راہِ حق کا مسافر

مصنف : نامعلوم

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : فروری 2007

سڈنی ایلنگٹن کی کتاب ‘‘ریلیجن ان ایسٹرن یورپ’’ سے ماخوذ…… ایک سچی داستان جو ایک طرف اگر ان مصائب کو بیان کرتی ہے’ جس سے یوگوسلاوی مسلمانوں کو گزرنا پڑا تھا’ تو دوسری طرف ایک مردِ مؤمن کے جذبۂ سرفروشی کو بیان کرتی ہے۔

چھوٹی سی عمارت کے بھدے سے کمرے میں دارالحکومت سے آنے والے بڑے کمیونسٹ افسر نے ماتحت سے کہا: ‘‘تو کامریڈ! وہ شخص نسلی اعتبار سے ترک نہیں ہے؟’’ کامریڈ آفیسر! وہ شخص اسی ملک کا باشندہ ہے’ اس کی رگوں میں اسلام کا خون دوڑ رہا ہے’’، اسے پیش کیا جائے’’۔ کامریڈ افسر نے حکم دیا۔ اشارے کے منتظر دو سپاہی کمرے سے باہر آگئے’ اور جب چند منٹوں کے بعد کمرے میں داخل ہوئے تو ان کے ساتھ ایک اور شخص تھا’ عمر چالیس کے لگ بھگ’ خوبصورت چہرے پر بھورے بالوں کی داڑھی’ آنکھیں ہلکی نیلی’ ستواں ناک’ اپنے رنگ ڈھنگ سے داڑھی کے علاوہ وہ ایک یوگوسلاوی ہی دکھائی دے رہا تھا’ مگر اس کی حالت خستہ تھی۔ لباس میلا’ جگہ جگہ سے پھٹا ہوا’ ہونٹ کٹے اور سوجے ہوئے’ آنکھیں وحشت زدہ’ گردن’ سر اور ہاتھوں پر زخم اور خراشیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اس کی حالت سے عیاں تھا کہ وہ تشدد کا نشانہ بنا ہے۔

‘‘کامریڈ! تمھارا نام؟’’ سلمان شوکت۔ ‘‘یہ کیا نام ہوا؟’’ میں کامریڈ نہیں۔ خدا کا ادنیٰ بندہ سلمان شوکت ہوں’’۔ ‘‘الحمدللہ میں مسلمان ہوں اور مسلمانوں کے نام ایسے ہی ہوتے ہیں’’۔ ‘‘ہوں تو تم مسلمان ہو اور تم اشتراکی جمہوریہ یوگوسلاویہ کے باغی اور غدار ہو۔ کیا تمھیں یہ علم نہیں کہ ریاست میں یہ حکم نافذ ہوچکا ہے کہ کوئی شخص اپنی علیحدہ شناخت قائم نہیں کرے گا اور کسی کو اسلامی اور مسلمانوں جیسے نام رکھنے کی اجازت نہ ہوگی؟’’ ‘‘جناب! سلمان شوکت نے جواب دیا۔ مجھے علم ہے کہ ایسا حکم جاری ہوچکا ہے لیکن میں اس حکم پر عمل نہیں کرسکتا’ یہ حکم میرے ایمان اور عقیدہ سے متصادم ہے’’۔ ‘‘کامریڈ!’’ افسراعلیٰ نے اس شخص کی طرف دیکھا جو ابھی ابھی حوالات سے باہر لایا گیا تھا ۔ ‘‘کامریڈ’’۔ اس نے بولنا چاہا۔ ‘‘آپ مجھے کامریڈ کہہ کر مخاطب نہ کریں’’۔ سلمان شوکت نے کہا۔ ‘‘مجھے میرے نام سے بلائیں۔ میں خدا کا بندہ ہوں’ ایک لادین دہریہ حکومت کے افسروں کا ساتھی نہیں’’۔

‘‘تم شاید نہیں جانتے کہ کس سے مخاطب ہو۔ شاید یہ بھی بھول گئے کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ اور شاید تمھیں یہ بھی معلوم نہیں کہ جس جرم کا ارتکاب تم کر رہے ہو اس کی سزا کتنی سخت ہے’’۔

‘‘جناب! میں جانتا ہوں کہ میں ایک بڑے افسر سے مخاطب ہوں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ ایک ایک لفظ جو میری زبان سے نکل رہا ہے’ وہ میں پوری دیانت اور سچائی سے عرض کر رہا ہوں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ مجھے بڑی سے بڑی سزا دے سکتے ہیں’ لیکن میں اس سے خوف زدہ نہیں’’۔

‘‘کیا تمھیں اپنی زندگی عزیز نہیں؟’’ کامریڈ افسر نے پوچھا۔ ‘‘زندگی خدا کی امانت ہے۔ وہ جب چاہے اسے واپس لے سکتا ہے۔ اگر یہ زندگی اس کی راہ میں کام آجائے تو اس سے بڑی عزت اور سعادت کیا ہوسکتی ہے؟’’

کامریڈ افسر اعلیٰ کو دارالحکومت میں ایک رپورٹ ملی تھی کہ شمالی ضلع کے ایک علاقہ خانسک میں مسلمان’ حکومت کے احکام کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور ایک شخص سلمان شوکت بطور خاص مسلمانوں کو بھڑکا رہا ہے اور خانسک کے مسلمان اسے اپنے رہنما’ مربی اور لیڈر تسلیم کرتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ سلمان شوکت کئی بار مارا پیٹا جاچکا ہے۔ تھوڑے تھوڑے عرصے کے لیے جیل میں بھی ڈالا گیا ہے’ اسے ورغلانے کی ہرکوشش کی گئی ہے ’ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا ہے’ اس کی استقامت دیکھ کر عام مسلمانوں کے حوصلے بھی بڑھ رہے ہیں’ خانسک کے متعلقہ افسر نے اپنی رپورٹ میں دارالحکومت کے افسراعلیٰ سے ہدایات طلب کی تھیں۔ معاملہ چونکہ ریاست کی نظریاتی پالیسی سے براہِ راست متصادم ہو رہا تھا’ اس لیے کامریڈ افسراعلیٰ نے خود خانسک جانے کا فیصلہ کیا۔ سلمان شوکت کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور اب وہ اس جرأت مند انسان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا۔

‘‘تم پیدائشی مسلمان نہیں ہو؟’’ کامریڈ افسراعلیٰ نے پوچھا۔ ‘‘ہاں جب میں پیدا ہوا تو مسلمان نہیں تھا’ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟’’ ‘‘تم ترک بھی نہیں’ خالص یوگوسلاوی ہو؟’’

‘‘جناب! میرے والدین یوگوسلاوی نسل کے تھے۔ میری والدہ اسلام پر ایمان لے آئیں’ میں بھی مسلمان ہوگیا اور میں اپنے اسلامی عقیدے کے مطابق رنگ’ نسل اور خون پر یقین نہیں رکھتا’’ ‘‘تم ایک برتر نسل کے فرد ہو’’۔ کامریڈ افسراعلیٰ نے کہا۔ ‘‘تم حکمران قوم سے تعلق رکھتے ہو’ تمھیں شرم آنی چاہیے کہ تم اپنے ملک اور اپنی قوم کے لیے رسوائی اور ذلت کا باعث بن رہے ہو۔ عظیم اشتراکی انقلاب آگیا ہے۔ ہمارا ملک اشتراکی ہے۔ اسے تم جیسے برتر نسل کے یوگوسلاوی افراد کی ضرورت ہے ’ جو اشتراکی نظام کے ستون بن سکیں۔ تم غلط راستے پر چل رہے ہو۔ میں صرف تمھیں راہِ راست پر لانے کے لیے…… دارالحکومت سے یہاں آیا ہوں۔ تم یہ مذہب چھوڑو’ اشتراکی نظریات اپناؤ’ تمھارے لیے ترقی اور کامرانی کی راہیں کھل رہی ہیں۔ کامریڈ افسر اعلیٰ نے ایک زوردار تقریر جھاڑ دی۔

جناب! میں ایک چھوٹا سا آدمی ہوں’ میں خدا کا بندہ ہوں’ میری زندگی کا ایک ایک پل اگر اپنے رب کی حمدوثنا میں صرف ہوجائے تب بھی میں اس کے احسان عظیم کا شکر ادا نہیں کرسکتا کہ اس نے مجھے اپنے سچے دین کی راہ پر چلنے کے لیے منتخب کیا۔ مجھے ایمان کی روشنی بخشی۔ جناب! میں آپ کے لیے ناکارہ ہوں’ آپ کی عظیم اشتراکیت پر سرے سے یقین نہیں رکھتا۔ میں گمراہ نہیں’ راہِ راست پر ہوں۔ مجھے دنیاوی آسائشوں کی تمنا نہیں’ میرے رب نے مجھے ایسی روحانی آسودگی سے نوازا ہے جس کے سامنے دنیا کی ہر آسائش بے مایہ اور ہیچ ہے’’۔

‘‘تم کیا چاہتے ہو؟’’ کامریڈ اعلیٰ نے پینترا بدلا۔ ‘‘میں کسی ایسی بات کا آرزومند نہیں’ جو فطری نہ ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ مسلمان’ جو اس ریاست میں آباد ہیں ان پر عبادت کرنے کی پابندیاں نہ لگائی جائیں’ مساجد کھول دی جائیں’ اور مسلمانوں کو ان کو اپنے دین کے مطابق عبادت کرنے کی پوری آزادی نصیب ہو’ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں’ ان کی علیحدہ ثقافت ہے’ اس لیے حکومت کو مسلمانوں کی علیحدہ ثقافت ختم کر دینے کا حق حاصل نہیں۔

کامریڈ افسراعلیٰ نے سلمان شوکت کی طرف دیکھا۔ وہ جان گیا تھا کہ اس شخص کو توڑنا محال اور ناممکن ہے۔ اسے خریدا نہیں جاسکتا۔ اس کے ساتھ بحث میں جیتا نہیں جاسکتا۔ اس شخص کا وجود عظیم اشتراکی جمہوریہ یوگوسلاویہ کے لیے بہت بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ لہٰذا اس نے حکم دیا ‘‘اسے لے جاؤ’’۔ جب وہ جانے لگا تو اس نے چلتے چلتے مڑ کر کامریڈ افسر اعلیٰ کی طرف دیکھا’ رکا اور آہستہ سے کہا: جناب! میں جانتا ہوں کہ آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے۔ میں آپ سے یہ نہیں کہوں گا کہ آپ اس پر نظرثانی کریں’ لیکن ایک بات بتا دینا چاہتا ہوں کہ مجھے ختم کر کے آپ یوگوسلاویہ میں اسلام کو ختم نہیں کرسکتے…… ‘‘لے جاؤ اسے……’’ افسراعلیٰ چیخا۔

سپاہی سلمان شوکت کو گھسیٹ کر لے گئے۔ اسے پھر سے حوالات میں پہنچا دیا گیا اور اس پر ظلم اور بہیمیت کی انتہا کردی گئی۔ اٹھارہ دن وہ بھوکا پیاسا رہا۔ ان اٹھارہ دنوں میں اسے چند بار چند گھونٹ پانی کے پلائے گئے۔ اسے اذیتیں دی جاتی رہیں’ اور لالچ بھی’ اٹھارہ دنوں میں وہ سوکھ کر کانٹا ہوگیا’ اس کی آنکھوں کی روشنی بجھ گئی’ اس کے چہرے کی شادابی ویرانی میں تبدیل ہوگئی’ وہ مار کھاتا’ اذیتیں برداشت کرتا’ کبھی اُونچی آواز میں’ کبھی دل میں’ لیکن مسلسل قرآنی آیات کا ورد کرتا رہا۔ وہ اس کے منہ میں کپڑا ٹھونس دیتے تو وہ دل ہی دل میں اپنے خدا کو پکار لیتا۔ دارالحکومت میں کامریڈ اعلیٰ افسر کو اس خاص قیدی سلمان شوکت کے بارے میں روزانہ رپورٹ بھیجی جاتی تھی’ وہ اس شخص کی ہمت اور جرأت کا دل سے قائل ہوتا جا رہا تھا لیکن ہر بار حکم بھیجتا کہ اس پر مزید سختی کرکے اسے ختم کردیا جائے۔ ۲۱ویں دن سلمان شوکت کے نحیف و نزار’ ادھ موئے’ نیم جاں جسم پر اتنا ظلم و ستم کیا گیا کہ صبح فجر کے وقت اللہ کے حضور پہنچ گیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون!

سلمان شوکت کی زندگی کی کہانی اپنی جگہ ایک ایسی داستان ہے’ جو حیران کن بھی ہے اور ایمان افروز بھی ۔

دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر دنیا کا نقشہ ہی بدل چکا تھا’ اَن گنت بچے یتیم ہوگئے’ اَن گنت خواتین بیوہ ہوگئیں’ انھی بیوہ ہونے والوں میں ایک یوگوسلاوی خاتون میریانا تھی۔ میریانا بیوہ ہی نہیں ہوئی تھی’ اس کا سارا کنبہ جنگ کی نذر ہوگیا تھا’ اس کا باپ اور تین بھائی جنگ میں کام آئے۔ ماں پہلے ہی مرچکی تھی’ وہ اپنے شوہر سے بے حد محبت کرتی تھی۔ اس کا شوہر ۱۹۴۴ء کے اوائل میں جنگ میں مارا گیا۔ میریانا کی خوشیوں’ دلچسپیوں کا مرکز و محور اب اس کا بیٹا پالیسکی تھا۔ یہ اس کے مرنے والے شوہر کی نشانی تھی۔ وہ ابھی جوان تھی۔ چاہتی تو دوسری شادی کرسکتی تھی’ وہ خوبصورت بھی تھی لیکن میریانا کا مزاج عام یوگوسلاوی عورتوں سے قدرے مختلف تھا۔ اس نے صرف اور صرف اپنے بیٹے پالیسکی کے لیے زندہ رہنے کا تہیہ کرلیا۔ ایک ایسی چھوٹی سی فیکٹری میں ملازمت اختیار کرلی’ جہاں وہ اپنے بچے کو کام پر لے جا سکتی تھی۔ کارخانے میں کام کرتے ہوئے اس کی ایک نگاہ اپنے بیٹے پر رہتی۔ ان حالات میں پالیسکی کی صحت متاثر ہوئی اور وہ بیمار رہنے لگا۔ وہ ایک لاغر سا بچہ تھا’ جو یا تو زمین پر لیٹا فیکٹری کی چھت کو گھورتا رہتا یا پھر مشینوں کی آواز میں ریں ریں کرتا رہتا’ اور اس کی یہ ریں ریں بہت کم سنی جاتی۔ وہ ساڑھے چار برس کا ہوا تو میریانا نے اسے ایک اسکول میں داخل کرا دیا۔ میریانا کے مسائل کم نہیں ہوئے۔ اب وہ زیادہ فکرمند رہنے لگی۔ کارخانہ میں اس کی ڈیوٹی کے اوقات بیٹے کے اسکول جانے کے وقت سے پہلے کے تھے۔ وہ اسے صبح سویرے اٹھاتی’ تیار کرتی’ اس کے لیے ناشتہ بناتی اور پھر اسے دھیان سے اسکول جانے کی تلقین کرکے اکیلا چھوڑ کر خود فیکٹری کی راہ لیتی۔ جب وہ شام کو واپس آتی تو اپنے بیٹے کو اپنے کوارٹر میں اکیلا پاتی۔

پالیسکی کی مسلسل علالت میریانا کے لیے ایک عذاب سی بن گئی۔ اس کی راتوں کی نیند اُڑ گئی’ وہ کام سے واپس آکر پالیسکی کی دیکھ بھال کرتی’ پھر اسے اپنے ساتھ لٹا کر کوئی کتاب پڑھنے لگتی’ وہ کسی ایک موضوع پر کتابیں نہیں پڑھتی تھی’ بلکہ اس کا اصل مسئلہ تو وقت کاٹنا ہوتا تھا’ جو کتاب یا رسالہ ہاتھ لگ جاتا اسے پڑھنے لگتی۔ یوں چار پانچ برس میں اس نے مختلف موضوعات کی بہت سی کتابیں پڑھ ڈالیں’ اس کی معلومات میں یقینا بہت اضافہ ہوا۔یہی وہ زمانہ تھا جب میریانا نے’ جو ایک دکھی عورت تھی’ اسلام کے بارے میں کچھ مضامین پڑھے۔ ان مضامین نے اسے متاثر کیا اور وہ اسلام کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ محسوس کرنے لگی’ اس کے نزدیک خدا کا وہ تصور بہت پُرکشش تھا جو اسلام نے پیش کیا تھا۔ یوگوسلاویہ کی اشتراکی حکومت میں اسلام پر کتابوں کا حصول بہت مشکل تھا’ لیکن میریانا پر تاریکی کے دروازے بند ہونے والے تھے اور اس کی زندگی میں روشنی پھیلنے والی تھی۔

ایک روز وہ اپنے قصبے میں ایک پرانی اور چھوٹی مسجد کے دروازے پر کھڑی تھی۔ مسجد کے بوڑھے امام ترکان نے اس کا استقبال کیا اور پوچھا کہ ‘‘وہ اس کی کیا خدمت کرسکتا ہے’’۔ میریانا جھجکتے ہوئے حرفِ مدعا زبان پر لائی تو بوڑھے امام مسجد ‘‘ترکان بے’’ کا چہرہ کھل اٹھا۔ وہ مسجد کے اندر گیا اور یوگوسلاوی میں لکھی ہوئی دو کتابیں لے آیا۔ میریانا ان کتابوں کو پاکر بے حد خوش ہوئی۔ ان کتابوں کے مطالعے نے میریانا کے دل کے اندھیروں کو روشنی میں بدل دیا’ اب وہ اسلام کے بارے میں بہت سنجیدگی سے سوچنے لگی۔ وہ مہینے میں دو ایک بار امام مسجد ‘‘ترکان بے’’ سے ملنے جاتی اور نئی نئی کتابیں لے آتی۔ امام مسجد اب اس کی ذات میں دلچسپی لینے لگے تھے۔ اب میریانا اور بوڑھے امام صاحب میں ایک ایسا رشتہ قائم ہوگیا جو باپ اور بیٹی کا رشتہ تھا۔ میریانا اپنے بیٹے پالیسکی کی بیماری اور کمزوری کا اکثر ذکر کرتی۔ وہ واقعی بے حد پریشان تھی اور پھر دنیا میں اس کا پالیسکی کے سوا تھا بھی کون……؟ امام صاحب اس کے دکھ سمجھتے اور اسے دلاسا دیتے تھے’ لیکن تمام علاج معالجوں کے باوجود پالیسکی کی صحت بحال نہ ہوئی اور جب وہ سات برس کا تھا تو ایک دن ایسا علیل ہوا کہ جان کے لالے پڑ گئے۔ میریانا ہر لمحہ یہ محسوس کر رہی تھی کہ اب اس کے بیٹے کی سانس اکھڑ جائے گی۔ اپنے بیٹے کی ہر ناہموار سانس کے ساتھ وہ یہ بھی محسوس کرتی کہ خود وہ بھی مر رہی ہے۔ ایک رات دس بجے پالیسکی بے ہوش ہوگیا تو میریانا کی جیسے روح نکل گئی۔ وہ بھاگی بھاگی امام صاحب کے پاس آئی۔‘‘امام صاحب!…… میرا بیٹا……’’ امام صاحب نے اسے تسلی دی اور پھر اس کے ساتھ چل دیئے۔ پالیسکی کی حالت دیکھ کر خود امام صاحب بھی پریشان ہوکر سوچنے لگے کہ اگر یہ مر گیا تو میریانا پر کیا گزرے گی۔ ‘‘امام صاحب!…… بتایئے میں کیا کروں؟…… کچھ کیجیے…… میرے بیٹے کو بچا لیجیے’’۔ اس لمحے امام صاحب نے اپنی بوڑھی آنکھوں سے ٹپکنے والے آنسوؤں کو پونچھا اور بڑے مستحکم لہجے میں کہا: ‘‘اگر تو سچے دل سے رب العالمین کو پکارے گی تو وہ تیری دعا ضرور سنے گا’’۔ یہ کہہ کر امام صاحب کعبہ کی طرف منہ کر کے کمرے کے ایک گوشے میں بیٹھ گئے اور بولے: ‘‘تم ماں ہو میریانا بی بی! اللہ کو پکارو’ میں بھی دعا کرتا ہوں’’۔ میریانا سجدے میں گر گئی۔امام صاحب دعا مانگتے رہے’ پھر بچے کے پاس جاکر بیٹھ گئے’ وہ قیامت کی رات تھی۔ ہرلمحہ یوں لگتا تھا جیسے روح پالیسکی کے جسم کو چھوڑ جائے گی۔ امام صاحب نے میریانا کی طرف دیکھا۔ وہ سجدے میں گری گڑگڑا رہی تھی۔ خدائے وحدہ ٗلاشریک کو یاد کر رہی تھی۔ پھر امام صاحب نے دیکھا۔ پالیسکی کی سانس ہموار ہو رہی ہے۔ جب صبح ہوئی تو پالیسکی گہری نیند سو رہا تھا ’ اور اس کی سانس متوازن تھی۔

اس واقعہ کے چھ ماہ بعد میریانا نے اسلام قبول کرلیا اور اپنے بیٹے کو بھی کلمہ توحید پڑھا کر دین اسلام میں شامل کردیا۔ اس کا اسلامی نام امام صاحب نے ‘‘سلمان شوکت’’ رکھا۔ سلمان شوکت ۱۹ برس کا تھا جب اس کی والدہ میریانا کا انتقال ہوا۔ اسی برس امام صاحب بھی اللہ کو پیارے ہوئے اور مسجد کی امامت ایک ۱۹ برس کے نوجوان سلمان شوکت نے سنبھال لی۔ اس کی زندگی اسلام کی عظمت و سربلندی کے لیے وقف ہوچکی تھی۔

جب یوگوسلاویہ میں مسلمانوں کو ختم کرنے کی مہم شروع ہوئی تو سلمان شوکت نے پوری قوت سے مزاحمت کی۔ اسلام کے سانچہ میں ڈھلا ہوایہی سلمان شوکت بالآخردین کی راہ میں شہید ہوگیا۔(یہ بڑے نصیب کے ہیں فیصلے ، یہ بڑے کرم کی بات ہے۔)