انگنا کہار

مصنف : سید ضمیر حسن دہلوی

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : فروری 2007

مذہبی جنون کے ہاتھوں انسانی ، اخلاقی اور حقیقی دینی اقدار کی پامالی کی المناک داستان

انگنا کہار

میر تفضل حسین کی کھڑکی کے پاس جو چماروں کا چھتہ ہے اس کے قریب ہی دو تین بوسید ہ سی دکانیں اللہ بخشے ، دادا ابا مرحوم کی ملکیت تھیں۔ انہی دکانوں میں ایک چھوٹی سی دکان میں انگنا کہار رہتا تھا۔کہار کا پیشہ تو اس نے کافی دنوں پہلے ہی چھوڑ دیا تھا البتہ ایک پرانی سی ڈولی دکان کے باہر ایک بڑی پھولدار کیل میں سدا لٹکی رہتی تھی بالکل اسی طرح جیسے میوزیم میں پرانے زمانے کے آلات حرب لٹکے رہتے ہیں۔ انگنا کی گزر اوقات اب مدت سے ان گھروں کے لین دین پر تھی جن کے دروازوں پر عمر بھر اس نے ‘‘ ڈولی آگئی ہے ’’کی صدا لگائی تھی۔ سستا زمانہ ، دیالواور وضعدار لوگ بے چارہ انگنا لشتم پشتم زندگی کی گاڑی گھسیٹ ہی لیتا تھا۔ میرے بچپن میں اس کی عمر کوئی ستر پچھتر برس ہو گی۔ ہڈیوں کی ساخت جوانی کی توانائی کا پتا دیتی تھی اور اس بڑھاپے میں بھی محلے کے اکثر گھرانے اسکی خدمت گزاریوں ممنون احسان تھے ۔ کسی کاسودا سلف لادیا۔ کسی کے بچوں کو کھلایا کسی کے گھر چوکسی کی اور کسی کا حصہ بخرہ پہنچا دیا۔ بڑھیوں اور بیماروں کے لیے پرانی ڈولی کیل سے اتار کر اپنے کسی بھائی بند کو لے کرفوراً حاضر ہو جاتا۔ زندگی کا آخری حصہ انگنا نے خدمت خلق اور دین دھرم کے لیے وقف کر دیا تھا۔ جو وقت لوگوں کی ہانک پکار سے بچتا وہ گیتا کے پاٹھ میں لگا دیتا۔ منگل ، برہسپت اور شنی وار کو جوگیا لباس پہن کر ایک بڑی سا مالا ہاتھ میں لے کر نہ جانے کیا کیا جپتا رہتالیکن اگر اس وقت بھی کوئی بلانے آتا تو مالا زمین پر رکھ کر جھٹ اس کے ساتھ ہو لیتا۔ پہلے انسانوں کی خدمت کرتا اور پھر بھگوان کی پوجا۔ مجھے اس وقت تو اتنی تمیز کہاں تھی کہ انگنا کے بارے میں کوئی رائے قائم کرتا البتہ آج جب اس کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ انگنا ایک عظیم انسان تھا۔ ایک مہا ن پرش ، اتنا مہان پرش کہ دیش کے نام نہاد بھگت بھی اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔انگنا ایک کہار تھا ، کالا بھجنگ ۔ شکل کے اعتبار سے نرا بھوت، بد شکل ، بد وضع لیکن اگر تاثر کی بات کریں تواس نے بڑی دلکش اور جاذب نظر شخصیت پائی تھی۔ اسکا سراپا مکمل ایثار اور محبت تھا۔اس کی نرم نرم گفتگو سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتی بھی۔ کہتے ہیں انسان کی شکل پراس کے اعمال کا عکس پڑتا ہے ۔ سوانگنا کی صورت بھونڈی اور بھدی ہونے کے باوجود اس کی روحانی پاکیزگی سے جگمگاتی رہتی تھی۔

انگنا سے میراتعلق محض رسمی نہیں ہے بلکہ مجھے اس کی ذات سے ایک جذباتی لگاؤ ہے ۔ میں نے جب ہوش سنبھالا تو انگنا کو اپنی ڈیوڑھی پر کھڑا پایا۔ میں انگنا کی گود کھیلا ہوں۔ میں نے اس کی مونچھ کے بال نوچے ہیں۔ اس کی گنجی چندیا پر سیکڑوں چپت لگائے ہیں۔اس کے کاندھے پر چڑھا چڑھا پر پھرا ہوں اسے گھوڑا بنا کر اس کی سواری کی ہے اور نہ جانے کتنی بار بیجا ضد یں کر کے اس کے منہ پر تھپڑ لگائے ہیں۔ میں انگناکو بھول ہی نہیں سکتا۔ وہ میرا پہلا دوست ،پہلا غمگسار اور پہلا دم ساز تھا۔ اس نے میری اس درجہ خدمت کی ہے کہ میرا رواں رواں اسکا احسان مند ہے ۔میں رویاتو اس نے مجھے ہنسانے پر ساری قوت صرف کر دی۔میں ہنسا تو اس نے میرے ساتھ مصنوعی قہقہے لگائے ۔ میں کھیلا تو وہ بھی میرے ساتھ بچوں کیطرح کھیلنے لگا۔ میں گرا ،پرایا میرے چوٹ لگی تو وہ گھنٹوں تڑپا۔ میری تکلیف کے آثار اس کے چہرے پر نظر آئے۔ بلبلا بلبلا کے پوچھتا تھا ‘‘چوٹ تو نا ہی لگی سرکار’’ میں نے جو خلوص ،جو ہمدردی ، جومحبت اورجو ایثار انگنامیں پایا وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہو اہو گا۔

۱۹۴۷ کے بٹوارے کے بعدجب فسادات شروع ہوئے تو انگنا بیچارہ قریب المرگ تھا۔ تندرست اور توانا جسم گھل گھل کر نزار ہو گیا تھا۔ اور اعصابی اضمحلال نے اس میں ہلنے جلنے کی سکت کم چھوڑی تھی۔ کوٹھڑی میں پڑے ہوئے اندھے ،بہرے اورمفلوج انگنا کو باہر کے شور شرابے کاغالباً علم بھی نہ ہوتا لیکن جب سر سیتا رام اپنی حویلی مقفل کر کے محلے کو خیر باد کہہ گئے اورباگڑو بنیے نے بھی اپنے بال بچوں اور قیمتی اسباب کے ساتھ کسی ہندو علاقے میں جانے کا فیصلہ کیا تو محلے کے شرفا نے انگنا کے کان میں بھی ساری بات ڈال دی اور صاف صاف کہہ دیا کہ کل کلاں کو خدا خوانخواستہ کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو ہم ذمہ دار نہ ہو ں گے ۔ ہماری مانو تو کسی دوسرے جگہ چلے جاؤ۔انگنا غریب کو حالات کا صحیح اندازہ نہ تھا اور ویسے بھی وہ عمر کی اس منزل سے گزر رہا تھا جہاں پہنچ کر آدمی کے ہر سانس سے یہ صدا آنے لگتی ہے کہ ‘‘ اے مرگ ناگہاں تجھے کیا انتظا رہے’’

 چنانچہ اس نے لوگوں کے اس مشورے پر کان نہ دھرا۔ آنکھیں کھول کر اپنے ججمانوں پر نظر ڈالی اور کہنے لگا‘‘ ہیاں سے سرکار اب ہمری لہاس ہی اٹھے گی ، سگلی عمر آپ لوگن کی سیوا میں گزار دی اب ہم کون جگہ جائی سکت ہیں ہم کا کون مار دیئی گا حجور آپ سب ہماری گود ن میں کھلائے ہیں’’( یہاں سے سرکا ر اب ہماری لاش ہی اٹھے گی۔ ساری عمر آپ لوگوں کی خدمت میں گزار دی۔ اب میں کس جگہ جا سکتا ہوں۔ مجھے کون مارے گاحضور۔ تم سب لوگوں کو تو میں نے اپنی گودمیں کھلایا ہوا ہے ۔)

لوگوں نے سوچابات تو ٹھیک ہے ۔انگنا میں اب رکھا ہی کیا ہے جو کوئی اس کا خون اپنے سر لے گا۔ لہذا بہت اصرار نہ کیا اورخاموش لوٹ آئے ۔

حالات بگڑتے رہے شہر کی فضا دن بدن خراب ہونے لگی نظم و نسق برقرا ر رکھنے کے لیے فوج طلب کی گئی ۔ دن رات سڑکو ں پر مسلح دستوں کا گشت ہونے لگا۔ گلی کوچوں کے نکڑ پرآہنی دروازے اور پھاٹک چڑھا دیے گئے ۔ان تمام حفاظتی تدابیر کے باوجود ہر شام آسمان سرخ ہو جاتا۔ چاروں طرف آگ کے شعلے لپکتے ۔ سڑکوں پر بے گوروکفن لاشیں ملتیں۔مذہبی جنون معاشرے پر حکمرانی کر رہا تھا اوردنیاجہنم بن گئی تھی۔

ایک دن دوپہر کے وقت جب رستم خاں چوکیدار مع اپنی ڈاڑھی کے جسے وہ جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے ، دریا گنج کے ڈپو پر محلے والوں کے لیے اناج لینے گئے تو انہیں مفسدوں نے گھیر لیا۔ پہلے تو اس آفندی پٹھان نے ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن جب دیکھا کہ سارا جسم زخموں سے چور ہو چکا ہے اور سیروں خون بہ گیا ہے تو لاش کی بے حرمتی کے خو ف سے گھر کی طرف بھاگ لیا اورمحلے والوں کی گود میں فسانہ جور فلک سناتے سناتے دم توڑا۔ مجھے آج تک یاد ہے کہ جب میں اسے دیکھا تو جی چاہا کہ ساری دنیا کو آگ لگا دوں ۔ کوئی چالیس پچاس زخم کاری اس کے جسم پر لگے تھے جن سے ٹپک ٹپک کر جیتا جیتا خون بہ رہا تھا۔

رستم خاں چوکیدار کی حسرت ناک موت نے علاقے والوں کے ذہن ماؤف کر دیے ۔ ظلم کا جواب ظلم سے دینے کے منصوبے بننے لگے۔مجاہدوں کی پر جوش تقریریں ہوئیں۔ اسلامی غیرت اور حمیت کو للکارا گیا۔ بہادروں نے بزدلوں کو شرمسار کیا ۔ہتھیار جمع ہوئے اور ان تمام باتوں کے بعد فیصلہ ہوا کہ اجتماعی جتھا بنا کر قریب کی ہندو آبادی پر یورش کی جائے ۔کچھ دیر پہلے جو لوگ رستم خان چوکیدارکے قاتلوں کی بہیمانہ ذہنیت اور درندگی پر طعنہ زن تھے اب وہ خود ان حرکتوں پر آماد ہ تھے ۔

جب بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کا سوال اٹھا اور پہلے مورچے یعنی باہر ٹہلتی ہوئی فوج کے سامنے ڈٹنے والے غازیوں کی تلاش ہوئی تو سب کی گردنیں ڈھلک گئیں۔ جو ش و خروش سرد ہوا اور ولولوں پر اوس پڑ گئی ۔ آخر ایک گروہ نے کان ہی کان میں کچھ فیصلہ کر کے فضل دین بد معاش کی قیادت میں چماروں کے چھتے کی دکانوں کی طرف رخ کیااور کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ انہوں نے جھگڑا گھر کے اندر ہی نمٹالیا۔ دو آدمی سہارا دے کر انگنا کہارکو اس کی قبر نما کوٹھری سے باہر لائے اورفضل دین بدمعاش نے اپنارامپوری چاقو انگنا کے جھریوں بھرے پیٹ میں گھونپ دیا ۔ انگنا غریب حیرانی کے عالم میں یہ سب کچھ دیکھا کیا اورزبان حال سے صرف اتنا کہا کہ ؂ قتل کیا آن کر اچھا کیا

آج اس واقعے ستر ہ اٹھارہ برس گزر گئے مگر یوں ہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کل کی بات ہو۔انگنا کی زندگی ، انسانی عظمت ، بھلمانسی اور پر خلوص خدمت کا جب خیا ل آتا ہے تو میں سوچتا ہوں کا انگنا کی موت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اس کے انتم بلیدان نے انسانوں کے ایک گروہ کو روحانی آسودگی بخشی ۔ ان کے انتقامی جذبے پر تسکین کے چھینٹے دیے ۔ جن کی جیتے جی خدمت کی انہیں ججمانوں کی خاطر ایک دن وہ جان سے بھی گزر گیا۔ انگنا کی موت فضل دین بدمعاش جیسے ہزاروں انسانوں کی زندگی سے بہتر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میں انگنا کو مردہ نہیں جانتا۔

انگنا بیچارے کو اپنے ججمانوں کے قدموں سے لگے رہنے کی خواہش پامال تک نہیں ھونے دیتی۔

بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو

ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

بحوالہ کتاب، آزادی کے بعد دہلی میں اردو خاکہ از پروفیسر شمیم حنفی