ڈاکٹر عبدالرزاق خان سے ایک گفتگو

مصنف : محمد عبداللہ بخاری ، سید عمر فاران

سلسلہ : چھوٹے نام بڑے لوگ

شمارہ : نومبر 2008

معروف دانشور ، سماجی رہنما اور بہت سے فلاحی اداروں کے سرپرست جنا ب عبدالرزاق خان سے ایک گفتگو۔ اس گفتگو سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ نیکی اورفلاح عامہ کے کاموں سے دلچسپی نہ صرف یہ کہ ان کی صالح فطرت کا نتیجہ ہے بلکہ یہ ان کا خاندانی ورثہ بھی ہے۔ہماری دعا ہے کہ ان کے خاندان میں یہ مقدس ورثہ ہمیشہ قائم رہے۔اور اللہ کریم ڈاکٹر صاحب کی سرپرستی کو تادیر قائم رکھے۔اور اس کو ان کے لیے دنیا میں عزت ، عظمت اور صحت و عافیت کا ذریعہ بنائے اور آخرت میں نجات، بخشش اور بلندی درجات کا وسیلہ بنائے۔ (سوئے حرم)

بسم اللہ الرحمان الرحیم

سوئے حرم: آپ کی فلاحی سرگرمیوں کی وجہ سے بہت سے لوگ آپ کی نجی زندگی کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ اور ہمیں بھی امید ہے کہ آپ کی زندگی کے بہت سے گوشوں میں بہت سے لوگوں کے لیے روشنی کا پیغام ہو گا اس لیے گزارش ہے کہ اپنے خاندانی پس منظر اور ابتدائی ایام کے بارے میں کچھ بتائیے؟

ج: میرا نام عبدالرزاق خان اوروالد کا نام عبدالطیف خان ہے ۔ میری جائے پیدائش کٹنی ہے۔ جو کہ سنٹر ل انڈیا کی ایک جگہ ہے آجکل یہ مدھر پردیش کے نام سے موسوم ہے میری تاریخ پیدائش 14 ،اکتوبر 1935 ہے کٹنی میں بہت کم عرصہ گزرا ، اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے والد مرحوم کومیٹرک کے بعد الہ آباد جانا پڑا ۔ الہ آباد سے انٹر کے بعد انہوں نے علیگڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا ۔ 1924 میں والد مرحوم نے علیگڑھ یونیورسٹی سے فرسٹ ڈویژن میں گریجوایشن کی ۔اور 1926 میں انہوں نے ناگ پور یونیورسٹی سے قانون کی ڈگر ی لی۔ یہ وہ دن تھے کہ مسلمانوں کی بہت قلیل تعداد تعلیم کی طرف راغب ہوتی تھی۔ میرے والد صاحب ناگ پور یونیورسٹی کے پہلے مسلم لا گریجوایٹ تھے ۔1926 میں ایل ایل بی پاس کرنے کے بعد کٹنی آگئے اور وکالت شر وع کر دی ۔

سوئے حرم: کٹنی ناگ پور سے کتنی دور ہے؟

ج: میرا خیال ہے کہ یہ تقریباًساڑھے چار سو یا پانچ سو کلومیٹر دورہو گا۔ اب وہاں تمام ریاستوں کو دوبارہ Reorganise کیا گیا ہے تو ناگ پور اب مدھر پردیش میں نہیں بلکہ مہاراشٹر میں چلا گیا ہے۔

 سوئے حرم: اپنے دادا جان کی شخصیت کے بارے میں کچھ بتائیے؟

ج : میرے دادا مرحوم اس وقت کی کافی نمایاں سماجی شخصیت تھے ۔ وہ کٹنی ڈسٹرکٹ کارپوریشن کے چیئرمین تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے وہاں انجمن ہائی سکول کی بنیاد ڈالی ۔ مسلمان طالب علموں کی کفالت کرنے اور ان کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے سے ان کو خاص دلچسپی تھی ۔ کٹنی میں ہندوؤں کی بڑی اکثریت تھی اور ان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ وہ مسلمانوں کو نیچا کر کے رکھیں…… لیکن دادا جان اور اس کے بعد والد مرحوم نے جہد مسلسل کی جس کی وجہ سے وہاں مسلمانوں کا سکول بنا جو اب الحمد للہ ڈگری کالج بن چکا ہے ۔ میں نے بھی اس ادارے میں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی ۔ جہاں میرے دادا مرحوم کا مکان تھا وہاں دادا جان کے نام سے ایک گلی آج بھی موجود ہے …… رئیس حاجی امان خان سٹریٹ …… انہیں برطانوی حکومت کی طرف سے رئیس کا خطاب دیا گیا تھا، اس فلاحی کام کی بدولت جو انہوں نے کارپوریشن اورشہر کے لیے کیا تھا۔

سوئے حرم: ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں آپ کے دادا اور ان کی فیملی کے ساتھ کیا واقعات پیش آئے؟

ج: اصل میں میرے دادا اور ان کے والد اس جنگ آزادی کے بعد افغانستان سے ہجرت کر کے آئے تھے ۔ ہمارا تعلق غوری قبیلے سے ہے اگرچہ میں اپنے نام کے ساتھ غوری نہیں لکھتا ۔ انڈیا میں تجارت اور دوسرے اہم شعبوں میں سب پر ہندو چھائے ہوئے تھے لیکن دادا جان نے جہد مسلسل سے اپنا مقام بنالیا۔ان کا انتقال 1943 میں ہوا۔

سوئے حرم: اپنے والد صاحب کی معاشی جدوجہد کے بارے میں کچھ بتائیے ۔

ج: وکالت کے دوران میں والد صاحب کو ایسوسی ایٹڈ سیمنٹ کمپنی کی طرف سے بہت اچھی آفر ملی ۔ یہ ان کے لیگل ایڈوائزر ہو گئے۔والد صاحب پہلے مسلمان تھے جو اس کمپنی میں کسی اچھی پوسٹ پرفائز ہوئے ۔ 1938-39 میں والد مرحوم نے اس کمپنی کو جوائن کر لیا تھا ۔

غریب بچوں کودیکھ کر مجھے شدید احساس ہوتا تھا کہ ان کے پاس کپڑے نہیں ہیں تو میں اپنے کپڑوں کو خود ہی مسل ڈالتا تھا تاکہ شکنیں پڑ جائیں اور میں بھی انہی کی طرح نظر آؤں تاکہ ان بچوں کو کمتری کا احساس نہ ہو ۔

سوئے حرم: یہ فرم کہاں واقع تھی؟

ج : کٹنی سے تقریبا 45 کلومیٹر دور ایک جگہ ہے کیمور ، بہت خوبصورت جگہ ہے ، وادیاں ہیں پہاڑ ہیں ، وہاں ایک سیمنٹ فیکٹری تھی ، کیمور سیمنٹ فیکٹری جو کہ اس وقت ہندستان کی سب سے بڑی فیکٹری تھی ۔ کیمور میں جب بارش ہوتی تھی توہم کھیلنے کے لیے پہاڑوں میں جایا کرتے تھے ۔میرا بچپن یہیں گزرا۔

سوئے حرم: بچپن کی کچھ یادیں؟

ج : کیمور کے پہاڑوں میں پھل بہت ہوتے تھے ۔ ہمارا بنگلہ ایک وادی میں تھا۔ شام کو ہم پہاڑوں کی طرف نکل جایاکرتے تھے ۔ برسات کے موسم میں وہاں آبشار گرتی تھی جو کہ بالکل نیاگرافال جیسی تھی۔ میں نے جب نیاگرا فال دیکھی تو مجھے ایسے لگا جیسے میں کیمور پہنچ گیا ہوں۔کٹنی سے لے کر کیمورتک پختہ سڑک تھی ۔۴۵ کلومیٹر کے اس سفر کے دوران میں بہت خوبصورت وادیاں آتی تھیں ۔ پاکستان آنے تک میرا سارا بچپن کیمور میں گزرا ہے۔کیمور میں مسلمان بہت کم تھے اور ایک ہی مسجد تھی جو مقامی لوگوں نے بنائی تھی اور وہ بھی ہمارے گھر سے کافی دور تھی ۔ وہاں تانگے نہیں بلکہ سائیکل یا بگھی ہوتی تھی ۔ فیکٹری کے اندربھی تمام سہولیات میسر تھیں ۔ وہاں سبزہ بہت تھا۔ گھر دور دور ہوا کرتے تھے اور بڑے بڑے لان ہوتے تھے ۔ ایسا محسوس ہوتا تھا گویا مخمل کے قالین بچھے ہوئے ہوں۔ بہت ہی خوبصورت جگہ تھی وہاں شیر بھی ہوتے تھے ۔ ہم تین بھائی اور پانچ بہنیں تھیں۔ بڑی بہن کی شادی ہو چکی تھی ۔ باقی ہم سب بہن بھائی مسجد کے ساتھ سکول میں تعلیم حاصل کرتے تھے ۔ وہاں کے ہندوسکول مسلمان بچوں کو اردو نہیں پڑھاتے تھے ۔پاکستان آنے تک ہم اسی سکول میں پڑھتے رہے ۔ اس وقت میں شاید دوسری یا تیسری کلاس میں تھا ۔ درمیان میں کچھ عرصہ کے لیے ہم کٹنی بھی چلے گئے تھے جہاں ہم نے انجمن ہائی سکول میں ایک ڈیڑھ سال گزارا تھا۔ اصل میں والد صاحب کو السر کی شکایت تھی ان کے علاج کے لیے ہمیں کٹنی جاناپڑا تھا کیونکہ وہاں ڈسٹرکٹ ہسپتال تھا جبکہ کیمور میں یہ سہولت موجود نہیں تھی ۔ والد کے علاج کے بعد ہم پھر کیمور آگئے اور 1948 میں ٹرانسفر ہو کے پاکستان آگئے۔پاکستان میں ایسوسی ایٹڈ سیمنٹ کی دو فیکٹریاں تھیں ایک واہ میں اور دوسری روہڑی میں سکھر کے قریب۔کیمور میں جتنے بھی مسلمان ورکرز تھے سب کا ایک قافلہ یہاں منتقل ہو گیا تھا ۔ ACC نے اپنے مسلمان ورکرز کا بہت خیال رکھاکہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔ انہوں نے اپنے تمام مسلمان ورکرز کو یہاں پاکستان میں اپنی سیمنٹ کمپنیز میں منتقل کر دیا کچھ واہ چلے گئے اور کچھ روہڑی میں آگئے ۔

1973 میں میرے والد کا انتقال ہو گیا کینسر کی وجہ سے اور 1975 میں میری والدہ کا بھی انتقال ہو گیا۔ وہ عشاء کی نماز پڑھ رہی تھیں ، سجدے میں گئیں تو ان کا انتقال ہو گیا۔ باہر رہنے سے مجھے سب سے بڑا دھچکا یہی لگا کہ میں ان دونوں کے جنازوں میں شرکت نہ کر سکا کیونکہ سعودی عرب میں Exit ویزہ کا proedure بہت لمبا ہے ۔ ویزہ ملنے میں ایک ہفتہ لگ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے میں اپنی تین بہنوں کی شادیوں میں بھی شرکت نہیں کر سکا۔ اسی وجہ سے میں نے استعفی دے دیا۔

سوئے حرم: آپ پاکستان کیسے آئے؟

ج: ستمبر یا اکتوبر 1948 میں ہم ٹرین کے ذریعے ACC کی سیکورٹی میں کٹنی سے بمبئی آئے وہاں سے گوارکہ گئے جہاں سے بحری جہاز کے ذریعے پاکستان آگئے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم بہت سہولت سے پاکستان آگئے تھے۔ہم بمبئی سے اس لیے نہیں آئے کیونکہ ان دنوں بمبئی اور احمد آباد میں بہت کشت وخون ہو رہا تھا ۔ سینٹرل انڈیا واحد جگہ تھی جہاں مسلمانوں کو بہت کم نقصان پہنچا۔

سوئے حرم: ACC کس کی کمپنی تھی؟

ج: یہ پرائیویٹ کمپنی تھی جس کے ڈائریکٹرز میں سر سکندر حیات بھی تھے اس کا ہیڈ آفس بمبئی میں تھا ۔

سوئے حرم: پاکستان آنے کے بعد آپ نے کہاں سے تعلیم حاصل کی؟

ج: 1948 میں پاکستان آنے کے بعد ہم سب نے ریلوے ہائی سکول سکھر میں داخلہ لیا۔

سوئے حرم: پاکستان ہجرت کرنے کا احساس کیسا تھا؟

ج: ہم اس وقت بہت چھوٹے تھے ، ہمیں بالکل اس چیز کااحساس نہیں تھا کہ ہم ہمیشہ کے لیے یہاں سے جا رہے ہیں اور نہ ہی ہمارے والدین نے ہمیں ایسا احساس دلایا ، ان کا خیال تھا کہ ہم تھوڑے عرصے کے لیے جا رہے ہیں جونہی حالات اچھے ہوں گے ہم لوٹ آئیں گے۔

سوئے حرم: پاکستان آنے کے بعد ایک نئے سکول کا احساس کیسا تھا؟

ج: روہڑی میں سکول نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے سکھر ہائی سکول میں داخلہ لیاتھا جو کہ سکھر ریلوے سٹیشن کے قریب ہے ۔ یہاں زیادہ تر مہاجرین ہی تھے۔اساتذہ بہت لگن اور شفقت سے پڑھاتے تھے ۔ میں ساتویں یا آٹھویں کلاس میں تھا جب ہم وہاں سے شفٹ کر کے اسلامیہ ہائی سکول سکھر چلے گئے تھے کیونکہ وہاں کے اساتذہ اچھے تھے اور میرے بہنوئی بھی اسی سکول میں جغرافیہ کے استاد تھے ۔ 1953 میں میں نے اسی سکول سے میٹرک کیا۔

سوئے حرم: سکول کی تعلیم کے بارے میں کچھ بتائیے؟

ج : جب ہم روہڑی سے سکھر جایا کرتے تھے تو ہمیں کمپنی کی بس روہڑی ریلوے سٹیشن پر چھوڑتی تھی جہاں سے ریلوے کی طرف سے ایک سٹوڈنٹ کوچ چلتی تھی جوریلوے کے سٹوڈنٹس کو ریلوے ہائی سکول لے کر جایا کرتی تھی ۔ہم بس سے اترکر ریل میں سوار ہو کر سکول پہنچتے تھے ، اسی طرح واپس ہوتے تھے ۔ بعض اوقات اگر بس نہیں ملتی تھی تو پھر ہم تینوں بھائی ایک ہی سائیکل پر بیٹھ کر سکول جایا کرتے تھے ۔ سکول روہڑی سے پانچ یا چھ کلومیٹر دور تھا ۔ ہم سکھر کے پرانے پل کے اوپر سے گزر کر جایا کرتے تھے ۔ ہمارے سکول میں یونیفارم نہیں تھا ۔بہت غریب بچے ہوا کرتے تھے ۔ ہم پراللہ کی خاص عنایت تھی ، ہم عموماً نیکر میں جایا کرتے تھے اس وقت پتلون کا رواج نہیں تھا ۔ پتلون صرف کالج یا فنکشن وغیرہ میں پہننے کا رواج تھا۔غریب بچوں کودیکھ کر مجھے شدید احساس ہوتا تھا کہ ان کے پاس کپڑے نہیں ہیں تو میں اپنے کپڑوں کو خود ہی مسل ڈالتا تھا تاکہ شکنیں پڑ جائیں اور میں بھی انہی کی طرح ہو جاؤں تاکہ ان بچوں کو کمتری کا احساس نہ ہو ۔ مجھے ان دنوں سے ہی یہ بہت شدید احساس تھا کہ یہ بچے محروم کیوں ہیں؟ ان دنوں ہمیں جیب خرچ صرف چار آنے ملتے تھے ۔ ہمیں ایک روپیہ ملتا تھا جن میں سے چار چار آنے ہم تینوں بھائیوں کے ، چار آنے تانگے کے ۔ اس زمانے میں پل پار کرنے کے لیے ایک پیسے کا ٹکٹ ہوتا تھا تو ہم وہ ایک پیسہ بھی بچانے کے چکر میں ہوتے تھے (ہنستے ہوئے ) تو وہ پیسے بچا کر ہم لنچ ٹائم میں آلو چنے اور اس طرح کی چیزیں وغیرہ کھاتے تھے ۔

سوئے حرم: کالج کی تعلیم آپ نے کہاں سے حاصل کی؟

ج: میٹرک کے بعد میں حیدر آباد چلا گیا جہاں میں نے فرسٹ ائیر میں گورنمنٹ کالج حیدر آباد میں داخلہ لے لیا ، یہ اس وقت بہت خوبصورت کالج تھا ، باکل نہر کے اوپر۔ اس وقت کالج میں ہوسٹل نہیں ہوتا تھا ، طالب علم بھی بہت کم ہوتے تھے، میرے والد صاحب کے ایک دوست تھے جنہوں نے ہمیں entertain کیا ، مجھے اور میرے ایک دوست تھے محمد حنیف ہم دونوں کو ۔ ایک ماہ ہم والد صاحب کے دوست کے گھر میں ٹھہرے ۔ محمد حنیف کے ایک عزیز کا وہاں ہوٹل تھا اور ساتھ آٹو ورکشاپ بھی تھی ۔ ہمیں ہوٹل میں بھی جگہ نہ ملی تومجبوراً ہم ہفتہ یا دس دن گیراج میں سوئے ۔صبح ہم کالج جاتے ، دوپہر کوہوٹل میں کھانا کھاتے اور شام کو گیراج میں سو جاتے ایک ہفتہ بعد محمد حنیف کے چچا یا ماموں جو بھی تھے انہوں نے اپنے ہی ہوٹل میں ہمیں ایک کمرہ 30 روپے ماہانہ پر دے دیا۔ اس وقت تیس روپے بھی بہت بھاری پڑتے تھے ۔ پھر محمد حنیف کے ایک عزیز پنجاب آرہے تھے تو ہم کچھ عرصہ ان کے مکان میں بھی رہے تو گویا ہماری خانہ بدوشوں جیسی زندگی تھی ڈیڑھ سال کے لیے۔ لیکن اس زندگی سے بہت کچھ سیکھا ۔ سب کچھ خود ہی کرنا پڑتا تھا ۔ مجھے پچاس روپے ملتے تھے جو کہ بہت ہوتے تھے ۔ میڈیکل کالج کی فیس دس یا بارہ روپے ہوتی تھی ۔ ایم بی بی ایس فائنل کی فیس سترہ روپے تھی ۔ 1960 میں میں نے ایم بی بی ایس کیا پھر 1960 کے درمیان سے لے کرڈیڑھ سال کے لیے ہاؤس جاب کیا۔

سوئے حرم: آپ نے عملی زندگی کا آغاز کب، کہاں اور کیسے کیا؟

ج: سعودی عرب سے ایک Delegation آیا تھا پاکستانی ڈاکٹروں کو hire کرنے کے لیے ۔ اس کے ذریعے ہم پانچ دوست سعودی عرب گئے تھے ۔ یہ 27 جون 1963 کا دن تھا۔ اس وقت پی آئی اے نہیں بلکہ سعودی ائیر لائن کی صرف ایک ہی پرواز چلتی تھی کراچی سے ریاض کے لیے۔ اس کے علاوہ کوئی اور فلائٹ سیدھی پاکستان سے سعودی عرب نہیں جاتی تھی ۔

سوئے حرم: سعودی عرب میں ملازمت کا حال بتائیے؟

ج : اس زمانے میں ریاض کا ہوائی اڈہ بہت چھوٹاسا تھا ۔ ہر کوئی اندر آجا سکتا تھا ۔ ہمیں وہاں وزارت صحت کا پروٹوکول آفیسر لینے آیا ہوا تھا ۔ ایک ہفتہ ہم ائیر پورٹ کے قریب ہی ایک ہسپتال میں رہے ۔ اس دوران میں ہم وزیر صحت سے بھی ملے ۔ ان کا اتنا پروٹوکول نہیں ہوتا تھا ، کسی بھی وقت، کہیں بھی، کسی کو بھی مل سکتے تھے ۔ پھر وہاں سے ہمیں مختلف سمتوں میں روانہ کر دیا گیا۔ مجھے اور ڈاکٹر عبدالرشید کو نارتھ میں بھیجا گیا۔ نارتھ کا علاقہ غریر کہلاتا ہے اور یہ دارالحکومت ہے منطقہ شمالیہ کا ۔ ہم دونوں کو غریر میں Appoint کیا گیا تھا۔ غریرتبوک کے نارتھ میں ہے۔ یہ شام سے قریب ہے۔ غریر کے بعد القریاۃ آتا ہے اور پھر اس کے بعد شام کا علاقہ ہے۔غریرمیں اس وقت صر ف ڈکوٹا ہی فضائی سہولت تھی یا پھر ٹرک کے ذریعے صحرا عبور کرنا ہوتا تھا ۔ ہمیں ڈکوٹا کے ذریعے جدہ سے غریر بھیجا گیا ۔ غریر پہنچنے میں ساڑھے سات گھنٹے لگے۔اتفاقاً پائلٹ پاکستانی تھے ۔ ایک کا نام کیپٹن خان تھا جو کہ بہت منحنی سے تھے بمشکل پانچ فٹ کے ۔یہ بعد میں سعودی ائیر لائن میں چیف پائلٹ ہوئے ۔ ان سے بعد میں بہت ملاقاتیں ہوتیں ۔ دوسرے عبدالکریم تھے ۔ غریر میں ہم صرف تین چار د ن رہے اس کے بعد ہم دونوں کو مختلف جگہوں پر بھیج دیا گیا۔ مجھے انہوں نے لینہ بھیج دیا جو کہ بالکل ‘‘کالا پانی’’ تھا۔ بہت ویران جگہ تھی۔ وہاں تین سو کلومیٹر تک کوئی بندہ نہیں نظر آتا تھا ۔ مجھے ایک ڈسپنسری میں تعینات کیا گیا تھا۔ میں پہلا ڈاکٹر تھا جو وہاں گیا۔ غریر سے چھ گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم لینہ پہنچے۔ غریرسے آگے لینہ کے لیے کوئی سڑک بھی نہیں تھی صرف صحرائی راستہ بنا ہوا تھا ۔ میں بہت دل شکستہ ہو گیا کہ میں یہاں کیوں آیا لیکن مجبوری تھی ۔ والد صاحب ریٹائر ہونے والے تھے اور مجھ سے سب امید کرتے تھے کہ میں سب کو سپورٹ کروں گا اور یہ میری خواہش بھی تھی کہ سب کو سپورٹ کروں۔ وہاں مشکل سے سو ڈیڑھ سو مکان تھے ۔ ان لوگوں کے لیے یہ ڈسپنسری بنائی گئی تھی اور ساتھ میں خانہ بدوشوں کے لیے بھی۔ وہاں پر گرمیوں میں کافی بدو جمع ہو جاتے تھے جو عراق وغیرہ سے بھی آتے تھے اور وہ اس لیے وہاں جمع ہوجاتے تھے کہ لینہ واحد جگہ تھی جہاں انہیں پانی ملتا تھا ۔ اس وقت وہاں چالیس پچاس کنویں تھے اور ان کا دائرہ پانچ فٹ سے زیادہ کا نہیں ہو گا۔ وہ ایسے لگتے تھا جیسے کسی نے Cylinderical shape میں کھدائی کر دی ہو ۔ کنووں سے مشکیزوں کے ذریعے پانی نکالا جاتا تھا اور وہی پانی ہم کو پینا ہوتا تھا ۔ وہاں پانی کی صفائی کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا ۔ کھانے کو کچھ نہیں تھا میں تو ایک ہفتہ بھوکا ہی رہا ۔ غریر سے کچھ بسکٹ وغیرہ لے گیا تھا وہاں پر ڈسپنسری کے سٹاف نے چاول بنائے ہوئے تھے جس میں بے شمار کنکر اور ریت تھی اور اس کے اوپر مرغی ڈالی ہوئی تھی۔ مجھے ابکائی آرہی تھی اور وہ کھایا نہیں جا رہا تھا ۔ وہ لوگ ہر سالن زیتون میں پکاتے تھے جو کھایا نہیں جاتا تھا لیکن اب مجھے زیتون بہت پسند ہے۔ جب ایک ہفتے بعد بھوک بہت زیادہ ہو گئی تو میں نے کہا مجھے آٹا لا کر دو ۔ میں نے آٹا گوندھا پہلے تو گوندھنا نہیں آتا تھا لیکن کسی طرح سے گوندھ لیا ۔ آٹا میں نے سرجیکل ٹرے میں بنایا اور اسے بوتل سے بیلا۔ میں نے والد مرحوم کو خط لکھا کہ میرے ساتھ یہ معاملہ ہو رہا ہے تو انہوں نے مجھے ایک کتاب بھیجی شاہی دستر خوان۔ اس زمانے میں خط بھی ایک مہینے بعد ملا کرتے تھے ۔ پاکستان سے ایک اینٹی لوکس ٹیم کویت میں آیا کرتی تھی اس ٹیم کا مرکز لینہ تھا ۔ مجھے لوگوں نے کہا پریشان نہیں ہونا یہاں پر وہ ٹیم آتی ہے اس میں پاکستانی ہوتے ہیں۔ ایک دن میں سویا ہوا تھا کہ لوگوں نے مجھے اٹھا دیا۔ میں نے کہا کیا ہوا تو انہوں نے کہا جیپ آرہی ہے اس میں زکریا ہے۔(زکریا پاکستانی تھے ) جب گاڑی آئی تو میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جا کر زکریا سے لپٹ گیا حالانکہ میں پہلے کبھی ان سے نہ ملا تھا، بس یہ احساس تھاکہ یہ پاکستانی ہیں۔ یہ سب تنہائی کی وجہ سے تھا ۔ تب مجھے احساس ہواکہ تنہا آدمی کے جذبات و احساسات کیا ہوتے ہیں۔ ہم بہت اچھے دوست بن گئے تھے اور پھر مجھے زکریا کے ذریعے سے خط ملنے شروع ہو گئے۔ دو تین ہفتے میں مجھے خط مل جاتے تھے ۔ وہ اپنے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں بھی لے آتا تھا اور اس کے ساتھ باورچی بھی ہوتا تھا۔ میں نے تقریباً سوا سال لینہ میں گزارا۔ لینہ کے بعد پھر میں اواگیلہ آگیا۔ وہاں مجھے ایک روز معلوم ہوا کہ میرے دوست خالد آئے ہوئے ہیں۔خالد نے منطقہ شمالیہ کے ڈائریکٹرسے کہا کہ میں جب تک ڈاکٹر عبدالرزاق سے نہیں ملوں گا آگے نہیں جاؤں گا ۔ وہ ڈائریکٹر کے ڈرائیور کے ساتھ مجھے ملنے آیا تو اس نے مجھے نیچے سے ایک مخصوص آواز دی تو میں حیران ہو گیا ۔ میں نے نیچے دیکھا تو وہ کھڑا تھا تو میں اس سے لپٹ گیا ۔ پھر اگلے دن ہم دونوں اپنے دوست نورالدین سے ملنے گئے یوں ایک سلسلہ چل نکلا۔ خالد مرحوم ایک سال سے زیادہ وہاں نہیں رکے ۔ وہ بصرہ چلا گیا تھا کیونکہ اس کے سسرال وہاں ہوتے تھے پھر وہ وہاں سے قطر آگیا ۔

            مئی 1964 میں میری شادی ہو گئی ۔ میں اپنی بیگم کو بھی ساتھ لیے گیا۔ جدہ سے جب ہم ڈکوٹا میں روانہ ہوئے تو ان کی طبیعت بہت خراب ہوئی ایسی کہ میں بتانے سے قاصر ہوں ۔ اواگیلہ میں درجہ حرارت بہت تھا اور پانی بھی نہیں تھا۔ ہمارا ہاؤس بس دس ضرب چھ کا تھا۔ باقی بہت بڑا open air صحن تھا۔ بجلی وغیرہ بھی نہیں ہوتی تھی۔ ہم چادر پانی میں ڈبو کر اوپر لے لیتے تھے۔ اس طرح ہم نے ڈیڑھ سال وہاں گزارا۔اسی دوران 1966 میں میرا بڑا بیٹا ریحان پیدا ہوا بچے کی پیدائش کے ڈیڑھ دو ماہ بعد ہی مجھے اپنی بیگم کو واپس بھیجنا پڑا کیونکہ اکیلے بچہ پالنا بہت مشکل کام تھا۔ وہاں سے کسی کو پاکستان بھیجنا بھی بہت مشکل مرحلہ تھا ۔ کیونکہ یا تو جدہ جانا پڑتا تھا یا دمام اور دمام کی مسافت دو دن کی تھی اواگیلہ سے ہم سبزی یا پھل کے ٹرک پر آگے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ کر دمام آتے اور پھر وہاں سے میں انہیں رخصت کر کے واپس اواگیلہ آجاتا تو یہ سال میں تین چار مرتبہ کرنا پڑتا تھاکیونکہ بیگم ہر تین چار ماہ بعد کہتی تھیں کہ میں جا رہی ہوں اور مجبوراً بھیجنا پڑتا تھا ۔ وہاں مریض کافی ہوتے تھے کیونکہ مین روڈ پر ہونے کی وجہ سے گھر بھی زیادہ تھے اور بدو بھی زیادہ تھے۔میں وہاں اکیلا میڈیکل آفیسر تھا اور پھر ایمرجنسی بھی آجاتی تھی ۔ میرے سا تھ فلسطینی اور مصری نرسنگ سٹاف ہوتا تھا وہ مجھے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ترجمہ کر دیتے تھے۔ اواگیلہ آکر نسبتاً میری زندگی کافی آسان ہو گئی تھی کیونکہ مجھے بیروت اور رفع سے چیزیں مل جاتی تھیں۔ سب سے بڑا مسئلہ بال کٹوانے کا تھا ۔ بال کٹوانے کے لیے ڈیڑھ سو کلومیٹر دور جانا پڑتا تھا ۔ ایک دفعہ میرے بال کندھوں تک آگئے ، گرمی سے اور خارش سے برا حال تھا لیکن ڈائریکٹر جانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا کیونکہ اور کوئی ڈاکٹر نہیں تھا۔ پوسٹل ڈیپارٹمنٹ کا ایک شخص محمد تھا اس نے مجھے کہا کہ تم غصے میں کیوں ہو تو میں نے اسے بتایا کہ مندوب (ڈائریکٹر) آنے نہیں دیتا تو اس نے کہا میں تمہارے بال کاٹ دوں گا ۔ اس نے کپڑے کاٹنے والی قینچی سے میرے بال کاٹے ۔حج کے دنوں میں ڈاکٹروں کو منی، عرفات ، مکہ اورمدینہ میں بھیجا جاتا تھا جس میں میرا بھی نام آگیا اور ایک ماہ کے لیے میری پوسٹنگ مدینہ منورہ ہو گئی ۔ اس وقت مسجد نبوی چھوٹی سی تھی اور گندگی بھی بہت ہوتی تھی۔ لوگ حرم کے اندر ہی تھوک دیتے تھے۔ مسجد نبوی کے اندر میری ملاقات ایک عرب سے ہوئی جو خوش قسمتی سے پروٹوکول آفیسر تھا ۔ میں نے اسے اپنا مسئلہ بیان کیا کہ میں بہت مشکل میں ہوں اورمیں کسی شہر میں ٹرانسفرکروانا چاہتا ہوں ۔ حج کے فوراً بعد میری چھٹی شروع ہو جاتی تھی۔ اس نے مجھے کہا کہ چھٹی سے واپس آکر ریاض میں مجھ سے ملنا میں کوشش کروں گا تمہارے لیے۔ میں واپسی پر اس کے پاس گیا۔ وہیں مجھے شاہ فیصل کو دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ بہت سادہ آدمی تھے۔ ان کی صرف ایک سرخ کار تھی اور ساتھ میں گارڈ تھے اور کوئی بھی نہیں تھا ۔ وہ آرام سے آئے اور آرام سے اپنے دفتر میں چلے گئے۔ اس دوران پروٹوکول آفیسر نے ڈاکٹر ہاشم مرتضی سے بات کر لی تھی جو کہ وزیر تھے ۔ اگلے دن میں اپنی درخواست لے کران کے پاس گیا ۔ وہاں بہت سادہ نظام تھا۔ آپ جس کے پاس چاہیں چلے جائیں کسی Appointment کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ میری ٹرانسفر جدہ ہو گئی اور میں ایک ہفتہ بعد 1967 میں جدہ آگیا ۔ 1967 سے لے کر 1983 تک میں جدہ میں رہا۔ جدہ کی بہت بری صورت ہوتی تھی اس زمانے میں ۔ گندگی بہت تھی ، گٹر ابلتے تھے لوڈ شیڈنگ بہت زیادہ ہوتی تھی ۔ سڑکیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ ٹیلی فون کا انتظام بھی بہت ناقص تھا ۔ ٹیلیفون ملانے کے لیے گھنٹہ گھنٹہ انتظار کرنا پڑتا تھا اورپھر بھی نہیں ملتا تھا۔

            1970 سے حالات بہتر ہونا شروع ہو گئے تھے ۔ میرے خیال میں شاہ فیصل اور جمال عبدالناصر دو ایسے رہنما تھی جو مسلمانوں کو صحیح منزل پر لے جا سکتے تھے۔ جمال عبدالناصر صرف اپنے نظریات یعنی سوشلسٹ ہونے کی وجہ سے وہ کام نہ کر سکا جو شاہ فیصل نے کیا ۔ اگر وہی چیز جو شاہ فیصل اورمہاتیر محمد نے دی اگر وہ وہی چیز جمال عبدالناصر بھی دیتا تو آج مصر بہت مختلف ہوتا اس کے بعد انور سادات آگیا اور پھر حسنی مبارک جس کی وجہ سے مسلم امہ کو بہت نقصان ہوا۔ اس کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو بڑا لیڈر تھا۔ اس سے ملا بھی ہوں اور اس کی تقریریں بھی سنی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب وہ وزیرخارجہ تھے سعودی وزیر صحت کو میری ٹرانسفر کے لیے خط بھی لکھا تھا ۔ اس کے بعد آئل بوم شروع ہوا اور پھر سعودی عرب نے جو تر قی کی وہ ناقابل یقین ہے ۔ 1963 میں بھی جب میں گیا تھا تو لاء اینڈ آرڈر، تعلیمی نظام اور صحت پر انہوں نے بہت توجہ دی ہوئی تھی۔ اس وقت بھی بالکل امن وامان تھا۔ کوئی جرم نہیں ہوتا تھا۔ ان کا ریاستی نظام اس وقت بھی بہت شفاف تھا۔ جس کی وجہ سے وہ بہت آگے نکل گئے۔ یہاں بھی میں نے بہت سے نشیب وفراز دیکھے لیکن وہ تین سال جو میں نے کالے پانی میں گزارے تھے ان کی تلخی نہیں بھولتی۔ میں بیس سال سعودی عرب رہا اور ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیلتھ کے طور پر ریٹائر ہوا۔ ریٹائرمنٹ میں نے خود ہی لے لی تھی کیونکہ بچے بڑے ہو گئے تھے اوران کی کالج کی تعلیم شروع ہو گئی تھی جس کی وجہ سے اقامہ کا مسئلہ ہوتا تھا ۔ اس وقت سعودی عرب اپنے عروج پر تھا اور مجھے میرے ڈائریکٹر جنرل نے کہا بھی کہ تم کوئی اچھا قدم نہیں اٹھا رہے لیکن میں نے استعفی دے دیا ۔ 1973 میں میرے والد کا انتقال ہو گیا کینسر کی وجہ سے اور 1975 میں میری والدہ کا بھی انتقال ہو گیا۔ وہ عشا کی نماز پڑھ رہی تھیں ، سجدے میں گئیں تو ان کا انتقال ہو گیا۔ باہر رہنے سے مجھے سب سے بڑا دھچکا یہی لگا کہ میں ان دونوں کے جنازوں میں شرکت نہ کر سکا کیونکہ سعودی عرب میں Exit ویزہ کا proedure بہت لمبا ہے ۔ ویزہ ملنے میں ایک ہفتہ لگ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے میں اپنی تین بہنوں کی شادیوں میں بھی شرکت نہیں کر سکا۔ اسی وجہ سے میں نے استعفی دے دیا۔

اگر آپ خود کچھ نہیں کر پارہے یا کر نہیں سکتے توپھر آخری درجہ ہے کہ کم از کم دوسروں کو تو کام کرنے دیں ان کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کی حوصلہ شکنی بھی نہ کریں۔​​​​​​​

سوئے حرم: پاکستان واپسی کے بعد کیا حالات پیش آئے ؟

ج: 1980 میں کراچی میں ،میں نے ہسپتال بنالیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں اپنے والد کا نام زندہ رکھنا چاہتا تھا ۔ میں ہسپتال بنا کر چلا گیا تھا۔ میری بیگم ہسپتال کو دیکھتی تھیں اور ساتھ میں ان کے بھائی ۔ وہ کچھ عرصہ یہاں آجاتی تھیں اور کچھ عرصہ وہاں ۔ وہ بہت ذہین اورقابل خاتون ہیں۔ بہت کٹھن مراحل میں بہت آسانی سے گزر جاتی ہیں ۔ جذباتی بالکل نہیں ہوتیں۔ غصے کو بھی کنٹرول میں رکھتی ہیں۔ اور دوسروں کے ذہن بڑی عمدگی سے پڑھ لیتی ہیں اور انہوں نے بہت عمدگی سے یہ سارا سیٹ اپ چلایا۔ 1983 میں میں واپس آگیا اور ہسپتال سے منسلک ہو گیا۔ ستمبر 1995 میں میں نے ہسپتال بند کر دیا۔

س: ہسپتال بند کرنے کی وجہ کیا تھی؟

ج : اس کی وجہ یہ تھی کہ 1988 سے کراچی کے حالات بہت خراب ہو گئے تھے اور کئی سال تک خراب رہے لیکن 95 میں کچھ بہتر ہونا شروع ہو گئے تھے اور لوگوں نے مجھے اصرار کیا کہ میں یہاں سے نہ جاؤں لیکن 1993 میں میرا بائی پاس ہوا۔میرا کوئی بچہ بھی ہسپتال بزنس میں interested نہیں تھا ۔ بچوں کو وقت نہیں دے پاتے تھے جس کی وجہ سے وہ بہت Frustrated تھے۔ ریحان نے C.A اور A.C.M.A کر لیا تھا اس وجہ سے وہ تو اس فیلڈ میں آنہیں سکتا تھا جبکہ باقی بچے ابھی پڑھ رہے تھے ۔ کراچی کے حالات بہت گھمبیر تھے ۔ دودفعہ مجھ سے گن پوائنٹ پر گاڑی چھینی گئی ۔ پھر مجھے ذاتی طور پر دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں تھیں ۔ مجھے دھمکی دی گئی کہ ہمیں اتنے پیسے دیں جان بخشی کے لیے ورنہ آپ کو اڑا دیا جائے گا ۔ تب ہم نے ہسپتال بند کرنے کا فیصلہ کر لیا۔اس وقت میرے دوست ڈاکٹر عبدالماجد جو سی آئی اے میں ہوتے تھے انہوں نے میری بہت مدد کی اوروہ شخص پکڑا گیا تھا۔ ان حالات کی وجہ سے ستمبر 1995 میں ہم کراچی چھوڑ کر لاہور آگئے ۔ بچے تو اکتوبر میں آگئے تھے لیکن میں فروری 1996 میں آیا تھا ۔ اس کے بعد سے اب تک میں کنسٹرکشن کے بزنس میں اپنے بہنوئی کے ساتھ پارٹنر ہوں ۔

سوئے حرم: اب آپ زندگی میں اور کیا کرنا چاہتے ہیں؟

ج: وہی، جوکر رہا ہوں اورجومجھے کرنا چاہیے یعنی لوگوں کی فلاح و بہبود کا کا کام ۔

سوئے حرم: ویلفیئر کے کاموں میں آپ کب سے interested ہیں؟

ج: میرے ذہن میں ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ کس طرح نادار لوگوں کی مدد کی جائے ۔ جب میں جدہ میں تھا تب بھی میں ہمیشہ کرتا تھا ، پھر کراچی آنے کے بعد میں یہ کام کرتا رہا ۔ کراچی میں میں نے فاران انٹرنیشنل جوائن کی ہوئی تھی ۔ یہ تنظیم ویلفیئر کا کام کرتی ہے۔

س: آپ کے اندر ویلفیئر کا جذبہ پیداہونے کی وجہ؟

ج: جذبہ تومیرے اندر بچپن ہی سے تھا لیکن سعودی عرب کے زمانے نے اس جذبے کو اور ہوا دی کیونکہ وہاں کے بدوؤں کی زندگی بہت قابل رحم تھی ۔ وہ لوگ اللہ پر بہت توکل کرنے والے تھے ۔ ان کے بچے ان کے ہاتھوں میں دم توڑ دیتے تھے تو وہ روتے تک نہیں تھے بلکہ کہتے تھے من جانب اللہ کہ یہ اللہ کی امانت ہے چلی گئی ۔ حتی کہ ماں بھی نہیں روتی تھی۔ اتنا مضبوط اللہ پہ توکل ان کے علاوہ میں نے کسی میں نہیں دیکھا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فطرت کے بہت قریب ہیں۔

س: اس وقت آپ کون کون سے فلاحی اداروں کے ساتھ منسلک ہیں؟

ج: میں اس وقت متعدد فلاحی اداروں کے ساتھ منسلک ہوں۔ میں ‘آبرو’ کا صدر ہوں ۔ ‘اخوت’ سے منسلک ہوں ۔ اس کے علاوہ ‘مصعب سکول سسٹم’ کے ساتھ منسلک ہوں ۔ ‘حجاز ویلفیئر سوسائٹی’ اور‘ جناح ہسپتال ویلفیئر سوسائٹی’ سے بھی منسلک ہوں۔ اس کے علاوہ ‘فوکس پاکستان’ سے منسلک ہوں جو کہ فلاحی ادارہ تو نہیں لیکن ایک فورم ہے ۔ اس کے علاوہ ‘پاکستان فاؤنڈیشن فار ایڈوانسمنٹ فار انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی’ ہے ۔ میری سب سے زیادہ توجہ‘ اخوت’ اور‘ آبرو’ پر ہے ۔اخوت پر اس لیے کہ جو مائیکرو فنانسنگ وہ کر رہے ہیں اس کا بہت اچھا نتیجہ برآمد ہوا ہے ۔ہم اب تک تیس کروڑ روپے سے زائد کے قرضے دے چکے ہیں ۔ یہ بلاسود ہے ۔ اگر اس کو مزید پھیلایا جائے تو پاکستان سے غربت ختم ہوسکتی ہے۔

سوئے حرم: تعلیمی شعبے کے بارے میں آپ کا کیا خیا ل ہے؟

ج: ہمیں اس وقت صرف تعلیم کی نہیں بلکہ فنی مہارت کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک ہمارے پاس ٹیکنالوجی اور مہارت نہیں ہو گی ہم ترقی نہیں کر سکتے ۔ ہمیں نصاب بدلنا چاہیے۔ آرٹس اینڈ کرافٹ پہلی کلاس سے شامل ہونا چاہیے تاکہ جب بچہ میٹر ک کرے تو اس کے پاس کوئی ہنر بھی ہو جیسے پلمبنگ وغیرہ جیسے کوریا اور چین میں ہو رہا ہے ۔ پاکستان میں ٹیلنٹ بہت ہے لیکن ہمارے پاس مہارت نہیں ہے ۔

سوئے حرم: مصعب سکول سسٹم میں اس کی کوئی کوشش کی گئی ہے؟

ج: میں نے کوشش کی تھی لیکن میں کامیاب نہیں ہو سکا کیونکہ وہاں لوگ اس بات کی طرف زیادہ متوجہ نہیں۔ ان کے اہداف کچھ اور ہیں۔

سوئے حرم: صحت کے شعبے میں آپ کیا کر رہے ہیں؟

ج: اس حوالے سے میں جناح ہسپتال اور حجاز ہسپتال سے منسلک ہوں۔ حجاز ہسپتال جیسا ہسپتال پورے پاکستان میں نہیں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں داخلے سے لے کر exit تک سب فری ہے۔ آپ کسی کو بھی ریفر کر دیں کہ یہ مستحق ہے تو اس کا علاج سو فیصد فری ہے۔ یہ دو سو بیڈ پر مشتمل ہسپتال ہے۔ اس کے علاوہ جناح ہسپتال کا ایمرجنسی سینٹر پاکستان کاسب سے بڑا ایمرجنسی سینٹرہے ۔ اس کے ایمرجنسی سینٹر میں دو سو بیڈ ہیں۔ یہاں بھی علاج فری ہے۔ جناح ہسپتال میں ہروقت چوبیس گھنٹے ڈاکٹرز موجود ہوتے ہیں حتی کہ رجسٹرار اور پروفیسرز وغیرہ بھی۔ جناح ہسپتال بھی Donations ہی پر چلتا ہے اگرچہ گورنمنٹ بھی فنڈ دیتی ہے لیکن وہ بہت کم ہیں اور یہ ہسپتال بھی مخیر حضرات کے تعاون ہی سے چل رہا ہے۔

سوئے حرم: آپ کے خیال سے مذہب کے حوالے سے موجود جہالت کو کس طرح ختم کیا جاسکتا ہے؟

ج: میرے خیال سے قرآن کی تعلیم ہی صرف اور صرف اس کا حل ہے۔ جب تک ہم قرآن کو نہیں سمجھیں گے کچھ نہیں ہو گا۔ ہمارے معاشرے میں یہ بنیادی خامی ہے کہ قرآن کو نہ تو سمجھا جاتا ہے اورنہ ہی سمجھایا جاتا ہے ، اس خامی کوختم کرنا ہوگا ۔ میں ہمیشہ سے اس بات کا پرزور حامی رہا ہوں کو قرآن کریم کو ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جانا چاہیے۔ میری سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ میں نے اپنے بچوں کو سعودی عرب میں عرب سکول کے بجائے پاکستان کیمونٹی سکول میں پڑھایا جو میری سب سے بڑی غلطی ہے ۔ اگر میں نے یہ کیا ہوتا تو آج میرے بچوں کے لیے قرآن مجید سمجھنا آسان ہوتا ۔

سوئے حرم: آپ اپنے بچوں کی مذہبی تعلیم سے مطمئن ہیں؟

ج : بالکل نہیں، لیکن میرا بڑا بیٹا ریحان بہت Interested ہے اور میرا چھوٹا بیٹا عمر بھی ۔ میں اپنے چھوٹے بیٹے سے بہت مطمئن ہوں وہ بہت اچھے کردار کا حامل ہے اور ہر چیز میں خود ہی Exel کرتا ہے ۔ میرے خیال میں وہ ideal نوجوان ہے۔

سوئے حرم: آپ کے کتنے بچے ہیں ؟

ج: میرے چار بچے ہیں۔ تین بیٹے اور ایک بیٹی۔ بڑا بیٹا ریحان ہے اور پھر عمر اوراس کے بعد بیٹی ہے اور سب سے چھوٹا فیصل ہے۔ بیٹی ماشااللہ شادی شدہ ہے ۔ ریحان Chartered accountant ہے ، عمر اکنامکس میں پی ایچ ڈی کر رہا ہے جبکہ فیصل اپنا بزنس کر رہا ہے۔

میرے خیال میں شاہ فیصل اور جمال عبدالناصر دو ایسے رہنما تھی جو مسلمانوں کو صحیح منزل پر لے جا سکتے تھے۔ جمال عبدالناصر صرف اپنے نظریات یعنی سوشلسٹ ہونے کی وجہ سے وہ کام نہ کر سکا جو شاہ فیصل نے کیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی بڑا لیڈر تھا۔​​​​​​​

سوئے حرم: تعلیمی میدان میں آپ سب سے زیادہ کس استاد سے متاثر ہوئے؟

ج: لیاقت میڈیکل کالج میں ہمارے ایک پروفیسر ہوتے تھے پروفیسر محمد اسحاق ۔ میں نے ہمیشہ چاہا کہ ان جیسا بن جاؤں۔ کبھی انہیں غصے میں یا کسی سے بدکلامی کرتے نہیں دیکھا ۔ وہ بہت اعلی انسان تھے۔ اور مثالی استاد بھی۔ وہ بہت Humble اور Polite تھے۔

سوئے حرم: آپ ایک ڈاکٹر کے طور پر کبھی کسی مریض سے بھی متاثر ہوئے؟

ج: ایک بدو نے مجھے متاثر کیا۔ اس نے میرے ڈائریکٹر جنرل کوخط لکھا کہ کاش اس طرح کے ڈاکٹر ہمارے پاس اور بھی ہوتے ۔

سوئے حرم: آپ اپنی زندگی میں سب سے زیادہ کس سے متاثر ہوئے؟

ج: میں سب سے زیادہ متاثر اپنے والد سے ہوں۔ وہ بہت سخت تھے لیکن نظم وضبط کے بہت پابند ۔ وہ اپنی آخر زندگی میں بہت نرم مزاج ہو گئے تھے ۔ والد صاحب مجھ سے بہت قریب تھے ۔ جو بات وہ دوسروں کو نہیں کہنا چاہتے تھے مجھ سے کہتے تھے ۔ انہوں نے مجھے ہمت دی ، حوصلہ دیا۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے دوستوں سے ہمیشہ رابطے میں رہتے تھے ۔ ان کی اسی عادت کو میں نے بھی اپنایا ہوا ہے۔ میری زندگی میں آج تک کوئی بھی ایسا شخص جو کبھی بھی داخل ہواہو، میں ہمیشہ اس سے رابطے میں رہتا ہوں میری ڈائری بھری پڑی ہے ۔ میں سب کے ٹیلیفون نمبر محفوظ رکھتا ہوں اور سب کی خیریت دریافت کرتارہتا ہوں۔ میں ہمیشہ لوگوں کو فون کرتا ہوں اور لوگ حیران ہوتے ہیں ۔ میرے والد ہمیشہ اپنے دوستوں کو خط لکھا کرتے تھے حتی کہ ریٹائر ہونے کے بعد بھی وہ سب کو کارڈ بھیجا کرتے تھے ، ان کی خیریت وغیرہ پوچھتے تھے کیونکہ اس وقت ٹیلی فون کی سہولت میسر نہیں تھی ۔ میں نے اسی بات کو اپنایا ہے ۔ میں ا پنے بچوں کو بھی اسی بات کی تلقین کرتا ہوں ۔ یہ بہت اچھی چیز ہے اس سے رشتہ بھی قائم رہتا ہے اور عزت و احترام میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

سوئے حرم: آپ کے اندر‘ انا’ بالکل نہیں ، اس کی کیا وجہ ہے؟

ج: میں بالکل کھلا انسان ہوں۔ میں کس طرح خود کو دوسروں سے برتر ثابت کر سکتا ہوں ۔ لیکن اب لوگوں کے انا اور مغرور رویوں کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کیونکہ اس طرح آپ انسانیت کے تقدس کو پامال کرتے ہیں ۔ انا انسان کو زیب نہیں دیتی ۔انسان کو ہمیشہ عاجز رہنا چاہیے۔

س: سوئے حرم سے تعاون کرنے پر آپ کیوں آمادہ ہوئے ؟

ج: میں جب صدیق بخاری صاحب سے ملا تو ان کے خلوص ، محبت اور عاجزی سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور جب مجھے سوئے حرم کے مشن کا معلوم ہوا تومیں نے فیصلہ کر لیا کہ i am all for you ۔ میرے نزدیک ویلفیئر کے جو اہم ترین پروجیکٹ ہیں ،ان میں سوئے حرم بھی ہے ۔ میری حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ جہاں تک ہو سکے سوئے حرم کی اعانت بھی کروں ، اس کا پرچار بھی کروں اور اس کے بارے میں لوگوں سے ان کی رائے بھی معلوم کروں ۔

سوئے حرم: سوئے حرم کو بہتر بنانے کے حوالے سے آپ کی تجاویز؟

ج: میرے خیال میں ایسی تحریریں شامل ہونی چاہییں جو طویل نہ ہوں او رجن کا پیغام بہت واضح ہو کیونکہ آج کل لوگوں کے پاس وقت کی بہت قلت ہے۔ میرے خیال میں سوئے حرم کو مزید Lively کریں تاکہ سوئے حرم ایک ہی نظر میں اتنا جاذب نظر بن جائے کہ کوئی اس کو چھوڑ نہ سکے ۔ سوئے حرم میں ایسا مواد بھی ہونا چاہیے کہ جو والدین کو اپنے بچوں کی تربیت میں آسانی فراہم کرے۔جو اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پاتے ، وہ اپنے بچوں کو سوئے حرم سے کوئی چھوٹی سی چیز پڑھا دیں جو کہ ان بچوں کو اچھا انسان بنانے میں کام آئے۔

میری بیگم بہت ذہین اورقابل خاتون ہیں۔ بہت کٹھن مراحل میں بہت آسانی سے گزر جاتی ہیں ۔ جذباتی بالکل نہیں ہوتیں۔ غصے کو بھی کنٹرول میں رکھتی ہیں۔ اور دوسروں کے ذہن بڑی عمدگی سے پڑھ لیتی ہیں۔

سوئے حرم: آج کل والدین اپنے بچوں کو وقت نہیں دیتے ، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

ج: بچوں کو وقت ضرور دینا چاہیے ۔ قربت بہت ضروری ہے ۔ بعض جگہ والدین اور بچوں میں اتنا gap آگیا ہے کہ وہ کچھ عرصہ بعد ایک دوسرے کو پہچانتے بھی نہیں ۔ احترام اور عزت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ دوریاں بہت ہو گئی ہیں ۔ ان دوریوں کو کم کرنا چاہیے تاکہ یہ نظام قائم رہے اور یہ محبتیں یہ چاہتیں قائم رہیں ہمارے اور مغربی معاشرے میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ ہمارا خاندانی نظام ، ہماری روایات بہت مضبوط ہیں جبکہ مغربی معاشروں میں یہ خاندانی نظام بالکل تباہ ہو گیا ہے ۔ اس خاندانی نظام کو بچانا ضروری ہے۔ صرف پیسے کی مشین بن کر رہ جانا افسوس ناک ہے۔ صرف پیسہ کچھ نہیں ہوتا ۔ اصل چیز تو آپ کے جذبات ، احساسات ، آپ کا خاندان ہے۔ اگر آپ کا خاندان ہی نہ رہے توپھر آپ ان محلات ، اور پیسوں کا کیا کریں گے۔

س: سوئے حرم کے آغاز سے آج تک آپ سوئے حرم کے معیار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ج: میرے خیال میں معیار پہلے سے بہت بہتر ہورہا ہے ۔لیکن بہتری کی گنجایش تو بہر حال ہمیشہ رہتی ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رہنی چاہیے۔

سوئے حرم: آپ کیا خیال کرتے ہیں کہ ‘‘آواز دوست’’ میں جن چیزوں کو address کیا جاتا ہے کیا یہ وہی چیزیں ہیں جن کو address ہونا چاہیے؟

ج: جی بالکل ۔آواز دوست مجھے بہت پسند ہے اور میں اسے پڑھنے کی سب سے پہلے کوشش کرتا ہوں۔

سوئے حرم: سوئے حرم کے قارئین کے لیے کوئی پیغام ؟

ج: میرے خیال میں سوئے حرم کے خیر خواہ لوگوں کی اور جو اس مشن کو پسند کرتے ہیں ان کی ایک ویلفیرسوسائٹی بنانی چاہیے جو کہ جہالت کے خلاف کام کرے۔ میرا یہی پیغام ہے کہ آپ اپنی بساط کے مطابق جو کر سکتے ہوں کرتے رہیں حتی کہ کسی کی حمایت میں ایک لفظ بھی بعض اوقات بہت کچھ کر سکتا ہے۔ اگر آپ خود کچھ نہیں کر پارہے یا کر نہیں سکتے توپھر آخری درجہ یہ ہے کہ کم از کم دوسروں کو تو کام کرنے دیں ۔ان کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کی حوصلہ شکنی بھی نہ کریں۔