سوال ، جواب

مصنف : علامہ یوسف القرضاوی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : مارچ 2007

جواب: شب برات کی فضیلت کے سلسلے میں ایک بھی حدیث ایسی نہیں ہے، جسے صحیح قرار دیا جا سکے۔ البتہ چند احادیث کے بارے میں علماء حدیث نے کہا ہے کہ یہ صحیح تو نہیں ہیں البتہ حسن کے درجے میں ہیں۔ لیکن بعض علماء انھیں حسن بھی نہیں قرار دیتے۔ ان کے نزدیک شب برات کے سلسلے میں وارد تمام حدیثیں ضعیف ہیں۔بالفرض اگر ہم ان چند احادیث کو حسن بھی تسلیم کر لیں، تب بھی حضوؐر، صحابہ کرامؓ اور سلف صالحینؒسے یہ روایت نہیں ملتی کہ انھوں نے شب برات کے موقع پر مسجدوں میں جمع ہو کر نمازوں اور دعاؤں کا اہتمام کیا ہو۔ جو کچھ ان روایتوں میں ہے، وہ یہ کہ حضوؐر نے اس رات دعا مانگی اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی۔ کوئی خاص اور متعین قسم کی دعا حضوؐر سے وارد نہیں ہے۔ لوگ اس رات کچھ خاص دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں بہت چھوٹا تھا تو لوگوں کی دیکھا دیکھی میں بھی اس رات نمازیں پڑھتا تھا اور دو رکعت درازی عمر کی نیت سے، دو رکعت لوگوں سے بے نیازی کی نیت سے نمازیں پڑھتا تھا، سورہ یٰسین کی قرأت کا خاص اہتمام کرتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ یہ چیزیں ایسی ہیں کہ حضوؐر اور صحابہ کرامؓ کا ان پر عمل منقول نہیں ہے، عبادت کے معاملے میں یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ ہم اسی چیز پر توقف کریں جو حضوؐر سے منقول ہے۔ اپنی طرف سے کسی نئی چیز کی ایجاد کسی بھی طور پر جائز نہیں ہے۔ علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عبادات جنھیں اصطلاحاً امر تعبدی بھی کہتے ہیں ان کے ادا کرنے میں اسی وقت ثواب ہوتا ہے جب یہ عین خدا اور اس کے رسول کے فرمان کے مطابق ہوں نہ زیادہ نہ کم کیونکہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتی ہے اور یہ حق صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے کہ وہ کس طرح اپنی عبادت کرائے۔ اس نے جس طرح عبادت کا حکم دے دیا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اسی طریقے سے عبادت کریں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں ناراضی کا اظہار کرتا ہے، جو عبادات میں اپنی طرف سے نئی چیزیں ایجاد کرتے ہیں۔

            اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ام لھم شرکوا شرعوا الھم من الدین مالم یأذن م بہ اللہ.(شوریٰ:۲۱)

            ‘‘کیا انھوں نے لوگوں کے لیے دین میں ان چیزوں کو شریعت بنا لیا ہے جس کا حکم اللہ نے نہیں دیا تھا۔’’ہمیں چاہیے کہ اس رات کو ہم صرف اتنا ہی کریں جتنا حضوؐر سے مروی ہے اور وہی دعائیں مانگیں جو حضورﷺ سے ماثور ہیں۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: صحیح احادیث میں اس مہینے کی فضیلت سے متعلق جو کچھ آیا ہے وہ یہ کہ یہ مہینہ چار حرام مہینوں میں سے ایک ہے۔ چار حرام مہینے یہ ہیں: رجب، ذوالقعد، ذوالحجہ اور محرم۔ اور بے شبہ یہ چاروں مہینے اہمیت و فضیلت کے حامل ہیں۔ کوئی ایسی صحیح حدیث نہیں ہے جس میں خاص طور پر صرف ماہ رجب کی فضیلت بیان کی گئی ہو۔ رہی وہ حدیث جس کا تذکرہ آپ نے کیا ہے یعنی ‘‘رجب اللہ کا مہینہ ہے۔ شعبان میرا مہینہ اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے’’۔ تو یہ حدیث نہ صرف ضعیف ہے بلکہ علماء حدیث نے اسے موضوع یعنی گھڑی ہوئی قرار دیا ہے۔ اسی طرح ہر وہ حدیث جو اس مہینے کی فضیلت کے سلسلے میں مروی ہے کہ جس نے اس مہینے میں نماز پڑھی یا روزہ رکھا یا استغفار کیا تو اسے یہ اجر ملے گا اور وہ اجر ملے گا، یہ سب گھڑی ہوئی احادیث ہیں ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔ ان احادیث کے بے سند ہونے کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ ان میں مبالغے کی حد تک ثواب یا عذاب کا وعدہ ہوتا ہے۔ علماء کرام کہتے ہیں کہ اگر کسی چھوٹی نیکی پر عظیم اجر کا وعدہ ہو یا کسی چھوٹے گناہ پر بڑے عذاب کی دھمکی ہو تو یہ علامت ہے اس بات کی کہ یہ حدیث گھڑی ہوئی ہے۔ ماہ رجب سے متعلق وارد احادیث بھی اسی قبیل سے ہیں۔

            امت مسلمہ کی یہ بد قسمتی ہے کہ ضعیف اور موضوع احادیث کے سہارے بہت ساری ایسی روایات ہماری ثقافت کا حصہ بن گئی ہیں جن کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مزید مصیبت کی بات یہ ہے کہ یہی غلط روایات اہم تر ہو کر لوگوں کی توجہ اور اہتمام کا مرکز بن گئی ہیں۔ اور جو بنیادی اسلامی تعلیمات و روایات ہیں انھیں یا تو لوگوں نے بھلا رکھا ہے یا پھر انھیں ثانوی حیثیت عطا کر رکھی ہے۔ ہماری بہتری اور بھلائی اسی میں ہے کہ ہم رسولؐ اور ان کے صحابہ کرامؓ کا اتباع کریں اور جو باتیں بعد کے زمانوں میں غلط طور پر ترویج پا چکی ہیں ان سے اپنے دامن کو بچائے رکھیں۔

            رہی بات اسی مہینے میں روزہ رکھنے کی تو کوئی ایسی روایت نہیں ہے کہ حضوؐر نے رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں۔ بعض لوگ پورے رجب، شعبان اور رمضان اور اس کے علاوہ شوال کے چھ دن روزے رکھتے ہیں۔ اس طرح کا روزہ رکھنا حضوؐر سے ثابت نہیں ہے۔ جو شخص نیکی اور اجر کا طالب ہے اسے چاہیے کہ رسوم کو چھوڑ کر حضوؐر کا اتباع کرے۔ اسی میں اس کی بھلائی ہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: یوم عرفہ سال کے افضل ترین دنوں میں سے ہے۔ اس کی فضیلت کے سلسلے میں متعدد صحیح احادیث حضوؐر سے مروی ہیں۔ حضوؐر نے اس دن روزہ رکھنے کی تاکید بھی فرمائی ہے۔ اور اس کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔ حدیث ہے:

            صیام یوم عرفۃ احتسب علی اللہ تعالیٰ ان یکفر ذنوب سنتین.

            ‘‘میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ یوم عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کو معاف کر دے گا۔’’ہم میں سے کون ایسا ہے جو گناہوں سے پاک ہے اور اس سے خطائیں نہیں ہوتیں۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ عرفہ سے پہلے آٹھ روزے اگر نہیں رکھ سکتا تو کم از کم عرفہ کے دن ضرور روزہ رکھے اور اس کا اہتمام کرے۔ البتہ حاجیوں کے لیے یہ روزہ رکھنا مسنون نہیں ہے تاکہ خالی پیٹ ذکر و عبادت میں خلل نہ ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: جمہور فقہاء کے نزدیک قربانی سنت مؤکدہ ہے۔ جبکہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک قربانی کرنا واجب ہے۔ احناف کے یہاں واجب ہے۔ فرض اور سنت کے درمیان ہے۔ اور واجب کا ترک کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے۔

            حدیث نبویؐ ہے: من کان لہ سعۃ ولم یضح فلا یقربن مصلانا. (حاکم عن ابی ہریرہ)

            ‘‘جو صاحب حیثیت ہے اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے۔’’

            ایک دوسری حدیث ہے کہ صحابہؓ نے قربانی کے بارے میں دریافت کیا تو آپؐ نے فرمایا: سنۃ ابیکم ابراھیم. (ترمذی،حاکم)

            ‘‘تمھارے باپ ابراہیم کی سنت ہے۔’’

            ان دونوں حدیثوں کی بنیاد پر کسی نے قربانی کو صاحب حیثیت کے لیے واجب قرار دیا اور کسی نے سنت قرار دیا۔ جنھوں نے اسے سنت قرار دیا ہے ان کے نزدیک صاحب حیثیت کا قربانی نہ کرنا مکروہ ہے۔

            قربانی کا وقت عید کی نماز کے بعد شروع ہوتا ہے۔ عید کی نماز سے قبل قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر پہلے دن قربانی کرنا ممکن نہ ہو تو دوسرے اور تیسرے دن بھی کی جا سکتی ہے۔

            قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔ ایک حصہ اپنے لیے، دوسرا پڑوسیوں کے لیے اور تیسرا حصہ فقراء و مساکین کے لیے۔ اگر سارے کا سارا گوشت پڑوسیوں اور غریبوں میں تقسیم کر دے تو یہ اور بھی بہتر ہے۔ البتہ تھوڑا بہت گوشت بطور برکت خود بھی کھانا چاہیے۔

            بے شبہ قربانی ایک عبادت ہے اور جیسا کہ ہم نے متعدد مقام پر کہا ہے کہ عبادت کے لیے ضروری ہے کہ اسی طریقے اور وقت پر ادا کی جائے جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے متعین کر دیا ۔ قربانی بھی ایک عبادت ہے۔ اس کا بھی ایک وقت اور طریقہ متعین ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس طریقہ اور وقت کا پورا پورا خیال رکھیں۔

قربانی سے متعلق چند دوسرے سوالات

            سوال: قربانی کا وقت کون سا ہے؟ کس جانور کی قربانی کی جا سکتی ہے؟ گھر کے ہر فرد کی طرف سے ایک ایک قربانی ضروری ہے یا ایک قربانی تمام گھر والوں کی طرف سے کافی ہے؟ قربانی کرنا زیادہ افضل ہے یا قربانی کے پیسے کو صدقہ کر دینا۔

            جواب: قربانی حضوؐر کی سنت موکدہ ہے۔ نبیؐ نے اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے دو تندرست مینڈھے ذبح کیے تھے اور فرمایا تھا کہ ‘‘اے اللہ یہ میری طرف سے میرے گھر والوں کی طرف سے اور میری امت میں سے جن لوگوں نے قربانی نہیں کی ان لوگوں کی طرف سے ہے۔’’

            قربانی کا وقت عید کی نماز کے فوراً بعدشروع ہو جاتا ہے۔ اس سے قبل قربانی کرنا جائز نہیں۔ اس سے قبل جو قربانی ہو گی اس کے بارے میں حضوؐرنے فرمایا: شاتہ شاۃ لحم.

            ‘‘اس کی بکری گوشت کھانے کی بکری ہے۔’’

            یعنی ایسی بکری محض گوشت کھانے کے لیے ہے۔ یہ قربانی تصور نہیں کی جائے گی۔ قربانی ایک عبادت ہے۔ نماز کی طرح۔ جس طرح نماز کا وقت معین ہے اسی طرح قربانی کا وقت معین ہے۔جس طرح ظہر کی نماز وقت سے قبل نہیں پڑھی جا سکتی اسی طرح وقت سے قبل قربانی نہیں ہوسکتی۔قربانی کا وقت عید کی نماز کے بعد سے شروع ہوکر عید کے تیسرے دن اوربعض فقہاء کے نزدیک عید کے چوتھے دن تک رہتا ہے۔ قربانی کا افضل وقت زوال تک ہے۔زوال تک قربانی نہ کی تو دوسرے دن قربانی کرنی چاہیے۔ بعض فقہاء کے نزدیک رات اور دن میں کسی بھی وقت قربانی کرنا صحیح ہے۔ میری رائے میں بہتر یہ ہو گا کہ ایک ہی دن سارے لوگ قربانی نہ کریں تاکہ ایک دم سے ضرورت سے زائد گوشت نہ جمع ہو جائے، بلکہ کچھ لوگ دوسرے دن اور کچھ تیسرے دن قربانی کریں تاکہ غریبوں کو ہر دن گوشت ملتا رہے۔

            قربانی میں اونٹ، گائے اور بکرے کی قربانی کی جا سکتی ہے۔ جو جانور چوپایوں میں شمار کیے جاتے ہیں ان میں سے کسی کی بھی قربانی کی جا سکتی ہے۔ ایک بکرا ایک گھر والوں کی طرف سے کافی ہے۔ اونٹ اور گائے میں سات حصے لگائے جائیں گے اور ہر ایک حصہ ایک مستقل قربانی تصور کی جائے گی اور ایک گھر والوں کی طرف سے کافی ہے۔ شرط یہ ہے کہ اونٹ پانچ سال سے کم کا نہ ہو۔ گائے دو سال سے کم کی نہ ہو اور بکرا ایک سال سے کم کا نہ ہو۔ قربانی کا جانور جتنا صحت مند اور تگڑا ہو اسی قدر افضل ہے کیونکہ قربانی اللہ کی خدمت میں ہدیہ ہے اور مسلمان کو چاہیے کہ بہتر سے بہتر ہدیہ اللہ کی خدمت میں پیش کرے۔ اسی لیے لاغر، لنگڑا، اندھا، کانا، ٹوٹے سینگ والا، کٹے کانوں والا یا کسی قسم کے عیب والا جانور قربانی کے لیے جائز نہیں ہے۔

            رہا یہ مسئلہ کہ قربانی زیادہ افضل ہے یا قربانی کے روپے کو صدقہ کرنا ۔ تو میری رائے یہ ہے کہ بے شبہ قربانی کرنا زیادہ افضل ہے۔ کیونکہ قربانی ایک عبادت ہے جس کا مقصد حضرت ابراہیمؑ کی سنت کو برقراراور زندہ رکھنا ہے۔ یہ عبادت ہمیشہ اس عظیم الشان واقعے کی یاد دلاتی رہتی ہے جب ابراہیم ؑاپنے جگر کے ٹکڑے کو اپنے رب کے حکم کی تعمیل میں اسی کی بارگاہ میں قربانی کرنے چلے تھے۔ اپنے رب سے محبت کی یہ ایسی مثال ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے پیارے بندے کو اس کا یہ صلہ دیا کہ اس کے اس فعل کو قیامت تک کے لیے یادگار بنا دیا۔ ہر قوم اپنے اہم دن مثلاً آزادی کا دن یا جنگ میں فتح کا دن وغیرہ کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ہر سال اس کا جشن مناتی ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ قربانی کرکے اس عظیم الشان واقعے کی یاد تازہ رکھیں۔ اس لیے قربانی کرنا ، قربانی کی قیمت کو صدقہ کرنے کے مقابلے میں زیادہ افضل اور احسن ہے۔

            گھر کے تمام افراد کی طرف سے صرف ایک قربانی کا جانور کافی ہے۔ کیونکہ نبیؐ نے جب قربانی کی تو فرمایا کہ اے اللہ یہ محمد اور اس کے گھر والوں کی طرف سے ہے۔ ابو ایوب انصاریؓ فرماتے ہیں کہ حضوؐر کے زمانے میں ہم میں سے ہر شخص اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے صرف ایک بکری ذبح کرتا تھا۔ لیکن اس کے بعد لوگوں نے فخر و مباحات کے لیے زیادہ قربانیاں کرنی شروع کر دیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: حنبلی مسلک کے مطابق قربانی کرنے والے شخص کے لیے چاند دیکھنے کے بعد بال یا ناخن کٹوانا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ حجاج کرام احرام کی حالت میں یہ چیزیں نہیں کٹواتے۔ اس لیے اس کیفیت کو زندہ رکھنے کے لیے قربانی کرنے والے کو بھی یہ چیزیں نہیں کٹوانی چاہئیں۔البتہ راجح قول یہ ہے کہ ایسا کرنا صرف مکروہ ہے۔ اگر کسی نے ناخن کٹوایا یا بال بنوا لیے تو اس پر کوئی فدیہ نہیں ہے۔ اسے چاہیے کہ اللہ سے مغفرت طلب کرے اور بس۔ اگر کسی شخص کو زیادہ دن تک ناخن یا بال چھوڑنے سے تکلیف ہوتی ہو اور اس نے یہ چیزیں کٹوا لیں تو کوئی حرج کی بات نہیں۔۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: یوم عاشورہ کے روزے کی فضیلت کے سلسلے میں متعدد صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں۔ مسلم شریف کی حدیث ہے:

            صوم یوم عرفۃ یکفر سنتعین ماضیۃ مستقبلۃ و صوم یوم عاشوراء یکفر سنۃ ماضیۃ.

            ‘‘یوم عرفہ کا روزہ دو سال ، ایک پچھلا اور ایک اگلا سال، کے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے۔ عاشورہ کا روزہ گزرے ہوئے ایک سال کے گناہوں کو دھو ڈالتا ہے۔’’

            اس حدیث سے ظاہر ہے کہ عاشورہ کا روزہ پچھلے پورے سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ ہم میں سے کون ہے جو اس بات کا دعویٰ کر سکے کہ اس سے گناہ سرزد نہیں ہوتے۔ ہم بندوں پر یہ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ مختلف بہانوں سے ہمارے گناہوں کی معافی کا دروازہ کھول رکھا ہے۔ بلکہ یوں کہنا بہتر ہو گا کہ تمام نیکیاں نہ صرف باعث ثواب ہوتی ہیں بلکہ گناہوں کو دھونے والی بھی ہوتی ہیں۔ قرآن میں ہے: اِنَّ الْحسنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاتِ. (ھود:۱۱۴)

            ‘‘بے شبہ نیکیاں برائیوں کو دھو ڈالتی ہیں۔’’

            اور حضورﷺ کا فرمان ہے: واتبع السئیۃ الحسنۃ تمحھا.

            ‘‘کسی برائی کے بعد کوئی نیک کام کر لیا کرو وہ اس برائی کو مٹا دے گا۔’’

            ہم بندوں کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی سعی کریں تاکہ یہ نیکیاں ہماری برائیوں کے لیے کفارہ بن سکیں۔

            بعض علماء کے نزدیک گناہ کبیرہ و صغیرہ دونوں معاف ہو جاتے ہیں کیونکہ مذکورہ بالا حدیث میں اس بات کی قید نہیں ہے کہ صرف گناہ صغیرہ ہی معاف ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس بعض علماء کے نزدیک صرف گناہ صغیرہ ہی معاف ہوتے ہیں۔ گناہ کبیرہ براہ راست توبہ و استغفار اور حق کی ادائیگی کے بعد ہی معاف ہوتے ہیں۔ دلیل کے طور پر انھوں نے یہ حدیث پیش کی ہے:

            الصلوات الخمس والجمعۃ الی الجمعۃ و رمضان الی رمضان مکفرات ما بینھن اذا اجتنبت الکبائر.(مسلم)

            ‘‘پنج وقتہ نمازیں، ایک جمعے سے دوسرا جمعہ اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان۔ یہ سب گناہوں کو بخشنے والے ہیں بشرطیکہ گناہ کبیرہ سرزد نہ ہوا ہو۔’’

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: جس پہلی روایت کا آپ نے تذکرہ کیا ہے وہ بخاری اور مسلم کی صحیح حدیث ہے۔ حدیث یوں ہے کہ جب آپؐ مدینہ تشریف لائے اور یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے دیکھا تو آپؐ نے ان سے اس کی وجہ دریافت کی۔ ان لوگوں نے جواب دیا کہ یہ ایک مبارک دن ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلائی تھی۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ ہم موسیٰؑ کے زیادہ حقدار ہیں۔ پھر آپؐ نے خود روزہ رکھا اور صحابہؓ کو بھی اس کی تاکید فرمائی۔وہ حدیث بھی صحیح ہے جس میں آپؐ نے یہود و نصاریٰ کی مخالفت اور ان کی اقتدا نہ کرنے اور ان سے مشابہت اختیار نہ کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ تاہم ان دونوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضوؐر نے عاشورہ کا روزہ یہودیوں کی اقتدا میں نہیں رکھا بلکہ روایتوں میں ہے کہ وہ ہجرت سے قبل بھی روزہ رکھتے تھے۔ اہل عرب بھی دور جاہلیت میں اس دن روزے کا اہتمام کرتے تھے۔ عکرمہ کی روایت ہے کہ دور جاہلیت میں قریش نے ایک بڑا گناہ کیا۔ اس بات سے ان کے دل بوجھل ہو گئے۔ ان سے کہا گیا کہ عاشورہ کا روزہ رکھو تمھارے گناہ بخش دیے جائیں گے۔

            آپ مذکورہ بالا حدیث پر غور کریں تو یہ بات واضح ہو گی کہ آپؐ نے اس دن روزہ یہودیوں کی اقتدا میں نہیں رکھا بلکہ آپؐ نے خود اس کی وجہ بیان فرما دی کہ ہم موسیٰؑ کے زیادہ حقدار ہیں۔ یہود و نصاریٰ نے تو موسیٰؑ علیہ السلام کی تعلیمات کو فراموش کر دیا لیکن میں انھیں تعلیمات کو لے کر آیا ہوں جنھیں موسیٰؑ لے کر آئے تھے۔ اس لیے ہمارا رشتہ ان سے قریب و مضبوط تر ہے اور ہمارا حق بنتا ہے کہ موسیٰؑ کی اقتدا میں ہم بھی یہ روزہ رکھیں۔ چنانچہ موسیٰؑ کی اقتدا میں (نہ کہ یہودیوں کی اقتدا میں) حضوؐر نے یہ روزہ رکھا اور صحابہ کرامؓ کو بھی اس کی تاکید فرمائی۔

            مدینہ آنے کے بعد آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو اس دن روزہ رکھنے کی تاکید فرمائی اس میں یہ مصلحت پوشیدہ ہے کہ یہ اسلام کا ابتدائی دور تھا۔ اس دور میں یہودیوں کے تالیف قلب کے لیے اور انھیں اسلام اور مسلمانوں سے قریب کرنے کے لیے آپؐ نے پسند فرمایا کہ مسلمان بھی اسی دن روزہ رکھیں۔یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہودیوں سے مشابہت ایک ایسے کام میں کی گئی جو ایک پسندیدہ اورباعث ثواب کام ہے یعنی روزہ رکھنا۔ لیکن جب اسلام کو غلبہ نصیب ہوا اور یہودیوں کی دشمنی کھل کر سامنے آئی اور صحابہؓ نے بھی حضوؐر سے ایسا ہی سوال کیا کہ ‘‘اہل کتاب سے مخالفت کے حکم کے باوجود ہم ان کی اقتدا میں یہ روزہ کیوں رکھیں؟ تب حضوؐر نے فرمایا کہ اگلے سال سے ان شاء اللہ نویں تاریخ کو بھی روزہ رکھا کریں گے۔ لیکن اگلا سال آنے سے قبل حضوؐر کی وفات ہو گئی۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہودیوں کی دشمنی کھل کر سامنے آنے کے بعد حضورؐ نے بہرحال ان سے مخالفت کا ایک پہلو بیان کر دیا یعنی عاشورہ سے قبل ایک روزہ یا عاشورہ کے بعد ایک روزے کی تلقین کی تاکہ یہودیوں سے مشابہت کی صورت جاتی رہے۔

(علامہ یوسف القرضاوی)

جواب: اس دن روزہ رکھنے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں ہے جس کے کرنے کی ترغیب کسی حدیث میں موجود ہو۔ اس سلسلہ میں بعض حدیثوں کا تذکرہ آیا ہے۔ لیکن علماء حدیث کہتے ہیں کہ ساری حدیثیں ضعیف اور موضوع یعنی گھڑی ہوئی ہیں۔ اس دن اچھے کپڑے پہننا اچھے کھانے پکانا اور سرمہ لگانا دراصل ایک بدعت ہے، جو حضرت حسینؓ کے قتل کرنے والوں نے ایجاد کی ۔ بہتر ہو گا کہ اس بدعت کا مختصر تاریخی تعارف بھی قارئین کے لیے پیش کر دوں۔

            اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی کہ اسی دسویں تاریخ کو حضرت حسینؓ شہید کیے گئے۔ چنانچہ حضرت حسینؓ کے متبعین اور چاہنے والوں نے اسی دن کو رنج و الم کا دن قرار دیا۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس پورے مہینے کو ماہ ماتم بنا ڈالا۔ ہر قسم کی خوشیاں اورخوشیوں کی تقریبات اس مہینے میں اپنے اوپر حرام کر ڈالیں اور ایسے ایسے اقدامات و حرکات ایجاد کیے جو ان کے رنج وغم کو ظاہر کرسکیں۔

            ان کے برعکس وہ گروہ جس نے حضرت حسینؓ کو شہید کیا تھا انھوں نے اس دن کو خوشی اور مسرت کا دن قرار دیا اور ایسی ایسی بدعتیں ایجاد کیں جن سے مسرت کا اظہار ہو سکے۔ مسرت کے اظہار کو انھوں نے اللہ سے تقرب کا ذریعہ قرار دے دیا۔

 اس سلسلے میں انھوں نے اپنی طرف سے متعدد احادیث بھی گھڑ لیں۔

            یہ دونوں گروہ غلو اور تعصب کا شکار ہیں۔ حق یہ ہے کہ ہم تعصب کا شکار ہو کر ایسے کام نہ کریں جن کی مثال حضوؐر اور ان کے صحابہ کرامؓ کے اعمال میں نہ ملتی ہو۔ ہماری سلامتی اسی میں ہے کہ ہم حضوؐر کی اتباع کریں اور ایسے کاموں کو رواج نہ دیں جن میں اسلامی روح اور اتباع رسول کا وصف مفقود ہو۔

            انھیں غلط رواجوں میں ایک رواج یہ ہے کہ حزن و غم کے اظہار کے لیے لوگ اس مہینے میں شادی بیاہ سے پرہیز کرتے ہیں۔ حالانکہ نہ کوئی حدیث ہے اور نہ حضوؐر اور صحابہؓ کا عمل کہ انھوں نے اس مہینے میں شادی سے منع کیا ہو۔ بلکہ اس کے برعکس محرم کا مہینہ ان چار محترم مہینوں میں سے ایک ہے جن کی فضیلت کا تقاضا یہ ہے کہ یہ مہینہ شادی وغیرہ کے لیے زیادہ موزوں ہو۔ ویسے اسلام کی نظر میں شادی کے لیے تمام مہینے یکساں ہیں۔

(علامہ یوسف القرضاوی)