ہمیں ۱۹۴۸ کا پاکستان چاہیے

مصنف : معارف فیچر سروس

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : مارچ 2008

            کابینہ کا اجلاس تھا ،اے ڈی سی نے پوچھا ‘‘سر اجلاس میں چائے پیش کی جائے یا کافی ۔’’چونک کر سر اٹھایا اور سخت لہجے میں فر مایا ‘‘یہ لوگ گھروں سے چائے کافی پی کر نہیں آئیں گے ۔’’اے ڈی سی گھبراگیا ،آپ نے بات جاری رکھی‘‘جس وزیر نے چائے کافی پینی ہو وہ گھر سے پی کر آئے یا پھر واپس گھر جاکر پیے ۔قوم کا پیسہ قوم کے لئے ہے ،وزیروں کے لئے نہیں ۔’’اس حکم کے بعد جب تک وہ بر سر اقتدار رہے ،کابینہ کے اجلاسوں میں سادے پانی کے سوا کچھ سرو نہ کیا گیا ۔گورنر جنرل ہاؤس کے لیے ساڑھے ۳۸ روپے کا سامان خریدا گیا ۔آپ نے حساب منگوالیا ۔کچھ چیزیں محترمہ فاطمہ جناح نے منگوائی تھیں ،حکم دیا ‘‘یہ پیسے ان کے اکاؤنٹ سے کاٹے جائیں ،دو تین چیزیں ان کے ذاتی استعمال کے لیے تھیں ،فرمایا :‘‘یہ پیسے میرے اکاؤنٹ سے لے لیے جائیں ’’باقی چیزیں گورنر جنرل ہاؤس کے لیے تھی ،فرمایا ‘‘ٹھیک ہے یہ رقم سر کاری خزانے سے اد ا کر دی جائے لیکن آئندہ احتیاط کی جائے ۔’’       

            بر طانوی شاہ کا بھائی ڈیوک آف گلوسٹر پاکستا ن کے دورے پرآرہا تھا ۔بر طانوی سفیر نے درخواست کی ‘‘آپ اسے ائیر پورٹ پر خوش آمدید کہہ دیں ۔’’ہنس کر کہا ‘‘میں تیار ہوں لیکن جب میرا بھائی لندن جائے گا تو پھر برٹش کنگ کو بھی اس کے استقبال کے لیے ائیر پورٹ آنا پڑے گا ۔’’

            ایک روزاے ڈی سی نے ایک وزیٹنگ کارڈ سامنے رکھا ،آپ نے کارڈ پھاڑ کر پھینک دیا اور فرمایا ‘‘اسے کہو آئندہ مجھے شکل نہ دکھائے ۔’’یہ شخص آپ کا بھائی تھا اور اس کا قصور صرف اتنا تھا اس نے اپنے کارڈ پر نام کے نیچے ‘‘برادر آف قائداعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان ’’لکھوادیاتھا ۔

            زیارت میں سردی پڑ رہی تھی ،کرنل الٰہی بخش نے نئے موزے پیش کر دیے ۔ دیکھے تو بہت پسند فرمائے ۔ ریٹ پوچھا، بتایا ’’دوروپے’’ گھبرا کر بولے ‘‘کرنل یہ تو بہت مہنگے ہیں ’’ ۔ عرض کیا ‘‘سر یہ آپ کے اکاؤنٹ سے خریدے گئے ہیں ’’۔ فرمایا‘‘میرا اکاؤنٹ بھی قوم کی امانت ہے ایک غریب ملک کے سربراہ کو اتنا عیاش نہیں ہونا چاہیے۔’’ موزے لپیٹے اور کرنل الہی بخش کوواپس کرنے کا حکم کر دیا’’۔

            زیارت ہی میں ایک نرس کی خدمت سے متاثر ہوئے اور اس سے پوچھا ‘‘بیٹی! میں تمہارے لیے کیا کر سکتا ہوں ؟’’ نرس نے عرض کی‘‘سر! میں پنجاب سے ہوں، میرا سارا خاندان پنجاب میں ہے، میں اکیلی کوئٹہ میں نوکری کر رہی ہوں، آپ میرا ٹرانسفر پنجاب کرا دیں’’۔ اداس لہجے میں جواب دیا ‘‘سوری بیٹی! یہ محکمہ صحت کا کام ہے گورنر جنرل کا نہیں’’۔

             اپنے طیارے میں رائٹنگ ٹیبل لگوانے کا آرڈر دے دیا ، فائل وزارت خزانہ پہنچی تو وزیر خزانہ نے اجازت تودے دی لیکن یہ نوٹ لکھ دیا‘‘گورنر جنر ل اس قسم کے احکامات سے پہلے وزارت خزانہ سے اجازت کے پابند ہیں’’۔ آپ کو معلوم ہوا تو وزارت خزانہ سے تحریری معذرت کی اور اپنا حکم منسوخ کر دیا ۔اور رہا پھاٹک والا قصہ تو کون نہیں جانتا، گل حسن نے آپ کی گاڑی گزارنے کے لیے ریلوے کا پھاٹک کھلوا دیا تھا، آپ کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو گیا، پھاٹک بند کرانے کا حکم دیا اور فرمایا‘‘اگر میں ہی قانون کی پابندی نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا؟’’

            یہ آج سے ۶۰ برس پہلے کا پاکستا ن تھا ، وہ پاکستان جس کے سربراہ محمدعلی جناح تھے لیکن پھر ہم ترقی کرتے کرتے اس پاکستان میں آگئے جس میں پھاٹک تو ایک طرف رہے ، سربراہ مملکت کے آنے سے ایک گھنٹہ قبل سڑکوں کے تمام سگنل بند کر دیے جاتے ہیں ، دونوں اطراف ٹریفک روک دی جاتی ہے اور جب تک شاہی سواری نہیں گزرتی ، ٹریفک کھلتی ہے اور نہ ہی اشارے ۔ جس میں سربراہ مملکت وزارت خزانہ کی اجازت کے بغیر جلسوں میں پانچ پانچ کروڑ روپے کا اعلان کر دیتے ہیں ، وزارت خزانہ کے انکار کے باوجود پورے جہاز خرید لیے جاتے ہیں جس میں صدر اور وزیر اعظم کے احکامات پر سیکڑوں لوگ بھرتی کیے جاتے ہیں، اتنے ہی لوگوں کے تبادلے ہوتے ہیں ، اتنے ہی لوگ نوکریوں سے نکالے جاتے ہیں اور اتنے ہی لوگوں کو ضابطے اور قانون توڑ کر ترقی دی جاتی ہے۔ جس میں موزے تو رہے ایک طرف ، بچوں کے پوتڑے تک سرکاری خزانے سے خریدے گئے ۔جس میں ایوان صدر کا ساڑھے ۱۸، اور وزیر اعظم ہاؤس کا بجٹ ۲۰ کروڑ روپے ہے جس میں ا یوان اقتدار میں عملاً بھائیوں ، بھتیجوں ، بھانجوں ، بہنوں ، بہنوئیوں اور خاوندوں کا راج رہا ، جس میں وزیر اعظم ہاؤس سے سیکرٹریوں کو فون کیا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا ‘‘میں صاحب کا بہنوئی بول رہا ہوں ’’۔

            جس میں امریکا کے نائب وزیر کے استقبال کے لیے پوری پوری حکومت ائیرپورٹ پر کھڑی دکھائی دیتی ہے اور جس میں چائے اور کافی تو رہی دور ، کابینہ کے اجلاس میں پورا لنچ ،اور پورا ڈنر سرو کیا جاتا ہے اور جس میں ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے کچن ہر سال کروڑوں روپے دھواں بنا دیتے ہیں ۔ یہ پاکستان کی وہ ترقی یافتہ شکل ہے جس میں اس وقت ۱۶ کروڑ غریب لوگ رہ رہے ہیں ۔ جب قائد اعظم گورنر جنرل ہاؤس سے نکلتے تھے توان کے ساتھ پولیس کی صرف ایک گاڑی ہوتی تھی ، اس گاڑی میں صرف ایک انسپکٹر ہوتا تھا اور وہ بھی غیر مسلم تھا اور یہ وہ وقت تھا جب گاندھی قتل ہو چکے تھے اور قائد اعظم کی جان کو سخت خطرہ تھا ۔ قائد اعظم اس خطرے کے باوجود سیکورٹی کے بغیر روز کھلی ہوا میں سیر کرتے تھے لیکن آج کے پاکستان میں سربراہ مملکت ماڈرن بلٹ پروف گاڑیوں ، ماہر سیکورٹی گارڈز اور انتہائی تربیت یافتہ کمانڈوز کے بغیر دس کلومیٹر کا فاصلہ طے نہیں کر سکتے۔ ہم اس ملک میں مساوات رائج نہیں کر سکے ، ہم اسے ایک خوددار ، باوقار اور ایماندار قیادت بھی نہیں دے سکے ، ہم اسے جدید ترقی یافتہ اور پرامن ملک نہیں بنا سکے ، نہ بنائیں لیکن ہم اسے واپس ۱۹۴۸ء تک تو لے جا سکتے ہیں ، ہم اسے ۶۰ سال پرانا پاکستان تو بنا سکتے ہیں ۔

            کوئی ہے جو ہم سے یہ ترقی ، یہ خوشحالی اور یہ عروج لے لے اور ہمیں ہمارا پسماندہ ، غریب اور غیر ترقی یافتہ پاکستان واپس کر دے ۔ جو ہمیں قائد اعظم کا پاکستان واپس کر دے کہ اس ملک کے ۱۶ کروڑ عوام کو ۲۰۰۷ء کے بجائے ۱۹۴۸ء کا پاکستان چاہیے۔