افواہوں کی نفسیات

مصنف : انیس ناگی

سلسلہ : نقطہِ نظر

شمارہ : جون 2008

            افواہیں ہماری زندگی کا ایک لازمی جز بن چکی ہیں ۔ہماری معاشرتی زندگی میں روزانہ افواہیں بنتی اور گم ہو جاتی ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افواہیں کون بناتا ہے اور یہ کیوں کر بنتی ہیں ؒافواہیں کسی خارجی عنصر سے معاشرے میں نہیں در آتیں ،یہ انسانی ذہن کی اختراع ہوتی ہیں معاشرے کا ہر شخص ان کی تشکیل یا ترسیل میں شرکت کرتا ہے ۔افواہ اور گپ بازی میں فرق ہوتا ہے ۔مشہور لوگوں کی نجی زندگی کے بارے میں اسکینڈل افواہ کے زمرے میں نہیں آتے ۔گپ بازی یا اسکینڈل عام طور پر بے ضرر ہوتے ہیں لیکن افواہوں کے عقب میں جو مقصد ہوتا ہے ،اسے سنجیدگی سے لینا ضروری ہے کیونکہ افواہ سازی بیک وقت ایک انفرادی اور معاشرتی عمل ہے جو ایک خصوصی نفسی حالت کا تر جمان ہوتاہے جس کے پیش نظر عموماًتفنن طبع کے بجائے کسی ایک کو ضرر پہنچانابھی مقصودہوتا ہے ۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ افواہ سازی ہمیشہ منفی ہوتی ہے ۔اس کے خلاف یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ افواہ سازی منفی عمل ہو ۔افواہ دراصل قیاسات کے پیش نظر ایک پیشگی اطلاع ہوتی ہے مثال کے طور پر اگر یہ بات پھیل جائے کہ بہت زیادہ بارشوں کی وجہ سے دریا میں طوفان امڈ رہا ہے ۔یہ افواہ لوگوں کو پیشگی اطلاع ہے ۔یہ افواہ منفی ہونے کی بجائے مثبت ہے ،یہ لوگوں کو اپنے بچاؤ کے لیے تیار کرتی ہے ۔اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو پھر افواہ کا تعلق نیت سے ہے ۔ہر معاشرے کی اپنی اپنی نیت ہوتی ہے لیکن جو معاشرہ زندگی کے تمام شعبوں میں بد دیانتی پر تلا ہوتو پھر ہر افواہ کا منفی ہونا ضروری ہے ۔انسان کی سر شت کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید ہی کوئی افواہ کسی Altruismکا نتیجہ ہو ۔

            افواہ کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ اس کا کوئی ماخذ نہیں ہوتا او راس کے مصنف کو بھی تلاش نہیں کیا جا سکتا ۔دراصل اس کا مصنف معاشرے کی ذہنی حالت ہوتی ہے ۔اگر ہم افواہ سنانے والے سے پوچھیں کہ اس نے یہ افواہ یابات کہاں سے سنی ہے تو وہ اس قسم کی بات کرے گا ‘‘بس اسٹاپ پر چند لوگ یہ بات کررہے تھے ’’یا پھر یہ کہ‘‘ہمارے دفتر میں یہ بات پھیلی ہوئی ہے ۔’’افواہ ہمیشہ عدم تیقن کا نتیجہ ہوتا ہے ،اس میں راز یا اسرار کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے ۔جب کسی معاشرے کے جملہ واقعات عدم تیقن کا شکار ہوں اور کسی نظم و ضبط کی پیروی نہ کی جائے تو افواہیں جنم لیتی ہیں ۔افواہ سازی میں عموماً دو طرح کی نفسیات شامل ہوتی ہے ۔ان میں ایک Wishful Thinking شامل ہے۔مثا ل کے طور پر میں ایک واقعہ کے حسب منشاء نتائج کا متمنی ہوں ۔میں اس کی حمایت میں رد عمل پیدا کرنے کے لیے افواہ سازی سے کام لیتا ہوں۔میں جو بات خود حاصل نہیں کر سکا اسے افواہ کی شکل میں احساساتی سطح پر حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔میں ایک سیاسی لیڈر کو پسند نہیں کرتا اور رد عمل کے طور پر اس کی جنسی بدکاریوں کے بارے میں کوئی من گھڑت بات معاشرتی فضا میں ایک غبارے کی طرح چھوڑ دیتا ہوں تاکہ اس کی شہرت خراب ہو اور میں اس سے ایک طرح کی نفسیاتی تسکین حاصل کروں ۔

            یہ ضروری نہیں کہ افواہ کی بنیاد صداقت پر ہو ۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ کسی بات کی صداقت جاننے کے لیے ہم افواہ کاغبارہ رائے عامہ کے درمیان چھوڑ دیتے ہیں ۔یہ جاننے کے لیے کہ اس سے کیا رد عمل ہوتا ہے اور کون اس کی تصدیق کرتا ہے ۔یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ جب کسی حکومتی معاملے میں بے حد افواہیں گشت کرنے لگیں تو پھر ان کی تردید یا تائید ضروری ہو جاتی ہے ۔

            جن معاشروں میں ابہام ہو ، دہری اخلاقیات کا دور دورہ ہو ،جہاں مفادات کی جنگ میں عدم حقیقت کو حقیقت کے طور پر پیش کیا جائے یا جہاں آمریت ہو ،وہاں افواہ سازی ایک رجحان کی بجائے سیاسی حکمت عملی کا ایک حربہ ہوتی ہے جسے Disinformation بھی کہا جا تا ہے ۔افواہ کا تعلق ترسیل سے ہے کہ مصدقہ یاغیر مصدقہ باتوں کو دوسروں تک پہنچایا جائے ۔             افواہ سازی کیوں کی جاتی ہے ؟ کیا یہ ایک انفرادی نفسیات کا مسئلہ ہے یعنی کوئی شخص کسی ذہنی عارضے میں مبتلا ہے اور وہ تلافی یا رد عمل کے طور پر افواہ سازی سے کام لے رہا ہے یا کوئی ایسا معاشرتی محرک ہے جو افواہ سازی کا ذمہ دار ہے ؟ جہاں تک اس کے ایک انفرادی رجحان ہونے کا تعلق ہے،اس کے بارے میں کوئی عمومی کلیہ قاعدہ نہیں بنایا جا سکتا ۔ مثلاً یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص معاشرتی بے توجہی کا شکار ہے اور وہ لوگوں کی توجہ اپنی طرف منعطف کرنے کے لیے افواہ سازی سے کام لیتا ہے لیکن اگر وہ اس عمل کو تسلسل سے جاری رکھتا ہے تو اس کی معاشرتی ساکھ بھی ختم ہو جاتی ہے ۔یہی بات اخباروں کے اوپر بھی صادق آتی ہے ۔اکثر اخبار افواہ سازی سے قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں لیکن جب یہ افواہیں جھوٹ ثابت ہونے لگتی ہیں تو ان کی ساکھ متاثر ہوتی ہے اور افواہ خود بخود زائل ہوجاتی ہے ۔

            یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں افواہ سازی بہت کم ہوتی ہے کیونکہ وہاں ایسے مستحکم معاشرتی نظام تعمیر کیے گئے ہیں جن میں افواہ کی گنجائش کم ہوتی ہے ۔کاروبار حیات اور مملکت کو ایک منطقی اور ایک اخلاقی نظام کے تحت سر انجام دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے افواہ کے ذریعے معا ملات طے کرنے کی گنجائش نہیں رہتی کیونکہ ایک دوسرے پر اعتماد کیا جاتا ہے اور حکومت کو عوام دشمن نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی عوام حکومت کو اپنا حریف تصور کرتے ہیں ۔

            دراصل افواہ سازی بے یقینی اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد کا نتیجہ ہوتی ہے ۔عام طور پر افواہ سازی وہ افراد کرتے ہیں جو خارجیت پسند ہوتے ہیں ۔عام طور پر سیاسی افواہ سازی خفیہ عمل ہوتی ہے کیونکہ ملکی یا حساس اداروں کے بارے میں افواہ سازی نقصان کا باعث بھی ہو سکتی ہے اور افواہ ساز کو جیل کی ہو ابھی کھانی پڑتی ہے ۔

            غیر ترقی یافتہ ممالک میں افواہ کا عمل بڑا سریع ہوتا ہے ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان ممالک میں معاشرے کا بیشتر حصہ کام کاج کے بغیر ہے یا اگر کام کاج ہے بھی تو وہ بھی معمولی نوعیت کا ۔ضرورت سے زیادہ فراغت میں افواہ سازی کا رجحان فروغ پذیر ہوتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں حجام کی دکانیں ،اخباروں کے اسٹال اور دکانوں کے تھڑے افواہ سازی کے معروف اڈے ہیں جہاں پر ہرکوئی بے پرکی اڑاتا ہے ۔ہمارے ملک میں افواہ سازی کا دوسرا مرکز دارالخلافہ ہے جہاں سے ہر روز مختلف قسم کی افواہیں جنم لے کر سارے ملک میں پھیلتی رہتی ہیں ایک دوست کا خیال ہے کہ ہمارے یہاں افواہیں کبھی بے بنیاد نہیں ہوتیں ،ان میں کوئی نہ کوئی صداقت ضرور ہوتی ہے ۔اس میں مبالغے کا عنصر بھی ہوتا ہے ۔اگر دوست کی اس بات کو درست تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ افواہ سازی ایک انتظامی اور سیاسی حکمت عملی ہے جو سیاسی حریف ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے استعمال کرتے رہتے ہیں ۔

            دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کا وزیر ڈاکٹر گو بلز اس کام پر مامور تھا کہ وہ افواہ سازی کے ذریعے اتحادیوں میں کھلبلی پیدا کردے اور اپنی اصل پالیسیوں کو ظاہر نہ ہونے دے ۔ہٹلر نے افواہ سازی کے ذریعے اپنے مخالف اتحادیوں کو بے حد پریشان کیا تھا ،کیونکہ یہ ایک طرح کی نفسیاتی جنگ تھی اور جنگ کی اصل صورت حال کو مشکوک بنانے کا ایک حربہ تھا افواہیں روز مرہ کی زندگی سے جنم لیتی ہیں اور ان میں پورے معاشرے میں کھلبلی مچانے کی قوت ہوتی ہے ۔لیکن افواہ کی زندگی چند روزہ ہوتی ہے ،اگر وہ قلیل مدت میں اپنی صداقت ثابت نہیں کرتی تو وہ خودبخود زائل ہوجاتی ہے ۔

            یہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ فرد جو زندگی میں سنجیدہ ہے اور ایک مقصدیت رکھتا ہے، وہ افواہ سازی یا اس سے حاصل شدہ معلومات کی طرف متوجہ نہیں ہوتاکیونکہ اکثر و بیشتر بد دیانتی پر مشتمل ہوتی ہیں۔ افواہ ایک غیر مطمئن ذہن کی پیداوار ہوتی ہے جو اپنی بے کلی اور خدشات کو دوسروں تک منتقل کرنا چاہتا ہے۔افواہوں کی بھی کئی ایک قسمیں ہیں جن میں سیاسی ، مذہبی، معاشرتی ہر قسم کی ہوتی ہیں۔ ہمارا معاشرہ بے حد ضعیف الاعتقاد ہے جو زندگی کی بہت سی مشکلات کو زندہ پیروں کی کرامات کی مدد سے حل کرنا چاہتا ہے۔ ہم آئے دن یہ سنتے ہیں کہ فلاں گاؤں میں ایک درویش ہے جس کے دم کیے ہوئے پانی سے کینسر کی بیماری ختم ہوجاتی ہے۔ اس قسم کی بات بین الاقوامی سطح پر انڈونیشیا کی ایک خاتون معالج کی کرامات کے بارے میں بڑی مشہور ہوئی تھی کہ وہ آنکھوں سے ایکسرے کرتی ہے اور بدن پر ہاتھ پھیر کر بغیر آپریشن کے بیماریاں دور کرتی ہے۔ یہ افواہ اتنی پھیلی کہ دنیا کے سارے کونوں سے لوگ انڈونیشیا جا پہنچے۔ بتدریج اس معالج کی شہرت خاک میں مل گئی، کیونکہ یہ ایک ڈھکوسلہ تھا۔ اس قسم کی افواہیں جن میں معالجوں اورفقیروں کی معجز اثر قوتوں کا چرچا کیا جاتا ہے، ایک دانستہ حکمت عملی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ دراصل انسان اپنے نامعلوم سے ہمیشہ خائف رہتا ہے اور اسے ہمیشہ یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں اس کے ساتھ اچانک کوئی غیر معمولی بات پیش نہ آجائے، اس لیے وہ غیر عقلی باتوں پر بھی یقین کر کے اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ افواہ کے ذریعے لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی ایسی بات ہونے والی ہے جو غیر معمولی ہے اور اس کے لیے انہیں تیار رہنا چاہیے۔ افواہ تعلیم یافتہ اور ان پڑھ دونوں کو یکساں طور پر متاثر کرتی ہے کیونکہ عام طور پر اس کا تعلق فرد کے غیر عقلی حصے کو متاثرکرکے اپنے آپ کو قابل یقین بنانے سے ہوتا ہے۔ افواہ کی تاثیر کا انحصار افواہ سننے والے پر ہوتا ہے کہ وہ اسے کس طرح قبول کرتا ہے۔ اگر آپ زود حس اور جذباتی ہیں تو آپ فوراً اس سے اثر قبول کریں گے اور غیر شعوری طور پر اپنے اندر ایک دفاعی حکمت عملی بھی تیار کر لیں گے۔ مثال کے طور پر جب بجٹ کے دوران یہ افواہ پھیلتی ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھ رہی ہے تو اس افواہ کا خاص رد عمل ہوتا ہے۔ پٹرول پمپ کے مالکان ایک دم قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔ لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ پچھلے داموں پر زیادہ سے زیادہ پٹرول خرید لیں۔ لیکن جب اگلے دن پٹرول کی قیمت نہیں بڑھتی تو انہیں اپنے رد عمل پر ندامت ہوتی ہے۔ افواہ نے معاشرے کے اندر احساس کے تحفظ کی کمی اور بے یقینی کے عنصر کو ہوا دے کر مطلوبہ اثر پیدا کیا ہوتا ہے۔

            مفادات افواہوں کا ماخذ ہوتے ہیں۔ عموماً معاشرے کے طبقے اپنے مفادات کی جنگ میں گاہے بگاہے افواہیں اڑاتے رہتے ہیں۔ جو طبقے محکوم ہوتے ہیں وہ افواہوں سے متاثر ضرور ہوتے ہیں لیکن وہ افواہ سازی نہیں کرتے کیونکہ ان کی رسائی معلومات کے ان مراکز تک نہیں ہوتی جہاں سے کچی پکی اطلاع مل

 سکتی ہے۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ افواہ سازی کا عمل اکثر حالتوں میں مقتدر، اور اہل ثروت طبقے سے ہوتا ہے جس کے اقتصادی اور سیاسی مقاصد ہوتے ہیں جو اپنی مطلب بر آری کے لیے معاشرے کے دوسرے طبقوں کو افواہوں کے ذریعے اکساتے ہیں۔