زندگی کے رنگ

مصنف : آرزو بیگم

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : فروری 2007

            میری ماں ا س طبقے سے تعلق رکھتی تھی جہاں اولاد کانام ماں سے چلتا ہے۔ میری ماں کے میرے سوا کوئی اولاد نہ تھی اس کا شمار لکھنؤ کی مشہور طوائفوں میں ہوتا تھا۔ میں اس کی اکلوتی اولاد تھی۔ ماں نے میری پرورش لکھنؤ کی روایتی طوائفوں جیسی کی ۔اس کا خیال تھا میں زمانے میں اس سے بڑھ کر شہرت کماؤں گی اور سچ تو یہ ہے کہ میں نے بھی ماں کو اس کی توقعات سے بڑھ کر دیا۔ کمسنی ہی میں میری آواز و حسن کا دور دور تک چرچا تھا۔ میری ماں میری وجہ سے مطمئن تھی کہ اس کا بڑھاپا اچھا گزرے گالیکن قسمت میں اسے میرے دن دیکھنے نہ تھے۔ میری ماں کو اچانک سرسام ہو گیا او روہ دار فانی سے کوچ کر گئی۔ میرے لیے یہ حادثہ غیر متوقع تھادل کو ایسا دھچکا لگا کہ مدت تک پاؤں میں پائل نہ باندھ سکی پہروں تنہا بیٹھی رویا کرتی آخر کب تک سوگ کرتی۔میرے پاس کیا نہیں تھاحسن دولت سب کچھ،مگر دل تھا کہ ان میں سے کسی سے نہ بہلتا تھا۔ماں نے مجھے ہمیشہ یہی کہا تھاکہ دنیا میں کامیاب زندگی گزارنی ہے تو کبھی دل کے چکرمیں نہ پڑنا ۔میں نے اس بات کو گرہ میں باندھ رکھا تھا۔میں نے کبھی کسی کا درد محسوس نہ کیا۔ کسی پر رحم نہ کھایا تھا۔لیکن ماں کے مرنے کے بعد مجھے یوں لگتا تھاکہ میں دنیا کی بد نصیب ترین عورت ہوں۔ میرا کوئی مونس و غم خوار نہیں تھا۔ماں کی باتیں یاد آتیں تو دیر تک دل میں عجیب سا سناٹا گونجتا رہتا۔رفتہ رفتہ میں اس زندگی کی عادی ہو گئ۔

            ما ں کے مرنے کے ایک سال بعد کا ذکر ہے کہ اتفاق سے میرے پاس ایسا شخص آیا جس نے میرے دل میں ہلچل مچا دی۔ اگر یہ شخص کوئی عام آدمی ہوتاتو میرے لیے اسے حاصل کرنا بہت آسان ہوتا۔ یہ ایک مشہور ریاست کے نواب کا بیٹا تھا۔ میں آپ کو ریاست کا نام بتا کر اپنے محبوب کورسوا نہیں کرنا چاہتی۔میں نے پہلی بارخودکو بے حد مجبور و لاچارمحسوس کیا۔وہ جب تک میرے سامنے رہتا دل کو عجیب طرح کا سکون ملتا۔اسکی غیر موجودگی کاٹنے کودوڑتی اسکی حالت بھی مجھ سے سوا تھی۔ وہ یہاں چند دنوں کے لیے آیا تھا۔میرا اسیر ہو کر پورے ڈیڑھ ماہ یہاں رہااور جانے سے پہلے مجھ سے وعد ہ لے گیا کہ اب میں اس کے سوا کسی اورکو اپنے مہمان خانے میں جگہ نہیں دوں گی۔ایک طوائف کے لیے یہ قسم بڑی کٹھن ہوتی ہے میں اپنی زندگی کی یکسانیت اور سناٹے سے اس قدر اکتا چکی تھی کہ میں نے فورا یہ قسم اٹھا لی اور اپنا بازار بالکل بند کر دیا۔اس کے جانے کے ایک ہفتے بعد اس نے مجھے پیغام بھیجاکہ میں لکھنؤ چھوڑ کر اس کی جاگیر میں آجاؤں اورغیر معروف محلے میں آکر رہوں۔میں اسی پیغام کی منتظر تھی۔اپنا سب کچھ بیچ کر اپنے محبوب کے شہر چلی آئی۔میرے ساتھ میرا وفادار شوفر تھا۔اسے میری ماں نے بچپن میں اس کی ماں سے خریدا تھا۔ وہ مجھ سے دو چار سال بڑا تھا اور میرا بے حد خیال رکھتا تھا۔ گاڑی بیچنے کے بعد وہ میرے پاؤں پڑ گیا کہ چاہے اسے برتن مانجھنے پڑیں وہ میرا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔مجھے اس کی وفاداری پر رحم آ گیا اور اسے اپنے ساتھ لے آئی۔اجنبی جگہ اجنبی ماحول، دل ہر وقت ڈرا ڈرا رہتا کہ کہیں بھانڈا نہ پھوٹ جائے کہ میں کون ہوں۔ چاروں طرف شرفا کے مکانات تھے ۔میں نے کسی سے میل جول نہیں رکھا ۔ اپنے آنے کی نواب صاحب کواطلاع دی۔ وہ چھپ کرمجھ سے ملنے لگے۔ بس یہی چھ ماہ میرے لیے عید بن کر گزرے۔میں نے اس دوران میں دو بار مکا ن بدلا کیونکہ نواب صاحب اپنے عشق کی داستان کو رسوا نہیں کرنا چاہتے تھے۔میں انہیں شادی کے لیے کہتی تو کچھ پریشان ہو جاتے شاید وہ اپنے باپ سے ڈرتے تھے۔میرا خیال تھا کہ کچھ عرصے بعد یہ معاملہ خود بخود حل ہو جائے گا۔اورنواب صاحب میرے جال سے نہ نکل سکیں گے۔لیکن میری قسمت نے پانسہ پلٹا۔ مجھے میرے وفادار شوفر نے بتایا کہ نواب صاحب شادی شدہ ہیں اوران کی بیوی ان کے چچا کی بیٹی ہے جس سے انہیں بچپن سے منسوب کر دیا گیا تھا۔ایک نواب کے لیے چار چاربیویاں رکھنا کوئی نیا کام نہ تھااور نہ ہی میں ایسی شریف زادی تھی کہ ان کی اکلوتی بیوی ہونے کی خواہش رکھتی پھر بھی میرے دل پر اس خبر کا شدید اثرہوا اور مجھے نواب کی محبت کا بالکل اعتماد نہ رہا۔میں نے نواب سے اس مسئلے پر بات کی پہلے تو وہ گھبرائے آخر اعتراف کر لیا۔میرے اندر کی طوائف اس صدمے سے جاگ اٹھی اور میں نے رقابت میں ایسا منصوبہ بنا یا کہ جس سے آج بھی مجھے شرم آتی ہے ۔میں نے ان کی چاہت کا امتحان لینے کے لیے انہیں اپنی بیوی کو زہر دینے پر اکسایا۔وہ مان گئے اور انہوں نے سچ مچ اپنی بیوی کو زہر دے ڈالا۔بات یہیں ختم ہوجاتی تو میں اپنی منزل پا لیتی۔لیکن یہاں سے ایک نئی کہانی شروع ہو گئی۔نواب صاحب کے قتل کا راز چھپ نہ سکا اور وہ برطانوی قانون کی زد میں آ گئے۔۱۳، جولائی ۱۹۴۳ کی رات مجھے زندگی بھر نہ بھولے گی اس رات نواب صاحب مجھے آخر ی بار ملنے آئے ۔وہ قانونی مجرم تھے اور اتنی بڑی ریاست کے نواب کا بیٹا ہونے کے باوجود برطانویوں کے ہاتھوں مجبور تھے۔میں نے انہیں ایک قاتل کی حیثیت سے اپنے گھر آتے دیکھا تو میں آنے والے خطرے کو بھانپ گئی۔مجھے پھانسی کا پھند ہ اپنے گلے میں بھی محسوس ہونے لگا۔جان کسے پیاری نہیں ہوتی اور میں تو پھر بھی بازاری عورت تھی ۔ میں نے اپنے پیار کے ہتھکنڈے ایک بار پھر آزمائے اور نواب صاحب کو بہلا پھسلا کر رخصت کر دیااورخود یہ مکان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔میرا خیا ل تھا کہ دو چارروز میں یہاں سے چلی جاؤں گی لیکن صبح ہی پولیس نے میرے مکان پر چھاپہ مارا۔اس پر مجھے وہ کرنا پڑا جس کا میں نے تصور بھی نہ کیا تھا۔ پھانسی کے پھندے سے بچنے کاواحد حل یہی نظر آیا کہ میں فوراً اپنے شوفر کو اپنا شوہر ظاہر کردوں۔ چنانچہ میں نے پولیس کو بتایا کہ میں ایک شریف گھرانے کی عورت ہوں اور یہ میرے شوہر ہیں۔ میرے شوفر نے بھی پولیس کو نہایت چابکدستی سے مطمئن کر دیا۔پولیس تو چلی گئی لیکن خطرہ بدستور موجود تھا۔ چنانچہ میں نے اپنے جھوٹ کو سچ بنانے کا فیصلہ کیااور اپنے شوفر سے نکاح کر لیا۔ یہ نکاح نامہ میرے بے حد کام آیا۔ اسی کی بنا پر میں اورمیرے شوفر اور بعد کے شوہر مقدمے سے بر ی ہو گئے جبکہ نواب صاحب کو سزا ہو گئی۔ وقتی جھوٹ کو عمر بھر نبھانا پڑا اورشوفر صاحب میرے مستقل شوہر بن گئے ۔اس کے بعد زندگی کا رخ بدل گیا۔ اور میں نے انہیں بطور شوہر قبو ل کر کے نئی زندگی شروع کر دی۔ انہوں نے کپڑے کا کاروبار شروع کر دیا۔ اس سے ہم نے اپنا مکان بھی بنا لیا اور تھوڑی بہت جائیداد بھی۔

            پچھلے برس ان کا انتقال ہو گیا۔ ہمارے کوئی اولاد نہ ہوئی۔سب محلے والے میری عزت کرتے ہیں۔کسی کو کیا معلوم میرا ماضی کیا تھا اورکس موڑ پرمجھے اپنی زندگی بدلنا پڑی۔ البتہ آج بھی نواب صاحب کی بیوی کاسوچتی ہوں تو خود سے نفرت ہونے لگتی ہے ۔زندگی کی شمع گل ہونے کوہے ۔ اللہ سے توبہ کرتی رہتی ہوں۔ سزاد ے تو میں واقعتا اس کی مستحق ہوں لیکن امیدیہی ہے کہ اس کی رحمت مجھے ڈھانپ لے گی۔