شہید بالا کوٹ، شاہ محمد اسماعیلؒ

مصنف : آباد شاہ پوری

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : جنوری 2007

قسط ۔ اول

(1)

            عشا کی نماز ہو چکی ہے ۔ نمازی جامع شاہجہانی کے مختلف دروازوں سے نکل کر گھروں کو جا رہے ہیں ۔ ایک دبلا پتلا میانہ قامت شخص قلعے کی جانب والے دروازے سے نکلتا ہے اور خانم بازار کی طرف چل دیتا ہے ۔ وضع قطع میں عام سا آدمی لگتاہے ، مگر یہ عام آدمی نہیں ہے ۔ یہ وہ شخص ہے جس کا نام لال قلعہ سے لے کر جھونپڑیوں تک ہر زبان پر ہے۔ گھر گھر اس کا چرچا ہے کہیں بھلائی سے ، کہیں برائی سے او رجیسا کہ اس دنیائے کی ریت ہے بھلے لوگوں کو برائی سے یاد کرنے والے ہمیشہ زیادہ ہوتے ہیں ۔ اس لیے کہ وہ انہیں انکی غلطیوں پر ٹوکتے ہیں ، انہیں نیکی اور بھلائی کی ترغیب دیتے ہیں او رحق پرستی اور اچھی باتوں کی تلقین کرتے ہیں …… پھر حق کی تلقین اور باطل کی تردید سے بڑھ کر جرم او رکیا ہو سکتا ہے ؟

            یہی حال اس شخص کا ہے ۔ یہ لوگوں کو قرآن و سنت کی طرف بلاتا او ربدعت او رضلالت کی تردید کرتا ہے ۔ مسلمان جن غیر اسلامی رسوم میں جکڑے ہوئے ہیں او رجن کے بوجھ تلے ان کی کمر جھکی جارہی ہے ، ان کے خلاف آواز بلند کرتا ہے ۔ انہیں کہتا ہے ‘‘اللہ کے بندو! جو بوجھ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے تم پر نہیں ڈالا ، اسے تم نے کیوں اٹھا رکھا ہے ؟ بوجھ جس نے تمہاری معاشرتی زندگی دوبھر کر دی ہے ۔’’ اسی طرح وہ ان عقائد پر تنقید کرتا ہے جن کی اللہ کی کتاب او ررسول اللہﷺ کی سنت میں کوئی سند نہیں ۔ لوگوں کے لیے ان کی آواز بالکل نئی ہے ۔ وہ جہاں جاتا ہے حق کھول کر صاف صاف بیان کرتا ہے ۔ باطل کو باطل اور غیر اسلام کہنے میں کسی لاگ لپیٹ سے کام نہیں لیتا ۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ لوگ اس کے دشمن ہو گئے ہیں جنہوں نے عام مسلمانوں کو مشرکانہ عقائد ، گوناگوں بدعتوں اور رسم و رواج کے جال میں پھنسا کر اپنی دکانیں چمکا رکھی ہیں ۔ اسے سربازار گالیاں دی جاتی ہیں ۔ دلی کے شہدے اور غنڈے اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ او ر ہر وقت جان کا خطرہ رہتا ہے ۔ دوست احباب اور خیر خواہ اس سے لوگوں کے اس رد عمل کا ذکر کرتے ہیں ، تو کہتا ہے ‘‘بھائی، یہ لوگوں کو قصور نہیں ، ہمارے علما کا قصور ہے جنہوں نے اسلام کی تعلیمات ان کے سامنے کبھی واشگاف بیان نہیں کیں او راب میری زبان سے سنتے ہیں تو انہیں وحشت ہوتی ہے ۔’’

            یہ شخص کون ہے ؟ شاہ محمد اسماعیل شہیدؒ …… اس خانوادے کے مایہ ناز رکن جس کے فیض سے برصغیر کا شاید ہی کوئی دینی حلقہ ایسا ہو جو محروم رہا ہو او رجس کا سلسلہ تلمذ ، اس نامور خانوادے تک نہ پہنچا ہو ۔ شاہ ولی اللہ ؒ کے پوتے ، شاہ عبدالغنی ؒ کے صاحبزادے او رشاہ عبدالقادرؒ اور شاہ رفیع الدینؒ کے بھتیجے ۔

            چونکہ ایک دنیا ان کی دشمن ہو چکی ہے ، دہلی کے بدمعاش اور شہدے ان کی جان کے درپے ہیں ، اس لیے ان کے خاندان والے ان کی بہت حفاظت کرتے ہیں۔ جہا ں جاتے ہیں ، کوئی نہ کوئی ان کے پیچھے ہوتا ہے۔

            شاہ اسماعیلؒ جامع شاہجہانی کی سیڑھیوں پر پہنچتے ہیں تو پیچھے سے ایک سایہ لپک کر انہیں جا لیتا ہے ۔ شاہ صاحبؒ مڑ کر دیکھتے ہیں ۔ یہ مولانا محمد یعقوب ہیں ، شاہ عبدالعزیزؒ کے نواسے ۔ وہ پوچھتے ہیں ،‘‘ اسماعیل کہاں جاتے ہو ؟ اس وقت تمہیں تنہا نہ جانے دوں گا ، جہاں جاؤ گے تمہارے ساتھ جاؤں گا ۔’’ شاہ صاحبؒ کہتے ہیں میں ایک خاص کام سے جا رہا ہوں ، مجھے جانے دو اور میر ے ساتھ نہ آؤ ۔’’ مولانا یعقوب اصرار کرتے ہیں مگر شاہ صاحبؒ نہیں مانتے او رتنہا چل دیتے ہیں ۔ مولانا یعقوب بھی ذرا فاصلے سے ان کے پیچھے پیچھے ہو لیتے ہیں۔

            شاہ صاحبؒ خانم بازار پہنچتے ہیں اور موتی نامی ایک مشہور رنڈی کے مکان کے سامنے جا رکتے ہیں اور دروازے پر آواز دیتے ہیں …… کچھ دیر بعد ایک لڑکی اندر سے نکلتی ہے او رکہتی ہے کہ ایک فقیر کھڑا ہے ۔ رنڈی کچھ پیسے دیتی ہے کہ جا کر دے دے ۔ لڑکی پیسے لا کر دیتی ہے ‘‘لو میاں یہ پیسے لیں ’’ شاہ صاحب کہتے ہیں ۔ میں ایک صدا کہا کرتا ہوں اور بغیر صدا کہے کچھ نہیں لیتا ، اپنی بی بی سے کہو میری صدا سن لیں ۔ وہ جا کر ‘‘فقیر’’ کا پیغام دیتی ہے ۔ رنڈی کہتی ہے ‘‘اچھا بلا لے ۔’’ وہ انہیں بلا کر لے جاتی ہے ۔ شاہ صاحب صحن میں رومال بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں اور سورہ والتین …… ثم رددناہ اسفل سافلین تک تلاوت فرماتے ہیں ۔ اتنے میں مولانا یعقوب بھی آکر شاہ صاحب کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ رات کا سماں ، شاہ صاحبؒ کی دل میں اترتی ہوئی پرتاثیر زبان او رپھر آیات الہی ۔ اس ماحول کے عین مطابق جس میں شاہ صاحب حق کی دعوت پہنچانے آئے ہیں ۔ ان آیات میں ذکر ہے کہ فطری جمال ، جسمانی تناسب اور ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے اللہ نے انسان کو تخلیق کے بہترین سانچے میں ڈھالا ہے ۔ پھر اس کے جسمانی اورروحانی انحطاط کا تذکرہ ہے کہ جب وہ اس عظیم بلندی سے گرتا ہے ، تو انتہائی پستیوں میں پہنچ جاتا ہے ۔ ایسی پستیاں جن کے بعد کسی او رپستی کا ذکر نہیں کیا جا سکتا ۔ شاہ صاحبؒ کی آواز آہستہ آہستہ بلند ہوتی جاتی ہے۔ موتی کے گھر کی ساری رنڈیاں اور اردگرد کے دوسرے لوگ جمع ہو چکے ہیں اور دم بخود سن رہے ہیں ۔ شاہ صاحبؒ انسان کی پیدائش اور اس کے اخلاقی عروج و زوال کا ذکر اس قدر بلیغ اور موثر پیرائے میں کرتے ہیں کہ جنت اور دوزخ کا نقشہ سننے والوں کی آنکھوں میں کھینچ جاتا ہے ۔ دلوں کے پردے چا ک ہو جاتے ہیں اور یہ اثر ہوتا ہے کہ سب چیخ چیخ کر رونے لگتے ہیں او ر کہرام مچ جاتا ہے ۔ عالم وارفتگی میں وہ اپنے ڈھول ستار او رآلات موسیقی توڑ دیتے ہیں ۔ موتی اور اس کے ساتھ کئی اور رنڈیاں اور ان کے مرد گناہ کی زندگی سے تائب ہو جاتے ہیں ۔ رات بھیگ چکی ہے ، چودھویں رات کا چاند سر پر کھڑا مسکرا رہا ہے۔ اس کی نورانی کرنیں صحن میں چاندنی بکھیر رہی ہیں ۔ موتی کے گھر پر یہ چاندی پہلے بھی بکھرتی ہو گی ، مگر آج دلوں میں پھیلنے والے نور نے اس گھر کے ظاہر و باطن کو اجالے کی لہریں لیتے ہوئے سمندر میں نہلا دیا ہے ۔ شاہ صاحب اٹھتے ہیں او ر اپنا رومال کندھے پر ڈال کر اور گھر والوں کو سلامتی کی دعا دے کر چل دیتے ہیں ۔ مولانا یعقوب بھی پیچھے پیچھے ہیں ۔ دل ہی دل میں کٹ رہے ہیں کہ اتنے عالی گھرانے کافرزند اور ایسے بدنام کوچے میں ۔ آخر دل کی بات زبان پر آجاتی ہے ۔ شاہ صاحبؒ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر پہنچتے ہیں تو یہ ان سے جا ملتے ہیں اور کہتے ہیں ‘‘میاں اسماعیل! تمہارے دادا ایسے تھے ، تمہارے چچا ایسے اور تم ایسے خاندان کے ہو جس کو بادشاہ سلامی دے رہے ہیں ، مگر تم نے اپنے آپ کو بہت ذلیل کر لیا ہے ، اتنی ذلت اچھی نہیں ۔’’ شاہ صاحب ان کی طرف حیرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے انہوں نے کوئی بہت ہی غیر متوقع بات کہہ دی ہو ، پھر چلتے چلتے رک جاتے ہیں ، ٹھنڈی سانس بھرتے ہیں اور کہتے ہیں ‘‘مولانا! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ آپ اس کو میری ذلت سمجھتے ہیں ! یہ تو کچھ بھی نہیں ۔ میں تو اس روز سمجھوں گا کہ میری عزت ہوئی ، جس روز دلی کے شہدے میرا منہ کالا کر کے او رگدھے پر سوار کر کے مجھے چاندنی چوک میں نکالیں گے اور میں پکار پکار کر کہہ رہا ہوں گا اللہ نے یہ فرمایا اور اللہ کے رسولﷺ نے یہ فرمایا ۔’’ مولانا یعقوب خود کہتے ہیں یہ جواب سن کر میں مارے شرم کے پانی پانی ہو گیا ، میری زبان بند ہو گئی اور اس کے بعد مجھے زندگی بھر ان سے آنکھ ملانے کی جرأت نہ ہوئی ۔

 (2)

             شاہ اسماعیلؒ 1193 ہجری یعنی 1779 میں پیدا ہوئے ان کے والد شاہ عبدالغنی ؒ شاہ ولی اللہؒ کے سب سے چھوٹے فرزند ارجمند تھے ۔ اپنے والد گرامی او رنامور بھائیوں کی طرح صاحب علم و فضل اور متورع اور متقی اور حسن عمل کی متاع گراں بہا سے مالا مال تھے۔ تاہم ان کی زندگی اپنے بھائیوں میں سب سے کم تھی۔ شاہ اسماعیل دس برس کے تھے کہ وہ عین عالم شباب میں جنت کو سدھار گئے ۔ شاہ عبدالقادرؒ نے یتیم بھتیجے کو اپنے دامن شفقت و تربیت میں لے لیا ۔ ابتدائی کتابیں انہی سے پڑھیں ۔ پھر شاہ رفیع الدینؒ او ر شاہ عبدالعزیزؒ کے فیضان علم سے بھی بہرہ اندوز ہوئے ۔ اللہ تعالی نے انہیں غیر معمولی ذہانت و ذکاوت سے نوازا تھا ۔ ان کے اس جوہر کو دیکھ کر بڑے بڑے اصحاب علم و فضل دنگ رہ جاتے تھے ۔ معقولات کی وہ کتابیں جنہیں پڑھتے وقت ذہین سے ذہین طالب علم کا پتہ پانی ہو تا تھا ، ان کا مطالعہ اس انداز میں کرتے جیسے بہت بڑا شناور طویل و عریض گہرے پانیوں میں شناوری کرتا چلا جاتا ہے ۔ سرسید کے بقول ایسے افراد کامل کا پیدا ہونا خدائے ذوالجلال کی قدرت کا ایک خاص کرشمہ تھا ۔ طبیعت میں استغنا تھا ۔ ان کے نزدیک پوری کتاب کا سبقاً پڑھنا ضروری نہ تھا سبق لیتے وقت صفحے کے صفحے چھوڑتے چلے جاتے اور جب شاہ عبدالقادرؒ ٹوکتے تو کہتے کہ کتاب کا یہ حصہ آسان تھا اس لیے چھوڑ دیا اور کبھی ایسا ہوتا کہ پڑھے ہوئے سبق کو دوبارہ پڑھنے لگتے ۔ شاہ صاحب فرماتے میاں صاحبزادے ! یہ سبق تو پہلے پڑھ چکے ہو ۔ عرض کرتے کہ اس حصے کے بعض مسائل سمجھ میں نہیں آئے ۔ اور پھر ایسے اعتراضات وارد کرتے کہ استاذ گرامی کو انہیں دور کرنے میں کافی سوچ بچار کرنا پڑتی ۔ اس عہد طالب علمی ہی کا ذکر ہے ، شاہ اسماعیلؒ ، شاہ عبدالقادرؒ صاحب سے افق المیبن پڑھ رہے تھے ۔ یہ معقولات کی کتابوں میں بڑی ادق اور بلند پایہ کتاب سمجھی جاتی ہے ۔ پڑھنے کا انداز یہ تھا کہ اسماعیل ؒ صفحات پر صفحات پڑھتے چلے جاتے ، کہیں شاگرد خود پوچھ لیتا اور کہیں استاد صاحب کسی امر کی توضیح فرما دیتے ۔ مولوی فضل امام ان دنوں صدر امین کے منصب پر فائز ہو کر دہلی آئے ہوئے تھے ۔ وہ اکثر اس خانوادے کے رجال علم و فضل کی خدمت میں حاضر ہوتے ۔ ایک روز شاہ عبدالقادرؒ کے پاس بیٹھے تھے ، سبق ہو رہا تھا ۔ مولوی صاحب حیرت و استعجاب میں غرق اس انوکھے انداز تعلیم و تعلم کو دیکھ رہے تھے ۔ اتفاق سے شاہ عبدالقادرؒ کسی کام سے اٹھے ۔ واپس آئے تو سنا مولوی صاحب شاہ اسماعیل سے کہہ رہے تھے صاحبزادے ! کیوں مصنف کی روح کو تکلیف دیتے ہو ۔ اسماعیل پاس ادب سے چپ تھے ۔ شاہ صاحبؒ نے فرمایا مولوی صاحب اس لڑکے سے کچھ پوچھیے تو اس کے احوال آپ پر کھلیں ۔ مولوی صاحب پہلے تو گریزاں رہے ، پھر ایک مسلہ افق المیبن کا پوچھ ہی لیا ۔ شاہ اسماعیل نے بڑے ادب اور شائستگی سے جواب دیا۔ مولوی صاحب نے اسے رد کیا ۔ شاہ صاحب نے پھر جواب دیا ۔ اور پھر ردوقدح کا سلسلہ شروع ہوا تو دراز تر ہوتا چلا گیا ۔ آخر ایک ایسا مرحلہ آیا کہ مولوی صاحب کی قوت فکر و استدلال لڑکھڑانے لگی اور بالآخر خاموش ہو گئے۔ شاہ ولی اللہؒ کا گہوارہ علم ہو اور شاہ عبدالعزیزؒ، شاہ رفیع الدینؒ اور شاہ عبدالقادؒر ایسے اساتذہ ہوں اور شاہ اسماعیلؒ جیسا غیر معمولی دماغ رکھنے والا انتہائی ذکی و فہیم شاگرد ہو تو ایسا ہونا عجوبہ نہیں۔

            پندرہ سولہ برس کی عمر میں تعلیم سے فارغ ہوئے تو عالم بے بدل بن چکے تھے ۔ پھر وہ محض عالم فاضل نہ تھے بلکہ معقول و منقول دونوں میدانوں میں مسائل پر مجتہدانہ نظر رکھتے تھے اور اگر انہیں مسند درس و تدریس پر بیٹھنے او رتصنیف و تالیف کا موقع ملتا تو سید ابوالحسن علی ندویؒ کے بقول ‘‘بہت سے علوم و فنون میں امام یا مجدد کا منصب آپ کو دیا جاتا ۔’’

            معقولات میں جو گہرا ادراک حاصل تھا ، اس کی زمانہ طالب علمی کی ایک جھلک پیش کی جا چکی ہے ۔ تحصیل علم سے فارغ ہوئے تو نو عمری کے باوجود ، دور دور سے علم کے پیاسے اس چشمہ علم سے سیراب ہونے کے لیے حاضر ہوتے اور شاہ صاحبؒ کسی شرح سے کمک لیے بغیر پٹی ہوئی ڈگر سے ہٹ کر امہات الکتب کی تعلیم دیتے اور وہ نکتے اٹھاتے او ران پر بحث کرتے کہ شاہ عبدالعزیزؒ کے نامور شاگرد مولانا رشید الدین کہا کرتے تھے کہ اگر ارسطو او رافلاطون بھی قبرسے نکل کر آجاتے تو شاہ صاحب کی بحثوں او راعتراضات کا کوئی جواب نہ دے سکتے ۔ شاہ صاحب نے منطق پر ایک رسالہ بھی قلمبند فرمایا تھا ۔ ان کی مجتہدانہ بصیرت اور پرزور و مستحکم استدلالی قوت کو خراج تحسین ادا کرتے ہوئے سر سید نے آثار الصنادید میں لکھا ‘‘اگر معلم اول (ارسطو) موجود ہوتا تو اپنے دلائل کو تار عنکبوت سے سست تر سمجھتا ۔’’

            یہ معقولات کا عالم تھا ۔ دینی علوم یعنی قرآن و حدیث اور تفسیر و فقہ وغیرہ تو گویا شاہ صاحب کی میراث تھے ۔ پیدا ہوئے تو قال اللہ اور قال الرسول کی وجد انگیز صدائیں کانوں میں پڑیں ، ہوش کی آنکھیں کھولیں تو گھر کے اندر عبادت و تقوی اور حسن عمل کا دور دورہ اور مسجد و مدرسہ کی حدود میں کتاب و سنت کی تعلیمات کا دریا موجزن پایا ۔ جس کے کنارے سمرقند و بخارا اور ہندستان اور عالم اسلام کے دوسرے گوشوں سے آنے والے اصحاب ذوق و شوق ، زندگی کے سارے ہنگاموں سے کٹ کر اپنے دل کے جام و ساغر بھرنے میں منہمک تھے ۔ اس جان افزا علمی فضا کے ایک ایک لمحے کی مہک کو قلب و روح میں بسائے شاہ اسماعیل پروان چڑھے ۔ کتاب و سنت پر شاہ صاحب کی نگاہ جس قدر وسیع و عمیق تھی اس کا اندازہ ‘‘منصب امامت’’ پڑھنے سے ہو سکتا ہے۔ سید ابوالحسن علی ندویؒ کے الفاظ میں : ‘‘معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث کے صحیفے اور کتب خانے ان کی آنکھوں کے سامنے کھلے ہیں ، جہاں سے چاہتے ہیں ، نقل کرتے ہیں ۔ حالانکہ ان میں سے اکثر کتابیں سفر اور ایسی حالت میں لکھی ہیں کہ آپ کے پاس مشکل سے کوئی کتاب رہی ہو گی ۔ استدلال ایسا صحیح ہوتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت یا حدیث اسی موقع کے لیے تھی ۔ پھر استبناط و استخراج اور نکتہ آفرینی تو آپ کا حق ہے ۔’’

            پنجتار میں علما کی مجلس میں جس میں دو ہزار کے قریب علما او ردو ہزار کے قریب طلبہ شریک تھے ، آپ نے امام کی مخالفت کا حکم بتایا او رفرمایا کہ فقہ کی فلاں فلاں کتابوں کے فلاں فلاں باب فلاں فلاں فصل دیکھیے ۔ کتابیں علما کے پاس تھیں انہوں نے دیکھا تو کچھ فرق نہ پایا ۔ اور ذہن و دماغ کے استحضار کا یہ عالم کہ ‘‘لکھنو میں مولوی دلدار علی صاحب مجتہد نے آپ کے اس سوال کا جواب کہ تقیہ اور نفاق میں کیا فرق ہے ؟ بڑی عرق ریزی ، مشورہ اور کتابوں کے حوالے سے طویل مقالہ لکھ کر بھیجا ۔ مولوی عبدالحئی نے دیکھ کر فرمایا کہ اس کے جواب کے لیے بہت بڑے کتب خانے کی ضرورت ہے جو سفر میں میسر نہیں ۔ مولانا اسماعیل صاحب نے قلم برداشتہ اس کا جواب لکھ دیا ۔ ’’ اتنے عظیم اور بلند پایہ عالم دین بھتیجے کا ذکر شاہ عبدالعزیزؒ بڑے فخر و ناز کے ساتھ کیا کرتے ۔ اللہ کی حمد و تقدیس اکثر ان کی زبان پر رہتی جو حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹوں کو دیکھ کر بطور شکر و سپاس بیان کیا کرتے تھے ۔ بار بار فرمایا کرتے الحمد للہ الذی وھب لی علی الکبر اسماعیل واسحاق ۔ اس اللہ کی ساری حمد و ثنا ہے جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا فرمائے ۔ (شاہ اسحاق ؒ ، شاہ عبدالعزیزؒ کے نواسے تھے ) ایک بار ایک مکتوب میں انہیں تاج المفسرین ، فکر المحدثین و سرآمد علما محققین کے القاب سے یاد فرمایا اور لکھا کہ تفسیر ، حدیث ، نقد ، اصول ، منطق وغیرہ میں مجھ سے کچھ کم نہیں ہیں ۔

 (3)

            تحصیل علم سے فراغت کے بعد ہی کا زمانہ تھا جب شاہ اسماعیلؒ نے مدرسہ و مسجد کی دنیا سے نکل کر اپنے آپ کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے تیار کرنا شروع کیا اور گھڑ سواری ، پیراکی ، بنوٹ ، کشتی ، پٹہ بازی ، نیزہ بازی ، شمشیر زنی ، نشانہ بازی ، الغرض وقت کے جنگی ہتھیاروں کا استعمال اور وہ تمام فنون سیکھے جو لڑائی کے وقت ایک سپاہی کے کام آتے ہیں اور ہر فن میں کمال حاصل کیا ۔ شاہ صاحبؒ دبلے پتلے متوسط قد کے تھے ، لیکن بلند سے بلند گھوڑے پر اچھل کر سوار ہو جاتے اور گھوڑا چاہے کتنا ہی منہ زور ہوتا لگام کے بغیر اس کو قابو میں کرتے اور میلوں دوڑاتے ۔ پیراکی میں مہارت کا یہ عالم تھا کہ کئی کئی میل تک دریائے جمنا کی موجوں سے کھیلتے ہوئے چلے جاتے ۔ مسلسل کئی کئی گھنٹے پانی میں رہتے ۔ اکھاڑے میں بڑے بڑے لڑنتوں سے پیچھے نہ رہتے ۔ یہی حال بنوٹ ، پٹہ بازی اور شمشیر زنی میں تھا ۔ گولی لگانے میں اتنے مشاق تھے اور نشانہ ایسا پکا تھا کہ خود فرمایا کرتے ‘‘نا ممکن ہے کوئی اڑتی ہوئی چڑیا سامنے آجائے اور بچ نکلے ۔’’ کسی نے کہا اگر اس کی موت ہی نہ لکھی ہو ؟ فرمایا : جس کی موت نہ لکھی ہو گی وہ سامنے آئے گی ہی نہیں ۔ اپنے جسم کو مصائب و شوائد او رمیدان جہاد کی سختیوں کا خوگر بنانے کے لیے دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں سید ابوالحسن علی ندوی کے بقول جب لوگ خسخانوں میں ہوتے او رکوئی اپنے عافیت خانے سے منہ نہ نکالتا ، شاہ صاحب جامع مسجد فتحپوری کے توے کی طرح جلتے ہوئے پتھر کے فرش پر ننگے پاؤں جلتے، جسم کو آفتاب کی تمازت اور سردی کی شدت کا ایسا عادی بنایا کہ مئی جون کی گرمیوں میں کمبل اوڑھ کر سفر کر سکتے اور وقت پڑنے پر دسمبر اور جنوری کی سردیاں ململ کے کپڑوں میں گزار سکتے۔

            شروع شروع میں دیکھنے والوں کو یہ بات بڑی عجیب لگتی کہ مشائخ کے خاندان کا ایک فرد جس کا ڈیل ڈول بھی ایک پسلی کا ہے ، اکھاڑوں میں زور آزمائی کرتا ہے اور فنون سپہ گری کر رہا ہے قلعہ سے تعلق رکھنے والے شہزادے اور طبقہ امرا کے نوجوان بعض اوقات ہنسی بھی اڑاتے کہ پیرزادہ سپاہی بننے چلا ہے ۔ ایک ایسے ہی موقع پر جواب میں فرمایا کہ میں ا ن بزرگوں کی اولاد ہوں جنہوں نے ایسی ہی حالت میں دنیا بھر میں اسلام کی اشاعت کی اور جن کی تلواروں نے اسلامی سلطنت قائم کی اور آپ ان لوگوں کی اولاد ہیں جنہوں نے عیش و عشرت میں گم ہو کر اپنے باپ دادا کی فتح کی ہوئی سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔

            شاہ اسماعیلؒ جس خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس کی نگاہ سے ملک کی سیاست کبھی اوجھل نہیں ہوئی تھی ۔ ان کے دادا شاہ ولی اللہؒ نے ہندو قوم پرستی کی ابھرتی ہوئی نمائندہ مرہٹہ طاقت کو ، جس کے چنگل دارالحکومت دہلی تک پہنچ گئے تھے ، کچلنے اور مسلمانوں کی سیاسی قوت کو اس کے ہاتھوں نابود ہونے سے بچانے کے لیے افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی کو ہندستان آنے کی دعوت دی تھی ۔ یہ ہندو قوت اگرچہ پانی پت کے میدان میں دفن ہو گئی ، لیکن احمد شاہ ابدالی انہی لوگوں کو زمام حکومت سونپ کر چلا گیا ، جو ہندستان کی مسلمان سلطنت کے زوال و انحطاط کا باعث ہوئے تھے ۔ وہ اس خلا کو نہ بھر سکے ، بلکہ اس کی ان کے اندر اہلیت ہی نہ تھی ، جو مرہٹوں کی قوت ختم ہونے کے بعد پیدا ہو گیا تھا ۔ ان کی اس نااہلی نے انگریزوں کو آگے بڑھ کر اس خلا کو پر کرنے کا موقع فراہم کر دیا ۔ پھر جب انگریزوں نے ملک کے دروبست پر قبضہ کر کے مسلمانوں کی سیاسی ، تہذیبی ، معاشرتی اور اقتصادی زندگی کو تباہ کرنے کے اقدامات شروع کیے تو شاہ اسماعیلؒ کے عم بزرگوار شاہ عبدالعزیزؒ نے ہندستان کو دارالحرب ہونے کا فتوی دے دیا ۔ اس طرح مسلمانوں کے قلب و دماغ میں انگریزوں کی حکومت کے خلاف مسلسل ایک کشمکش چھیڑ دی ۔ مقصد یہ تھا کہ وہ انگریزوں کے استیلاء کو شعوری او رفکری طور پر قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوں ۔ اب اس استیلاء کے پنجے پھیلتے جا رہے تھے ۔ شمالی ہند کے جو علاقے ابھی تک ان سے محفوظ تھے ، ان میں بھی ان کی ریشہ دوانیاں ان کے تسلط کی راہ ہموار کر رہی تھیں ۔ دوسری طرف سکھ دریائے ستلج سے پشاور تک چھائے ہوئے تھے اور مسلمانوں کا کشت و خون کرنے اور ان کی دینی و تہذیبی زندگی کو تباہ کرنے میں مصروف تھے ۔ شاہ اسماعیلؒ کی سیاسی بصیرت دیکھ رہی تھی کہ اگر ان قوتوں کی مزاحمت نہ کی گئی اور ان کے چنگل میں گرفتار امت کو نجات دلانے کی جدوجہد نہ کی گئی تو برصغیر میں مسلمانوں کا سیاسی وجود ہی ختم نہ ہو گا بلکہ ان کی تہذیبی و ملی زندگی بھی خطرے میں پڑ جائے گی ۔ چنانچہ یہی بصیرت انہیں آنے والے معرکوں کے لیے تیار کر رہی تھی ۔ اور پھر جب یہ معرکے برپا ہوئے تو اس عسکری تربیت نے ان کی خداداد شجاعت ، عالی ہمتی ، اولوالعزمی اور بصیرت و فراست کے ساتھ مل کر انہیں اسلام کا زبردست جرنیل اور صف شکن سپاہی بنا دیا ۔ علم کے اسلحہ اور عسکری ہتھیاروں کے ذریعے سے شاہ صاحبؒ نے وہ کام کیا جو امت کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رکھے گا ۔

 (4)

            شاہ اسماعیلؒ کے یہ شب و روز تھے کہ رائے بریلی کے سید احمد ؒ دہلی میں وارد ہوئے اور شاہ عبدالعزیزؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ شاہ ولی اللہؒ نے اپنی تجدید فکر کو پھیلانے اور ہندستان میں امت کے اسلامی و تہذیبی تشخص کے تحفظ کی جدوجہد کرنے کے لیے ملک کے طول و عرض میں اپنے خلفا کی نگرانی میں جو مراکز قائم کیے تھے ان میں سے ایک مرکز رائے بریلی کا تکیہ شاہ علم اللہ بھی تھا ۔ سید احمدؒ اس مرکز کے شیخ ابو سعیدالحسنی ؒ کے نواسے تھے ۔ چند سال پہلے وہ شاہ عبدالعزیزؒ کے آگے زنوائے تلمذ تہہ کر چکے تھے ۔ پھر وہ نواب امیر خان کے لشکر میں شامل ہو گئے اور انہیں کلمہ حق کو بلند کرنے اور مسلمانوں کی حمایت و دفاع پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ۔ امیر خان زوال پذیر اسلامی ہند میں امید کی کرن اور ابھرتی ہوئی قوت تھے ، لیکن انگریزوں نے انہیں ٹونک کی ریاست دیکر اور نوابی کے خطابات و مراعات سے نواز کر اپنا حاشیہ نشین بنا لیا تو سید احمدؒ نے لشکر چھوڑ دیا ۔ اب انہوں نے ملت کے گرتے ہوئے پرچم کو تھامنے ، اس کو سربلند کرنے اور اسلامی حکومت قائم کرنے کا خود فیصلہ کر لیا ۔ سید احمدؒ کی بیعت سب سے پہلے شاہ ولی اللہؒ کے بھائی شاہ اہل اللہ کے پوتے مولانا محمد یوسف پھلتی نے کی ۔ پھر خاندان ولی اللہ کے دو عظیم رجال آگے بڑھے ۔ ایک شاہ عبدالعزیزؒ کے داماد مولانا عبدالحئی اور دوسرے ان کے بھتیجے شاہ محمد اسماعیلؒ ۔ شاہ صاحب اپنے عظیم خانوادے کی عظیم روایات کے امین تھے ، قرآن و حدیث کے حافظ ، معقول و منقو ل کے امام اور زہاد و عابد اور علم و فضل میں مقام بلند کے حامل ۔ سید احمدؒ کی تحریک اقامت دین سے وابستگی کے بعد ان کی زندگی میں زبردست انقلاب آ گیا ، ان کی صلاحیتیں کندن بن گئیں ، پہلے بھی وہ آرام پسند نہ تھے ۔ ہر وقت امت کی خیر و فلاح میں رہتے تھے ، لیکن اب تو وہ سراپا جدوجہد بن گئے ۔ ان کے عظیم خانواد ے کے عظیم افراد اپنی ساری عظمتوں کے باوجود مدرسہ کی حدود میں کتاب و سنت کی تعلیم و تدریس ، تصنیف و تالیف اور وعظ و ارشاد میں رہے تھے ۔ یہ صاحب عزیمت مرد حق اس دائرے سے نکل کر ہر اس مقام پر پہنچے جہاں کتاب و سنت کی تعلیمات اجنبی اور حق کی آواز بیگانہ تھی ۔ جہاں جاہلیت کی اندھیری رات طاری تھی ، فسق و فجور کا بازار گرم تھا ، مسلمان معاشر ے میں دین کے نام پر مشرکانہ رسوم و عقائد ، بدعتیں او رگمراہیاں راہ پا چکی تھیں ۔ دہلی میں علم دین کے امین ایک سے ایک بڑھ کر موجود تھے ، اور ان پر بھی یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ مسلمان معاشر ے کی اصلاح کریں اور امت اخلاقی اور فکری و عملی زوال کی جن پستیوں میں گر رہی تھی ان سے اس کو بچائیں، لیکن انہیں یا تو اپنے فرض کا احساس ہی نہ تھا یا وہ اپنے اندر اتنی ہمت نہ پاتے تھے کہ ایک زمانے سے لڑائی مول لیں ۔ ادھر شاہ اسماعیلؒ کے احساس کی شدت کا یہ عالم تھا کہ اس تصور سے لرز لرز اٹھتے کہ قیامت کے دن معصیت ، فسق و فجور اور شرک و بدعت میں ڈوبے ہوئے لوگ انہیں گھیر لیں گے اور پکڑ کر اپنے رب کے حضور لے جا کر فریاد کریں گے کہ اس شخص نے کتاب و سنت کے نور سے بہرہ یاب ہونے کے باوجود ہمیں حق کا راستہ نہ دکھایا اور اندھیرے میں بھٹکتے رہنے کے لیے چھوڑ دیا تو اس وقت وہ داور محشر کو کیا جواب دیں گے ۔ یہ تصور انہیں سخت مضطرب کر دیتا اور اپنے فرض کی ادائیگی کا احساس شدید انہیں ان مقامات اور گلی کوچوں میں بھی لے جاتا جہاں مقدس و پاکباز لوگ جانے کا تصور کر کے ہی شرما جاتے ہیں ۔ قرآن و حدیث کے احکام بے خوف کھول کر بیان کرتے ، معروف کے کاموں پر لوگوں کو اکساتے اور ایک ایک منکر کی نکیر اور ایک ایک بدعت کی تردید کرتے اور کسی ملامت گر کی ملامت کو خاطر میں نہ لاتے ۔

            برصغیر کے مسلمان معاشر ے میں غیر اسلامی رسول کی یلغار کچھ ایسے انداز میں ہوئی تھی کہ اس سے بڑے بڑے دینی گھرانے تک محفوظ نہ رہے تھے اور ان میں خود شاہ صاحب کا اپنا گھرانہ بھی شامل تھا ۔ سید ابوالحسن علی ندوی ؒ لکھتے ہیں :‘‘آپ کا گھر سب سے بڑا مدرسہ تھا اور شاہ عبدالرحیم صاحب کے وقت سے یقینا قرآن و حدیث ان لوگوں کا وظیفہ تھا ۔ سنت و شریعت کی نہریں ہندستان وہندستان سے باہر یہیں سے جاری ہوئیں لیکن اس کے باوجود آپ کے وقت تک حضرت شاہ عبدالعزیز ؒ صاحب و شاہ عبدالقادرؒ صاحب کی موجودگی میں اس خاندان میں بہت سی بدعات و رسوم جاری تھیں ۔ بیوہ کا نکاح ثانی اسی طرح حرام تھا جس طرح دوسرے خاندانوں میں بی بی کی صحنک ہوتی تھی ، گیارہویں کا کھانا آتا تھا شاہ صاحبؒ نے قولاً و عملًا اس کی مخالفت کی اور یہ چیز موقوف ہوئیں ۔’’

            اب ایک طرف اپنے گھرانے کے اندر اصلاح و تطہیر کا عمل جاری تھا اور دوسری طرف باہر گلی کوچوں اور بازاروں میں حق کا کلمہ بلند ہو رہا تھا ۔ شاہ صاحب بدھ اور جمعہ کو شاہی مسجد میں وعظ فرماتے ۔ تقریر بڑی سادہ مگر موثر ہوتی ۔ جو بھی سنتا مسحور ہو کر رہ جاتا دلوں پر پڑے ہوئے غفلت و تغافل اور ضلالت کے پردے چاک ہو جاتے اور حق و ہدایت کے نور سے سینے جگمگانے لگتے ۔ نماز جمعہ کے لیے لوگ دور دور سے آتے اور اس کثرت سے آتے جس کثرت سے عیدین کی نماز میں آتے تھے ۔ ان تقریروں میں شاہ صاحب شریعت کے احکامات سناتے ، شرک و بدعت کا رد کرتے اور توحید و سنت کی دعوت دیتے ۔ چند ہی دنوں میں ہر طرف شاہ اسماعیل ؒ کے مواعظ کا چرچا تھا ۔ جہاں بہت سے لوگوں کو یہ مواعظ اپنے کردار و عمل کا جائزہ لینے پر آمادہ کرتے ، ان کے اندر اپنی جہالت و جاہلیت کا احساس پیدا کرتے اور انہیں حق و ہدایت سے بہرہ ور کرتے ، وہاں اکثر لوگوں کو ان کی باتیں نئی اور عجیب معلوم ہوتیں ۔ ایسی باتیں جو ان سے پہلے کسی مولوی اور عالم و واعظ نے نہ کی تھیں ۔ عورتیں پوچھا کرتیں کہ یہ اسماعیل کون مولوی پیدا ہوا ہے کہ جو کام ہمارے باپ دادا کرتے آئے تھے اور کبھی کسی نے نہ ٹوکا تھا ، یہ کہتا ہے کہ وہ سب بدعتیں اور مشرکانہ رسوم ہیں ۔ (جاری ہے)