تعددِ ازواج اور ازواج النبیؐ

مصنف : سید حامد عبدالرحمن الکاف

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : نومبر 2008

 تحریر: الشیخ العلامہ محمد الغزالیؒ ، ترجمہ: سیدحامد عبدالرحمن الکاف

یہ دراصل الشیخ محمد الغزالی کی کتاب ‘‘فقہ السیرۃ’’ کے آٹھویں باب اُمہات المومنین کا ترجمہ ہے۔ اس کتاب کی احادیث کی تخریج مشہورِ زمانہ محدث الشیخ محمد ناصرالدین الالبانی نے کی ہے۔ اس وجہ سے اس کی ادبی قیمت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ میں نے وضاحت کے لیے اس کے نام ‘‘تعددِ ازواج کا اضافہ کیا ہے’’ (الکاف)

اگر دنیا میں مردوں کی تعداد عورتوں کی تعداد کے برابر ہو یا عورتوں کی تعداد کم ہو تو خود بخود ایک سے زائد بیوی کا وجود ناپید ہوگا۔ لیکن اگر عورتوں کی تعداد مردوں کی تعداد سے زیادہ ہو تو ہم ان تین راستوں میں سے ایک راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو ں گے:

۱- یا تو ہم ان میں سے کچھ عورتوں کے بارے میں یہ فیصلہ صادر کردیں کہ انہیں اپنی فطری جنسی خواہش کو جائز طریقے سے پورا کرنے کاحق حاصل نہیں ہے اور انہیں اس سے روک دیا جائے۔

۲- یا پھر بازاری عورتوں کے وجود کو تسلیم کر کے زنا جیسے گھناؤے جرم کو جائز قرار دے دیا جائے۔

۳- آخری چارۂ کار یہ ہو گا کہ ہم ایک سے زیادہ منکوحہ عورت/بیوی کے وجود یعنی تعددِ ازواج کو کھلے دل و دماغ سے قبول کریں۔

علاوہ ازیں مردوں کے درمیان جنسی احساس اور رغبت کی نسبت میں زبردست فرق پایا جاتا ہے۔ کچھ ایسے مرد بھی ہوتے ہیں جن کو خوش بختی سے بہترین صحت، جنسی حس میں تیزی اور سامانِ زیست میں فراوانی نصیب ہوتی ہے۔ یہ چیزیں دوسرے مردوں کو نہیں میسر نہیں آتیں۔ اس لیے ایک ایسے مرد میں جو روزِاوّل سے سرد جذبات لے کر پیدا ہوا ہو اور ایک دوسرے ایسے مرد میں جو فوری جنسی ہیجانی کیفیت کا شکار، فطری طور پر ہوتا ہو اور پھر اس میں جسمانی (ذہنی، نفسیاتی اور مالی)طاقتیں بھی دوسرے کے مقابل زیادہ پائی جاتی ہوں، برابری اور مساوات کا حکم صادر کرنا عدل اور انصاف سے بہت دُور کی بات ہے۔ کیا ہم ان لوگوں کو جن کی غذائی بھوک کھلی ہوئی ہوتی ہے، زیادہ کھانے کی اجازت نہیں دیتے ہیں جبکہ ہم اس چیز کو کمزور معدے والوں اور بدہضمی کا شکار رہنے والوں پر حرام قرار دیتے ہیں۔

یہاں ایک دوسری حکمت سے بھی چشم پوشی ناممکن ہے بلکہ (جنسی خودکشی یعنی زنا) پر اُبھارنے کی خبیث کوشش ہے اور وہ یہ ہے کہ بیوی کمزوری، مرض، بانجھ پن یا بڑی عمر کا شکار ہوسکتی ہے۔ پھر ان وجوہات کی بنا پر اس کو حسنِ معاشرہ اور حسنِ سلوک سے محروم کر کے عدم دلچسپی اور لاپروائی کا نشانہ بننے کے لیے کیوں چھوڑ دیا جائے؟ اور خود مرد کو بے لگام بھینسے کی طرح دوسروں کی کھیتیوں پر منہ مارنے بلکہ چرنے اور برباد کرنے کی کھلی چھٹی دی جائے؟

ان دونوں حالتوں کے برعکس اس عورت کا قدیم شوہر کی شریکِ حیات ہونے کے ناطے یہ حق بنتا ہے کہ وہ مرد کے سائے میں رہے اور کسی دوسری ایسی خاتون کو اس کے ساتھ اپنی شریکِ حیات بنائے جو ازدواجی زندگی کے فرائض کو بخوبی انجام دے سکے۔ اس طرح دونوں کے درمیان انصاف کی راہ نکالی جاسکتی ہے۔

اسلامی تعلیمات کی رو سے ایک سے زائد بیوی کی حالت میں اس بات کا اطمینان ہونا ضرور ی ہے کہ ان بیویوں کے درمیان عدل و انصاف روا رکھا جائے گا۔لیکن اگر کوئی مرد اپنے آپ پر، اپنی اولاد پر اور اپنی بیویوں پر ظلم روا رکھے، ان کے درمیان عدل و انصاف نہ کرے تو اس کے لیے تعددِازواج کی گنجایش بالکل نہیں رہتی۔

اس لیے جو شخص ایک سے زائد بیویوں کا طلب گار ہے، اس کے اندر بیویوں کے ضروری اخراجات کو پورا کرنے کی قدرت ہونی ضروری ہے۔ کیونکہ جب شارع بیوی کے نفقے کی عدمِ استطاعت کے عذر کو ایک بیوی سے بھی شادی نہ کرنے کے لیے کافی قرار دیتا ہے تو اس امر کو، یعنی اخراجات کی عدم موجودگی کو، ایک سے زائد بیوی کی حالت میں کافی سے زیادہ عذر قرار دینا بالکل ہی معقول ہے اور اولیٰ بھی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر قوّام (اس کے معاملات کی دیکھ بھال کرنے والا) قرار دینے کے دو سبب بتائے ہیں: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَآاَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ (النساء:۳۴)

پہلا سبب خالق اور رب کا حق ہے کہ اس نے بعض کو بعض پر فضیلت دی۔ دوسرا سبب بیوی کا حق ہے کہ اس کو اور اس کے ماں باپ کو دیکھ لینا چاہیے کہ آیا وہ مالی طور پر خرچ پر قادر ہے یا نہیں؟ نہایت افسوس کی بات ہے کہ دین داری کی شرط کے ساتھ اس شرط کو اکثر شادیوں میں نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ اس میں غیراسلامی رسم و رواج کا بڑا دخل ہے۔ اس امر کے ذمہ دار سب مسلمان اور ان کا معاشرہ ہے۔

شارع نے غیرشادی شدہ نوجوان کو اس وقت تک روزے رکھنے کا حکم دیا ہے جب تک اس میں شادی کی (مالی اور مادی) استطاعت پیدا نہ ہوجائے اور جو ایک بیوی کی کفالت سے بھی عاجز ہو، اس کو عفت کی زندگی بسر کرنے کا حکم دیتا ہے: وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لاَ یَجِدُوْنَ نِکَاحًا حَتّٰی یُغْنِیَہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ (النور: ۳۳)

‘‘ان لوگوں کو جو شادی کرنے پر قادر نہ ہوں عفت کی زندگی اس وقت تک بسر کرنی چاہیے جب تک اللہ انھیں اپنے فضل سے مال دار نہ بنا دے’’۔

اس کے بعد اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس کے پاس، ایک عورت، پہلے سے موجود ہو؟ وہ صبر کا زیادہ مستحق ہے اور عفت و پاک دامنی اس کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ علی العموم بکثرت اولاد بیویوں کی کثرت کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ اسلام اس بات کو واجب قرار دیتا ہے کہ اولاد کی تربیت اور نشوونما میں عدل کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ ان سے عزت کے ساتھ برتاؤ کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ کھانے پینے اور رہن سہن اور لباس میں بھی حتی الامکان مساوات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے خواہ ان کی ماؤں میں کتنا ہی فرق کیوں نہ پایا جاتا ہو۔ مأثور روایت میں آتا ہے کہ: ‘‘اللہ کی لعنت اس شخص پرہو جو اولاد کو نافرمان بننے پر مجبور کرے’’۔

اس لیے بکثرت اولاد والے باپ کو خواہش کے دباؤ کے تحت کچھ بچوں کی طرف زیادہ مائل ہونے کے نتائج سے بچنا چاہیے۔

اسی طرح اسلام بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کو واجب قرار دیتا ہے۔ اگرچہ قلبی رجحان اور میلان ایک ایسی بات ہے جس پر انسان کا زور نہیں چلتا لیکن ایسے بہت سے اعمال اور احوال ہیں جن میں ایک شوہر شرعی حدود کی پاسداری کرسکتا ہے۔ وہ اپنے تصرف کو شریعت کی میزان عدل میں تول سکتا ہے اور اس طرح وہ اپنے ان اہل اور اس مال میں خوفِ خدا اختیار کرسکتا ہے جن کا رکھوالا اس کو بنایا گیا ہے۔

رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: ‘‘اللہ ہر اس شخص سے ان چیزوں/امور کے بارے میں سوال کرے گا جن کا اسے رکھوالا/ ذمہ دار/ نگران بنایا تھا کہ آیا اس نے ان کی حفاظت کی یا ان کو گنوا دیا’’۔ مزید، آپؐ نے فرمایا: ‘‘کسی شخص کے لیے یہ گناہ کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کو گنوا دے جن کو وہ کھلاتا پلاتا ہے’’۔

یہ وہ حدود ہیں، جن کو اللہ نے تعددِ ازواج کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ جو کوئی ان ذمہ داریوں کے بوجھ کو اٹھانے کی استطاعت رکھتا ہے اسے دوسری، تیسری اور چوتھی بیوی رکھنی چاہیے ورنہ اسے صرف ایک پر قناعت کرنی ہوگی۔ (اگر تمھیں خوف ہو کہ تم عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک پر قناعت کرو۔ النساء:۳)

بعض حضرات کا یہ ا عتراض بھی ہے کہ مردوں کی طرح یہ حق عورتوں کو بھی کیوں نہیں دیا جاتا کہ وہ ایک سے زیادہ مرد رکھیں؟ اس مریضانہ سوال کا جواب یہ ہے کہ شادی کا اعلیٰ ترین مقصد یہ ہے کہ جنسی اتصال کے ذریعہ خاندان کی بنیاد رکھی جائے اور بچوں کی تربیت پاکیزہ گودوں میں اور صاف ستھری فضا میں ہو۔ یہ بات اس صورت میں ناممکن ہے جب کہ ایک سے زائد مرد ایک عورت سے جنسی لطف اندوزی اس طرح کریں کہ یہ پتا نہ چل سکے کہ اس سے پیدا ہونے والی اولاد کس کے نطفہ سے ہے؟

اس معاملے میں خیال رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ جنسی اتصال کے عمل میں عورت کا کردار فعل کو انجام دینے والے کے مقابلے میں اس فعل کو قبول کرنے والے فریق کا ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت حمل کا ذریعہ بننے والے کے مقابلے میں ‘حمل’ کو اٹھانے والے کی ہوتی ہے۔ تم ریل کے ایک انجن کو تو چار ڈبوں کو کھینچے ہوئے دیکھتے ہو مگرتم اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ چار ڈبے ایک انجن کو کھینچیں۔

 مباح چیزوں اور امور پر پابندیاں عائد کرنا اسلامی قانون کے مزاج کے خلاف ہے۔ تعدد ازواج بھی مباح امور میں سے ہے۔ اس سے مقصد ان مصالح کا حاصل کرنا ہے جس کی طرف ہم نے اشارے کیے ہیں۔ کسی قانون یا اصول کو صحیح قرار دینا ایک الگ بات ہے اور اس کی غلط تعبیر کرکے اس پر عمل پیرا ہونا ایک بالکل الگ بات ہے۔

 تعددِ ازواج کے اصول میں کیڑے تلاش کرنے کی کوشش ایک سعی لاحاصل ہے ،بلکہ یہ ایک ایسی زہربھری کھیتی کو پالنا ہے کہ جس کا انجام ایڈز جیسی بیماری کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔آج معاشرے کے بہت سے طبقوں میں تعددِ ازواج کو ایک برائی تصور کیا جاتا ہے! جب کہ زنا کو معمولی سی تفریح اور دل کو بہلانے کا مشغلہ سمجھا جاتا ہے! بالفاظ دیگر اب یہ مسئلہ پورے دین کا اور سارے اخلاق کا مسئلہ بن چکا ہے۔۔اس حالت میں تعددِ ازواج پر پابندی عائد کرنا ایک ایسی طفلانہ کوشش ہے جس کا مقصد معاشرے کو اسلام اور قانون کے نام پر گندا کرنا ہے۔

انبیائے کرام علیہم السلام اور صالحین کی اکثریت نے ایک بیوی اور ایک سے زائد بیوی سے شادیاں کی ہیں۔ اس سے ان کے تقویٰ پر کوئی آنچ نہیں آئی۔ عہد ِ قدیم کے ان صحیفوں میں جواب ہمارے ہاتھوں میں ہیں، ایسے واقعات موجود ہیں جو اس کی تائید کرتے ہیں۔

اسلام نہ تو شادی سے دامن کشی اور کنارہ کشی کو عبادت تصور کرتا ہے اور نہ ہی وہ چار بیویوں سے شادی کو گناہ شمار کرتا ہے جیساکہ آج کے نصاریٰ۔

ازواج النبیﷺ

سیرتِ نبیﷺ سے یہ بات اچھی طرح ثابت ہے کہ آپؐ نے سیدہ خدیجہؓ سے اس وقت شادی کی جب آپؐ کی عمر ۲۵ سال کی تھی اور سیدہ خدیجہؓ کی عمر ۴۰ ۔ آپؐ اُن کے ساتھ تنہا زندگی کے دن کاٹتے رہے اور کسی اور بیوی کو سید ہ خدیجہ کا شریک نہیں بنایا یہاں تک کہ آپؓ کی عمر ۶۵ سال سے تجاوز کرگئی۔ آپؓ کا انتقال اس وقت ہوا جب کہ رسولؐ اللہ کی عمر ۵۰ سال سے زیادہ ہوچکی تھی۔

اگر آپؐ کسی دوسری عورت سے شادی کرنا چاہتے تو آپؐ کی اس خواہش میں شریعت، عقل اور رسم و رواج کوئی بھی مانع نہ ہوتے کیونکہ تعددِ ازواج نہ صرف عربوں میں ایک معروف عمل تھا بلکہ وہ ابوالانبیا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے دین میں بھی ایک جائز اور حلال عمل تھا۔ اس کے باوجود آپؐ سیدتنا خدیجہؓ پر قانع رہے کیونکہ آپؐ کو اُن کی صحبت میں راحت اور اطمینان حاصل تھا اگرچہ کہ وہ بڑی عمر کوپہنچ چکی تھیں اور آپؐ ابھی اپنی قوت کے کمال کو چھو ہی رہے تھے اور مردانگی کی منزل میں داخل ہو رہے تھے۔

جب سیدہ خدیجہؓ کا انتقال ہوگیا اور آپؐ نے شادی کا ارادہ فرمایا تو اس وقت آپؐ کا مطمح نظر خوبصورتی کا تلاش کرنا نہ تھا کہ ایک حسین و جمیل عورت یا عورتوں کو اپنا شریک حیات بنائیں۔ اگر آپؐ ایسا کرتے بھی تو آپؐکو کوئی ملامت نہ کرتا۔

ان شادیوں کا محرکِ اول ان لوگوں سے اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا تھا جنھوں نے آپؐ کی مدد کی،اور اس دعوت کو پہنچانے میں دامے درمے قدمے سخنے آپؐ کا ساتھ دیا۔ اسی وجہ سے آپؐ نے سیدہ عائشہؓؓ بنت ابوبکرؓ کو ان کی کم عمری کے علی الرغم پسند فرمایا جبکہ سیدہ حفصہؓ بنت عمرؓ کو خوبصورتی کی کمی کے باوجود اپنے گلے لگا لیا۔

پھر آپؐ نے سیدہ اُم سلمہؓ کو ، جو آپؐ کے اس جنگی لیڈر کی بیوہ تھیں جنھوں نے اللہ کی راہ میں جامِ شہادت نوش کیا تھا اور جنھوں نے مکہ سے حبشہ اور وہاں سے مدینہ کی طرف ہجرت میں مصیبتوں پر مصیبتیں اپنے شوہر کے ساتھ خندہ پیشانی سے جھیلی تھیں، اپنی بیوی بنانا پسند فرمایا۔

ان سے پہلے آپؐ کے نکاح میں سیدہ سودہؓ تھیں جنھوں نے اپنی خوشی اور مرضی سے مرد کی لذت سے دست بردار ہونا قبول کرلیا تھا تاکہ وہ اپنی بڑی عمر اور جنسی لذت سے بے رغبتی کی بنا پر آپؐ کی راہِ اختیار میں حائل نہ ہوں ۔ان چار مبارک اور خوش بخت عورتوں کے ساتھ زندگی گزارنے میں نہ تو آپؐ کے کسی سامانِ عیش و عشرت کی فراوانی کا پتا چلتاہے اور نہ لذت کوش دنیا سے لطف اندوزی کا سراغ ملتا ہے۔

اگر آپؐ کی زندگی کی بنیاد ان چار مبارک خواتین پر قائم رہتی تو بھی رسولؐ اللہ کے لیے کوئی حرج کی بات نہیں تھی کیونکہ ہر مومن کا یہ حق ہے کہ وہ چار عورتوں سے بیک وقت متمتع ہو، جب کہ اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ آپؐ کی صورت میں عدلِ کامل کا حصول ایک یقینی بات تھی۔

محدود انسانی پیغاموں کے حاملین کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کو روٹی، کپڑے اور اپنی قوموں کے مسائل تھکاوٹ کا شکار کردیتے ہیں۔ وہ کچھ دیر کے لیے آرام لے کر اپنی فکری اور جسمانی قوتوں کو جمع کر کے پھر تھکا دینے والے کاموں کا آغاز کرتے ہیں۔ پھر اس شخص کا کیا حال ہوگا جو دنیا و آخرت اور سارے عالم اور ساری انسانیت کو عظیم تر الٰہی پیغام پہنچانے کا ذمہ دار بنایا گیا ہو؟ آپ خوب جانتے ہیں کہ اس کی قوم عرب نے اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا اور کیسا برتاؤ کیا!! ہم خود آپ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ جس شخص کی زندگی میں عیش و عشرت کا مقام یہ ہو کہ اس نے دنیاداری سے اس وقت کنارہ کشی کی جب وہ اپنے عنفوانِ شباب پر تھا، وہ کس طرح لذتوں کے دریا میں غرق ہوسکتا ہے، جب کہ وہ بوڑھا ہوچکا ہو؟

باقی پانچ بیویوں کے متعلقہ حالات ہمیں بتاتے ہیں کہ ان سے شادی کرنا ان ذمہ داریوں میں سے تھا جن کا آپؐ کو بوجھ اٹھانے کا حکم دیا گیاتھا تاکہ ان امور میں آپؐ کے اسوہ کی پیروی کی جاسکے اور ان میں بعض وہ حکمتیں اور دروس پوشیدہ تھے جن کو واقعات اور اعمال کی دنیا میں عملاً برپا کرنے کے آپ ذمہ دار بنائے گئے تھے تاکہ آپؐ کے مبارک ہاتھوں سے خیرقائم ہو اور ضرر کا خاتمہ ہو۔

 مثلاً آپؐ کی سیدہ زینب بنت حجش سے شادی کے معاملے ہی کو لیجیے۔ یہ شادی رسولؐ اللہ کے لیے ایک بڑا امتحان تھی۔ یہ اللہ کی جانب سے آپؐ کو ایک ایسے رسم و رواج کے خاتمے کے لیے کرگزرنے کا حکم تھا جو عربوں میں رائج تھا۔

عربوں کے ہاں منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا سمجھا جاتاتھا اور اس کی منکوحہ حقیقی بہو۔اللہ اس رسم کو ختم کرنا چاہتا تھا اور یہ اسی صورت ممکن تھا کہ آپ خود اپنے اسوہ سے لوگوں کے درمیا ن ایک نمونہ قائم کر جائیں۔اسی طرح پہلے ان کی زید سے شادی کروائی تا کہ غلاموں کی عزت قائم ہو اور یہ ثابت ہو سکے کہ اسلامی معاشرے میں ان کا مقام برابر ہے اور کسی کو حسب نسب کی بنا پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔

‘‘زینب’’ آپؐ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ آپؐ نے ان کی شادی زید بن حارثہ سے کرنا چاہی لیکن ان کو یعنی زینبؓ کو یہ رشتہ ناپسند تھا۔ زینبؓ کے لیے رسولؐ اللہ کے حکم پر عمل کرنے کے سوا کوئی او رراستہ نہیں تھا۔ آپؐ کا مقصد حسب و نسب پر فخر کو چکنا چور کرنا تھا اور یہ بتاناتھا کہ ایک غلام ایک اعلیٰ ترین حسب و نسب کی لڑکی سے شادی کر سکتا ہے۔ وہ راضی تو ہوگئیں لیکن ان کے دل میں کھٹک باقی تھی۔

جب زیدؓ نے زینبؓ سے ازدواجی رشتہ قائم کیا تو انھوں نے زینبؓ کو اپنے آپ میں بے رغبت پایا۔ وہ اپنا جسم تو ان کے حوالے کردیتیں مگر ان کو لطف اور عزت و احترام سے محروم رکھتی تھیں۔ اس بات نے ان کی مردانگی کو ٹھیس پہنچائی اور انھوں نے ان سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ نبیؐ بھی دونوں کے درمیان صلح آشتی کی کوشش فرمایا کرتے تھے، مگر اس کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا تھا۔

اس صورت میں اللہ نے اپنے نبیؐ پر وحی نازل فرمائی کہ وہ زیدؓ کو اجازت دے دیں کہ زینبؓ کو طلاق دے دیں اور یہ کہ آپؐ خود عدت پوری ہونے کے بعد ان سے نکاح کریں۔وحی نے آپؐ کو اس بات پر مجبور کیاکہ آپؐ زیدؓ کی اس رغبت کو نافذ کریں کہ وہ اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کر لیں اور آپؐ کو اس امر کا مکلف کیا کہ آپؐ ان سے ، زینبؓ سے شادی کرلیں تا کہ معاشرے میں یہ امر بالفعل نافذہو جائے کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہوتا۔    باقی رہیں وہ دوسری خواتین جن سے رسولؐ اللہ نے رشتۂ ازدواج قائم کیا تھا، تو وہ اپنے حسب نسب کے اعتبار سے اتنی اُونچی حیثیت کی مالک تھیں کہ ان کا شمار شہزادیوں میں کیا جاسکتا ہے۔ جب وہ داخلِ اسلام ہوئیں تو ان کے اطراف کچھ ایسے حالات اور احوال تھے جن کو کوئی دعوت کا علَم بردار نظرانداز نہیں کرسکتا تھا۔

جہاں تک اُم حبیبہؓ بنت ابی سفیان کا تعلق ہے تو وہ قریش کے سردار اور قائد کی صاحبزادی تھیں۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے باپ اور اپنی قوم سے مخاصمت مول لے کر اسلام قبول کیااور گویا اپنی قوم کی ناک نیچی کردی۔ پھر انھوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اب ایسی عزت کی حامل اور قربانی کرنے والی عورت کا اگر شوہر فوت ہوجائے تو کیااسے یوں ہی ان لوگوں کے رحم و کرم پرچھوڑ دینا چاہیے تھا جو ان کی قدرومنزلت سے ناآشنائی کی وجہ سے ان کی عزت کو ٹھیس پہنچا تے ؟

نبیؐ نے ان کو اپنی بیویوں میں شامل کیا تاکہ ان کے مقام کی حفاظت کی جاسکے۔ علاوہ ازیں اس سے مقصود ان کی ان قربانیوں کی قدروقیمت کا اظہار کرنا بھی تھا جو انھوں نے راہِ خدا میں کی تھیں۔

صفیہؓ بنت حیی یہودیوں کے بادشاہ کی صاحبزادی تھیں۔ بنی اسرائیل اور اسلام کے درمیان کشمکش کے نتیجے میں ان کے والد، بھائی اور شوہر ہلاک ہوچکے تھے اور صفیہ تقریباً بے سہارا ہوچکی تھیں۔ وہ ایک سپاہی کے حصہ میں آئیں ۔ یہ سپاہی صرف یہی جانتا تھا کہ آپؓ ایک گرفتار شدہ عورت ہیں۔ اس کو ایک لونڈی ہونے کے ناطے یہ حق پہنچتا تھا کہ ان کے ساتھ جیسا سلوک چاہے روا رکھے۔ نبیؐ کادل آپؓ کی حالت ِ زار سے پسیجا اور آپؐ نے انؓ کو آزاد کیا اور آپؓ نے ان کے ٹوٹے دل پر رحمت کا مرہم رکھا اور آپؓ سے آپؓ کے ماضی کا لحاظ کرتے ہوئے شادی محض اس لیے کرلی کہ آپؓ کے دل میں فرحت مندانہ جذبات پھر سے موج زن ہوں، تو کیا اس کے بعد بھی آپؐ کو نشانِ ملامت بنایا جاسکتا ہے؟ جہاں تک جویریہؓ بنت الحارث کا تعلق ہے تو ان کے باپ بنی المصطلق کے سردار تھے۔ جنگ کے نتیجے میں ان کے قیلے کو بری طرح شکست ہوئی تھی۔ انؓ کا قبیلہ اس زبردست شکست وریخت کے بعد ذلت کا شکار ہونے والا تھا۔ نبیؐ نے شکست خوردہ سردار کی دل جوئی کی اور اس سے اس کی بیٹی سے شادی کے ذریعہ رشتہ قائم کرنا چاہاتاکہ اپنی اُمت کو یہ سبق سکھایا جاسکے کہ اپنے مغلوب و محکوم کی کس طرح عزت افزائی اور مدد کریں۔ پھر وہی کچھ ہواجو نبیؐ چاہتے تھے۔ یہ امرناممکن تھا کہ آپؓ کا سسرال__ مرد اور عورت، غلام رہیں ۔ اس قبیلے کے مرد اور عورت اس رشتہ کی وجہ سے آزادی سے سرفراز ہوگئے، کیونکہ مسلمانوں پر یہ بات شاق گزر رہی تھی کہ وہ اس قبیلے سے بدسلوکی کریں جس کی بیٹی سے انؓ کے نبیؐ نے شادی کی تھی۔

 حضور کی زندگی ایک ایسے شخض کی زندگی ہے جو دنیا سے بالکل بے رغبت ہو۔ آپؐ اپنے بارے میں خود یہ فرماتے ہیں: ‘‘میرا اس دنیا سے کیا لینا دینا؟ میں توایک ایسا شخص ہوں جو کسی درخت کے سایہ میں کچھ دیر کے لیے آرام کرتا ہے اور پھر اسے چھوڑ کر چل پڑتا ہے’’۔ایسے شخض کے بارے میں یہ تصور کرنا کہ اس لذت یا عیش کوشی کے لیے شادیاں کی ہو ں گی کیسی کم عقلی اور سفاہت کی بات ہے۔