کریڈٹ کارڈ کا شکنجہ

مصنف : اعجاز شیخ

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : جولائی 2008

اعجاز شیخ

(سابق اسسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ الائیڈ بنک)

            وہ بھی کیا وقت تھا جب انسان اپنی بچتیں سکوں کی صورت میں جمع کر کے بھلے وقتوں کے لیے بچا رکھتا تھا۔ زمانے نے ذرا تیزی دکھائی تو سکوں کی جگہ نوٹوں نے لے لی۔ اب ہمار ے پاس نوٹ گننے کا وقت بھی نہیں رہا ان کی جگہ کریڈ ٹ کا رڈ نے لے لی۔نقد رقم کی گردش کو کم کرنے کے لیے بنکوں نے کریڈٹ کارڈ کا سہارا لیا ہے۔ یہ کارڈ ان لوگوں کے لیے آسانی سے دستیاب ہیں جن کے متعلق بنک کو گمان ہو کہ وہ ان کے واجبات مع سود ادا کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔چنانچہ ایسے حضرات صرف ایک درخواست کے ذریعے بنکوں سے یہ کارڈ حاصل کر سکتے ہیں۔جب آپ کریڈ ٹ کارڈ کے مالک بن جائیں گے تو بنک آپ سے گزارش کر ے گا کہ جناب ہم آپ کو پیدل چلتے نہیں دیکھ سکتے لہذا تھوڑے سے سود کے عوض ایک نئی گاڑی کیوں نہیں خرید لیتے ۔ ہر آدمی سوچنے پر مجبو ر ہوجاتا ہے کہ شرح سود بہت ہی کم ہے لہذا تھوڑی سی رقم کے عوض میں ایک عد د گاڑی کا مالک کیوں نہ بن جاؤں۔جیسے ہی آپ یہ ارادہ متعلقہ بنک مینیجر سے ظاہر کرتے ہیں وہ فوراً آپ کی گاڑی کی حصول کے لیے بھاگ دوڑ شروع کر دیتا ہے ۔جب آپ گاڑی خریدنے کے لیے تیار دکھائی دیں تو وہی مینیجر آپ کو گاڑی کے ماڈل رنگ اور اس میں نصب سامان کے متعلق اتنی محبت سے بتائے گا کہ جنہیں سن کر آپ نہال ہوتے جائیں گے۔اسی اثنا میں بنک کا مینیجر آپ کی مطلوبہ کار کے لیے ایک عدد دستاویزبرائے حصول گاڑی آپ کے دستخطوں کے لیے پیش کر ے گا۔ جب گاڑی بغیر کسی مشقت کے مل رہی ہے تو بیگم صاحبہ بھی ساری بچیتں بھلا کر برقی آلات و سامان جن میں اوون اور ایرکنڈیشنز شامل ہیں بذریعہ کریڈٹ کارڈ حاصل کر لے گی۔رفتہ رفتہ آمدنی کا بیشتر حصہ سود اور قرضوں کی ادائیگی میں صرف ہونا شروع ہو جائے گا۔کریڈ ٹ کارڈوں سے بنکوں کو سود کی مد میں ملنے والی رقم انتہائی آسانی سے دستیاب ہونے لگتی ہے لہذا یہ مد ان کی مرغوب ترین بن جاتی ہے۔امریکہ میں۸۰ فیصد لوگ کریڈ ٹ کارڈ استعمال کرتے ہیں اوربظاہر تو وہ پرتعیش زندگی گزارتے نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں۔ جس سے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی فرار حاصل نہیں کر سکتے ۔ میرا ایک دوست خوشحالی کی تلاش میں بیس سال قبل امریکہ گیا تھا۔ وہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہے جب کہ اس کی دو بہنیں ہیں جو ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں۔والد ان کی شادی کے انتظار میں اس دنیا سے کوچ کر گئے ہیں۔وہ کبھی کبھی سہ ماہی یا ششماہی کچھ رقم گھر بھجوا دیتا ہے ۔ ایک بار میں نے اس سے کہاکہ تمہارے والد کے بعد تمہاری بہنوں اور ماں کو تمہاری ضرورت ہے ان کا خیا ل کرو۔ اس نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ میرا پاکستا ن آنا محال ہے ۔ میر ا گھر ، میری گاڑی ، فرنیچر ، بچوں کے تعلیمی اخراجات سب کریڈٹ کارڈوں سے پورے ہور ہے ہیں اگر میں قرض کی ادائیگی بر وقت نہیں کرتا تو عد م ادائیگی کا مرتکب ٹھہرایا جاؤ ں گا۔امریکہ میں یہ صورت حال پیش آ گئی تو میں معاشی موت مر جاؤں گا۔میں تو اسوقت کو کوس رہا ہوں کہ جب میں نے پہلی بار کریڈٹ کارڈ کے حصول کے لیے بنک سے رابطہ کیا تھا۔

            ہمارے ہاں بھی بہت سے لوگ ان کے اسیر ہو گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ۳۶ فیصد لوگ ان کی بدولت بنکوں کے مقروض ہو گئے ہیں۔جبکہ ۱۹ فیصد ان کے اجرا کے منتظر ہیں۔بلا شبہ ہم خوشحال زندگی گزارنے کے خواہاں ہیں مگر ہم سود ادا کرنے پر کیوں مصر ہیں۔جبکہ ہم ان تعیشات کے بغیر بھی زندگی بآسانی گزار سکتے ہیں۔ مالیاتی اداروں کے پھندوں میں سے کریڈٹ کارڈ ایک جناتی پھند ہ ہے جس میں کوئی ایک بار پھنس جائے تو نکلنے کے سارے ر استے مسدود ہوجاتے ہیں۔ اس لیے میرا درد مندانہ مشورہ یہ ہے کہ کریڈ ٹ کارڈ سے ہر ممکن بچنے کی کوشش کی جائے۔‘ جتنی چادرہو اتنے ہی پیر پھیلائے جائیں’ اس اصول پر عمل کرتے ہوئے اس سے بچنا انتہائی آسان ہے۔