سوال ، جواب

مصنف : مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : نومبر 2008

سوال: میں نے ۱۹۹۳ء میں اپنی بیوی کو لڑائی جھگڑے کی وجہ سے ایک ہی وقت میں زبانی طور پر تین طلاقیں دے دیں اور پھر تقریباً تین ماہ بعد ایک عالم کے فتویٰ کی بنا پر بیوی سے رجوع کرلیا۔ پھر اپریل ۲۰۰۶ء میں (جبکہ میں جسمانی طور پر بہت بیمار،بلڈپریشر، دلی عارضے اور شدید ڈیپریشن کی وجہ سے بہت زیادہ ہائی پوٹینسی کی گولیاں استعمال کرتا ہوں) ہمارا جھگڑا ہوا اور میری بیوی، بچوں نے بہت زیادہ پریشان کیا اور کچھ میں شدید ڈیپریشن کا شکار تھا اور دوائی بھی لی ہوئی تھی اور اس حالت میں میری ذہنی حالت بہت زیادہ متاثر تھی۔ میں نے اپنے بیوی کو اپنے خیال میں دوسری طلاق دی، لیکن میری بیوی اور بچے جو اس وقت سامنے موجود تھے، کہتے ہیں کہ میں نے طلاق نہیں دی تھی، صرف بستر الگ کرنے کا کہا تھا جبکہ بیوی کہتی ہے کہ میں نے دوسرے دن صبح کچن میں اسے طلاق دی تھی اور مجھے اس کا بالکل یاد نہیں کہ میں نے طلاق دی تھی۔ میری بیوی بھی مائیگرین (سردرد) کی دائمی مریضہ ہے۔ میری حالت بیماری اور زیادہ ادویات کے استعمال سے اس طرح کی ہوچکی ہے کہ میری یادداشت بہت کمزور ہوچکی ہے اور بعض اوقات ہاتھ میں پکڑی چیز گر جاتی ہے۔ میری بیوی نے کہا کہ تم نے طلاق دی تھی۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، اگر میں نے طلاق دی تھی تو میں رجوع کرتا ہوں۔ پھر ہم نے نو دس دن بعد رجوع کرلیا۔ لیکن پھر ۱۹ جون ۲۰۰۶ء میں جبکہ بیوی پاکستان گئی ہوئی تھی، ہماری فون پر آپس میں توتکار ہوئی۔ میں نے اپنی بیوی سے کہہ رکھا تھا کہ تم نے اگر میری بات نہ مانی تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا اور پھر میں نے اپنی بیوی کو فون پر طلاق دے دی اور میری ذہنی حالت بیماری کی وجہ سے بہت متاثر تھی اور ادویات کا بھی اثر تھا۔ میری اس صورت حال میں شریعتِ مطہرہ میں میرے لیے کیا حکم ہے؟

جواب: صورت حال سے ظاہر ہے کہ دوسری طلاق کے وقت شوہر کا ذہنی توازن درست نہ تھا، ایسی حالت میں طلاق نہیں ہوئی۔ صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب میں حضرت عثمانؓ سے منقول ہے: لیس لمنجنون ولا لسکران طلاق ‘‘دیوانے اور نشئی کی اطلاق قابلِ اعتبار نہیں’’۔ اور ابن عباسؓ نے کہا کہ طلاق السکران والمستکرہ لیس بجائز ‘‘نشئی اور مجبور شخص کی طلاق واقع نہیں ہوتی’’۔

الغرض جب شدتِ مرض کی بنا پر آدمی کے ہوش حواس قائم نہ ہوں تو طلاق شمار نہیں ہوگی۔ عقل و شعور کی مضبوطی کی صورت میں ہی طلاق واقع ہوتی ہے جبکہ محلِ بحث میں معاملہ برعکس ہے اور تیسری طلاق کا معاملہ بھی دوسری طلاق سے مختلف نظر نہیں آتا، البتہ اگر اس کا وقوع عقل و شعور سے ہوا ہے تو پھر شمار ہوگی، بہرصورت رجوع کی گنجائش موجود ہے۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب: بعض جادوگر اس بات کے دعویدار ہیں کہ وہ انسانوں کی صورت کو حیوانوں کی شکلوں میں تبدیل کرنے پر قادر ہیں جبکہ حقیقت ِ حال اس کے برعکس ہے۔ یوں بھی اہلِ علم نے ایسے شخص کو کافر قرار دیتا ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفسیرقرطبی: ۲؍۴۵۔

مومن کو جادو کے ذریعہ کوئی جادوگر ذلیل نہیں کرسکتا، مگر اس کی کوتاہی کی وجہ سے بعض دفعہ ایسی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب: فجر کی جماعت کھڑی ہونے کی صورت میں صبح کی نماز کے بعد سنتیں پڑھی جاسکتی ہیں۔ سنن ترمذی میں باب ہے: ماجاء فیمن تفوتہ الرکعتان قبل افجر یصلیہما بعد صلاۃ الصبح اور سورج طلوع ہونے کے بعد بھی پڑھنا درست ہے جیساکہ سنن ترمذی میں عنوان ہے: ماجاء فی اعادتہما بعد طلوع الشمس۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب: استعمال کے بعد مسواک کو دھونا ضروری نہیں اور شیطانی عمل کا کسی روایت میں ذکر نہیں۔ مسواک کے لیے بالشت کی شرط بھی ثابت نہیں۔ مٹھی میں پکڑ کر مسواک کرنے کی کہیں ممانعت وارد نہیں، نہ ہی مسواک کو لیٹ کر کرنے کی ممانعت ہے۔ مسواک کو میز وغیرہ پر رکھنے کا کوئی حرج نہیں اور اس سے کوئی بیماری لاحق نہیں ہوتی۔ مذکورہ آداب خود ساختہ ہیں جو قرآن و حدیث سے ثابت شدہ نہیں۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب: مسواک کے لیے بنیادی بات یہ ہے کہ منہ کے طول و عرض میں پھر سکے۔ مسواک منہ کے لیے طہارت کا سبب ہے اور پروردگار کی رضامندی کا ذریعہ ہے۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب: عورت کا درس بذریعہ کیسٹ وغیرہ سنا جا سکتا ہے۔ عہد ِ نبوت میں آپؐ سے مسائل دریافت کرتی تھیں، بعد میں خلفاء کا عمل بھی اس پر رہا۔ راجح مسلک کے مطابق عورت کی آواز پردہ نہیں۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)

جواب: خواب کی تعبیر صرف اسلامی احکام و مسائل کے ماہر سے کرانی چاہیے اور دینی تعلیمات کے خلاف تعبیر کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔

(مولانا حافظ ثناء اللہ خاں مدنی)