شہد

مصنف : ڈاکٹر ریحان انصاری

سلسلہ : طب و صحت

شمارہ : مئی 2008

            شہد اپنے مختلف رنگوں، خوشبو اور مجموعی خصوصیات کے ساتھ ایک انتہائی اہم غذا ہے۔ اہم اس لیے کہ اسے ہضم ہونے کے عمل سے گزرنا نہیں پڑتا بلکہ اس کے بہت سارے اجزا آنتوں کے ذریعہ سیدھے دورانِ خون میں آجاتے ہیں۔ اسی سبب کھلاڑیوں اور بچوں کے علاوہ کمزور اور ناتواں افراد کے لیے یہ بہترین غذائی نعم البدل ہے۔     

شہد کی مکھی:

            فطرت کے سامنے انسان کتنا بے بس و مجبور ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ شہد جیسی عطائے بے بہا کے لیے ایک معمولی سی مکھی کامحتاج ہے۔ خواہ کتنی ہی فیکٹریاں قائم کر لی جائیں اور صنعتی طریقے اپنائے جائیں، ساری دنیا کے بہترین پھولوں کا رس نچوڑ لیا جائے مگر وہ اس مکھی کے مقابلے میں ایک بوند شہد نہیں تیار کر سکتا ، یعنی اصلی شہد۔ شہد کی مکھی کے چھتے موم جیسی مفید شے سے تیار ہوتے ہیں اور یہ میٹریل بھی یہ خود تیار کرتی ہے۔ گویا شہد کی مکھی شہد اور موم دونوں تیار کرتی ہے۔

            مکھیوں کی دنیا بھی میں تقریباً بیس ہزار انواع پائی جاتی ہیں، جو باعتبار نوع گروہی یا تنہا زندگی گزارتی ہیں۔ان تمام میں صرف چار انواع ہی شہدکی مکھی کہلاتی ہیں۔ حیاتیات میں ان کی جنس ایپسApis کہلاتی ہے جس کی انواع Mellipera, Cerana, Sorsata اور Floreaہیں۔ چند انواع مخلوط النسل بھی ہیں مگر ان کی تعداد بھی دس تک بمشکل پہنچتی ہے۔ تمام انواع کاجغرافیائی محل وقوع اصلاً براعظم یورپ ، افریقہ اور ایشیا ہیں۔ ایران اور برصغیر ہند سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا، انڈونیشیا ، فلپائن، جاوا وغیرہ تک اور مشرقی ایشیا کے ممالک جاپان، چین اور کوریا میں ‘‘Apis Cerana’’ نوع کی مکھیاں پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ A.Dorsataنامی بڑی جسامت والی مکھیاں بھی ہندستان میں پائی جاتی ہیں۔

پرسیر شدہ محلول:

            شہد کو ایک پر سیر شدہ محلول Super Saturated Solutionمانا جاتا ہے جس میں مختلف قسم کی شکر اور دوسرے اجزا شامل ہیں۔ جب ہم پانی میں شکر گھولتے جائیں تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس میں مزید شکر نہیں گھولی جا سکے گی اور سالم شکرتہ میں جمع رہے گی۔ اس وقت اس محلول کو سیر شدہ (Saturated)کہتے ہیں۔ مگر اسی محلول کا درجۂ حرارت کچھ بڑھا دیا جائے تو اس میں مزید شکر گھولی جا سکے گی جب اس محلول کو سرد کیا جائے گا تو سیر شدہ ہونے کے لیے درکار مقدار سے زیادہ جو شکر محلول میں گھل چکی ہوتی ہے وہ دوبارہ قلمی شکل میں لوٹنے لگتی ہے۔ اس طرح تیار ہونے والے محلول کو پُر سیر شدہ (سپر سیچوریٹڈ) کہتے ہیں۔ اس خصوصیت کو سمجھنا شہد کے طبعی خواص کو واضح کردیتا ہے۔

پھلوں کے رس سے شہد کی تیاری

            اس کے دو مراحل ہیں اور دونوں لگ بھگ ایک ساتھ طے ہوتے ہیں۔ اول پھولوں کے رس کی رطوبت یا پانی کی مقدار کو اتنا گھٹانا کہ 17 تا 20فیصد رہ جائے اور دوسرا مرحلہ سکروز (Sucrose) گلوکوز اور فرکٹوز میں تحویل (Redcution) کا عمل ہے۔ پہلا مرحلہ چھتے میں پورا ہوتا ہے اور دوسرا مرحلہ مکھی جب پھولوں کا رس چوستی ہے اس وقت پورا ہوتا ہے۔ پہلے یہ قیاس کیا جاتا تھا کہ پھولوں کا رس چوسنے کے بعد مکھی کے پیٹ میں رس کا پانی کم ہوجایا کرتا ہے۔ مگر چوسنے سے پہلے رس میں پائی جانے والی رطوبت کی مقدار اور چوسنے کے بعد چھتے میں اگلنے کے وقت پائی جانے والی رطوبت کی مقدارکا غائر مشاہدہ اور تجزیہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوئی کہ چھتے میں اگلے گئے رس میں رطوبت بڑھی ہوئی ہوتی ہے کیونکہ اس میں مکھی کے ذریعہ شامل کیے گئے خامرے (Enzymes) بھی پائے جاتے ہیں۔

            پھولوں کے رس کو شہد میں تبدیل کرنے کے لیے شہد کی مکھی کے لعاب دہن میں موجود خامرے عمل کرتے ہیں، جن میں سب سے اہم خامرہInvertaseہے۔ جبکہ دیگرخامرے جیسے Diastaseوغیرہ بھی اس عمل میں معاون ہوتے ہیں۔ شہد کی مکھیاں چھتے میں شہد محفوظ کرتی ہیں اور اسے بار بار نگلتی اور اگلتی رہتی ہیں۔ اس عمل میں وہ خامروں کی بڑی مقدار شامل کرتی رہتی ہیں۔ جب شہد بالکل تیار ہوجاتا ہے تو مکھیاں اسے چھتے کے سب سے گرم حصے میں محفوظ کرتی ہیں جہاں درجۂ حرارت 31C (95F) ہوتا ہے۔ اس مقام پر ڈائی سیکرائیڈ Disacchrideشکر کو گلوکوز اور فرکٹوز میں تبدیل کردیا جاتا ہے اور اس میں موجوز زائد رطوبت کو کم کیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے مکھیاں اپنے پروں سے مسلسل ہوا جھلتی رہتی ہیں۔ جب شہد مکمل تیار ہو جاتا ہے تو چھتے کے ان خانوں کو مکھیاں اپنے موم سے بند seal کردیتی ہیں تاکہ ہوا کی نمی وغیرہ کے اثرات سے یہ محفوظ رہے۔

            شہد دراصل وہ غذائی ذخیرہ ہے جو مکھیاں اپنے مستقبل کے لیے محفوظ کرتی ہیں۔ مگر ان سے وہ خود تو خاطر خواہ فائدہ پتا نہیں اٹھا پاتی ہیں کہ نہیں لیکن حضرت انسان اس کے غذائی ، دوائی اور تجارتی فوائد سے خوب فائد ہ اٹھاتا ہے۔

شہد کے اجزائے ترکیبی :

            پھولوں کے رس میں سکروز sucrose نامی شکر پائی جاتی ہے جو بجائے خود کچھ سادہ شکر کا آمیزہ ہوتی ہے جنہیں مونو سیکرائیڈ monosaccharide اور ڈائی سیکرائیڈ duisaccharide کہتے ہیں ۔ مختلف ماخذ سے حاصل کیے گئے شہد کے اجزائے ترکیبی میں بے حد فرق پایا جاتا ہے۔ یہاں دی گئی تفصیل کو اوسط کا معیار مانتے ہوئے لکھا جا رہا ہے۔ تفصیل ملاحظہ کیجیے:

پانی سترہ فیصد ، فرکٹوز گلوکو ز اڑسٹھ فیصد، شکروز دو فیصد، اور باقی دیگر اجزا۔گلوکوز glucose اور فرکٹوز fructose کو بالترتیب انگوری شکر اور پھلوں کی شکر بھی کہتے ہیں ۔ بقیہ حصے میں بہت سے دیگر غذائی اجزا بھی شامل ہیں جیسے Dextrin ، پروٹین ، معدنیات ، تیزاب وغیرہ۔ شہد کی بو اور مزہ انہی دیگر اجزا پر انحصار کرتاہے۔ اس طرح ترکیب کے لحاظ سے شہد مجموعہ متفرقات ہے۔ ان متفرقات کے تناسب میں کسی بھی طرح کی کمی بیشی شہد کے طبعی خواص پر اثر انداز ہو جاتی ہے۔ مگر مخصوص قسم کے پھول اور نباتا ت کی مخصوص جماعتیں ایک ہی طرح کے رس دیتی ہیں۔ اس لیے ان کے گروپ سے حاصل ہونے والا شہد خواص میں یکساں ہوا کرتاہے۔

اصلی شہد کی پہچان:

            شہد کی اصلیت (یا خالص ہونے) کے تعلق سے قدیم زمانے سے بحث کا ماحول بنتا رہتا ہے۔ آئیے سارے مباحثوں سے دور ہو کر ایک تجربہ کرتے ہیں ۔

٭ شکر یا کسی دوسری میٹھی شے کی چاشنی (قوام) تیار کر کے اسے سائے میں یا کسی دوسری سرد جگہ پر رکھ چھوڑیے۔ کیا اس محلول میں شکر کی قلمیں دوبارہ از خود بن جائیں گی؟ یقینا نہیں بنیں گی۔ ورنہ آج شربت کی وہ ساری بوتلیں جو سایہ میں یا ریفریجریٹر میں رکھ دی جاتی ہیں ، ان کی تہہ میں بھی شکر ملتی ضرور۔

٭ ہم نے شہد پر لکھی ہوئی کئی کتابوں کے اوراق میں جگہ جگہ یہی بات لکھی ہوئی دیکھی کہ شہد چونکہ پُر سیر شدہ محلول ہے اس لیے اسے سرد ماحول ملنے پر یہ فوراً قلمی شکل Crystal میں آنے لگتا ہے اور یہ ایک ایسا پیمانہ ہے جس پر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ باقی کسی بھی طرح کی بحث سے کچھ حاصل نہیں ہے۔ مگر صارفین شہد کی اسی خاصیت کو شک کی نگاہ سے دیکھ کر مغالطے میں پڑ جاتے ہیں اور اچھے بھلے شہد کو غیر خالص سمجھ کر نالی میں انڈیل دیتے ہیں ۔ شاید یہی سبب ہے کہ تجارتی کمپنیاں شہد کی بوتلوں پر یہ ہدایت ضرور چھاپتی ہیں کہ اسے ریفریجریٹر میں نہ رکھیے ورنہ قلمی شکل اختیار کر لے گی۔

شہد کی قلمیں (Crystalisation ) :

٭ شہد میں گلوکوز اور فرکٹوز کا تناسب اس سبب سے اہم ہے کہ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ شہد کو قلمی شکل میں آنے میں کتنا وقت درکار ہو گا ۔

٭ دراصل شہد میں موجود گلوکوز قلمی شکل اختیار کر تا ہے۔ اس کے قلمی شکل میں آجانے سے گلوکوز میں پایا جانے والا پانی خارج ہو کر بقیہ حصے (فرکٹوز) میں آجاتا ہے اور اسے پتلا کر دیتا ہے۔ چونکہ گلوکوز کی قلمیں سفید رنگ کی ہوتی ہیں اور یہ معلق بھی رہتی ہیں اس لیے شہد کا رنگ بھی کچھ پھیکا پڑ جاتا ہے۔

٭ پانی کی مقدار بڑھ جانے سے شہد میں تخمیر Fermantation کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

٭ جس شہد میں فرکٹوز کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اس میں قلمیں بننے کا عمل کافی سست ہوتا ہے ، کبھی کبھار تو کئی برس بیت جاتے ہیں ۔

٭ اس کے برعکس جس شہد میں گلوکوز کا تناسب زیادہ ہوتا ہے اس میں قلموں کی پیدائش بہت تیزی سے ہوتی ہے ۔ کبھی کبھار تو شہد کے چھتوں میں بھی یہ قلمی صورت کو پہنچ جاتی ہے۔

٭ اسی طرح قلموں کی تیاری کی شرح رفتار ان کے سائز پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ تیز رفتاری سے بننے والی قلمیں باریک اور چکنی ہوتی ہیں جبکہ دیر سے تیار ہونے والی قلمیں بڑی اور دانے دار ہوا کرتی ہیں۔ شہد کے تاجروں کے مطابق بڑی قلموں والے شہد کی مانگ بہت کم ہوتی ہے اور عموماً صارفین اسے پسند نہیں کرتے۔

شہد کی طبعی خصوصیات:

٭ شہد کی تاثیر تیزابی ہے۔ اس کا pH تقریباً 4 ہوتا ہے۔

٭ اگر شہد کے جملہ مشمولات کا صحیح تناسب قائم رہے تو شہد میں خمیر Fermantation نہیں ہوتا (جیسا کہ شکر کے دیگر محلول میں ہوا کرتا ہے) لیکن چونکہ شہد میں نمی جذب کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے اس لیے مرطوب ہوا میں کھلا چھوڑ دینے سے اس پر پھپھوندی لگ سکتی ہے۔

٭ شہد کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ سیال تبدیل Thixtropic خواص کا حامل ہے۔ یعنی ساکن حالت میں تو یہ خوب گاڑھا یا جیلی کی طرح ہوتا ہے لیکن اگر آپ اسے تیزی سے گھمائیں گے تو اس کا گاڑھا پن viscosity کچھ کم ہوتا ہوا نظر آئے گا۔ لیکن جیسے ہی آپ گھمانا یا چلانا روک دیں گے تو دوبارہ سکون کی حالت میں لوٹتے ہوئے یہ گاڑھا ہو جاتا ہے۔ ایسا شہد کے سالمات کے درمیان پائی جانے والی طبعی کشش کے سبب ہوتا ہے، جو رفتار کے سبب کچھ کمزور ہو جاتی ہے تو سالمات ایک دوسرے سے قدرے دور ہو جاتے ہیں اور سکون کی حالت میں اس کا عمل بہت اچھا ہوتا ہے۔

٭ شہد کے اندر ایک جراثیم کش مادہ بھی موجود ہوتا ہے جو شہد کی مکھی کے ایک خامرے کی مدد سے Peroxide کی پیدائش کرتا رہتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ شہد سے بعض زخموں کی مرہم پٹی بھی کی جاتی ہے۔ نیز آنکھوں کے لیے تیار کیے جانے والے بعض آئنٹمنٹ میں بھی شہد کو شامل کیا جاتا ہے۔

آخری بات :

            پھولوں کے علاوہ شہد کی مکھیاں دیگر میٹھی اشیا سے بھی رس حاصل کرتی ہیں اس لیے شہد کی ظاہری شکل ، مزہ اور بو بھی مختلف ہوا کرتے ہیں ۔ شہد کا رنگ اتنا متغیر ہوتا ہے کہ یہ پانی کی طرح بے رنگ بھی ہو سکتا ہے اور بالکل سیاہ بھی۔ یہ شہد کے ماخذ Origin اور اس کے معدنی اجزا کے تناسب پر انحصار کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ جتنا ہلکا رنگ ہو گا اسی قدر اس کی بو بھی کم ہو گی ۔ ایسے ہی سیاہ رنگ کی شہد کی بو انتہائی ناگوار ہوتی ہے۔