غامدی صاحب کی رائے کا جائزہ

مصنف : محمد امتیاز

سلسلہ : نقطہِ نظر

شمارہ : اکتوبر 2008

محترم مدیر صاحب ماہنامہ سوئے حرم

السلام علیکم!

            سوئے حرم جولائی ۲۰۰۸ کے شمارے میں یسئلون کے تحت جاوید احمد غامدی صاحب نے صفحہ 26 تا 28 مسئلہ نسخ فی القرآن کے حوالہ سے جواب دیا ہے اور اس ضمن میں قرآن کریم سے پانچ مثالیں پیش کی ہیں اور فرمایا ہے کہ نسخ علما کی ایک اصطلاح ہے اوراس موقع پر بولی جاتی ہے جہاں ضرورت کے لحاظ سے احکامات میں کچھ تغیر و تبدل کیا جاتا ہے ۔

            معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ جاوید صاحب کے پیش کردہ تمام مقامات محکم ہیں اور ان میں سے نہ کہیں نسخ واقع ہوا ہے اور نہ ہی کہیں ‘‘تغیرو تبدل ’’ کیا گیا ہے۔

            پہلی مثال سورۃ المجادلہ آیات12اور 13 سے دی گئی ہے کہ ‘‘منافقین نبی اکرمؐ سے سرگوشیاں کر کے تنگ کرتے تھے تو حکم دیا گیا کہ سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ کیا جائے... . منافقین کے لیے مال خرچ کرنا آسان نہ تھا۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد یہ پابندی ختم کر دی گئی۔’’ عرض ہے کہ یہاں تو منافقین کا ذکر نہیں، اہل ایمان سے خطاب ہے۔ ان اہل ایمان کو کہا گیا ہے کہ نبیؐ سے سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو، ہاں اگر نہ پاؤ تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ دیکھ لیں اس آیت میں بھی کہیں اس خیرات کو فرض یا لازم نہیں کیا گیا بلکہ آیت کے آخری حصہ میں بھی صراحت ہے کہ استحبابی حکم ہے۔ اگلی آیت میں انہی اہل ایمان سے خطاب کیا گیا ہے کہ تم سرگوشی سے پہلے صدقہ نکالنے سے ڈر گئے، پس جب تم نے یہ نہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی تمہیں معاف کیا تو اب نماز کو قائم رکھو، زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ اور رسول کی تابعداری کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے۔ ان آیات میں ناسخ و منسوخ یا تغیر و تبدل ڈھونڈنا اللہ کی کتاب سے عدم توجہی کی ایک مثال ہے۔ باور یہ کرایا جارہا ہے کہ 12نمبر آیت پہلے اور 13نمبر آیت بہت عرصہ بعد نازل ہوئی۔ یعنی سورہ وہ بھی چھوٹی سورہ کا تھوڑا سا حصہ پہلے او ر باقی بہت بعد میں نازل ہوا۔ نا ممکن! آدھی سورہ نازل کرنے سے تو مضمون ہی سمجھ نہیں آسکتا۔ ان آیات کی بہترین توجیہہ ضیاالدین اصلاحی رحمہ اللہ نے کی ہے۔ آپ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس مقام پر اجمال کے بعد تفصیل کا اسلوب پیش کیا گیا ہے، یعنی جو بات آیت 12میں اجمالاً کہی گئی تھی اسی کی تفصیل آیت13میں کر دی گئی ہے۔ ملاحظہ ہو ششماہی علوم القرآن، جولائی -دسمبر جلد 8۔

            دوسری مثال جاوید صاحب نے روزے والی آیات قرآن میں تغیر و تبدل کے حوالے سے پیش کی ہے کہ ‘‘پہلے مرحلہ میں اجازت تھی کہ کسی کے روزے چھوٹ گئے ہیں تو چاہے روزے رکھ لے اور چاہے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے یعنی بعد میں روزے رکھنالازم نہیں تھا۔ بعد میں قرآن مجید میں وضاحت کر دی کہ اب یہ بات ختم ہوگئی اور روزے سے مانوس بھی ہوگئے ہو اور روزے کے عادی بھی ہوگئے ہو تو روزے اگر چھوٹ جائیں تو بعد میں پورے کرنے پڑیں گے۔’’یہ پیرا گراف اول تا آخر غلط ہے۔ جن صحابہ کے ایمان کی شہادت اللہ قرآن مجید میں دیں ان کے بارہ میں سوچنا کہ شروع میں وہ روزے کے عادی اور مانوس نہ تھے، لہٰذا عبوری حکم نازل کیا گیا اور بعد میں جب عادی ہوگئے تو یہ حکم منسوخ کر دیا گیا۔ ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے؟ اس طرح تو اس رعایت کے مستحق قیامت تک آنے والے نو مسلم ہونے چاہیے تھے نہ کہ سابقون الاولون کی جماعت۔ عرض ہے کہ روزوں کی تمام آیات 183 تا 187 یکبارگی نازل ہوئی ہیں ان کے نزول میں (بقول شبیر احمد ازہر میرٹھی رحمہ اللہ ) تو پانچ منٹ کا بھی وقفہ نہیں۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ 183 نمبر آیت میں فرضیت صیام کا حکم ہے۔ اگر اگلی آیت نہ ہو تو معلوم نہیں ہوسکتا کہ کتنے روزے ہیں اور کس ماہ کے ہیں؟ 184 نمبر آیت میں گنتی کے چند بتائے گئے ہیں اور بیماروں اور مسافروں کے لیے قانون بیان ہوا ہے، اب گنتی کے کتنے دن ہیں؟کس مہینے میں روزے رکھنے ہیں؟ اس کا ذکر ان دونوں آیات میں نہیں۔ لہٰذا اگر یہ پہلے نازل ہوں اور (جیسا کہ غامدی صاحب نے سمجھا ہے)185نمبر آیت ‘‘بعد’’ میں نازل ہو تو یقین جانیں روزے 185 نمبر آیت کے نزول تک رکھے ہی نہیں جا سکتے تھے۔ اب یاتویہ مانیں کہ اللہ تعالیٰ نے آیات صوم وقفہ وقفہ سے نازل کر کے خطا کی (نعوذ باللہ من ذالک) یا یہ مانیں کہ ہمارے علما ان آیات کے فہم میں غلطی کر گئے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ان تین آیات کے نزول کے بعد بھی روزہ نہیں رکھا جا سکتا تھا جب تک 187نمبر آیت تلاوت نہ کی جائے کیونکہ صبح سے لے کر رات تک روزہ رکھنا اسی آیت میں بتایا گیا ہے لہٰذا یہ تمام آیات یکبارگی نازل ہوئی ہیں۔ ان میں یہ کہنا کہ ‘‘بعد میں قرآن مجید نے یہ وضاحت کردی’’ کسی طرح قابل قبول نہیں۔ بے شک یہ آیات مشکلات القرآن سے تعلق رکھتی ہیں مگر تدبر و تفکر سے ان آیات کو حل کیا جاسکتا ہے۔‘‘وعلی الذین یطیقونہ’’ میں الذین سے مراد وہ بیمار اور مسافر ہیں جو روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ اصولاً یہ ہی ممکن ہے۔ مثلاً بیماری کی نوعیت ایسی ہے جو روزہ میں مانع نہ ہو تو ایسے لوگ ایک مسکین کو کھانا کھلائیں گے۔ یہ وہی تاویل ہے جو ان آیات کی تفسیر میں شبیر احمد ازہر میرٹھی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر مفتاح القرآن میں پیش کی ہے اور یہ بہترین تاویل ہے۔ اگر محترم جاوید صاحب کو اس تاویل پر اعتراض ہو تو پھر بھی ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثابت کریں کہ ان آیات کے نزول میں کچھ سالوں کا وقفہ تھا۔

            تیسری مثال میں جاوید صاحب نے سورۃ النسا آیت نمبر 15 سے استدلال کیا ہے کہ ‘‘جو عورتیں بدکاری کرتی ہیں یعنی عادی بدکار عورتیں’’بہت قابل افسوس بات ہے کہ قرآن توانہیں من نساء کم تمہاری عورتوں میں سے، کہہ رہا ہے یہاں عادی اور بدکار کس لفظ کا ترجمہ ہے۔ الفاحشہ سے زانیہ ہی مراد لینا کسی طرح جائز نہیں جب کہ زنا کے لیے قرآن بے دریغ زنا ہی کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہاں الفاحشہسے کھلی بے حیائی مراد ہے۔ زنا بھی کھلی بے حیائی کی ایک قسم ہے نہ کہ زنا ہی بے حیائی ہے۔ جاوید صاحب فرماتے ہیں ‘‘ان کو گھروں میں بند کر دیا جائے یہاں تک کہ ان کے بارے میں کوئی تفصیلی حکم نازل کر دیاجائے۔ یہ الفاظ ہی بتا رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قانون سازی فرمائیں گے چنانچہ بعد میں بد کاری کی باقاعدہ سزا مقرر کر دی گئی۔‘‘غامدی صاحب کا خیال یہ ہے کہ سورہ نور میں سو کوڑوں کی سزا سورۃ النسا کی ان آیات سے پہلے نازل ہوچکی تھیں۔ لہٰذا پہلے آنے والی آیت اپنے سے بعد میں نازل ہونے والی آیت کو کس طرح منسوخ کر سکتی ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ سورۃ النسا کی 25 نمبر آیت میں لونڈیوں کی سزا آزاد عورتوں کی سزا سے نصف بتائی گئی ہے۔ تمام مفسرین مانتے ہیں کہ یہ نصف سزا پچاس کوڑے ہیں۔ لہٰذا آزاد عورتوں کی سزا سو کوڑے اس مقام پر تمام مفسرین نے تسلیم کی ہے ۔ ثابت ہوا کہ سورۃ النور کی سو کوڑوں والی سزا سورۃ النسا کی 25نمبر والی آیت سے پہلے نازل ہوچکی تھی۔ تبھی تو مفسرین نے لونڈی کی سزا ان سو کوڑوں کی نصف مانی ہے۔ لہٰذا اس مقام کو سمجھنے میں بھی غامدی صاحب نے خطا کی ہے۔

            چوتھا مقام جاوید صاحب نے سورۃ البقرہ سے پیش کیا ہے۔ یہاں مرنے والوں کے لیے والدین اور قرابت داروں کے لیے وصیت کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ جاوید صاحب فرماتے ہیں‘‘جب لوگ نئے احکامات کے عادی ہوگئے تو باقاعدہ میراث کے احکام دے دیے گئے۔ ’’ نہ جانے کیوں ہمارے علما صحابہ کرامؓ کے ایمان کو اپنے ایمان جیسا مانتے ہیں۔ معلوم ہونا چاہیے کہ اصحاب رسول اپنے آبا کے دین شرک سے تائب ہو کر توحید پر ایمان لائے تھے۔ ان کے بارے میں بار بار لکھنا یا سوچنا کہ ابتدا میں یہ حکم تھا اوربعد میں جب عادی ہوگئے تو مستقل حکم یا باقاعدہ حکم دے دیا گیا، بہت ہی عجیب اور مقام صحابہ سے عدم واقفیت کی عبرت ناک مثال ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ وصیت کا حکم الگ اور مستقل ہے اور میراث کا قانون الگ مستقل قانون ہے، دونوں میں ٹکراؤ کہاں ہے جو ایک کو ناسخ اور دوسرے کو منسوخ مانناپڑے۔ پھر قانون میراث میں تو صرف اٰبآ ئُکم وابنا ءُ کم آیا ہے۔ (جس سے غامدی صاحب وصیت کی منسوخی کے قائل ہیں) اس ٹکڑے کا تعلق آخر آیت تک اٰبآ ءُ کم وابنا ءُ کم کے متعین حصہ سے ہے۔ پورے قانون وراثت سے نہیں اور قرآن کے کسی خاص حکم کو عام نہیں کیا جا سکتا۔ آج بھی وارث کے لیے وصیت کی جاسکتی ہے۔ خود آیات میراث میں صراحت موجود ہے کہ میراث قرض اور وصیت کی ادائیگی کے بعد تقسیم ہوگی۔ مقام افسوس ہے کہ جو حکم قرآنی کُتِبَ سے شروع کیا اور حق علی المتقین پر ختم کیا گیا اسی کو ہمارے علما نے منسوخ کیا۔

            پانچواں مقام جاوید صاحب نے سورۃ الانفال آیت 65 تا 66 سے پیش کیا ہے کہ ‘‘صحابہ کرام پر جہاد کی ذمہ داری ڈالی گئی تو فرمایا کہ ایک نسبت دس سے تم کو جہاد کرنا ہے۔ اس کے بعد جب دوسرے لوگ بھی ایمان لے آئے تو مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی اور ایمان کی کیفیت بحیثیت مجموعی وہ نہ رہی جو صحابہ کرامؓ کی تھی تو فرمایاکہ اب اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں ذمہ داری کو کم کر دیا ہے۔’’

            سوئے حرم صفحہ 27 ۔ اسی ضمن میں صفحہ 22 پر یہ لکھا ہے‘‘اب صحابہ میں ایمان کی وہ کیفیت نہیں رہی جو پہلے تھی۔کیونکہ نئے ہونے والے مسلمان صحابہ کی جماعت میں شامل ہوگئے تھے۔‘‘قرآن کریم میں صحابہ کرام کے ایمان کو بطور معیار پیش کیا گیا۔ ان اصحاب کے بارے میں لکھنا کہ ان میں ایمان کی وہ کیفیت نہ رہی تھی بہت غیر ذمہ دارانہ بیان ہے۔ نئے صحابہ ہوں یا پرانے ان کے درجات تو یقینا الگ الگ تھے مگر ان تمام صحابہ کا ایمان یقینا معیاری تھا۔ فان اٰمنوا بمثل ما امنتم بہٖ فقد اھتدوا.... اور اولئک کتب فی قلوبھم الایمان.... جیسی بے شمار آیات پیش کی جاسکتی ہیں۔ بات اصل میں جو کہی گئی تھی جاوید صاحب نے بالکل برعکس سمجھی ہے۔ پہلے تو فراہی مکتب فکر کے نمائندہ ضیا الدین اصلاحی صاحب کی رائے ان آیات کے ضمن میں پیش کرتا ہوں اس کے بعد مزید کچھ عرض کیا جائے گا۔ ضیا الدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آیت نمبر 65 عزیمت اور 66 رخصت پر دلالت کرتی ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ رخصت نے عزیمت کو منسوخ کر دیا پھر آیات قوت و ضعف کے ساتھ مشروط ہیں۔ جس طرح پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کی رخصت ہے ، جیسے تیمم نے وضو کو منسوخ نہیں کیا ایسے ہی یہاں بھی نسخ (یا بقول جاوید صاحب تغیر تبدل) کا احتما ل نہیں ۔ در اصل ان آیات میں مسئلہ نسخ زیر بحث ہی نہیں بلکہ تفصیل بعد الاجمال کا اسلوب مد نظر ہے، زیادہ سے زیادہ سابق حکم میں سہولت کی بات کہی گئی ہے۔ علوم القرآن جلد 8جولائی تا دسمبر یہ رائے بہت وقیع اور قابل غور ہے مگر ہماری ناچیز رائے میں اس سے بھی بہتر تفسیران آیات کی شیخ القرآن و امام فی الحدیث شبیر احمد ازہر میرٹھی نے کی ہے کہ آیت نمبر65 میں بتایا گیا ہے کہ ثابت قدم مومنین ہوں تو اپنے سے دس گنا دشمن پر غالب ہوں گے اور آیت 66 میں فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ تم میں ناتوانی ہے لہٰذا تمہارا بوجھ ہلکا کیا جاتا ہے بس تم صبر کرنے والے ہوگے تو اپنے سے دوگنا پر غالب رہو گے۔ دونوں آیات میں خطاب ثابت قدم مومنین سے ہے اور ساری جماعت صحابہ کے ایمان کی شہادت چونکہ قرآن میں ہے وکلا وعداللہ الحسنیٰ (سورہ الحدید آیت نمبر ۱۰)۔ لہٰذا اصحاب رسول سے کہا گیا کہ اللہ جانتا ہے کہ تم (صحابہ) میں نا توانی (مادی وسائل کی کمی) ہے لہٰذا تم کم از کم اپنے سے دوگنا سے مقابلہ تو کرو، جب تم مادی وسائل سے لیس ہوجاؤ گے تم پھر تم وہی با ایمان لوگ ہو کہ دس گنا سے بھی ٹکراؤ گے اور غالب رہوگے۔ تو جناب خلافت راشدہ میں صحابہ کرام نے اس بات کو سچ کر دکھایا۔ یرموک اور قادسیہ کے میدانوں میں صحابہ کرامؓ اپنے سے دس گنا دشمنوں پر غالب آگئے۔ لہٰذا جاوید صاحب نے اس مقام کے صحیح معنوں کو متعین کرنے بھی صریح خطا کی ہے۔

            آخر میں اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ بے شک مسئلہ نسخ فی القرآن علما کے درمیان زیر بحث رہا ہے اور بڑے بڑے جلیل القدر علما نے قرآن میں نسخ مانا ہے مگر ہماری طالب علمانہ رائے میں اس کی حقیقت سوائے مغالطوں کے کچھ بھی نہیں۔ کچھ باتیں اس ضمن میں کہناہیں:

۱۔قرآن میں نسخ ماننے سے یہ کتاب ہدایت نہیں رہتی کہ ایک انسان منسوخ حکم پر عمل پیرا ہو کر صریح غلطی کرتا رہے اور اسے علم ہی نہ ہو کہ وہ ایک منسوخ حکم پر عمل کرتا رہا ہے۔

۲۔قرآن میں صرف دو قسم کی آیات ہیں محکمات و متشابہات۔ متشابہات کی تو تاویل ہی سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا اور محکمات میں کوئی نسخ یا رد بدل ہو نہیں سکتا۔

۳۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں نقص (جسے اہل تشیع بدا کہتے ہیں) لازم آتا ہے کہ پہلے حکم کے بعد اس کو تبدیل کرنا پڑا۔

            اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح صحیح فہم قرآن عطا ہو۔ اللھم ارنا الحق

 حق....

خاکسار

محمد امتیاز

دکان نمبر:H-153-154، سردار عالم خان روڈ، راولپنڈی