایک لمحے کے لیے گوارا نہ تھی ۔ خود سیدؒ انہیں بڑا عزیز رکھتے تھے ۔ مولانا عبدالحئی ؒ کے انتقال کے بعد وہی ان کے سب سے مضبوط دست و بازو تھے جس پر انہیں ہمیشہ ناز تھا اور جن کا ذکر وہ بڑے ادب سے کیا کرتے تھے۔ سفر و حضر کے یہ دونوں ساتھی بالا کوٹ کی پہاڑیوں میں اپنے پاک خون میں نہائے پڑے تھے ۔ مرشد کا سر کٹا ہوا تھا او رمرید کی پیشانی سے خون ابل ابل کر چہرے کو گلنار کر گیا تھا اور ان کی ہمدم و دمساز روحیں چند لمحات آگے پیچھے اپنے اللہ سے جا ملی تھیں ۔

 جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم

 سو اس عہد کو اب وفا کر چلے

 10

            یہ مرد عظیم ایک عظیم خانوداے کا رکن جلیل تھا۔ مدرسے سے نکلا تو اس نے حق کا پیغام گلی کوچوں اور بازاروں میں سنانا شروع کیا ۔ مسلمان کہلانے والوں کو غیر اسلامی رسوم اور مشرکانہ عقائد نے اپنا قیدی بنا رکھا تھا ۔ وہ توحید و سنت کو ماننے کا دعوی کرتے تھے مگر ان کی زندگیاں شرک اور بدعات کی ناپاکی میں لتھڑی ہوئی تھیں۔ اس مرد جلیل نے انہیں اس ناپاکی سے نجات دلانے کے لیے زندگی کا چین اور آرام اپنے اوپر حرام کر لیا۔ وہ توہمات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے ۔ اس نے انہیں توحید کو اپنا کر ان زنجیروں کو کاٹنے کی دعوت دی۔ وہ دعوی کرتے تھے کہ ان کی پیشانی ایک اللہ کے سوا کسی کے آگے نہیں جھک سکتی لیکن عملًا وہ ہر اس چوکھٹ پر جھک رہے تھے جس سے نوع انسان کو نجات دلانے کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ مبعوث ہوئے تھے ۔ اسی اللہ کے بندے نے انہیں ان کے قول و فعل کے تضاد کی طرف توجہ دلائی اور تمام چوکھٹوں کو تج کر کے ایک چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونے کی دعوت دی کہ اس دعوت میں خود ان کی اپنی دینی اور دنیوی بھلائی تھی ۔ یہی نہیں اس مرد حق پرست و حق نگر نے اپنا سر بھی کٹا دیا تاکہ یہ لوگ عزت و آبرو کے ساتھ زندہ رہ سکیں ، لیکن اس کے صلے میں جو سلوک اس مرد عظیم کے ساتھ اس کی زندگی ہی میں نہیں اس کی شہادت کے بعد کیا گیا ، اس المیہ کی ترجمانی شاید سید ابوالحسن علی ندوی کے الفاظ سے بڑھ کر کسی اور پیرائے میں نہیں کی جا سکتی۔

            ‘‘24 ذیقعدہ 1246 ہجری سے لیکر اس دن تک …… شاید کوئی دن طلوع ہوا ہو جس کی صبح کو اس شہید اسلام کی ، جس کی اور فضیلتیں برطرف اس کی شہادت مسلم اور شہدا کی مغفرت مسلم ، تکفیر و تفلیل میں کوئی فتوی نہ نکلا ہو ۔ لعنت و سب و شتم کا کوئی صیغہ نہ استعمال کیا گیا ہو ۔ علما کی مجلس میں اس پر اتنی لعنت کی گئی جتنی حضرت علی ؓ پر بنی امیہ کے دربار میں نہیں کی گئی ۔ فقہ و فتوی کی کوئی دلیل ایسی نہیں جو اس کے کفر کے ثبوت میں نہ پیش کی گئی ہو ۔ وہ ابوجہل و ابو لہب سے زیادہ اسلام دشمن ، فرعون و ہامان سے زیادہ مستحق نار ، کفر و ضلالت کا بانی ، بے ادبوں ، گستاخوں کا پیشوا ، شیخ نجدی کا مقلد و شاگرد بتایا گیا ۔ اور یہ ان لوگوں نے کہا جس کے جسم نازک میں آج تک اللہ کے لیے ایک پھانس بھی نہیں چبی ، جن کے پیروں میں اللہ کے راستہ میں کبھی کوئی کانٹا نہیں گڑا ۔ جن کو خون چھوڑ کر کہ اس کا ان کے یہاں کیا ذکر اسلام کی صحیح خدمت میں پسینے کا ایک قطرہ بہانے کی سعادت بھی حاصل نہیں ہوئی اور یہ ان لوگوں نے کہا جن کی ماؤں ، بہنوں ، بیٹیوں کی عزت و عصمت بچانے کے لیے اس نے اپنا سر کٹایا ۔ تو کیا اس کا یہی گناہ تھا اور کیا دنیا میں احسان فراموشی کی اس سے بڑھ کر نظیر مل سکتی ہے ؟ جس وقت پنجاب میں مسلمانوں کا دین و ایمان ، جان و مال ، عزت و آبروہ محفوظ نہ تھی ، سکھوں کے گھروں میں مسلمان عورتیں تھیں ، مساجد کی بے حرمتی ہو رہی تھی اور ان میں گھوڑے باندھے جاتے تھے اس وقت یہ غیرت ایمانی و حمیت اسلامی والے جو ایک ‘‘کلمہ کفر’’ برداشت نہیں کر سکتے کہاں تھے ؟ اور کیا آج بھی شاہ ولی اللہؒ کے پوتے کے علاوہ کوئی کافر نہیں ؟ ؟

 سودا قمار عشق میں شیریں سے کوہکن

 بازی اگرچہ لے نہ سکا سر تو کھو سکا

 کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز

 اے روسیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا