اور وہ چلے گئے! "Mission Complete"

مصنف : طارق اسماعیل ساگر

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : مئی 2008

            ‘‘ٹریکل ڈاؤن اکانومی’’ کے بانی پاکستان کے سابق وزیرِ خزانہ اور وزیرِ اعظم جن کی انقلابی پالیسیوں نے پاکستان کو ایتھوپیا اور روانڈا کے مقابل لا کھڑا کیا تھا، اپنا مشن مکمل کر کے اپنی کرشماتی معاشی پالیسیوں سمیت چپ چاپ اپنے خاندان سمیت پاکستان سے تشریف لے جا چکے ہیں۔ آخری اطلاعات کے مطابق آج کل موصوف نے د بئی میں اپنا دفتر کھول لیا ہے جو دنیا کے ہر ایسے بد قسمت ملک یا کمپنی کو معاشی مشورے دیا کرے گا جو پاکستان کی طرح اپنا گروتھ ریٹ ساڑھے چھ یا سات فیصد کرنا چاہتا ہو۔ جہاں کے عوام جیسے تیسے سوکھی روٹی کھا رہے ہوں، مناسب قیمت میں پٹرول اور ضروریات زندگی میسر ہوں لیکن ان کے ماہرین معیشت اعدادی گورکھ دھندے سے نا بلد ہوں اور اسی نوعیت کا کرتب نہ جانتے ہوں جو ہمارا یہ نابغہ روزگار ماہر معیشت سٹی بنک کا سابقہ اعلیٰ افسر جانتا تھا وہ ضرور ماہر معاشیات شوکت عزیز سے رابطہ کریں اور اپنے عوام سے بددعائیں لیں۔ اس طرح ان کا گروتھ ریٹ بھی بڑھ جائے گا اور وہ ‘‘ٹریکل ڈاؤن اکانومی’’ کا مزہ بھی چکھ لیں گے۔

            1949ء میں کراچی میں جنم لینے والے شوکت عزیز نے کراچی انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈ منسٹریشن سے ایم بی اے کی ڈگری لی اور سٹی بنک میں ملازم ہوئے۔ کچھ عرصہ لاہور میں خدمات انجام دیں جس کے بعد انہیں مختلف ممالک میں بھیجا گیا اور آخر میں نیویارک میں سٹی بنک کے چیئر مین کی براہ راست نگرانی میں خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ ان کے روابط یہودی بنکار اور دفاعی ماہر وولفورڈ سے ہوئے ، جس کے بعد ان کی قسمت کو چار چاند لگ گئے۔ وولفورڈ عالمی بنک کے سابقہ چیئر مین اور بش کے پہلے دورِ حکومت میں نائب وزیر دفاع کے عہدے پر فائز رہے۔اس گوہر نایاب کو پرویز مشرف صاحب نے 1999ء میں امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں کی ایک تنظیم سے خطاب کے دوران دریافت کیا اور وہاں پاکستانی قوم کو خوشخبری سنائی کہ وہ اس کرشماتی شخصیت کے حامل ماہر معیشت کو پاکستان لا رہے ہیں تاکہ پاکستان کی ڈگمگاتی معیشت کو سہارا دے کر ترقی کی راہ پر گامزن کریں۔ شاید یہی وہ روزِ بد تھا جب پاکستانی عوام کی بد بختی کا آغاز ہوا۔ شنید ہے کہ موصوف اس سے پہلے بھی پاکستان کے چکر کاٹتے رہے خصوصاً میاں نواز شریف کے دورِ حکومت میں۔ انہوں نے مقدور بھر کوشش کی کہ میاں صاحب ان کی عظیم خدمات سے استفادہ کریں لیکن میاں صاحب اس کے متحمل نہ ہوئے ۔ بعد از خرابی بسیارموصوف امریکہ پدھار گئے۔ ان کی دوبارہ انٹری امریکہ میں با اثر پاکستانی شخصیات کے ذریعے ہوئی ۔ جنہوں نے صدر پرویز مشرف کو ان کی کرامات سے آگاہ کیا ہوگا۔ صدر صاحب خود بھی بڑے روشن خیال ترقی پسند ہیں کیسے اس نابغہ روزگار کو وہاں رہنے دیتے۔ وہ موصوف کو پاکستان لے آئے جہاں انہوں نے پہلے وزیرِ خزانہ کا چارج سنبھالا اور اعداد کی ہیرا پھیری سے اپنے ‘‘شاگردوں’’ کے ذریعے جنرل صاحب کو ایسی اکنامکس پڑھائی کہ جنر ل صاحب خود ہی الاّ ما شا اللہ خاصے ماہر معشیت بن چکے ہیں۔ آج کل موصوف کے یہی ‘‘شاگرد’’ رہی سہی اکانومی کا بیڑہ غرق کرنے پر تلے ہیں۔ آٹے، گیس، بجلی کے قحط کے اب وہ پاکستانی عوام پرپٹرول بم چلانے کے لیے پر تول رہے ہیں ( اوردو بار چلا بھی چکے ہیں)جس کے بعد ہمیں امید ہے کہ دھماکوں سے بچے کھچے غریب اور سفید پوش قحط کے ہاتھوں خود کشیاں کرنے پر مجبورہوجائیں گے۔یہ بات آج تک معلوم نہ ہوسکی کہ وہ کون سی خدمات تھیں جن کی وجہ سے شوکت عزیز صاحب کو اس اعلیٰ ترین منصب پر فائز کیا گیا۔ ان کی ترقی کی وجوہ جو بھی رہی ہوں مگر ایک بات واضح ہے موصوف نہ صرف اپنے دریافت یا درآمد کنندگان کے انتہائی وفادار ثابت ہوئے بلکہ اپنے آقاؤں کے بھی ایسے نمک حلال ثابت ہوئے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ ان کی خوش قسمتی کہ 1998ء میں ایٹمی دھماکے کرنے کے جرم میں امریکہ نے جو امداد بند کی تھی اور پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگائی تھیں وہ 9/11کے واقعہ کے بعد ختم ہوگئیں۔ نائن الیون کے بعد عالمی منظر نامہ میں نئی آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں نہ صرف امریکی امداد بحال ہوئی بلکہ آئی ایم ایف اور پیرس کلب جیسے عالمی اداروں سے اقتصادی تعاون کی راہیں بھی ہموار ہوئیں۔مصر نے ایک ایسے ہی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قرضے معاف کروا لیے تھے۔ مگر ہمارے پاس اس وقت کے وزیرخزانہ نے امریکہ سے وفاداری کا ایسا ثبوت دیا کہ مغربی ماہرین کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ انہوں نے امریکہ سے قرضے معاف کروانے کے بجائے صرف انہیں ری شیڈول کروا کے قوم پر اتنا احسان کیا ۔شاید ان کی انہی خدمات کے صلہ میں انہیں تین سال کے لیے وزیر اعظم چن لیا گیا۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے پچھلے چار پانچ سالوں کے دوران چار ارب ڈالر سے زیادہ کی رقوم پاکستان ارسال کیں جبکہ عالمی ماہرین اقتصادیات کے مطابق 9/11 کے بعد سے پاکستان کو مختلف مدوں میں 50ارب ڈالر کی امداد ملی ہے۔ اتنی خطیر رقم سے تمام بیرونی قرضے اتارے جاسکتے تھے مگر ان کے بارے میں کسی کوبھی خبر نہیں کہ وہ کہاں گئیں اور کہاں خرچ ہوئیں۔ شوکت عزیز صاحب نے کشکول توڑنے اور قرضہ نہ لینے کا دعویٰ کیا مگر وقت رخصت ملک کو چار سے پانچ ارب ڈالر کا مقروض بنا گئے جبکہ اندرونی قرضے اس کے علاوہ ہیں۔ وہ جب بھی گفتگو کرتے تو یہی فرماتے کہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں، ‘‘ٹریکل ڈاؤن اکانومی’’ کی اصطلاح ان کے ورد زبان ہوتی رہی مگر دوسری طرف عوام غریب سے غریب تر ہوتے چلے گئے۔ مہنگائی، بیروزگاری، بدعنوانی اورذخیرہ اندوزی پاکستانی تاریخ کے سابقہ تمام ادوار(وزارت خزانہ اور وزارتِ عظمیٰ) بدعنوانی اور مالی سکینڈلز کے بد ترین دور ثابت ہوئے۔ چینی ، گھی ، سیمنٹ اور آٹے کے پے در پے بحرانوں نے غریب عوام کو نڈھال کر کے رکھ دیا۔ ان حالات میں بھی ان کا نعرہ یہی رہا کہ زر مبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں اور غریب آدمی کی حالت بہتر ہورہی ہے۔ان کے دور کے مالی سکینڈلز کی تو ایک الگ تاریخ ہے مگر ایک واقعہ مثال کے لیے کافی ہے، جب گندم کی فصل آئی تو طے شدہ منصوبہ کے مطابق سرکاری سطح پر ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ اس سال گندم کی سرپلس فصل پیدا ہوئی۔ چنانچہ 200ڈالر فی ٹن کے حساب سے گندم برآمد کر دی گئی مگر جب گندم کی قلت پیدا ہوئی یا کی گئی تو 515ڈالر فی ٹن کے حساب سے درآمد کر لی گئی۔ جب اس بے مثال تجارت کاسراغ لیا گیا تو پتا چلا کہ گندم سرے سے برآمد ہی نہیں کی گئی بلکہ بعض حلقوں نے شوکت عزیز پر الزام لگایا کہ انہوں نے خلیج کے ایک ملک میں ایک ایسی کمپنی بنائی جس کا سوائے کاغذوں کے اور کہیں نام و نشان ہی نہ تھا۔ سو اس کاغذی کمپنی کو پہلے تو 200ڈالر فی ٹن کے حساب سے گندم برآمد(ملک کے اندر ذخیرہ) کر دی گئی اور جب گندم کی قلت پیدا ہوئی تو 515ڈالر فی ٹن کے حساب سے واپس (درآمد) کر دی گئی۔ کیا کوئی اس انوکھی تجارت کی مثال لا سکتا ہے؟سٹیل مل، کراچی سٹاک ایکسچینج اور کچھ دوسرے معاملات میں ان کا اسم گرامی اخبارات کی زینت بنا رہا لیکن ہمارے عمال حکومت جن کے نزدیک عوام کی حیثیت شاید بھیڑ بکریوں سے زیادہ کبھی کچھ نہیں رہی اس طرف کبھی متوجہ ہی نہیں ہوئے یا پھر یہ کام ان کے کرنے کا نہیں تھا، انہیں اپنے اختیارات کی حد کا علم تھا جس سے وہ تجاوز نہیں کر سکتے تھے۔پاکستان کی اکانومی کو چار چاند لگاکر شوکت عزیز صاحب تو رخصت ہوئے لیکن ان کے ‘‘سکول آف تھاٹ’’ کے مشیران کرام ابھی تک براجمان ہیں جن میں ہمارے سابقہ وزیرِ خزانہ اور آج کل نگران حکومت کے مشیر خزانہ بھی شامل ہیں۔

(بشکریہ، نوائے وقت میگزین، 27جنوری، 2008)