لفظوں کا دلچسپ سفر

مصنف : ڈاکٹر ایس اے ہاشمی

سلسلہ : لسانیات

شمارہ : اگست 2008

٭ کام: صاحب ‘‘کام’’ بڑا کام کا لفظ ہے! کئی زبانوں میں پایا جاتا ہے اور ہر جگہ کے لوگوں کی ضرورت کے مطابق مفہوم ادا کرتا ہے، مثلاً ایک تو یہی ہندی زبان کا ‘‘کام’’ ہے، یعنی کام کاج، جس نے بہت سے محاوروں کو جنم دیا ہے، جو ہمارے اکثر کام آتے ہیں! مثلاً کام آنا، کام بن جانا، کام پر لگانا، کام چوپٹ ہوجانا، کام سے کام رکھنا اور کام تمام کردینا وغیرہ!! دوسرا ‘‘کام’’ سنسکرت میں ملتا ہے، جس کے معنی ہیں: عشق، مرضی،، خواہشِ نفسانی۔ اس کے علاوہ ایک ‘‘کام’’ فارسی میں بھی موجود ہے جسے ہم میں سے ہر ایک ساتھ لیے پھرتا ہے! یعنی ‘‘منہ، تالو، حلق’’۔ اسی ‘‘کام’’ کا ذکر غالب نے اپنے مشہور شعر میں ‘ابھی تو تلخیِ کام و دہن کی آزمائش ہے’ کے حوالے سے کیا ہے۔ ویسے فارسی میں ‘‘کام’’ کے معنی ‘‘مراد، مقصد اور خواہش’’ کے بھی لیے جاتے ہیں۔خیر یہ تو ہندی، سنسکرت اور فارسی کے ‘‘کام’’ تھے…… ایک کام، انگریزی میں بھی پایا جاتا ہے۔ CALM اس میں ‘‘ایل’’ کو مستقل طور پر خاموش کردیا گیا ہے! اور خود اس انگریزی والے ‘‘کام’’ کے معنی بھی خموشی کا مفہوم ادا کرتے ہیں: ‘‘پرسکون، ٹھہرا ہوا، خاموش، ٹھنڈا، ایسا عرصہ جس میں ہوانہ چل رہی ہو وغیرہ۔انگریزی لغات چیمبرز اور آکسفورڈ کے مطابق یہ ‘‘کام’’ یونانی زبان کے لفظ ‘‘کاؤما’’ (CAUMA) کی تبدیل شدہ شکل ہے۔ اس کے معنی ‘‘نصف النہار یعنی کھڑی دوپہر کی گرمی’’ بتائے گئے ہیں۔ غالباً بعد میں اس کے مجازی معنی لے لیے گئے کیونکہ کھڑی دوپہر کی گرمی میں ہر طرف سناٹا ہوتا ہے اور سب لوگ حتیٰ کہ چرند پرند بھی روپوش ہوجاتے ہیں۔ گمان غالب ہے کہ یہ لفظ دراصل عربی سے یونانی میں لیا گیا ہے اور اس کا تعلق عربی کے لفظ ‘‘قام’’ سے ہے، جس کا مطلب ہے: ‘‘تھم جانا، رُک جانا، قائم ہونا، اعتدال پر آنا، ٹھہرنا، ٹھہراؤ پیدا کرنا’’۔

٭ فَنْک: عربی زبان میں لومڑی کو کہتے ہیں، جو شمالی افریقہ میں پائی جاتی ہے۔ اس کے لمبے نوک دار کان ہوتے ہیں۔ یہی لفظ انگریزی میں تلفظ کی ذرا سی تبدیلی کے ساتھ جاپہنچا۔ انگریزی میں مذکورہ لومڑی کو فَنِیک (FENNEC) کہتے ہیں۔

٭ترجمان: وہ فرد جو دو مختلف زبانیں بولنے والوں کے درمیان رابطہ کا کام انجام دے اور دونوں کو ایک دوسرے کی بات کا مفہوم سمجھائے۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ جب یہ فرانس اور اٹلی میں پہنچا تو ‘‘ڈریگومینو’’ (Dragomano) بن گیا۔ وہاں سے انگریزی میں آیا تو ‘‘ڈریگومین’’ (Dragoman) کہلایا۔ معنی وہی ہیں: ترجمان، انٹرپریٹر! واضح رہے کہ ترکی اور فارسی زبانوں میں اسے ‘‘ترجمان’’ ہی کہا جاتا ہے۔

٭ جمخانہ: بڑی معروف جگہ ہے جہاں علاقے کے معززین، کھیلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ عموماً ‘‘جمخانہ’’ کو انگریزی کا لفظ سمجھا جاتا ہے Gymkhana،لیکن اس لفظ میں ‘‘خانہ’’ خود گواہی دے رہا ہے کہ یہ فارسی زبان سے تعلق رکھتا ہے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ انگریزی لغت کے مطابق انگریزی کا لفظ ‘‘جمخانہ’’ دراصل ہندی کے لفظ ‘‘جنڈخانہ’’ سے بنا ہے جس کے معنی ہیں: گیند سے کھیلنے کی جگہ، ایک کورٹ۔

٭ قُد: عربی زبان کا لفظ ہے۔ یہ ایک سمندری مچھلی کے لیے بولا جاتا ہے، جس کے جگر کا تیل نکالا جاتا ہے جو بہت فائدہ مند ہوتا ہے۔ انگریزی میں اسی مچھلی کو ‘‘کاڈ’’ (COD) کہا جاتا ہے۔ یہ ‘‘کاڈ’ دراصل عربی کا ‘‘قُد’’ ہی ہے۔ آپ نے ‘‘کاڈلیور آئل’’ کا ذکر ضرور سنا ہوگا، جو مختلف امراض میں مفید ہے۔ بعض ماہرین کے نزدیک انگریزی کا ‘‘کاڈ’’ یونانی زبان کے ‘‘غیدوس’’ (GADUS) سے نکلا ہے۔

٭ اَگنی: یعنی آگ! دلچسپ بات ہے کہ ہندی زبان کا یہ لفظ، لاطینی زبان کے لفظ ‘‘اِگنس’’ (IGNIS) سے بہت ملتا جلتا ہے اور اِگنس کے معنی بھی ‘‘آگ’’ کے ہیں۔ لاطینی سے یہ لفظ انگریزی میں پہنچا اور اس سے کئی الفاظ وجود میں آگئے جو ‘‘آتشیں’’ ہیں یعنی ان کا تعلق آگ سے ہے! ملاحظہ فرمایئے: ‘‘اِگینس (Igneous) یعنی آگ کا یا آگ جیسا، مشتعل۔ اِگنی سینٹ (Ignescent) یعنی کوئی ایسی شے، جسے ضرب لگائی جائے تو اس سے شعلے بلند ہوں۔ اِگنٹ (ignit) یعنی آگ جلانا، آگ لگانا، اشتعال دلانا۔

٭ زاغ: یعنی ‘‘کوا’’۔ اس مشہور پرندے کو فارسی میں ‘‘زاغ’’ کہتے ہیں۔ فارسی میں اس کا ایک تلفظ ‘‘کاغ’’ بھی ہے جو ہندی میں پہنچ کر ‘‘کاگ’’ بن گیا۔ معنی وہی ہیں: ‘‘کوا’’۔ ہندی گیتوں میں ‘‘کاگ کو دلار سے ‘‘کاگا’’ بھی کہتے ہیں۔ ‘‘زاغ’’ عربی اور فارسی دونوں میں مشترک ہے۔ اس کی جمع ‘‘زیغان’’ ہے جس طرح ‘‘باب’’ کی ‘‘بیبان’’ اور ‘‘باغ’’ کی ‘‘بیغان’’ ہوتی ہے۔

٭ راقی: یعنی ترقی پانے والا، اُوپر کو اُڑ جانے والا۔ اس کے ایک معنی ہیں: جادو کردینے والا، یہ ایسے شخص کے لیے بھی بولا جاتا ہے، جو تعویذ وغیرہ لکھ کر دیتا ہے، یا جھاڑ پھونک کرتا ہے۔ اسی لیے ‘‘رُقیہ’’ کا لفظ حفاظت اور تعویذ کے لیے بولا جاتا ہے۔ عربی زبان کا یہ لفظ ترکی پہنچا تو ترکوں نے اسے جوں کا توں اپنا لیا۔ ترکی سے یہ جب مشرقی یورپ پہنچا تو وہاں کے لوگوں نے اسے مجازی معنوں میں لے لیا اور اسے بھوت پریت، روحوں کے لیے استعمال کرنے لگے۔ اس لفظ کا تلفظ انہوں نے اپنے انداز سے ‘‘راکی’’ کیا۔ ہجے ہیں: RAKI

٭ پیل: فارسی زبان میں ہاتھی کو کہتے ہیں: یہی ‘‘پیل’’ عربی میں پہنچ کر ‘‘فِیل’’ ہوگیا اور وہاں اس کی جمع ‘‘اَفیال’’ بنا لی گئی۔ یہی نہیں بلکہ ہاتھی کی دیکھ بھال کرنے والے کے لیے ‘‘فَیال’’ کی اصطلاح بھی مقرر کر دی گئی۔ سنسکرت میں جاکر ہاتھی ‘‘پیلو’’ بن جاتا ہے۔ ‘‘پیلو’’ کا لفظ ہندی میں ‘‘فیل مرغ’’ کے لیے بھی بولا جاتا ہے، گویا مرغ تو ہے مگر ہاتھی سے کوئی نہ کوئی نسبت باقی ہے!

٭ ذُرّہ: عربی زبان میں مکئی کو کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں پہنچ کر یہ لفظ ‘‘ڈُورا’’ (Durra) ہوگیا۔ ڈکشنری میں اس لفظ کی اصل، عربی کا لفظ ‘‘ذُرّہ’’ ہی بتائی گئی ہے لیکن انگریزی کے ڈُورا کا مطلب جوار، باجرہ درج کیا گیا ہے انگریزی میں ڈورا کے کئی اور ہجے بھی رائج ہیں، مثلاً: Doura, Dhurra, Dura, Dare

٭ خُف: عربی زبان میں بکری اور اُونٹ کے کُھر کو خُف کہتے ہیں۔ یہ لفظ جب انگریزی میں پہنچا تو وہاں اس کا تلفظ ‘‘ہوف’’ کیا جانے لگا۔ Hoof کے معنی وہی ہیں۔ جانوروں کا نوک دار سُم۔ انگریزی میں اسی سے فعل ‘‘ہوف’’ بھی بن گیا ہے یعنی کُھر سے کسی کو ٹھوکرمارنا۔

(بحوالہ کتاب لفظوں کا دلچسپ سفر، ڈاکٹر ایس اے ہاشمی)