میری سوتیلی ماں

مصنف : اکبر حمیدی

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : اکتوبر 2008

ہمارے معاشرے میں ظالمانہ روپ رکھنے والی عورت کی جو مشفقانہ صورت مصنف نے دکھائی ہے، وہ آپ کی آنکھیں کھول دے گی

میری والدہ کی وفات کے چھ سال بعد والدصاحب نے دوسری شادی کی۔ میری سوتیلی والدہ کا تعلق ضلع شیخوپورہ کے ایک معزز جٹ زمیندار خاندان سے تھا۔ والد، چودھری حیات محمد اور تایا چودھری خوشی محمد اپنے علاقے کے معززین میں شمار ہوتے تھے۔

ان کا نام خورشید بیگم ہے۔ بائیس برس کی عمر میں وہ باجوں گاجوں کے ساتھ پنجاب کے زمینداروں کی روایتی آن بان سے ہمارے ہاں ڈولی سے اُتریں۔ شروع ہی سے بارعب، مضبوط، صائب الرائے اور ہمدرد شخصیت کی مالکہ ہیں۔ مناسب قد وقامت اور کھلتا گندمی رنگ ان کی شخصیت کو نکھارتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں دوسری والدہ کو ‘سوتیلی ماں’ جیسے خوفناک الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ اکثر بچے سوتیلی ماں کے آنے سے پہلے ہی اس کے روایتی ظالمانہ کردار کے باعث خوف زدہ کردیئے جاتے ہیں۔ مجھے یاد نہیں کہ اس طرح کا کوئی خوف میرے ذہن پر مسلط تھا۔ ایک تو اس لیے کہ میں بچپن ہی سے نڈر، باغی اور جنگجو بچے کی طرح خاندان بھر میں ‘‘نیک نام’’ تھا۔ دوسری بڑی سہولت مجھے یہ حاصل رہی کہ میں ہمیشہ اپنی عمر سے ذہنی طور پر پیچھے رہا ہوں۔ جب والدہ آئیں تو اس وقت میری عمر کوئی دس برس تھی مگر میرا ذہن اتنا فعال نہیں تھا کہ اس خطرے کی شعاعیں موصول کرنے لگتا۔

جب والدہ آئیں، تو میری مکمل وابستگی ماں جی (دادی جان) کے دامن شفقت سے تھی۔ ان کے لاڈپیار کے باعث میں بگڑا ہوا بچہ کہلاتا تھا۔ اس وقت تو مجھے والدہ کے رویے کی گہرائیوں کا ذرا بھی علم بلکہ احساس تک نہ تھا مگر اب جو سوچوں تو اُسے انتہائی حیران کن پاتا ہوں۔ یاد نہیں آتا کہ کبھی انہوں نے مجھ سے پیار یا توجہ کا اظہار کیا ہو، ہاں میرے تمام کام کاج بڑی خاموش توجہ کے ساتھ کرتی تھیں۔ بروقت کھانا، صاف ستھرا لباس، عمدہ بستر، اور کتابیں۔ ہرچیز تیار ملتی تھی مگر نہایت خاموشی کے ساتھ…… بن بتائے، بن جتائے اور بغیر دوسروں کو دکھائے۔

دادی جان ان کی سگی خالہ تھیں مگر اب تو ان میں ساس اور بہو کا خونخوار رشتہ قائم ہوگیا تھا۔ لیکن میں نے کبھی انہیں ماں جی یعنی اپنی ساس سے لڑتے جھگڑتے تو کجا اختلاف کرتے بھی نہیں دیکھا۔ ماں جی والدہ کی موجودگی میں کئی برس زندہ رہیں مگر ساس بہو لگتی ہی نہیں تھیں۔

میں اپنے ناز نخرے ماں جی کو دکھاتا اور والدہ سب کچھ خاموشی سے دیکھتی رہتیں…… مجھے نہیں یاد کہ کبھی انھوں نے میری حرکات کا بُرا مانا ہو اور ڈانٹ دینا تو کُجا کبھی مجھے کوئی ہدایت بھی جاری کی ہو۔ آج میں سوچتاہوں اور اپنے معاشرے کی سوتیلی ماں کا تصور ذہن میں لاتا ہوں تو مجھے اپنی دوسری والدہ بہت عظیم اور انسانی اخلاق و کردار کی معراج پر پہنچی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔

آپ سوچتے ہوں گے کہ ان کا ابھی تک اپنا کوئی بچہ نہیں تھا،اس لیے ان کی توجہ مجھ پر مرکوز رہی ہو گی۔ مگر ایسا نہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں دو بیٹے اور ایک بیٹی (اور یوں مجھے دو بھائی اور ایک بہن) عطا کیے۔ ظاہر ہے والدہ کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوگیا کہ ان کی توجہ کے مستحق اب اور لوگ بھی تھے مگر اس بہت بڑے امتحان میں بھی والدہ سُرخرو رہیں۔ میں بلامبالغہ کہتا ہوں کہ انہوں نے ہمیشہ مجھے میرے بھائی بہنوں سے زیادہ توجہ دی۔ زندگی بھر جب تک ہماری رہائش ایک گھر میں رہی، ہمیشہ بغیر کسی استثنا کے سب سے پہلے کھانا مجھے دیا، سب سے اچھا لباس مجھے پہنایا گیا اور سب سے اچھا بستر مجھے ملتا رہا۔ گھر چھوٹا ہی تھا مگر اس میں بھی ایک چھوٹا سا کمرہ مجھے الگ دیا گیا تھا۔

والدہ اسکول یا کالج کی پڑھی لکھی نہیں ہیں، عام زمینداروں کی بیٹیوں کے مانند بچپن میں انہیں گھر ہی پر قرآن کریم پڑھا دیا گیا تھا۔ مگر جس دانائی، فراست اور انسانی نفسیات کی باریک تر باتوں پر ان کی نگاہ رہی، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ ان کی دانائی اور باریک بینی کی ایک مثال یہ ہے کہ انہوں نے میری موجودگی میں کبھی اپنے بچوں سے اس طرح لاڈپیار نہیں کیا کہ مجھے مامتا کی کمی کا احساس ہونے لگے۔ انہوں نے اس گہرائی سے میرے جذبات کا خیال رکھا کہ جیسے جیسے میری عمر بڑھی، ویسے ویسے والدہ کی محبتیں اور ایثار بھی بڑھتے چلے گئے۔

ہائی اسکول میں میرے روایتی ناز نخرے خاصے بڑھے مگر کالج پہنچ کر تو سوا ہوگئے۔ میں گھر کا کوئی کام کاج نہیں کرتا تھا۔ اس لیے والدہ نے سارا بوجھ میرے چھوٹے بھائی محمدشفقت کے سر پر ڈال دیا۔ میرا کام اچھا کھانا ، اچھاپہننا، جیب خرچ وصول کرنا، باقاعدگی سے سینما دیکھنا، دو دو تین تین روز گھر نہ آنا اور شہر (گوجرانوالہ) ہی میں رہ پڑنا تھا جہاں میرا کالج تھا۔ مختصر یہ کہ میں فلمی ہیرو بنا پھرتا تھا۔ یہ سب کچھ اس لیے لکھ رہا ہوں کہ والدہ میری حرکات دیکھتی رہیں لیکن انہوں نے کبھی نہیں ٹوکا اور نہ ہی کبھی میری شکایت اباجی سے کی۔ میرے کالج کے دوست کئی مرتبہ میرے ساتھ گاؤں آجاتے اور دو دو روز تک قیام کرتے۔ والدہ ان کے لیے خصوصی طور پر دعوت کا انتظام کرتیں، خوشی سے کھانا پکاتیں اور دوستوں کی نظروں میں میری عزت بڑھاتیں۔ اسی طرح والدہ کے میکے میں جو شادیاں ہوتیں مجھے بطور خاص ہمراہ لے جایا جاتا۔ وہاں مہمانوں کی گہما گہمی اور ہجوم میں بھی والدہ میری رہائش اور آرام کے لیے خصوصی انتظام کرواتیں۔ یوں گھراور والدہ کے میکے میں بھی مجھے اچھا خاصا وی آئی پی سمجھا جاتا تھا۔

عید ہو، مہمان آئے ہوں، کوئی دعوت ہو، کہیں کسی شادی بیاہ میں شرکت کرنی ہو یا گھر کا کوئی معاملہ ہو، جب مشورہ ہوتا، تو والدہ اباجی سے ایک ہی جملہ کہتیں: ‘‘اکبر سے پوچھ لیں’’۔ میرے جذبات اور میری رائے کا اس قدر خیال رکھا جاتا (اور آج تک رکھا جا تا ہے) کہ بعض اوقات میں والدہ کے خلاف بھی ہوا تو انہوں نے اپنی رائے محفوظ کرلی، اس کا اظہار نہیں کیا۔بس یہ کہتیں: ‘‘اکبربڑا ہے گھر میں اس کی عزت سب سے زیادہ ہونی چاہیے’’۔

ایک بار میرے تیسرے بھائی، ارشد کے رشتے کی بات چلی۔ اباجی اور والدہ نے گاؤں ہی میں ایک زمیندار خاندان سے رشتہ پسند کرلیا۔ حسب معمول جب گھر میں مشورے کے لیے سب افراد جمع ہوئے تو ہرکسی نے اتفاق رائے کا اظہار کیا ۔ مجھے ہرمعاملے میں دوٹوک اور برملا اظہار کی عادت ہے۔ جس انداز سے میری پرورش اور تربیت ہوئی اُسے دیکھتے ہوئے مجھے ایسا ہی ہونا تھا چنانچہ میں نے اپنی ناپسندیدگی کا کھلے الفاظ میں اظہار کیا۔ اباجی نے پہلے مجھے آرام سے سمجھانے کی کوشش کی، پھر برہمی دکھائی اور اُٹھ کر ٹہلنے لگے۔ والدہ یہ رشتہ پسند کرچکی تھیں مگر جب انہوں نے میری طرف سے ناپسندیدگی بلکہ مخالفت سنی، تو اباجی کو یہ کہہ کر دوسرے کمرے میں چلی گئیں: ‘‘جیسے اکبر کہتا ہے، ویسے ہی کریں’’۔

یہ معاملہ ہمارے گھر میں ہفتہ عشرہ یا شاید اس سے بھی زیادہ دن تک چلا۔ میری خواہش اور خوشی کے خلاف گھر کا کوئی معاملہ طے نہیں ہوتا تھا لیکن اباجی کا رویہ پدری تھا جس میں سختی تھی جبکہ والدہ میں اپنی ذات اور اَنا قربان کردینے کا رویہ تھا۔ اس دوران والدہ نے کھلے لفظوں میں کہہ دیا: ‘‘جیسا اکبر چاہے گا ویسا ہی ہوگا’’۔ گو بعد میں جب مجھے معلوم ہوا کہ والدہ رشتہ اپنے طور پر منظور کرچکی ہیں تب میں نے بھی اتفاق رائے کرلیا۔

اباجی سے شادی کے کچھ عرصہ بعد والدہ کے تعلقات ان سے خوشگوار نہیں رہے۔ دراصل اباجی تندوتیز طبیعت کے تھے، کئی مرتبہ ان میں تیز کلامی بھی ہوجاتی مگر والدہ کی طرف سے ان کی خدمت میں کبھی کمی نہیں ہوئی۔ اباجی کی سخت روی کے باعث والدہ کو اکثر تکلیف پہنچتی مگر وہ ہمیشہ ان کے آرام و راحت اور گھریلو ضروریات کا انتظام بطور احسن کرتی رہیں۔ خاندان کی دوسری خواتین سے یا کسی بھی عزیز سے ان کے کبھی اختلافات نہیں ہوئے۔ سارے خاندان میں ان کی بہت عزت و تکریم تھی اور اب تک کی جاتی ہے۔

چھوٹے بھائیوں کی شادیاں ہوئیں تو بہوؤں نے گھر کا کام کاج کافی حد تک سنبھال لیا۔ یوں والدہ میرے پاس ہفتے میں دو تین روز قیام کرنے لگیں۔ اس دوران میں نے گاؤں ہی میں الگ گھر بنوا لیا تھا۔

پھر حالات میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں آئیں۔ اباجی ملازمت سے سبکدوش ہوکر گھر آگئے۔ چھوٹے بھائیوں کی شادی کے باعث بھی منظر تبدیل ہوگیا۔ میں ۱۹۸۰ء میں بسلسلہ ملازمت اسلام آباد آگیا۔ امی کو کچھ خلا سا محسوس ہونے لگا تھا کیونکہ وہ میرے ساتھ اپنی کئی باتیں کر لیتی تھیں۔ گھر کے معاملات میں اب میں بھی ان کا سرگرم حمایتی بن چکا تھا۔ بہوئیں بھی امی سے دبتی تھیں۔ تبدیلیوں کے باوجودگھر میں سکہ امی ہی کا چلتا رہا اور وہ مضبوطی سے پاؤں جمائے کھڑی رہیں۔ تب ایک بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی…… والد صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے، یوں وہ کھونٹا اکھڑ گیا جس سے خاندان کے تمام افراد مضبوطی سے بندھے تھے۔ اب میری خواہش تھی کہ والدہ میرے پاس اسلام آباد آجائیں۔ گاؤں کی نسبت وہاں کی رہائش بہتر ہے، چنانچہ میری درخواست پر وہ چلی آئیں۔

 والدہ کو چھوٹے بچوں سے ہمیشہ بہت گہری محبت رہی ہے۔ اتنا پیار انہوں نے شاید اپنے بچوں کو نہیں دیا جتنا میرے بچوں کو ملا ہے۔ میرے بچے ان کے گن گاتے ہیں۔ پھر میری بیٹی کے بچوں کو اتنا پیار دیا کہ وہ ان کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔ والدہ سب چھوٹے بچوں کو ایک نعرہ ضرور سکھاتی ہیں اور پھر بچے یہ نعرہ لگاتے پھرتے ہیں۔ یہ نعرہ ہے ‘‘پاکستان زندہ باد’…… پاکستان زندہ باد!!’’

ایک دفعہ مجھے محسوس ہوا کہ والدہ جب بھی اپنے دھیان میں بیٹھی ہوں تو بڑی بے ساختگی سے ہلکی آواز میں کہتی رہتی ہیں: ‘‘لاالٰہ’’۔ یہ الفاظ میں نے والدہ کی زبانی اتنی مرتبہ سنے کہ ایک روز ان سے کہنا پڑا: ‘‘امی! آپ آگے ‘‘الا اللہ’’ کیوں نہیں کہتیں؟ ’’ انھوں نے سوچ میں ڈوبتے ہوئے جواب دیا: ‘‘وہ بھی کہوں گی’’۔ اور میں دیر تک حیران نظروں سے انھیں دیکھتا رہا۔

مجھ سے ان کی گہری وابستگی کسی سے پوشیدہ نہیں مگر نجانے کیوں مجھے یہ خیال آنے لگا کہ امی میرے چھوٹے بھائی محمد شفقت سے زیادہ پیار کرتی ہیں۔ مجھ سے نہ رہا گیا، ایک روز پوچھا: ‘‘امی! بتایئے آپ کو سب سے زیادہ پیارا کون لگتا ہے؟’’امی کئی منٹ تک مجھے دیکھتی رہیں مجھے محسوس ہونے لگا جیسے وہ آنسو ضبط کر رہی ہیں مجھے اپنے سوال پر ندامت ہونے لگی۔ آخر انہوں نے آہستہ سے کہا: ‘‘میرے میاں جی’’۔ مجھے بے حد حیرت ہوئی،کیونکہ میاں جی امی کے والد تھے۔ انسانی شخصیت میں بہت کچھ چھپا ہوتا ہے جو شاید ہی کبھی ظاہر ہوتا ہو۔ اب پچھتر برس کی عمر میں انہیں اس کے اظہار کا موقع ملا۔ میاں جی امی کی شادی سے قبل ہی فوت ہوگئے تھے مگر انہوں نے اپنی بیٹی کو اتنا پیار دیا کہ آج بھی وہ انہیں اپنے بچوں سے بڑھ کر چاہتی ہیں۔ امی نے بتایا کہ ان کے میاں جی انہیں شانوں پر بیٹھا کر گاؤں میں پھرایا کرتے تھے۔

آج والدہ کی زندگی کے یہ واقعات قلمبند کرتے ہوئے مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ ان شخصیتوں میں سے ہیں جو زندگی کو اس کے تمام گرم و سرد سمیت اپنے اندر سمیٹ لیتی ہیں اور ان کے چھلکنے یا ٹوٹنے کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ وہ حالات کے دباؤ سے پھیل تو جاتی ہیں مگر ٹوٹتی نہیں۔