دین و دانش
نعت رسول اکرم ﷺ کے آداب
مولانا زاہد الراشدی 

 

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک ہم اپنی نسبت کے اظہار اور شناخت کے لیے کرتے ہیں کہ اس سے انسانی سوسائٹی کی رنگا رنگ تقسیم میں ہمارا تعارف ہو جاتا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت کے اظہار کے بعد مزید کسی تعارف کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ ہم یہ تذکرہ محبت کے اظہار کے لیے بھی کرتے ہیں کہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کا ذکر بھی اکثر زبان پر رہتا ہے۔ اور یہ ذکر کرنا نہیں پڑتا بلکہ خود بخود ہو جاتا ہے کہ محبت اپنا اظہار خود کرتی ہے اور اس کا اعلان کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس کے ساتھ ہم جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ برکتوں اور رحمتوں کے حصول کے لیے کرتے ہیں، کہ جہاں آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہوتا ہے وہاں رحمتوں اور برکتوں کا صرف نزول نہیں ہوتا بلکہ بارش ہوتی ہے۔ جبکہ ہم جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بھی کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ نثر میں ہو یا نظم میں، مدح و نعت کی صورت میں ہو یا رہبری و راہ نمائی کے حوالہ سے ہو، ہر طرح باعث برکت ہے۔ لیکن اس مبارک تذکرہ کے کچھ آداب ہیں جنہیں ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ آداب اور تقاضے قرآن کریم نے بھی بیان کیے ہیں اور خود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بیان فرمائے ہیں۔ ان میں سے دو تین کا تذکرہ کرنا اس وقت مناسب سمجھتا ہوں۔ مثلاً قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ
لا تجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضاً۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار کو آپس میں ایک دوسرے کی پکار کی طرح نہ سمجھ لو۔
اس کے مختلف معانی مفسرین کرامؒ نے بیان کیے ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا عام آدمی کی دعا کی طرح نہیں ہے۔ دوسرا معنٰی یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو بلائیں تو ان کا بلانا عام آدمی کے بلانے کی طرح نہیں ہے۔ اور تیسرا معنٰی یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح بے تکلفی سے نہ پکارو جس طرح ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ یہ مقام ادب ہے حتیٰ کہ اس کے بارے میں قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ اگر مجلس میں تمہاری آواز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند ہوگئی تو یہ سوء ادب تصور ہوگی اور تمہاری نیکیاں اس طرح برباد ہو جائیں گی کہ تمہیں شعور تک نہ ہوگا۔
اس پر مجھے اپنا بچپن کا ایک واقعہ یاد آیا ہے کہ ہمارے طالب علمی کے دور میں گوجرانوالہ میں ایک نعتیہ مشاعرہ تھا جس میں طرح مصرعہ یہ تھا:
دل زندہ جس سے ہے وہ تمنا تمہی تو ہو
یہ مولانا ظفر علی خان مرحوم کی ایک معروف نعت کا مصرعہ ہے۔ مگر ایک شاعر شہید جالندھری مرحوم نے یہ کہہ کر مصرعہ بدل لیا کہ میرا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’تمہی تو ہو‘‘ کہہ کر خطاب کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ اس لیے میں اسے ’’آپ ہی تو ہیں‘‘ میں تبدیل کر رہا ہوں۔ اس شاعر کی یہ بات میرے دل میں ایسی پیوست ہوئی کہ آج تک وہ منظر آنکھوں کے سامنے زندہ ہے۔
اس لیے میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نعت میں یا خطابت میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ اس طرح کی بے تکلفی کے ساتھ جیسی ہم آپس میں روا رکھتے ہیں، نہیں کرنا چاہیے اور ادب و احترام کے تقاضوں کو ہر طرح سے ملحوظ رکھنا چاہیے۔
اسی طرح بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عید کے موقع پر انصار مدینہ کے کسی گھر میں گئے، وہاں چھوٹی بچیاں اپنے بڑوں کو یاد کر کے نظمیں گا رہی تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سنتے رہے، لیکن جب ایک بچی نے یہ پڑھا کہ:
وفینا نبی یعلم مافی غد
ہمارے درمیان ایک پیغمبر موجود ہیں جو آنے والے کل کی بات بھی جانتے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ٹوک دیا اور فرمایا ، بیٹی! اس کو چھوڑ دو اور باقی جو کچھ پڑھ رہی ہو، پڑھتی رہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے عقائد کا بالخصوص عقیدہ توحید کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ اور کوئی ایسی بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے نہیں کہنی چاہیے جو عقیدہ کے منافی ہو اور اس سے اللہ تعالیٰ کی توحید پر زد پڑتی ہو۔
اس کے ساتھ ہی یہ روایت بھی ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نعوذ باللہ عرب شاعروں کی طرف سے کی جانے والی ھجو کا جواب دینے کے لیے حضرت حسان بن ثابتؓ نے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! میں اپنی زبان کے ساتھ قریش کے شاعروں کو چمڑے کی طرح چیر کر رکھ دوں گا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا 
کیف و فیہم نسبی؟ 
ان کی مذمت کیسے کرو گے، جبکہ میرا نسب بھی ان میں ہے؟ تو حضرت حسانؓ نے کہا کہ میں قریش کی ھجو کرتے ہوئے آپ کو ایسے نکال لوں گا جیسے آٹے میں سے بال نکال لیا جاتا ہے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت کی کہ وہ حضرت ابوبکرؓ سے مل کر ان سے نسب نامے کی تفصیل معلوم کر لیں تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ قریش کی مذمت کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بھی غیر شعوری طور پر زد میں آجائے۔
اس لیے میں نعت خوان حضرات سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نعت رسولﷺ کا ناگزیر تقاضہ یہ ہے کہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ اس طرح بے تکلفانہ انداز میں نہ کیا جائے جیسے ہم ایک دوسرے کا کرتے ہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے اسلامی عقائد بالخصوص توحید کا خیال رکھا جائے، اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرہ میں سوء ادب کے ہر ممکنہ پہلو سے بچنے کی کوشش کی جائے۔