عدل جہانگیری

مصنف : فاران سید

سلسلہ : حالاتِ حاضرہ

شمارہ : جون 2008

            یہ کراچی ہے۔ اپریل کی 27 تاریخ ہے۔ کراچی کے ایک غریب گھرانے میں عین اس وقت صف ماتم بچھ گئی ہے جب تھوڑی دیر بعد خوشیاں منائی جانے والی تھیں۔ اس غریب گھرانے کے واحد کفیل نوجوان طفیل شاہ نے پنکھے سے لٹک کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ہے۔ طفیل شاہ کی ابھی دس ماہ قبل ہی شادی ہوئی تھی اور اس کی چالیس دن کی چھوٹی سی بچی ہے جس کی پیدائش کی ابھی خوشی منائی جانی ہے۔ ابھی کچھ دیر قبل دروازے پر کوئی آیا تھا اس کے جانے کے بعد سے طفیل شاہ مسلسل اپنے کمرے میں بند ہے۔ کسی کو کچھ خبر نہیں کہ اس نے اپنے کمرے کا دروازہ کیوں بند کر رکھا ہے۔ کافی دیر گزر جانے کے بعد جب اس کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے تو اندر سے کوئی جواب نہ پاکر آخر دروازے کوتوڑ دیا جاتا ہے ۔ دروازہ ٹوٹنے کے ساتھ ہی کئی زندگیاں بھی ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں ……

 ٭٭٭

            یہ 2002 ہے ۔ جناب شوکت عزیز وزیر خزانہ ہیں اور انہیں معیشت کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دینے میں ملکہ حاصل ہے ان کے پاس الہ دین کا چراغ ہے ، جس میں وہ پھونک ماریں گے اور‘‘ سب ٹھیک ہو جائے گا۔’’ ہماری بنجر زمینیں سونا اگلنے لگیں گی۔ ہماری GDP کو پر لگ جائیں گے۔ بیروزگاری کے جن کو بیڑیاں لگا دی جائیں گی۔ افراط زر کو بھی کنٹرول کر لیا جائے گا اور ویسے بھی افراط زر ہی تو کسی قوم کی ترقی کی نشاندہی کرتا ہے …… جناب شوکت عزیز نے جادو کی چھڑی گھمائی اور انہیں ان کے ‘‘جن’’ نے بتایا کہ اس قوم میں بہت سے ‘‘بھوکے ننگے’’ بھی موجود ہیں اور ان پر بھی ‘‘کرم کی نظر’’ ہو جائے۔ شوکت عزیز فورا حرکت میں آئے اور 5 million ‘‘بھوکے ننگوں’’ کو فورا ‘‘ریلیف’’ دے دیا گیا۔ ان کے بینکوں کے قرضے معاف کر دیے گئے۔ یہ قرضے ان لوگوں کے معاف کیے گئے ہیں جنہوں نے 5 لاکھ یا اس سے زائد کا قرضہ حاصل کیا ہوا تھا……

٭٭٭

             نئی حکومت آچکی ہے۔ سیاستدانوں کے ‘‘سستے آٹے’’ نے اس ‘‘خوشحال قوم’’ کا کچومر نکال دیاہے۔ بلوچستان میں 12 روپے کی روٹی ہے۔ لاہور میں 30 روپے تو کراچی میں 35 روپے کلو ‘‘سستا آٹا’’ دستیاب ہے۔ ‘‘خوشحال عوام’’ دودھ کی شکل دیکھنے کو ترس گئے ہیں ۔ دودھ 42 روپے فی لیٹر فروخت ہو رہا ہے۔ گھی کی قیمت 142 روپے فی کلو ہے۔ پٹرول کی قیمت 66 روپے سے تجاوز کر گئی ہے اور شنید یہ ہے کہ اب یہ 70 روپے ہو جائے گی۔ ہری مرچ جو مفت ملتی تھی آج وہ بھی 260 روپے کلو فر وخت ہو رہی ہے۔ قدرت کی طرف سے مفت عطا کردہ ‘‘نمک’’ واقعی ‘‘سستا’’ ہے کیونکہ یہ ‘‘صرف’’ 14 روپے کلو ہے۔ پٹرول کے ڈسے عوام کے لیے سی این جی بھی ‘‘بم’’ بن چکی ہے۔ سی این جی کی قیمت بھی 38 روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔ واپڈا کو 120 ارب روپے کا خسارہ ہے اور اس خسارے کو کم کرنے کے لیے ہم جلد ہی ‘‘حصہ ’’ ڈالیں گے۔ ریلوے ابھی تک 27 دسمبر کا خسارہ پورا کرنے کی حالت میں نہیں تھی کہ تیل کی قیمتوں نے اسے اور خسارے میں دھکیل دیا ہے اور اب ہم ریلوے میں بھی ‘‘حصہ’’ ڈالیں گے کیونکہ کرایوں میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 60 ملین لوگ خوارک کی کمی کا شکار ہیں اور عنقریب یہ تعداد 77 ملین ہونے کو ہے۔ ماہ اپریل گزرنے کے ساتھ ہی عوام الناس کی قوت خرید میں 56 فیصد کمی واقع ہو گئی ہے۔ جبکہ اشیائے خورونوش کی ڈیمانڈ میں 18 فیصد مزید اضافہ ہو گیا ہے اور اب اس مزید اضافے کے ساتھ عوام کی جیب میں موجود ‘‘روپے’’ کی کیا قدر رہ جائے گی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں…… پوری دنیا میں ڈالر بری طرح پٹ رہا ہے اور جبکہ ‘‘روپے’’ نے تو سارے ریکارڈ ہی توڑ دیے ہیں کیونکہ روپیہ پچھلے چار سال کی کم ترین سطح پر آگیا ہے۔ چاول کی قیمت 100 روپے کلو ہے ۔ گندم کی قیمت 750 روپے فی من کو چھو رہی ہے اور یقینا اس میں اضافہ ہو گا۔ اشیائے خورونوش میں افراط زر کی شرح 35 فیصد سے زائد ہے ۔

            ایک طرف ہماری معیشت کا یہ حال ہے تودوسری جانب بینکوں نے پچھلے چار سال میں جو ‘‘کنزیومر فنانسنگ’’ کی ہے اس کے نتائج بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ خود کشی ایک معمول بن چکا ہے۔ 2.8 ملین لوگ بینکوں کے شکنجے میں پھنس گئے ہیں۔ یہ وہ لوگ جو عوام کے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے 5 ہزار ، دس ہزار اس طرح کی چھوٹی چھوٹی رقموں کے مقروض ہیں۔ بینکوں کی ریکوری ٹیموں نے زندگی کو اجیرن کر دیا ہے۔ لوگوں کے پاس خودکشی کے علاوہ کوئی چارا نہیں۔ آج کل ہر طرف ‘‘مفاہمت’’ کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن عوام سے ‘‘مفاہمت’’ کرنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں…… اربوں روپے ہڑپ کرنے والے آج بھی قومی اسمبلی میں براجمان ہیں جن میں ہمارے دو سابقہ وزرائے اعلی بھی شامل ہیں۔

            طفیل شاہ بھی انہی بینکوں کا مقروض تھا اور اس نے بھی چند ہزار روپے قرض لیے تھے لیکن اس میں روپے واپس کرنے کی سکت تو نہ تھی البتہ اپنی جان دینے کی سکت تھی سو اس نے دے دی…… آج پوری عوام مایوسیوں کا شکار ہے۔ لوگوں کو بہت امیدیں تھیں مگر سب کی سب چکناچور ہو گئیں ہیں۔ ایک طرف سے بے رحم مہنگائی تو دوسری طرف یہ ظالم بینک لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن کر رہے ہیں مگر نجانے عوام کو ‘‘ریلیف’’ دینے والے کہاں ہیں…… خود تو انہوں نے عوام سے ‘‘مفاہمت’’ کی صورت میں ‘‘ریلیف’’ لے لیا اور اربوں روپے چاٹ کر وہ آج بھی مزے کر رہے ہیں اور نجانے کتنے‘‘ طفیل شاہ’’ اپنی زندگیوں سے ہاررہے ہیں…… لوگ پوچھتے ہیں کہ اربوں روپے ہڑپ کرنے والوں کا احتساب کب ہوگا…… مگر شاید احتساب ان کا نہیں ہمارا ہی ہو گا کیونکہ

 دور حاضر کا یہی عدل جہانگیری ہے

 کہ مرد مظلوم کو اینٹوں میں چنایا جائے

            اور ہم اس‘‘ عدل جہانگیری’’ سے مسلسل ڈسے جا رہے ہیں …… اور جاتے رہیں گے نجانے کب تک……!!! مزید خبر یہ ہے کہ پچھلے باون سال میں اس قوم نے جتنے قرض لیے تھے اس مجموعی رقم کے برابر پچھلے آٹھ برس میں لے لیے گئے ہیں لیکن وہ رقم ہے کہاں ۔ کوئی نہ جانتے ہوئے بھی سب جانتے ہیں۔