مولانا خلیل الرحمان مدنیؒ

مصنف : مقبول جہانگیر

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : فروری 2008

"ناہر سنگھ سے مولانا خلیل الرحمان مدنی تک" مولانا کے اسلام قبول کرنے کی ایمان افروز کہانی

آج سے ڈیڑھ سو برس پہلے کا ذکر ہے ، یوپی کے مشہور و معرف قصبے رڑکی میں ایک بزرگ تشریف لائے اور قصبے کی ایک چھوٹی سی کچی مسجد میں ٹھہر گئے ۔ کشادہ قامت ، سرخ و سفید چہرہ اور چہرے پر برستے ہوئے انوار ۔ سر تا پا سفید لباس میں ملبوس ، سن کچھ زیادہ نہ تھا ،جوانی کی منزلیں طے کر کے ادھیڑ عمری کی سرحد میں قدم رکھ رہے تھے ۔ مختصر سی شرعی داڑھی میں چند ہی بال چاندی ہوئے تھے تاہم شان بزرگی ان کی چال ڈھال اور لب و لہجے سے آشکارا تھی ۔ گفتگو میں متانت ، بشرے سے شرافت اور قول و عمل سے صداقت کا اظہار ہوتا ، ابتدا میں جب تشریف لائے تو قصبے والوں نے خاص توجہ نہ دی ، یہی جانا مسافر ہیں ، مسجد میں چند روز ٹھہر کر چلے جائیں گے ، مگر جب کئی دن گزر گئے اور مولانا کو لوگوں نے وہیں پایا تب ان کے حالات جاننے کی جستجوہوئی ، قصبے میں پڑھے لکھے افراد کی تعداد زیادہ نہ تھی تاہم مسلمانوں میں ذی علم موجود تھے مسلمانوں کے علاوہ ہندو برہمنوں کے کئی معزز خاندان بھی رڑکی میں آباد تھے ، مولانا نے مسجد کو نئے سرے سے آباد کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے طلبہ ان کے پاس جمع ہوئے ، وہ کسی سے کچھ طلب نہ کرتے لوجہ اللہ درس دیتے ، لوگوں کو شرعی مسائل سے آگاہ کرتے ، خود اذان دیتے اور پانچ وقت کی امامت کرتے ۔ دیکھنے والوں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ سخت متقی اور پرہیزگار ہیں ، خود اپنی ذاتی روٹی پکاتے اور صبر شکر سے کھا لیتے بلکہ مسجد میں آنے والے مسافروں کی تواضع بھی خندہ پیشانی سے فرماتے ۔ قصبے کے بازار میں نکلتے تو ادنی و اعلی کوسلام کرنے میں پہل کرتے ، بات چیت میں منہ سے پھول جھڑتے ۔بہت جلد قصبے کا قصبہ گرویدہ ہو گیا ۔ مسلمان تو خیر دیوانہ وار فدا تھے ، ہندو برہمنوں کی نگاہوں میں بھی ان کا احترام کم نہ تھا اور اکثر ہندو گھرانوں کے بچے ان سے اردو اور فارسی کا درس لینے مسجد میں آنے لگے۔

مولانا کا ارادہ رڑکی میں قیام کا تو نہ تھا بلکہ محض سیاحت کے لیے ادھر آنکلے تھے لیکن اس قصبے کا ما حول اور گردو پیش کی آب و ہوا اس قدر پسند خاطر ہوئی کہ وہیں رہنے کا عزم کر لیا ۔ وہاں سے ذر ا دور حضرت مخدوم علی صابری کلیریؒ کا مزار مبارک ہے جہاں مسلمانوں کی ہمہ وقت حاضری ہوتی ، دوسری جانب ہندوؤں کا مشہور تیرتھ ہردوار بھی قریب ہی تھا ۔ رڑکی کواس اعتبار سے بھی خصوصیت حاصل تھی کہ انگریز حکمرانوں نے خاصی بڑی چھاؤنی قصبے سے باہر بنائی تھی ۔ پہاڑوں کے باعث قصبے کی فضا بے حد خوش گوار اور سرد تھی اور اس کا حسن اس نہر نے دوبالا کر دیا تھا جو پہاڑوں کے اندر سے نکلتی اور آبادی کے درمیان میں سے گزرتی تھی ، اسے نہر گنگ کہتے تھے ۔ قصبے کی اکثر عمارتیں پتھر سے بنی ہوئی تھیں اور جا بجا میلوں میں پھیلے ہوئے باغ تھے ۔ صبح کے وقت نہر کی جانب جائیے تو صبح بنارس یاد آئے اور شام کا سماں بالکل ایسا ہی ہوتا جیسے شام اودھ کا نظارہ کر رہے ہوں ۔ مولانا کا نام نامی اسم گرامی عبدالسمیع تھا اور بیدل تخلص کرتے تھے ، شاعری میں مرزا غالب سے تلمذ تھا اور اگرچہ شعر کہنے کا شوق باقی نہ رہا تھا تاہم مبدائے فیض کا کرم تھا کہ جب شعر کہنے کا ذوق غالب ہوتا تو نعت کہتے ، یہ حالت اس وقت سے شروع ہوئی جب شیخ العرب و العجم حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف نصیب ہوا ۔ بعد میں حاجی صاحب نے خلافت عطا فرمائی اور مجاز بیعت بھی ہوئے ، اس کے بعد یک قلم مولانا کی ظاہری حالت تو بدلی ہی تھی ، باطنی کیفیت بھی کچھ سے کچھ ہو گئی۔

مولانا کا آبائی وطن کرم پور مہنیاراں تھا ، ان کے والد محمد یوسف اپنے دور کے کامل فن طبیب ہوئے ہیں ۔ مولانا عبدالسمیع نے والد سے ابتدائی درسی کتابیں پڑھیں اور جب علم کا شوق فزوں ہوا تو شہر علم دلی تشریف لے گئے ۔ اس زمانے میں بالکل نوجوان تھے بلکہ مسیں بھی بھیگی نہ تھیں، والد نے حضرت صہبائی کے نام رقعہ لکھ دیا تھا ، صہبائی کسی تعارف کے محتاج نہ تھے ، دلی کا بچہ بچہ انہیں جانتا تھا ۔ دلی کالج میں عربی فارسی پڑھاتے تھے ، ہزاروں شاگرد تھے ۔ مشاہیر دلی سے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات استوار تھے۔ حکیم مومن خان مومن ، ذوق اور مرزا غالب سے بے تکلفی تھی ، انہوں نے عبدالسمیع کو اپنا فرزند سمجھ کر محبت اور شفقت سے پڑھایا پھر صدر الصدور مولانا مفتی صدرالدین آزردہ کے سپرد کر دیا۔ مفتی صاحب نے ہونہار شاگرد کو حدیث اور تفسیر پڑھائی۔ اس زمانے میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی بھی دلی میں تھے چنانچہ چند اسباق عبدالسمیع نے ان سے بھی پڑھے اور تلمذ کی نعمت حاصل کی۔ قیاس ہے کہ اس دوران میں حضرت حاجی امداد اللہ ؒ کی نگاہ شفقت بھی مولانا عبدالسمیع پر پڑی اور انہوں نے انہیں اپنی طرف کھینچ لیا ۔ ایک مرتبہ حاجی صاحب کے ساتھ سفر میں تھے جب قصبہ جھنجھیانہ ضلع مظفر نگر میں داخل ہوئے تو حاجی صاحبؒ پر معاً عجب کیفیت طاری ہوئی ۔ ایک درخت کے نیچے ٹھہرے اور مولانا عبدالسمیع کی طرف دیکھ کر فرمایا ‘‘میاں ! جانتے ہویہ درخت کیا ہے’’…… پھر آبدیدہ ہو کر فرمایا ‘‘یہ وہ درخت ہے جس کے سائے میں سراج السا لکین زبدۃ العارفین حضرت میاں حاجی نور محمد صاحب ؒ قدس سرہ نے ہمیں بیعت سے نوازا تھا ’’ پھر حاجی امداد اللہؒ نے وہی کلاہ مبارک اپنے سر سے اتار کر مولانا عبدالسمیع کے سر پر رکھ دی جو میاں نور محمد نے حاجی صاحبؒ کے سرپر رکھی تھی۔

1857 کے ہنگامہ داروگیر میں مولانا عبدالسمیع بڑی مشکل سے جان بچا کر دلی سے نکلے اور مختلف شہروں اور قصبوں میں گھومتے رہے مگر کہیں امن چین نہ پایا ۔ آخر قدرت کے نادیدہ ہاتھ نے راستہ دکھایا اور مولانا رڑکی آن کر ٹھہرے کبھی کبھی حضرت مخدوم علاؤالدین صابر کلیریؒ کے مزار پر حاضر ہوتے اور خاصی دیر تک مراقبے میں رہتے ۔ ایک دن اسی عالم میں تھے کہ اپنے پیر و مرشد حاجی امداداللہ کا سراپا دکھائی دیا ، حاجی صاحب اس زمانے میں ہجرت کر کے مکہ معظمہ میں مستقل قیام کی نیت سے آچکے تھے ۔ مولانا عبدالسمیع نے دیکھا حاجی صاحبؒ کے ساتھ بارہ تیرہ برس کا ایک لڑکا بھی ہے ، مولانا نے بصد ادب دریافت کیا حضرت ! یہ بچہ کون ہے؟ فرمایا ‘‘ہمارا بیٹا’’ اس جواب پر مولانا عبدالسمیع کو بڑی حیرت ہوئی ‘‘یہ آپ کیا فرماتے ہیں؟’’ حاجی صاحبؒ نے جواب دیا ہاں یہ ہمارا بیٹا ہے عنقریب تم اس سے ملو گے ؟ اس کا خیال رکھنا!’’

اس مراقبے کے بعد بھی مولانا عبدالسمیع کی نظر میں اس لڑکے کی صورت مدتوں قائم رہی ، اکثر حیران ہوکر غور کیا کرتے کہ اس مراقبے میں حاجی صاحب نے جو کچھ فرمایا اس کا اصل مطلب کیا ہے لیکن کچھ سمجھ میں نہ آتا ۔ اس حیض بیض میں حاجی صاحب کو خط بھی بھجوایا مگر کوئی جواب نہ ملا ۔ خیال کیا کہ شاید خط پہنچا نہ ہو گا تاہم روز بروز روح کی الجھن بڑھتی جاتی تھی ۔ ایک روز مسجد میں بیٹھے طلبہ کودرس دے رہے تھے کہ ایک شخص مسجد کے دروازے کے قریب آیا ۔ مولانا نے گردن اٹھا کر دیکھا آنے والا رڑکی کا نہایت دولت مند ہندو شخص تھا ۔ مستری موتھی سنگھ کے نام سے قصبے کا کون ایسا فرد ہو گا جو واقف نہ تھا۔ مولانا بھی اسے اچھی طرح پہچانتے تھے وہ اٹھ کردروازے پر گئے اور اب پہلی بار ان کی نظر مستری موتھی سنگھ کے پیچھے کھڑے ہوئے ایک بچے پر پڑی ۔مولانا نے اس کی صورت دیکھی اور مبہوت رہ گئے ۔ یہ صورت تو انہوں نے کئی برس قبل مراقبے میں دیکھی تھی انہوں نے مستری موتھی سنگھ سے پوچھا کیونکر آنا ہوا اور یہ لڑکا کون ہے؟ مستری نے ادب سے کہا کہ یہ میرا لڑکا ناہر سنگھ ہے اسے پڑھنے لکھنے کاکوئی شوق نہیں ہر وقت کھیل کود میں دھیان رہتا ہے ، کئی پنڈتوں کے سپرد کر چکا ہوں کہ اسے آدمی بنائیں مگر سب اس کی شرارتوں سے نالاں ہو کر ہاتھ جوڑ گئے ۔اب مجبور ہو کر آپ کی خدمت میں لایا ہوں ، اس پر نظر کیجیے اردو اور فارسی پڑھادیجیے، حسب مقدور نذرانہ پیش کروں گا۔ مولانا نے مسکراتے ہوئے فرمایا ‘‘فقیر کو نذرانہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں ، بچے کو چھوڑ جائیے خدا نے چاہا تو آپ کو شکایت نہ ہو گی!’’ مستری موتھی سنگھ بچے کو چھوڑ گیا ، مولانا نے شفقت اور محبت سے اس کا ہاتھ پکڑا اور مسجد کے اندر لے گئے ناہر سنگھ نے ابتدا میں رسیاں تڑانا چاہیں مگر بہت جلد مولانا کے حسن سلوک اور محبت نے اسے رام کر لیا ، ایسی شفقت اور ایسا پیار تو اسے گھر میں بھی نہ ملا تھا ، چند روز کے اندر اندر اسے مولانا سے ایسا انس ہوا کہ گھر جانے کوتیار نہ ہوتا ۔ مولانا کے پیرو مرشد حاجی امداد اللہ کافرمان تھا کہ یہ میرا بیٹا ہے ، اس اعتبار سے ناہر سنگھ کی تعلیم و تربیت کا ایسا خیال رکھتے جیسے انہیں کی اولاد ہے ۔ دیکھتے دیکھتے ناہر سنگھ نے فارسی کی ابتدائی کتابیں ختم کر لیں اورمولانا نے اسے قرآن مجید پڑھانا شروع کیا تاہم اتنا ضرور سمجھایا کہ ابھی گھر والوں سے اس کا ذکر نہ کرنا۔ آہستہ آہستہ ناہر سنگھ کے ذہن میں ایک عجیب انقلاب برپا ہونے لگا۔ مولانا اسے سیرت رسولﷺ اور اصحاب رسولؓ کے واقعات سنایا کرتے ۔ خود بہت اچھے قاری تھے جب طلبہ پڑھ کر رخصت ہو جاتے تو ناہر سنگھ کو سامنے بٹھا کر قرآن کی تلاوت کرتے یہاں تک کہ ایک روز ناہر سنگھ نے روتے ہوئے ان کے قدموں میں سر رکھ دیا اور کفر کی تاریکیوں سے نکال کر اسلام کے نور سے منور کرنے کی التجا کی ۔ ناہر سنگھ جب مولانا کے حلقہ تلمذ میں داخل ہو اتھا اس کی عمر بارہ سال تھی چھ سال کا عرصہ گزر گیا تھا اب وہ اٹھارہ برس کا نوجوان تھا اور مروجہ قانون کی رو سے قطعی بالغ اور عاقل چنانچہ مولانا نے اسے دائرہ اسلام میں داخل کر لیا اور اس کا ہندوانہ نام بدل کر نیا اسلامی نام خلیل الرحمان رکھا۔

ناہر سنگھ نے ا پنے اسلام لانے کا واقعہ خود قلم بند کیا اسے ہم اس کے الفاظ میں یہاں درج کرتے ہیں۔

‘‘ایک دن جب سبق ختم ہوا اور میں نے مولانا سے گھر جانے کی اجازت چاہی تو انہوں نے فرمایا ناہر سنگھ! یہ تو بتاؤ خدا نے ہمیں کس لیے پیدا کیا ہے؟ میں نے جواب دیا اپنی عبادت کے لیے، یہ سن کر مولانا متبسم ہوئے اور بولے عبادت سے تمہاری کیا مراد ہے؟ میں نے عرض کیا جو کچھ آپ نے تعلیم فرمایا ہے اسی کی بنا پر کہتا ہوں کہ میں اپنے دھرم کا سختی سے پابند ہوں اور یہی ہمارے گھر کا دستور ہے ۔ میرے والد دھرم کے معاملات میں بہت احتیاط کرتے ہیں اورکسی رو رعایت کے قائل نہیں ۔ میں بغیر نہائے کھانا نہیں کھاتا اور کھانا بھی ہمیشہ زمین لیپ پوت کر چوکے ہی پر کھاتا ہوں دیوی دیوتاؤں کی پوجا بھی پابندی سے کرتا ہوں ، ہمارے گھر میں بڑے پنڈت جی برابر آتے رہتے ہیں سارا گھرانا انہیں گرو مانتا ہے وہ جو باتیں بتاتے ہیں انہیں سننا اور ان پر عمل کرنا بھی میرا کام ہے ۔بس اس سے زیادہ میں اپنے دھرم کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ۔ مولانا خاموشی سے میری تقریر سنتے اور مسکراتے رہے ۔آخر انہوں نے دل نشین لہجے میں فرمایا ، بیٹا! یہ تمہاری پوجا پاٹ اور دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں کے آگے سر جھکانا عبث ہے یہ بت تو اپنے ہاتھ سے تم نے خود بنائے ہیں ان پر اگر مکھی اور مچھر بیٹھ جائے تو یہ انہیں اڑانے کی سکت نہیں رکھتے بھلا یہ بت تمہاری کیا حاجت پوری کر سکیں گے؟ اشنان کر کے ننگے بدن کھانا پینا اور گائے کے گوبر اور پیشاب کو پاک سمجھنا دھرم کیسے ہو گیا؟ تم خوب سمجھتے ہو کہ یہ چیزیں نجس اور ناپاک ہیں تم اپنے دھرم پر جتنا غور کرو گے اتنی ہی الجھنیں تمہارے سامنے آجائیں گی۔ مولانا کی یہ باتیں میں پہلے بھی سنتا رہا تھا لیکن اس روز انہوں نے جو کچھ فرمایا وہ اتنا اثرانگیز تھا کہ ایک ایک لفظ دل میں اترتا چلا گیا ۔ پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ ہمارا دھرم اور اس کا سارا سلسلہ کس قدر خلاف عقل ہے ۔رفتہ رفتہ میں نے دین اسلام کا گہرا مطالعہ شروع کیا ، مولانا کی صاف اور سیدھی سادی اسلامی زندگی میرے سامنے بطور نمونہ تھی ۔ میں نے رسول اللہﷺ کی سیرت اقدس سے متعلق بہت سے واقعات مختلف کتابوں میں پڑھے اور اپنے محترم استاد کی زبان سے بھی سنے ۔ان سے بھی گہرا اثر قبول کیا اور یوں ذاتی تحقیق و جستجو سے مجھے بخوبی اندازہ ہو گیا کہ میں کتنی گمراہی اور تاریکی میں گھرا ہوا ہوں ۔ روز بروز مجھے کفرسے نفرت ہوتی چلی گئی اور دائرہ ایمان میں داخل ہونے کے لیے اضطراب اور بے قراری میں اضافہ ہوتا رہا یہاں تک کہ وہ مبارک ساعت آگئی جب مولانا نے میری طلب اور درخواست پر مجھے کلمہ طیبہ پڑھایا اور میں نے باقاعدہ اسلام قبول کر لیا لیکن مصلحت کے تحت میں نے اسلام کا باقاعدہ اعلان نہ کیا ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد مولانا کی شفقت ، محبت اور ہمدردی بہت بڑھ گئی ۔انہوں نے مجھے قرآن کریم ناظرہ پڑھایا ، پھر تفسیر بھی پڑھائی ، فقہ اور حدیث کی تعلیم بھی دی ، صوم و صلوۃ کا پابند کیا مگر یہ تمام امور پوشیدہ ہی سرانجام دیا کرتا ۔ ان دنوں مولانا ایک چھوٹے سے مکان میں منتقل ہو گئے تھے میں وہیں جا کر نمازیں ادا کرتا ۔ قرآن کی تلاوت میں اس قدر سرور ملتا کہ بیان سے باہر ہے لیکن سب سے زیادہ دشواری رمضان المبارک میں پیش آیا کرتی کہ میں روزے سے ہوتا اور گھروالے مجھے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلانے کی کوشش کرتے اور اس حقیقت سے بچنے کے لیے طرح طرح کی تدبیروں اور حیلے بہانوں کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ کبھی میں نہانے میں دیر کر دیتا کبھی کہتا میرے پیٹ میں درد ہے میں کھانا نہیں کھاؤں گا، کبھی بہانہ کرتا کہ اس وقت میں چاول اور روٹی نہیں کھاؤں گا ، حلوا پوری کھانے کو جی چاہتا ہے اور میں خود جا کر بازار سے لاؤں گا ۔ کبھی یہ تدبیرکرتا کہ اس قدر سردی ہے اگر میں نہایا تو بیمار پڑجاؤں گا اور نہائے بغیر کھانا ہمارے دھرم میں کھایا نہیں جاسکتا اس لیے آج فاقہ ہی کر لوں تو بہتر ہے ویسے بھی طبیعت ٹھیک نہیں ، میرا کھانا رکھ دیا جائے جب بھوک لگے گی تب کھا لوں گا ۔ ان حیلوں بہانوں کے بعد بھی طوعاً وکرہاً گھر والے جب مجھے کھانے کے لیے بٹھا لیتے تو میرے اضطراب اور بے چینی کی انتہا نہ رہتی۔ معا ًکوئی نہ کوئی نیا حیلہ سوجھ ہی جاتا اور میں یہ عذر کر کے اٹھ کھڑا ہوتا کہ چھوٹی بہن نے میرے کھانے کی تھالی کو ہاتھ لگا دیا ہے اب میں یہ کھانا نہیں کھا سکتا وغیرہ وغیرہ…… قصہ مختصر ہزاروں جتن کر کے اپنا روزہ بچاتا پھر بھی ایسے لمحے نمودار ہو ہی جاتے جب والد مجھے اپنے سامنے بڑی محبت سے بٹھا لیتے اور کھانا کھانے کا حکم دیتے اس وقت میرے لیے اسکے سوا اور کوئی تدبیر نہ ہوتی کہ جھوٹ موٹ منہ چلاتا رہوں اور چھوٹے چھوٹے لقمے بنا کر نہایت ہوشیاری سے والد کی نگاہ بچا کر اپنے دامن یا قریب رکھی ہوئی پانی کی گڑوی میں ڈالتا جاؤں اورجب والد کھانا کھا کر اٹھیں تووہ گڑوی کسی جگہ خالی کر آؤں لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ احساس میرے قلب و روح کوچھید کرنے لگا کہ اگر میں واقعی مسلمان ہوں تو مجھے اس قسم کے کمزور سہاروں اور حیلے بہانوں سے کام نہ لینا چاہیے ، اپنے مسلمان ہونے کا بے خوف وخطر اعلان کر دینا چاہیے ۔ آخر ایک نہ ایک دن تولوگوں کو پتا چل ہی جائے گا۔ ابھی میں اسی حیض بیض میں تھا کہ ایک روز خود بخود یہ رازکھل گیا ۔ میں مولانا کے مکان پر پہنچا اورظہر کی نماز کے لیے مصلٰی بچھایا پھر ان کا لوٹا لیکروضو کرنے لگا۔ میں نماز قضا ہو جانے کے ڈر سے ا تنی عجلت میں تھا کہ معمول کی احتیاطیں بھی بھول گیا اورمجھے قطعاً معلوم نہ ہوا کہ یہ سب حرکتیں میرا حقیقی ماموں جواہرسنگھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ۔ا دھر میں نے نماز کی نیت باندھی ادھر میرا ماموں مولانا کے مکان میں آگیا اورچپ چاپ وہیں کھڑا مجھے رکوع و سجود کرتے دیکھتا رہا۔ جب میں نے سلام پھیرا تواس پرنگاہ پڑی ایک لحظے کے لیے میرے قلب کی حالت دگرگوں ہوئی مگر فوراً ہی میں نے دل ہی دل میں استغفار شروع کر دی ۔ ماموں نے لال پیلی آنکھیں نکال کرکہا بدمعاش! کیا تومسلمان ہو گیا ہے ؟ دیکھ تیری کیا درگت بنواتا ہوں! تجھے زندہ چھوڑ دیا تو میرا نام جواہرسنگھ نہیں کچھ اور ہے۔ یہ کہہ کر وہ غصے میں بڑبڑاتا باہر نکل گیا اورمیں دم بخود مصلے پر بیٹھے کا بیٹھا رہ گیا۔’’

اس کے بعد ناہر سنگھ پر ابتلاوآزمائش کا وہ دور آیا جو کم و بیش چھ سال جاری رہا ، اس کے والد اور خاندان کے دوسرے لوگوں نے اس اٹھارہ سالہ نوجوان پر ظلم و ستم اور تشدد کا ایسا سلسلہ شروع کیا جس کے تصور ہی سے بدن پر لرزہ طاری ہو تا ہے ۔ مولانا عبدالسمیع نے ناہر سنگھ سے کہا کہ آزمائش کے اس کٹھن وقت میں اگر عزم و استقلال اورصبرو ثبات سے کام لو گے تو انشاء اللہ دشمنوں کے دل خود ایک روز نرم ہوجائیں گے۔ ناہر سنگھ مولانا کے گھر سے رخصت ہو کر جب اپنے مکان پر پہنچا تو مستری موتھی سنگھ گھر کے دوسرے افراد سمیت بیٹے کاانتظار کر رہا تھا ۔جواہر سنگھ نے نہ جانے کیا کیا کہا تھا کہ ہر ایک کی آنکھ میں خون اتر رہا تھا ۔ موتھی سنگھ نے شاید زندگی میں پہلی بار اپنے بیٹے کو انتہائی بے دردی سے پیٹا ۔ پہلے ہاتھوں سے اورپھر بید سے ، ناہر سنگھ کی ماں نے ایک دو بار بچانے کی ہمت کی مگر موتھی سنگھ غصے میں اندھا ہو رہا تھا اس نے ناہر سنگھ کی ماں کو بھی مارا اور کہا کہ تو نے اسے جنا ہے اور اس نے مسلمان ہو کر پورے خاندان کی عزت آبرو خاک میں ملا دی ہے اس لیے تو بھی اتنی ہی قصور وار ہے جتنا تیرا لڑکا ۔ ناہر سنگھ پٹتا رہا اورپٹ پٹ کر لہولہان ہو گیا ، اس نے زبان سے اف نہ کی ، اذیت کے بارے میں ایک جگہ خود لکھا ہے ‘‘اس روز میرے والد اتنے مشتعل تھے کہ میں نے پہلے انہیں اس عالم میں کبھی نہ دیکھا تھا ایسا لگتا تھا مجھے جان سے مار ڈالیں گے ۔تاہم جوں جوں انکا ہاتھ چلتا گیا میں دل ہی دل میں درود شریف پڑھتا رہا بالآخر وہ مار مار کر تھک گئے اورغصے میں کانپتے ہوئے دوسرے کمرے میں جاکر چارپائی پر لیٹ گئے ۔کئی دن میرے زخموں پر ہلدی چونا تھوپا جاتا رہا ، والد نے حکم دیا تھا کہ گھر کا کوئی فرد میرے قریب نہ آئے اور بات بھی نہ کرے اور نہ مجھے باہر نکلنے دیا جائے۔’’

آہستہ آہستہ بستی کے تمام ہندوؤں کوعلم ہو گیا کہ موتھی سنگھ کے بیٹے نے اپنا دھرم چھوڑ کراسلام قبول کر لیا ہے۔ ایک سرے سے دوسرے سرے تک غل مچ گیا ۔ دھرم کے بڑے بوڑھے جمع ہوئے اورگھنٹوں اس امر پر سوچ بچار ہوا کہ اس فتنے کو کیونکر روکا جائے ۔ خدشہ یہ تھا کہ آج ناہر سنگھ مسلمان ہوا ہے کل کلاں کوئی اورہندو لڑکا اپنا دھرم چھوڑ دے گا ۔ آخر میں یہ فیصلہ ہوا کہ اس فتنے کی اصل جڑ اس مولوی ہی کوقصبے سے نکالا جائے جس نے ناہر سنگھ کو خلیل الرحمان بنایا۔ چنانچہ معزز ہندوؤں کا ایک وفد مولانا عبدالسمیع کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ وہ بستی چھوڑ کر چلے جائیں ورنہ غضب ناک ہندو نوجوان انہیں قتل کر دیں گے ۔ لیکن مولانا ایسی دھمکیوں میں آنے والے نہ تھی انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ ناہر سنگھ اپنی خوشی سے مسلمان ہوا ہے اورخدا نے چاہا تو مسلمان ہی رہے گا ۔ اس قصے کی اطلاع رڑکی کے مسلمانوں تک بھی پہنچی اور جب انہیں پتا چلا کہ ہندوؤں نے مولانا کوقتل کی دھمکیاں دی ہیں تو ان میں بھی اشتعال پھیل گیا ۔ مولانانے مسلمانوں کو سمجھایا کہ چند دنوں کی بات ہے پھر ہندوؤں کا غصہ خود بخود ٹھنڈا پڑ جائے گا مگرمسلمان نہ مانے اور کہنے لگے کہ ناہر سنگھ اگر مسلمان ہو چکا ہے تو اب وہ ان کادینی بھائی ہے اورقصبے کے مسلمان یہ ہر گز برداشت نہ کریں گے کہ ہندو خلیل الرحمان پر تشدد کریں ۔

مولانا عبدالسمیع نے دیکھا کہ اس طرح قصبے میں ہندو مسلم فساد برپا ہو جائے گا اور خواہ مخواہ کئی جانیں ضائع ہوں گی۔ لہذاوہ اگلے ہی روز کسی کوبتائے بغیر رڑکی سے چلے اور میرٹھ پہنچ گئے ۔ برہمنوں نے اطمینان کا سانس لیا ، ان کاخیال تھا کہ جب تک مولانا قصبے میں موجود ہیں اس وقت تک ناہر سنگھ مسلمان رہے گا اور جونہی اسے معلوم ہو گا کہ مولانا یہاں سے جا چکے ہیں وہ اپنے دھرم پر واپس آجائے گا ۔ ادھر ناہر سنگھ نے جی میں مصمم ارادہ کر لیا کہ خواہ جان بھی چلی جائے وہ ایمان سے کفرکی طرف نہ جائے گا ۔ مصائب اورمشکلات سے بھرپور اس زمانے کے واقعات اکثر آپ عمرکے آخری دور میں عقیدت مندوں اور تلامذہ سے بیان فرمایا کرتے تھے ۔ ان ملفوظات کے مطالعے سے اس آزمائش اورابتلا کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ عجیب ہونے کے ساتھ ساتھ …… باعث عبرت و موعظت بھی ہے کہ جب قلب و روح میں ایمان پختہ ہو جائے تو دنیا کی بڑی سے بڑی آفت اور مصیبت بھی اس کے آگے ہیچ ہے ۔

حضرت مولانا خلیل الرحمان کا ہندو دھرم ترک کر کے اسلام قبول کرنا کوئی معمولی واقعہ نہ تھا اور ایسے قصبے میں جہاں اکثریت متمول بااثر اور بارسوخ برہمنوں کی تھی برہمن خاندان کے ایک نوجوان کا قبول اسلام جس ہنگامے کا باعث بن سکتا تھا وہ اظہرمن الشمس ہے مولانا آب دیدہ ہو کر اکثر ان واقعات کا ذکر کیا کرتے ، صاحب انوار خلیل نے یہ ملفوظات یوں ترتیب دیے ہیں ۔

‘‘جب میں مسلمان ہوا توقصبے کے عام ہندوؤں کے علاوہ میرے گھر والے بھی جانی دشمن ہو گئے ۔ ان کا بس نہ چلتا تھا ورنہ میرا سینہ شق کر کے ایمان کھرچ ڈالتے تاہم بدنی اورروحانی اذیتیں دینے میں انہوں نے کوئی کسراٹھا نہ رکھی خاص طورپر میرے والد موتھی سنگھ کا غیظ و غضب تو انتہا پر پہنچ گیا ۔ ان کی ساری محبت اور شفقت عداوت اورنفرت میں بدل گئی مجھے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں واقعی خون اتر آتا اور وہ مجھے بے دریغ جوتوں اور ڈنڈوں سے پیٹنے لگتے ۔ مجھ سے انہوں نے کہا اگر اسلام ترک نہ کرے گا تو مارتے مارتے تجھے مار ہی ڈالوں گا ، خواہ بعد میں مجھے پھانسی ہی ہو جائے۔

ایک رات اپنی کال کوٹھری میں پڑا آنسو بہا رہا تھا ، دن بھر مجھے کھانے کو نہ ملا تھا، حد یہ کہ پانی کی ایک بوند بھی میرے حلق سے نہ اتری تھی ، اسی حال میں غنودگی سی طاری ہوئی ۔ خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک حسین و جمیل نوجوان میرے پاس آیا۔ مجسمہ وقار اور پیکرجمال وجلال اس کی رفتار وگفتار سے شان ربی کا مظاہرہ ہو رہا تھا ۔ میں نے حیرت سے پوچھا ، آپ کون ہیں؟ نوجوان نے متبسم ہو کر کہا ، میں امداد اللہ ہوں…… آؤ میرے ساتھ چلو…… یہ کہہ کر اس نے میرا ہاتھ تھاما اورمغرب کی جانب روانہ ہوا ۔ میں حیران و پریشان اس نوجوان کے ساتھ چلا جاتا تھا اورخواب ہی میں مجھے احساس ہوا کہ یہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ ہیں جو نوجوان کی شکل میں تشریف لائے ہیں مجھے ان سے کچھ پوچھنے کی جرآت ہی نہ ہوئی کہ آپ مجھے کہاں لیے جا رہے ہیں ۔ میں چپ چاپ چلتا گیا اور میرا ہاتھ بدستور وہ اپنے دست مبارک میں تھامے رہے یکایک خود کوایک شہر میں پایا ۔ لوگ عربی لباس پہنے ادھر سے ادھر آجا رہے تھے اورمیری نگاہوں کے سامنے کوچہ و بازار پھیلتے چلے گئے تھے تب میں نے اپنے رہبر سے پوچھا کہ حضرت! جہاں اس وقت آپ مجھے لائے ہیں یہ کونسی جگہ ہے ؟ حضرت امداد اللہ نے فرمایا خلیل الرحمان ذرا چشم دل کھول کر دیکھ …… اس گھر کا مالک اورمکین زمانے کا شہنشاہ ہے…… اتنا کہنا تھا کہ میری آنکھیں روشن ہو گئیں ۔ حجابات اٹھنے لگے ، میں نے دیکھا کہ میرے سامنے تمام جمال آرائیوں اورتابانیوں کے ساتھ کعبتہ اللہ موجود ہے ۔ اس کا سیاہ ریشمی پردہ عجب بہار دکھا رہا ہے اور ہر حیثیت کے انسان اورملائکہ مصروف طواف ہیں ۔خواب میں کعبے کی زیارت سے میرا قلب رب العالمین کی جلوہ گاہ بن گیا اور جب دفعتاً میری آنکھ کھلی تو میرا اضطراب انتہا کو پہنچ چکا تھا ۔ دل میں خدا اور حبیب خداﷺ کی محبت بڑھتی جا رہی تھی اورکسی پہلو قرار نہ تھا اس کے ساتھ مستقبل میں پیش آنے والے شدائد کا تصور میرے جذبہ عشق و محبت کے لیے مہمیز ثابت ہوااورقلب میں محبت کا ایسا شعلہ بھڑکا جس نے باطل کا ہر رابطہ خاکستر بنا کر رکھ دیا۔

ایک روز والد نے میری والدہ سے کہا ، اگر یہ لڑکا مجھے صاف صاف بتا دے کہ مسلمان ہو چکا ہے اوردوبارہ اپنے سچے دھرم پرواپس آنے کے لیے تیار نہیں تو میں اسے زہر دے کر بدنامی سے نجات حاصل کر لوں ۔ میری والدہ مجھ سے بڑی محبت کرتی تھیں اورگھر بھر میں یہی ایک ہستی ایسی تھی جس سے مجھے بھلائی کی توقع تھی ، وہی مجھے چپکے سے آن کر کھانا دے جاتیں اورباربار اس بات کی تلقین کرتیں کہ اپنے باپ کے سامنے مسلمان ہونے کا اعتراف نہ کرنا ورنہ وہ تجھے قتل کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں ۔ میں خاموش رہتا ہاں یا نہ میں کچھ جواب نہ دیتا ۔ جب چند روز گزر گئے تو والدہ نے میرے والد کومشورہ دیا کہ ناہر سنگھ ابھی بچہ ہے ناسمجھ ہے اس پر اتنی سختی ٹھیک نہیں غلطی تو اپنی ہی ہے کہ اسے کیوں ایسے شخص کے پاس پڑھنے بٹھایا جس نے ا س پر جادو ٹونا کر دیا ورنہ ہمارا بچہ کبھی مسلمان نہ ہوتا ۔جونہی اس کا اثر ٹوٹے گا وہ دوبارہ اپنے دھرم میں آجائے گا ۔ بہتر یہ ہے کہ اسے رڑکی سے باہر کسی اورجگہ بھیج دیا جائے تاکہ یہاں کے مسلمانوں سے اسے ربط ضبط کا موقع ہی نہ ملے۔ یہ بات والد کے ذہن میں بیٹھ گئی ۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال ناہر سنگھ کو کہیں اور بھیجنا مناسب نہ ہوگا البتہ اسے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے میں اس کے لیے ایسا بندوبست کیے دیتا ہوں کہ اسے ادھر ادھر کی باتیں سوچنے اورکسی غیر شخص سے ملنے ملانے کا موقع ہی نہ ملے چنانچہ انہوں نے ہندی،انگریزی اورحساب کے کئی ہندوٹیچر میری تعلیم اورنگرانی پر مقرر کر دیے ۔ صبح دس بجے سے دوپہر ایک بجے تک ایک استاد انگریزی پڑھانے گھر آتے۔ اس کے بعد میں دوپہر کا کھانا کھاتا ، فوراً بعد ہندی اورسنسکرت کے استاد آجاتے ، وہ مجھے ہندو دھرم کی خوبیوں سے آگاہ کرتے ، رام ، لکشمن اور سیتا کے قصے سناتے ، میں طوعا ًو کرہاً سنتا اور گردن ہلاتا رہتا وہ سمجھتے طالب علم پر ان کی تقریر کا بے حد اثر ہو رہا ہے لیکن میں دل ہی دل میں لا حول ولا قوۃ الا باللہ کا ورد کرتا رہتا ۔شام تین چار بجے تک پڑھا کر وہ تشریف لے جاتے تو ایک ماہر حساب پنڈت جی آجاتے ، یوں یہ اوقات مقرر ہو گئے۔ ایک دن ہندی اور سنسکرت پڑھانے والے پنڈت جی نے مجھ سے پوچھا ، کیا واقعی میں مسلمان ہو گیا ہوں ؟ میں نے صاف اقرار کرنا مناسب نہ سمجھا البتہ اتنا کہا ‘‘میں نے اسلام کے بارے میں کتابیں پڑھی ہیں اور مجھے اس دین میں کوئی بات قابل اعتراض نظر نہیں آئی ۔ میری باتیں سن کر پنڈت جی کو بھی دلچسپی ہوئی اور وقتاً فوقتاً میں نے انہیں اسلام کی خاص خاص باتوں اور خوبیوں سے آگاہ کرنا شروع کیا ۔ سیرت رسولﷺ اور اصحاب رسولؓ کے کارنامے سنائے ، بزرگان دین کی زندگیوں اور ان کے پاکیزہ معمولات واشغال سے خبردار کیا ۔ میں نے محسوس کیا میری یہ باتیں سن کر پنڈت دھرم پرشاد جی کچھ کھو سے جاتے اور ان کا چہرہ متغیرہونے لگتا ، مجھے شبہ ہونے لگتا کہ شاید غیظ و غضب میں آن کر مجھے ادھیڑنے لگیں گے یاوالد سے شکایت کریں گے کہ آپ کا بیٹا تو ہاتھ سے جاتا رہا ، یہ پکامسلمان ہو چکا ہے اور اب اس کا ہندو دھرم میں واپس آنے کا کوئی امکان نہیں ۔لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ ایک روز وہ مجھے اپنے ساتھ گھر سے باہر باغ لے گئے اور ادھر ادھر دیکھ کر کہنے لگے بیٹا! میں تیرا احسان مند ہوں کہ تو نے مجھے گمراہی اور تاریکی سے نکالا ، میں جان گیا ہوں کہ اسلام ہی سچادین اوردھرم ہے ، اب تو مجھے کلمہ پڑھا کر مسلمان کر لے ۔ میں مبہوت ہو کر ان کا چہرہ تکنے لگا ، مجھے اپنی سماعت پر یقین ہی نہ آرہا تھا لیکن جب میں نے پنڈت جی کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو یقین آگیا ۔ وہیں باغ میں بنے ہوئے کنوئیں پر پنڈت جی نے غسل کیا اور میں نے انہیں کلمہ طیبہ پڑھا کر دائرہ اسلام میں داخل کر لیا ۔ پنڈت جی کے مسلمان ہونے سے میرے دل کو اس قدر تقویت پہنچی اور ایسی روحانی خوشی نصیب ہوئی جواس کے بعد زندگی میں پھر کبھی نصیب نہ ہوئی ۔ اب ہم دونوں گھر سے باہر نکل کر باغ میں آجاتے اور نہایت اطمینان سے نمازیں پڑھتے ۔ میں نے پنڈت جی کوناظرہ قرآن پڑھایا ، گھر میں والد کے سامنے وہ بدستور پنڈت بنے رہتے مجھے ہندی اور سنسکرت کی کتابیں پڑھاتے، رامائن اور بھوگ گیتا کادرس دیتے اور گھر سے باہر میں ان کااستاد بن جاتا۔ ہمارے گھر میں کئی نوکر تھے ان میں بہلی ہانکنے والا بوڑھا دیارام بھی شامل تھا ۔ دیا رام نے مجھے بچپن میں کھلایا تھا اور مجھ سے بڑی الفت رکھتا تھا ۔ ایک دن جب ہم باغ میں اپنے منتخب گوشہ تنہائی میں نماز پڑھ رہے تھے خلاف معمول دیا رام ادھر آگیا اور اس نے مجھے اور پنڈت جی کو نماز پڑھتے دیکھ لیا اور وہیں بیٹھ گیا ۔ جب ہم نے سلام پھیرا تو وہ اٹھ کر پنڈت جی کے قدموں میں گر پڑا ، معلوم ہوا کہ وہ بھی مسلمان ہونا چاہتا ہے اور مدتوں سے یہ پاکیزہ خواہش دل میں لیے پھر رہا ہے ۔ دیا رام کو بھی ہم نے مسلمان کیا اور اب ہم تین مسلمان ہو گئے ، نمازوں میں جو لطف آتا وہ میں بیان نہیں کر سکتا کبھی پنڈت جی امامت کرتے اور میں اور دیارام مقتدی بنتے ، کبھی میں امامت کرتا اور وہ دونوں مقتدی ہوتے ۔والد کو بھی گھر بھر کے نوکروں میں دیارام پر سب سے زیادہ اعتماد تھا چنانچہ جب مجھے گھر سے باہر کہیں جانا ہوتا تو وہ دیارام ہی کومیرے ساتھ بھیجتے اور یوں اللہ کی رحمت سے میرے تمام معمولات حسب مرضی پورے ہو جاتے۔

والد کا دل اگرچہ میری طرف سے صاف نہ ہوا تھا تاہم ان کے غیظ و غضب اور آئے دن کی مار پیٹ میں کمی ضرور آگئی تھی ۔ ایک روز جب میں حساب کے پنڈت جی سے فرصت پاکر نماز مغرب کے لیے باغ میں جانے کی تیاری کر رہا تھا والد نے مجھے آواز دے کر اپنے کمرے میں بلایا ۔ میرا دل دھڑکنے لگا کہ ضرور کوئی خاص بات ہے ، دل ہی دل میں درود شریف کا ورد کرتا ہوا ان کے کمرے میں گیا تو انہوں نے محبت سے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے قریب ہی بٹھا لیا اور نرم آواز میں کہا ناہر سنگھ! تمہارے دل میں جو بات ہے صاف صاف کہہ دو میں کسی قسم کی سختی نہیں کروں گا ، مجھے بتاؤ تم کس دھرم کو بہتر اور سچا سمجھتے ہو میں نے جواب میں کہا آپ خوامخواہ پریشان ہوتے ہیں اور مجھ پر الزام رکھتے ہیں یقین کیجیے میں اپنے ہی دھرم کو صحیح اور سچا سمجھتا ہوں ۔ میرا دھرم سچا ہے اور دوسرے تمام مذہب غلط ہیں آپ دشمنوں کی باتوں کاا عتبار نہ کریں کیا آپ دیکھتے نہیں کہ میرے طور طریقے کس قدر صاف ستھرے ہیں ؟ میں ہمیشہ نہا دھو کر کھانا کھاتا ہوں ؟ غرض میں نے اس قسم کی کئی باتیں کہیں جو غلط تھیں نہ جھوٹ ، والد یہ سب سن کر کچھ مطمئن دکھائی دینے لگے اور انہوں نے مجھ سے کہا بیٹا ! تمہاراہی دھرم سب دھرموں کے مقابلے میں سچا ہے اسے کبھی نہ چھوڑنا اس پر جمے رہنا! وہاں سے تو میں شکر کا کلمہ پڑھتا چلا آیا لیکن چند ہی روز بعد ایک عجیب سانحہ ہوا جس نے والد کے دل میں پھر میری طرف سے غبار بھر دیا ۔ کعبۃ اللہ اور مسجد نبوی کے دیدار کی حسرت اور اضطراب روز بروز بڑھتا جاتا اور مجھے ایک لحظہ قرار نہ تھا ۔ ایک روز تنہائی کے عالم میں طبیعت اس جذبے سے بے خود ہو گئی اور میں گردو پیش کے ماحول سے بے نیاز بلند آواز میں حضرت امام زین العابدینؓ کے وہ اشعار پڑھ کر زارو قطار رونے لگا جو آپ نے میدان کربلا میں پڑھے تھے ۔

ان نلت یا ریح الصبا یوماً الی ارض الحرام
بلغ سلامی روضتا فیھا النبی المحترم

مجھے خبر بھی نہ ہوئی کہ کب میری آواز والد کے کانوں تک گئی اور کب انہوں نے لاتوں اور گھونسوں سے میری پٹائی شروع کی ۔ مارتے جاتے اور کہتے جاتے بدمعاش میرے ہی گھر میں اتنی اونچی آواز سے قرآن پڑھتا ہے…… میں نے لاکھ کہا کہ میں قرآن نہیں پڑھ رہا تھا لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور میری ہڈی پسلی ایک کر ڈالی نتیجہ یہ کہ ایک بار پھر میرے ساتھ گھر میں اچھوتوں کا سا سلوک ہونے لگا اور والد نے میری نگرانی پہلے سے زیادہ کڑی کر دی ۔اسی دوران میں مجھے معلوم ہوا کہ مولانا عبد السمیع میرٹھ تشریف لے جا چکے ہیں۔ ان سے ملنے کو دل تڑپنے لگا لیکن میرٹھ تک پہنچنے کا کوئی سامان ہی نہ تھا ۔ ایک دن بہلی بان نے چپکے سے مجھے بتایا کہ تمہارے ا ستاد مولانا صاحب رڑکی آئے ہوئے ہیں اور مسجد میں موجود ہیں ۔بس اتنا سننا تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ، والد اس وقت گھر میں نہ تھے میں نے والدہ کے پاؤں پکڑ لیے اور کہا تھوڑی دیر کے لیے باہر جانے کی اجازت دے دیں اور اس کاذکر والد سے نہ کریں ،والدہ پہلے تو راضی نہ ہوئیں مگر میری منت سماجت سے ان کا دل پسیچ گیا اور انہوں نے اس شرط پر مجھے جانے کی اجازت دی کہ گھنٹے آدھ گھنٹے کے اندر اندر واپس آجاؤں گا۔ میں خوشی خوشی گھر سے نکلا اور مسجد کی طرف روانہ ہوا جو ہمارے مکان سے ایک میل دور ہو گی ابھی میں آدھ راستے میں تھا کہ میں نے والد کو نوکروں کے ساتھ آتے دیکھا میں لپک کر درخت کی آڑ میں ہو گیا ۔ احساس ہوا کہ والد اس اثنا میں واپس آگئے اور اب میری ہی تلاش میں نکلے ہیں ۔اب مسجد جانا مناسب نہ تھا مجھے یاد آیا قریب ہی والد کے ایک پرانے دوست پنڈت نیکی رام رہتے ہیں۔ میں لپک کر پنڈت جی کے گھر میں داخل ہو گیا اور انہیں پرنام کر کے پاس بیٹھ گیا ۔ پنڈت جی مجھے دیکھ کر کچھ خوش، کچھ حیران ہوئے اور پوچھنے لگے کیسے آئے؟ میں نے بات بنائی کہ بہت دنوں سے آپ کو دیکھا نہ تھا اس لیے ادھر چلا آیا ۔ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ میرے والد وہاں آن پہنچے اور آتے ہی ڈپٹ کر مجھ سے کہا مجھ سے پوچھے بغیر گھر سے نکل کر کہاں گیا تھا؟ سچ سچ بتا دے ورنہ ابھی تیرا گلا گھونٹ دوں گا میں نے کہا میں سیدھا یہاں آیا ہوں اور کہیں نہیں گیا ۔ پنڈت نیکی رام کے جی میں نہ جانے کیا نیکی آئی کہ انہوں نے میری اس بات کی تائید کی اور کہا لڑکا بہت دیر سے یہاں آیا ہوا ہے اور اکثر میری باتیں سننے آجاتا ہے ۔ پنڈت جی کی یہ بات سن کر والد مطمئن ہو گئے اور ان سے کہنے لگے آپ کی بڑی کرپا ہو اگر آپ روزانہ رات کو ہمارے مکان پر آکر کتھا کہا کریں ۔ پنڈت جی تیار ہو گئے اور اسی رات وہ اپنا سنکھ بغل میں داب ہمارے ہاں آگئے ۔مسلسل تین گھنٹے ان کی کتھا ہوئی اور میں ایک گوشے میں بیٹھا دل ہی دل میں درود شریف پڑھتا رہا۔ پنڈت نے رواج کے مطابق کتھا کے دوران میں کئی بار سنکھ بجانے کی کوشش کی لیکن درود شریف کی برکت سے وہ ایک بار بھی سنکھ نہ بجا سکے اور بعد میں حیران و پریشان ہو کر چلے گئے۔

والد نے جب سے مجھے عربی زبان میں اشعار پڑھتے سنا تھا ان کا شک و شبہ پھر زندہ ہو گیا تھا اوروہ سمجھ چکے تھے کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں ۔ انہی دنوں ایک زبردست نجومی رڑکی میں آیا ، بہت لوگ اس سے اپنا احوال پوچھتے تھے ، والد نے اسے گھر میں بلایا اور مجھے بھی حاضر ہونے کا حکم دیا ۔نجومی نے میرے چہرے پر نگاہ ڈالی اور اس کا رنگ اڑنے لگا ۔ میں نے فوراً دل میں آیت الکرسی کا ورد شروع کر دیا اورچپکے سے نجومی پر دم کر دیا ۔ دم کرنا تھا کہ اس کے ہاتھ پاؤں بری طرح لرزنے لگے اوراس کے منہ سے ایک لفظ تک نہ نکل سکا ۔ چندلمحوں بعد اس نے جانے کی اجازت چاہی اورگھر کے دروازے سے نکلتے ہی ایسا بھاگا کہ مڑ کر بھی نہ دیکھا ۔ نجومی کی اس حرکت پر سب لوگ سخت متعجب ہوئے اورہرفرد اپنی اپنی بولی بولنے لگا ۔ اس واقعے کا والد پر گہرا اثر ہوا اورانہوں نے گھر میں والدہ سے ذکر کیا کہ مجھے اس لڑکے سے اب خوف آنے لگا ہے۔ اس کے اندر کوئی زبردست شکتی ہے چنانچہ اس روز سے انہوں نے مجھے مارنا پیٹنا بہت کم کر دیا تاہم نگرانی اسی طرح رہی ۔ ایک دن اپنے مکان کی ڈیوڑھی میں اداس بیٹھا تھا اورتصور بندھا ہوا تھا اپنے استاد محترم کا کہ دورسے تین پاکیزہ صورتوں والے آدمی مجھے دکھائی دیے ، دل بے ا ختیار ان کی طرف کھنچنے لگا ۔ اتفاق سے اس وقت گھر کا کوئی فردمیری جانب متوجہ نہ تھا میں آہستہ سے باہر نکل گیا ۔وہ تینوں بزرگ آہستہ آہستہ چلتے ایک کھیت کے قریب پہنچے اور چادر بچھا کر بیٹھ گئے ۔ میں نزدیک گیا تو اٹھ کھڑے ہوئے پھر انہوں نے باری باری مجھے سینے سے لگایا ، میں نے دیکھا ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں معلوم ہواوہ محض مجھے دیکھنے کے لیے دیوبند سے تشریف لائے ہیں ۔ اس سے پہلے میں نے انہیں دیکھا تھا نہ ان کے اسمائے گرامی سے واقف تھا۔ ان میں سے ایک بزرگ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی تھے ، دوسرے مولانا سعادت علی اورتیسرے صاحب مولانا فیض الحسن سہارنپوری تھے ۔ انہوں نے مجھے دین حق قبول کرنے پر مبارکباد دی اورنصیحت فرمائی کہ اس راہ میں جتنی تکالیف آئیں انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرنا ۔ ایک دن آئے گا کہ جب یہ پریشانیاں جاتی رہیں گی اوراللہ تمہیں صبر وشکرکے عوض دین و دنیا کی بھلائی عطا فرمائے گا ۔ ان تینوں بزرگوں کی زیارت سے طبیعت بے حد مسرور ومحظوظ ہوئی ۔ قلب کی طمانیت اور روح کی سرشاری کا کیا کہنا۔ احساس ہوا کہ راہ حق میں اب تک جتنے مصائب جھیلے حقیقت میں ان کی حیثیت پرکاہ کے برابر بھی نہ تھی اور اگر اس سے بھی زیادہ آزمائشیں آئیں تو انشاء اللہ ان میں بھی پورا اتروں گا۔ یہ تینوں حضرت پورے ہندستان میں مشہور و معروف تھے اوریہ ممکن ہی نہ تھا کہ رڑکی میں ان کی آمد کی خبر کسی کو نہ ہوتی ۔ آناً فاناً سینکڑوں مسلمانوں کا ہجوم ہو گیا ۔ ادھر میں سخت محجوب کہ میرے سبب سے ان بزرگوں کو تکلیف ہو گی ۔اسی اثنا میں قصبے کے ہندوؤں نے مجھے بھی ان حضرات سے ملاقات کرتے دیکھ لیا تھا اور یہ خبر والد کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ میں گھر گیا تو وہ میرے منتظر تھے اوران کی آنکھوں میں جیسے خون اترا ہوا تھا ۔ میں سمجھا آج پھر خیر نہیں بری طرح مرمت ہو گی ۔چنانچہ میں نے زیر لب کلمہ طیبہ کا ورد شروع کیا اور گھر کے اندر چلا گیا ۔ والد اپنی جگہ بیٹھے مجھے دیکھتے رہے اورخلاف معمول انہوں نے اس وقت کچھ سرزنش نہ کی میں سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور چارپائی پر لیٹ رہا ۔ تھوڑی دیر بعدآہٹ سی ہوئی میں نے گردن اٹھا کر دیکھا تو والد تھے انہوں نے آتے ہی اندر سے کمرے کا دروازہ بن کر دیا اورچٹخنی چڑھا دی ۔ میں سمجھا اب آفت ٹوٹے گی لہذا میں پٹنے کے لیے تیار ہو گیا۔ لیکن میں قطعی بھونچکا رہ گیا جب والد صاحب نے سر سے اپنی پگڑی اتاری اورمیرے قدموں میں رکھ دی ۔ میں جلدی سے پیچھے ہٹ گیا اورمیں نے کہا یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولے بیٹا! میری آبرو رکھ لومجھے لوگوں میں رسوا نہ کرو ۔ تم اپنے گھر میں جو چاہو کرو مگر جب تک میں زندہ ہوں کھل کر ایسی حرکتیں نہ کرو جن کے سبب مجھے بدنامی اور شرمندگی سے دوچار ہونا پڑے ۔ یہ کہتے ہی وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اوراس قدرروئے کہ ہچکی بندھ گئی ۔ میں دم بخود تھا کچھ عقل میں نہ آتا تھا کیا کروں ۔محبت پدری جوایک طبعی چیز ہے میرے اندر جوش کرنے لگی اورمیں نے ان سے کہا اچھا آئندہ آپ کی مرضی کے خلاف نہ کروں گا ۔ یہ سن کر وہ خوش ہوئے اور اپنے آنسو پونچھنے لگے میں نے پگڑی دوبارہ ان کے سر پر رکھ دی ۔ اگلے ہی روز وہ سورج نکلنے کے وقت میرے پاس آئے اور کہنے لگے ناہر سنگھ تو نے وعدہ کیا تھا کہ میری مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کرے گا اورجو میں حکم دوں گا اس کی تعمیل کرے گا۔ میں نے کہا آپ کی پہلی بات کا اقرار کرتا ہوں کہ آپ کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کروں گا البتہ میں نے اس کاوعدہ نہیں کیا کہ جوآپ حکم دیں گے اس کی بھی تعمیل کروں گا خیر آپ فرمائیے ، انہوں نے کہا میرے ساتھ باہر چلو اور سورج دیوتا کو ہاتھ جوڑ کر پرنام کرو تب میں جانوں کی تمہیں میری خوشی عزیز ہے ۔ یہ سنتے ہی میں نے ان سے کہا یہ حرکت مجھ سے نہ ہو گی خواہ آپ جان سے مار ڈالیں اگر میں سورج کو پرنام نہ کروں تو اس سے آپ کا کیا بگڑتا ہے اور کونسی بدنامی ہوتی ہے؟ والد چند لحظے چپ چاپ میری صورت تکتے رہے پھر کچھ کہے بغیرواپس چلے گئے۔ والد مکان کے نچلے حصے میں رہتے تھے اور میرا کمرا بالائی منزل پر تھا ۔ میرے کمرے میں لکڑی کا ایک صندوق رکھا رہتا اس میں دینی کتابیں بھری ہوئی تھیں انہی میں نہایت عمدہ کتابت کا قرآن مجید بھی تھا ۔ ایک مرتبہ رات کے وقت سراج السالکین کا مطالعہ کر رہا تھا کہ والد نے نیچے سے آواز دی کہ آدھی رات ہو گئی ، چراغ گل کرو اور سو جاؤ ۔ میں نے اس اندیشے سے کہ والد کہیں اوپر نہ آجائیں ، جلدی سے چراغ بجھا دیا اورگھبراہٹ میں سراج السالکین وہیں صندوق کے اوپر رکھ دی حالانکہ میں ہمیشہ ایسی کتابیں صندوق میں مقفل کر کے رکھتا تھا ۔ ابھی میں نے چرغ بجھایا ہی تھا کہ والد اوپر آگئے اورکہنے لگے ! مجھے بتاؤ تم اس وقت کیا کر رہے تھے؟ میں نے دوبارہ چراغ جلایا اور کہا کہ ایک ضروری کتاب دیکھ رہا تھا اتنے میں ان کی نظرسراج السالکین پر پڑ گئی جھٹ کتاب اٹھالی ۔ا سے دیکھ کر ایک دم آگ بگولا ہو گئے فوراً میرے چھوٹے بھائی کو بلایا اوراس سے پوچھا یہ کتاب کس کی ہے ؟ بھائی نے گنگا جل کی قسم کھاتے ہوئے میرے بارے میں کہا کہ یہ کتاب ان کی نہیں اورنہ ان کے پاس کبھی دیکھی اگر ان کی ہوتی توکسی نہ کسی وقت میری نظر بھی پڑتی کیونکہ ان کی اکثرکتابیں میں دیکھا کرتا ہوں۔ یہ سن کر والد نے اسی وقت باہر سے اس مسلمان منشی کو طلب کیا جوہمارے ہاں ملازمت کرتا تھا ، والد نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا تو نے اپنی کتاب یہاں کیوں لا کر رکھی ہے ۔ منشی جی اگرچہ مجھ سے ہمدردی رکھتے تھے اور بارہا انہوں نے مجھے والد کے غیظ و غضب سے بچایا تھا لیکن اس روز منشی جی گھبرا گئے اور ان کے منہ سے نکل گیا کہ یہ کتاب میری ہے نہ میں نے یہاں لا کر رکھی ہے ۔بس یہ جواب بہت تھا والد نے کتاب اٹھائی اورنیچے لے جا کر اسے آگ دکھا دی ۔میں اپنی محبوب اور قیمتی کتاب اپنی نظروں کے سامنے جلتے دیکھتا رہا اور دم نہ مار سکا تاہم آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو نہ روک سکا ۔والد نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اپنے سامنے کتاب اچھی طرح خاکستر کرنے کے بعد پھر میرے کمرے میں آئے اورمطالبہ کیا کہ یہ صندوق کھول کر دکھا اس میں کون سی کتابیں ہیں ؟ اب تو میرا خون خشک ہو گیا جانتا تھا اگر صندوق کھول دیا تونہ کوئی کتاب بچے گی اورنہ قرآن مجید بے حرمتی سے محفوظ رہے گا۔ غرض اس لمحے اللہ کو یاد کیا اور مصمم ارادہ کر لیا کہ خواہ کچھ ہو صندوق نہ کھولوں گا۔ والد نے جب دیکھا کہ میں صندوق کی کنجی دینے پر تیار نہیں تو انہوں نے لکڑی اٹھا کر مجھے مارنا شروع کیا اور اس وقت تک پیٹتے چلے گئے جب تک لکڑی ٹوٹ نہ گئی پورے گھر میں کہرام مچ گیا۔ پاس پڑوس والے بھی جاگ گئے ، والدہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی پشت پناہ بن گئیں اوروالد سے کہنے لگیں آپ کو شرم نہیں آتی جوان بیٹے پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے؟ جب اسے پڑھنا لکھنا سکھایا ہے تو وہ کتابیں نہیں پڑھے گا تواور کیا بھاڑ جھونکے گا؟ والد اس وقت تو بکتے جھکتے نیچے اتر گئے مگر یہ بھی کہہ گئے کہ صبح صندوق نہ کھولا تو اسے بھی یونہی آگ لگا دوں گا ، میں جانتا تھا وہ بے حد ضدی شخص ہیں اورایسا یقینا کرگزریں گے چنانچہ میں نے منشی جی سے کہا اس صندوق میں دینی کتابوں کے علاوہ قرآن مجید بھی بند ہے اگر اسے کچھ صدمہ پہنچا تو قیامت کے روز تم اللہ کو کیا منہ دکھاؤ گے؟ جس طرح بھی ممکن ہو یہ کتابیں اور قرآن مجید یہاں سے نکال کر کسی محفوظ مقام پر پہنچاؤ ۔ خدا منشی جی کوجزائے خیر دے کہ انہوں نے منہ اندھیرے موقع پاکر تمام کتابوں اور کلام پاک کی ایک گٹھری سی بنائی اور سر پر اٹھا کر لے گئے۔ اس کے بعد میں نے صندوق میں ہندی ، حساب اورسنسکرت وغیرہ کی کتابیں بھر دیں تاکہ والد اسے کھولیں تو انہیں اطمینان ہو جائے گا لیکن اگلے روز والد نے صندوق تونہ کھولا مجھے حکم دیا کہ ان کے ساتھ مہیوڑ چلوں ۔ میہوڑ رڑکی سے دس بارہ کوس دور ایک چھوٹا سا گاؤں ہے وہاں ان کے ماتحت سینکڑوں کاریگر کام کیا کرتے تھے ۔ والد خود تو گھوڑے پر سوار ہوئے اورمجھے اذیت دینے کے لیے پیدل چلنے کا حکم دیا ، میرے لیے یہ بھی راحت ہی تھی ۔ مہیوڑ پہنچ کر انہوں نے اپنے آدمیوں کو تاکید کی یہ لڑکا دن رات تمہارے ساتھ رہے گا اور کوئی غیر شخص یا مسلمان اس کے قریب بھی نہ پھٹکنے پائے اس کا کھانا پینا بھی تمہارے ساتھ ہی ہو گا اور تم اسے بڑھئی کا کام سکھاؤ ۔ ان لوگوں نے والد کے حکم کی تعمیل کی اورمجھے کام سکھانا شروع کر دیا ، ساتھ ساتھ وہ کفر و شرک کی باتیں بھی سناتے رہتے رات کو جب یہ لوگ تھک ہار کر سو جاتے تو میں نگرانی کرنے والوں سے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر نہر پر چلا جاتا اور دن بھر کی نمازیں رو رو کر ادا کرتا اوربارگاہ الٰہی میں دعا کرتا کہ اس مصیبت سے نجات دے ۔ چھ برس بعد جب سے میں نے اپنے اسلام کا اعلان کیا اس وقت تمام نمازوں کی دوبارہ قضا کی ۔ بہرحال اس ماحول میں میری جان سخت ضیق اورعجب عذاب میں تھی بہت عرصہ اسی طرح گزرا پھر ایک روز اللہ نے نجات کی صورت پیدا کر ہی دی۔

والد آصف نگر کے مقام پر کسی کام کی انجام دہی کے سلسلے میں نہر پر گھوم رہے تھے ، اچانک پل کے اوپر سے نیچے گر گئے۔ چونکہ نہر میں کچھ پانی تھا اس لیے جان تو بچ گئی پھر بھی خاصے زخمی ہوئے ، بے ہوشی کی حالت میں چارپائی پر ڈال کر گھر لائے گئے ۔ ہوش میں آتے ہی انہوں نے میرے بارے میں دریافت کیا اورکہا میرا بڑا لڑکا کہاں ہے؟ اسے جلدی میرے پاس لاؤ اس کی صورت تو دیکھ لوں آج کل میں نہ معلوم کس وقت میرا دم نکل جائے۔ میں نے اسلام کی کتاب جلائی لڑکے کو مارا پیٹا اور قید کیا میرے ساتھ جو کچھ ہوا یہ اسی کا نتیجہ ہے ۔ ادھر تو والد کے خیالات میرے بارے میں نرم ہو رہے تھے ادھر بعض متعصب ہندو پنڈتوں نے پھر ان کے کان بھرے اور کہا اگر آپ نرم پڑیں گے تو لڑکا یقینا مسلمان ہو جائے گا ، اسے ہمارے حوالے کر دیجیے چنانچہ والد نے مجھے حکم دیا کہ پنڈتوں کے پاس بلاناغہ حاضری دیا کروں ۔ ان میں ایک پنڈت جی بڑے بھاری وگیان اور جوگی تھے ان کے بار ے میں مشہور تھا کہ کالا جادوبھی جانتے ہیں اورہمزاو قبضے میں کر رکھا ہے وہ کبھی کبھار قصبے کے ہندوؤں اورمسلمانوں پر رعب بٹھانے کے لیے شعبدے اور طرح طرح کے کرتب دکھایا کرتے تھے ۔کبھی بے موسم کے پھل منگوا رہے ہیں کبھی جھاڑ پھونک کر کسی ناقابل علاج مریض کو ٹھیک کر رہے ہیں ۔ ہندو تو ان کے اس قدر گرویدہ تھے کہ بے تکلف پنڈت جی کوسجدہ کرتے ، ایک شام وہ مجھے اپنے ساتھ جنگل میں لے گئے وہاں ہو کا عالم تھا اوراندھیرا تیزی سے بڑھتا جا رہا تھا ، اگرچہ میں بارہا ادھر آچکا تھا لیکن اس شام مجھے خاصا ڈر لگا ۔میں نے دیکھا پنڈت کا رخ مرگھٹ کی طرف ہے ، جب زیادہ ہی خوف محسوس ہوا تو میں نے دل ہی دل میں آیت الکرسی کا ورد شروع کر دیا اس طرح خوف دور ہوا۔ مرگھٹ سے ادھر ہی پنڈت رکا اورایک جگہ بیٹھ گیا اس نے مجھے بھی سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا میں نے محض انگلی کی اشارے سے اپنے گرد دائرہ بنایا اوراس دائرے کے اندر سمٹ کر بیٹھ گیا ۔ پنڈت نے تھوڑی دیر بعد میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور کہا سچ بتاؤ! تمہارے اندر کون سا کمال ہے ؟ اپنے دل کی بات مجھ پر واضح کرو اس کی بات سن کر میں نے پہلے تو متوکلاً علی اللہ درودشریف پڑھا ، پھر جواب دیا پنڈت جی ہوشیار ہوجائیے میں اپنی باتیں آپ کو بتاتا ہوں ، سنیے! میں حبس دم کرتا ہوں اورخناس پر قابو پاکر ا سے جلا ڈالتا ہوں ، پھر اپنے محبوب کے خیال میں کھوجاتا ہوں ، خود کوبالکل فنا کر دیتا ہوں صرف اسی کی ذات رہ جاتی ہے اورہر سمت اسی کا جلوہ نظرآتا ہے اورواقعہ یہ ہے کہ اس کی باقی ذات کے سامنے ہمارے فانی وجود کی حقیقت کیا ہے ۔ ہر سانس کے ساتھ اسی کا تصور ہے اس کی یاد سے ایک لمحہ غفلت کفر سمجھتا ہوں اگر دل میں محبوب کے سوا کوئی باطل خیال آبھی جائے تو اس کو ضربوں سے پامال کر ڈالتا ہوں ۔ میری ہستی محبوب کے لیے فنا ہو گئی اورمیں نے خود کومٹا دیا ہے۔ آؤ! ہم دونوں گردن جھکا کر بیٹھیں اورایک دوسرے کوا پنا اپنا کرتب دکھائیں یہ کہہ کر میں نے لاحول پڑھی اور پنڈت پر دم کردیا ۔ وہ تھر تھر کانپنے لگا اور اس کی ساری جادوگری دھری کی دھری رہ گئی جب کچھ سنبھلا تو کہنے لگا اچھا اپنے کرتب کا نام تو بتا دو ۔میں نے کہا ایک تو حبس دم ہے اوردوسرا پاس انفاس اور تیسری چیز محبوب کے نام کی ضرب ہے ۔ اس نے دریافت کیا ضرب میں تم کس کا نام لیتے ہو؟ میں نے کہا وہ نام تم کو کس طرح بتادوں وہ زبان سے دل میں اتر چکا ہے تم لوگ تو جوگ کے بڑے بڑے کرتب دکھاتے ہو ، ہمت ہے تو اپنے جوگ سے معلوم کرو کہ وہ کون ہے ۔ میری باتیں سن کر پنڈت حیران اوراس کا ہمزاد مضمحل ہو گیا ۔ ہمزاد نے پنڈت سے پوشیدہ طورپر کہا یہ لڑکا میرے قابو میں آنے والا نہیں اس کے کام میں بہت طاقت ہے اور اس کے مقابلے میں میرے کرتبوں اور تمہارے جادو ٹونے کی کوئی حیثیت نہیں ۔ واپس آن کر وہ پنڈت میرے والد سے ملا اورکہا لڑکا دھرم تیاگ چکا ہے اوراب اس کا مرض لا علاج ہے ۔ والد یہ سن کر رونے لگے اورانہوں نے کہا پھر تم لوگ کس لیے اتنے بڑے بڑے دعوے کرتے ہو اور خود کو بڑا مہاپرش اور شکتی مان بتاتے ہو؟ وہ پنڈت آئیں بائیں شائیں بکتا چلا گیا ۔اتفاق سے چند ہی روز بعد عید الفطر کی رات آئی میں اس وقت گھر والوں کے ساتھ بیٹھا تھا ۔ والد دوسروں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کل مسلمانوں کی عید ہے یہ لوگ اپنی مسجد میں جمع ہونگے ۔ ہندوؤں کے ہاں اس طرح کی یک جہتی بالکل نہیں کبھی تیج تہوار پر اکٹھے نہیں ہوتے ، میرے منہ سے نکل گیا پتا جی ہندو تو تین دیوتاؤں کو پوجتے ہیں اسی طرح ان کے راستے بھی تین طرف کو نکل گئے ۔دوسری طرف مسلمانوں کو دیکھیے وہ ذات واحد کی عبادت کرتے ہیں جو پاک صفات سے موصوف ہے۔

میری یہ باتیں سن کر والد کو پھر طیش آیا اورمجھے اس قدر مارا کہ دونوں ہاتھ سن کر ہو گئے ، کہنے لگے اپنے دھرم کوسب سے اچھا جانو اور مانو اگر تم نے دھرم بدلا تو اپنے باپ کا رویہ بھی بدلا ہوا پاؤ گے ۔ اگلے روز انہوں نے میرے بارے میں اپنے قریبی دوستوں سے مشورہ کیا اور کہا ، اس لڑکے کی بہن کا بیاہ ہونے والا ہے ، ہزاروں کا خرچہ ہے باہر سے برات آئے گی اگر ان کے سامنے بات کھل گئی اوربراتیوں کو احساس ہو گیا کہ لڑکی کا بھائی اپنادھرم بدل چکا ہے تو کوئی میرے ہاں کھانا کھائے گا اور نہ لڑکی کا ڈولا اٹھ سکے گا ۔ کسی نے مشورہ دیا کہ ناہر سنگھ کو بیاہ کی رسموں کے دوران دھنوری گاؤں بھیج دیا جائے یہ نالائق وہاں پوربیوں کی قید میں رہے گا اور جب لڑکی وداع ہو جائے تواسے رڑکی واپس بلوا لیجیے گا ۔ والد کویہ تدبیر بہت پسند آئی چنانچہ مجھے زبردستی دھنوری لے جا کر ایک مکان میں قید کر دیا گیا۔ جب بہن رخصت ہو گئی اور بیاہ کا ہنگامہ ختم ہوا تو قصبے کے بعض مسلمانوں کی طرف سے انگریز مجسٹریٹ کی عدالت میں میری جانب سے اس مضمون کی عرضی داخل کرائی گئی کہ عرصہ ہوا میں نے برضا ورغبت ہندو دھرم چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا ہے ، اس لیے میرے والد نے بطور انتقامی کارروائی مجھے دھنوری کے مقام پر سخت قید میں ڈال دیا ہے اور میرے دونوں ہاتھوں کی فصد کھول دی گئی ہے اگر مجھے جلدرہا نہ کرایا گیا تو یہ لوگ مجھے مار کر کہیں دبا دیں گے ۔ یہ عرضی دیکھ کر انگیز مجسٹریٹ آگ بگولا ہو گیا ۔ اس نے فوراً پولیس کو حکم دیا کہ مستری موتھی سنگھ اور اس کے بیٹے ناہر سنگھ دونوں کو فوراً حاضر کرو اور موتھی سنگھ کو ہتھکڑی لگا کر لایا جائے ۔ پولیس نے مجھے دھنوری سے برآمد کیا اور والد کی گرفتاری کے لیے مکان پر گئی مگر انہوں نے تھانیدار کو رشوت دیکر خود کو ہتھکڑی سے بچایا اور تھانیدار سے کہا کہ وہ خود کسی وقت عدالت میں حاضر ہو جائیں گے ۔ پولیس نے تنہا مجھے مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا ، اس نے پوچھا سچ بتاؤ تمہارے باپ نے تمہیں کیوں قید کیا تھا ؟ اپنی بہن کی شادی میں تم کیوں شریک نہ ہوئے اور تمہارے جسم سے خون نکالنے کی بذریعہ فصد کوشش کیوں کی گئی اور کیا یہ عرضی تم نے بھجوائی تھی ؟ میں نے جواب میں کہا ، جناب والا! یہ عرضی میں نے نہیں لکھی اور نہ میرے ہاتھوں کی فصد کھولی گئی ، یہ سب باتیں کسی او رنے اپنی جانب سے لکھ دی ہیں ۔ بہن کی شادی کے موقع پر کام بہت بڑھ گیا تھا اس لیے میں انہیں کاموں کی انجام دہی کے سلسلے میں باہر چلا گیا ۔ آنسو میری آنکھوں سے خود بخود رواں تھے ، انگریز مجسٹریٹ بے حد متاثر نظر آیا، آخر کہنے لگا ، لڑکے مجھے سب خبر ہے تمہارے باپ نے تم پر کتنا ظلم ڈھایا اور تم پھر بھی اسے بچا رہے ہو؟ بہرحال اگر تم نہیں چاہتے تو میں تمہارے باپ کے خلاف کوئی کارروائی نہ کروں گا ، آج سے تم اپنے کاموں میں آزاد ہو ، تمہیں پورا اختیار ہے جس طرح چاہے زندگی گزارو اور جو مذہب پسند ہے اس میں داخل ہو جاؤ ۔ اس کے بعد مجسٹریٹ نے والد کو طلب کیا اور سخت لہجے میں ان سے کہا ، پنڈت موتھی سنگھ! تمہارے ظلم و ستم کا سب حال معلوم ہو چکا ہے ، تمہارا لڑکا بہت نیک ہے اس نے آج تمہاری عزت بچا لی ورنہ میں تمہیں سزا دیے بغیر نہ چھوڑتا ، آئندہ اسے ستاؤ گے اور تکلیف دو گے تو سیدھا جیل بھیج دوں گا۔

اس واقعے کے ٹھیک دو ہفتے بعد میں نے قبول اسلام کا اعلان کر دیا ، اب ایک اور عجیب بات سنیے ، جس روز صبح کو میں مسلمان کی حیثیت سے ظاہر ہونے والا تھا اس رات پنڈت نیکی رام نے خواب میں دیکھا کہ لوگ جمع ہیں اور میرے ہاتھ میں ایک نورانی تختی ہے ، تختی پر سنہرے حروف میں کلمہ طیبہ لکھا ہے اور کلمہ دیکھ دیکھ کر لوگ خوش ہو رہے ہیں ، میں نے پنڈت سے کہا اسے آپ بھی دیکھیے ، پنڈت نے جواب دیا اچھی چیز ہے گم نہ ہونے پائے ۔ پنڈت جی کی آنکھ کھلی تو انہیں یہ خواب اچھی طرح سے یاد تھا اور حقیقت میں ہوش و حواس گم تھے ، انہوں نے یہ خواب اپنے ہندو احباب سے بھی بیان کیا اور رڑکی کی مشہور معزز شخصیت قاضی فصیح الدین کی خدمت میں بھی حاضر ہو کر کہا مجھے یقین ہے یہ لڑکا بہت جلد اپنے اسلام کا اعلان کر دے گا اور میرا خواب بس ظاہر ہی ہونے والا ہے ۔ وہ رات میں نے دوستوں کے ساتھ گزاری ، صبح انہوں نے کہا آج ہمارے ساتھ چل کر نماز جامع مسجد میں پڑھو ہم لوگ تمہیں اپنے درمیان لے لیں گے ، ابھی اندھیرا ہے ، کون پہچان سکے گا چنانچہ میں نے سب کے ساتھ فجر کی نماز جامع مسجد میں ادا کی اور اس طرح شریک جماعت افراد پر راز ظاہر ہو ہی گیا ، پھر کسی نے جاکر والد سے بھی کہہ دیا کہ آپ کا بیٹا آج جامع مسجد میں تھا ، یہ سن کر انہوں نے مایوسی اور پریشانی کے عالم میں گھر بلوا کر سخت باز پرس کی اور کہنے لگے سچی بات بتا دے ورنہ آج تیرا یہاں سے بچ کر جانا مشکل ہے ۔ جامع مسجد میں کیا کرنے گیا تھا؟ والد بہت کچھ کہتے رہے اور میں خاموشی سے سنتا رہا ، آخر میں نے صرف اتنا کہا مجھے اس وقت چھوڑ دیجیے بہت تھکا ہوا ہوں شام تک آپ کی ساری باتوں کا جواب دے دوں گا اور شام بھی بہت دور نہیں ، میری یہ بات سن کر وہ اپنی جگہ سے اٹھ گئے میں بھی اٹھا اور نہا کر کھانا کھانے لگا ، نہاتے وقت ہی میں نے نیت کر لی کہ میرا یہ غسل اسلام کے لیے ہے ۔

کھانا کھا کر والد تو باہر گئے ، میں نے عمدہ اور نیا لباس زیب تن کیا اور اکیلا ہی سیدھا جامع مسجد رڑکی پہنچ کر باضابطہ اپنے اسلام کا اعلان کر دیا ، رڑکی کی جامع مسجد میں جو کلیر شریف اور حضرت علی احمد صابرؒ کے زیر سایہ ہے ، میرے اسلام لانے کے اعلان نے ہندوؤں کو مشتعل کر دیا اور وہ اکٹھے ہو کر مجھے مارنے کے درپے ہوئے لیکن اسی اثنا میں سینکڑوں پرجوش مسلمانوں کے ہجوم نے مجھے اپنے درمیان لے لیا اور ہندوؤں کو حملہ کرنے کی جرات ہی نہ ہوئی ۔ اس روز مجھے جو مسرت حاصل ہوئی وہ کسی شہنشاہ ہفت اقلیم کو بھی میسر نہیں آسکتی اور ترجمانی الفاظ کے ذریعے ممکن نہیں ، اس روز ہاتھ میں کلام پاک اور زبان پر نعت رسولﷺ تھی اور صرف خدا اور محبوب خداﷺ کی باتیں تھیں ۔’’

اسلام لانے کے بعد مولانا خلیل الرحمان کی شخصیت میں ایسا عظیم اور پاکیزہ انقلاب رونما ہوا کہ ان کی ظاہری و باطنی حالت دیکھ کر بڑے بڑے اکابر علما صوفیا اور اولیا بھی رشک کرنے لگے ۔ صورت پر وہ نور کہ راہ چلتے لوگ دیکھتے اور ٹھٹھک کر رک جاتے ،۔باتوں میں ایسی حلاوت اور سحر کہ ان کے اسلام لانے کے فورا بعد رڑکی کے ہندوؤں کو خدشہ پیدا ہو گیا کہ ایک ایک کرکے سبھی مسلمان ہو جائیں گے چنانچہ اکثر لوگ ایمان کی دولت سے مالامال ہوئے …… مسلمان ہونے کے بعد آپ نے اپنے گھر والوں سے کوئی مادی تعلق بھی نہ رکھا بلکہ یہی شرط پیش کی کہ مسلمان ہو جاؤ تو تمہارا غلام ہوں ورنہ میرا اور تمہارا کوئی واسطہ نہیں ۔ والدہ نے بصد اصرار کئی بار بلایا تو آپ ایک آدھ مرتبہ تشریف لے گئے اور جب والدہ نے کہا کہ گھر بار روپیہ پیسہ جائیداد سب تیرے لیے موجود ہے تو آپ نے فرمایا مجھے ان کی ضرورت نہیں ۔ اسلام نے سب کچھ عطا کر دیا ہے اور میں اب اپنے زور بازو سے رزق حاصل کروں گا چنانچہ محنت مزدوری کو اپنا شعار بنایا او رکسی کے مرہون منت نہ ہوئے ۔ بعد ازاں رڑکی اور گردو نواح کے مسلمانوں نے اپنے بچوں کو آپ کے پاس تعلیم و تربیت کے لیے بھیجنا شروع کیا اور مجبور کیا کہ آپ پورا وقت دینی کاموں کے لیے وقف کر دیں ، آپ نے یہ درخواست منظور فرمائی اور متوکلاً علی اللہ ایک گوشے میں بیٹھ گئے پھر ایسی فتوحات ہوئیں کہ باید و شاید فیاضی کا یہ عالم تھا کہ جب آپ حج کے لیے جاتے تو پورا قافلہ ساتھ ہوتا اور سب کا خرچ آپ ہی کے ذمے رہتا اکثر ایسا ہوا کہ کسی نے حرمین شریفین کی زیارت کا شوق ظاہر کیا اور آپ نے فوراً اسے اپنا رفیق سفر بنا لیا۔

ایک مرتبہ سخت قحط پڑا اور خشک سالی سے ہر طرف کہرام مچ گیا ، لوگوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر دعا کی درخواست کی ، آپ نے دوسرے روز نماز استسقا کے لیے نکلنے کا اعلان کر دیا ، جس وقت آپ ایک جم غفیر کے ساتھ نماز ادا کرنے جا رہے تھے اس وقت ہندو آپ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ مستری موتھی سنگھ کا لڑکا آج پانی برسوانے جا رہا ہے لیکن انہی لوگوں نے دیکھا کہ دعا سے قبل اگرچہ آسمان بالکل صاف تھا اور کہیں بادل کا شائبہ تک نہ تھا تاہم دعا سے فارغ ہونے کے بعد صرف چند ہی منٹ میں ایسی دھواں دھار بارش شروع ہوئی کہ لوگ واپسی میں گھروں کو جاتے ہوئے شرابور ہو گئے اور بھاگ کر کہیں پناہ بھی نہ لے سکے ۔

آپ کے مزاج میں حد درجہ استغنا کے ساتھ سا تھ سخاوت اور فیاضی بھی بے انتہا تھی ، کسی کی درخواست اور طلب کو رد نہ فرماتے ، جس زمانے میں سفر پور گاؤں میں بسلسلہ امامت مقیم ہوئے وہاں ہریجنوں نے آس پاس پانی نہ ہونے کی شکایت کی آپ نے ان کے لیے ایک کنواں کھدوایا جس میں سے شیریں پانی نکلا ، وہ کنواں آج بھی موجود ہے ، اسی طرح رسول پور کی مسجد کے لیے لوگوں نے بڑی کوشش کی کہ کنویں سے پانی نکل آئے ، کئی جگہ کنواں کھدوایا مگر پانی نہ نکلا ، آپ نے اللہ کا نام لیکر ایک مقام پر پانچ پھاوڑے مارے اور اللہ نے اسی جگہ ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا چشمہ جاری کر دیا ، رسول پور کی گنبد والی مسجد بھی آپ نے بنوائی جو بدستور آباد ہے ۔

آپ کے استاد جن کے ذریعے آپ نے اسلام کی دولت پائی مولانا عبدالسیمع میرٹھ میں تھے ، آپ سب سے پہلے ان کی قدم بوسی کے لیے وہاں گئے ۔ مولانا نے شاگرد کو سینے سے لگایا اور خوب روئے ۔ ان کی علمی و دینی و اخروی ترقیوں کے لیے دعا فرمائی اور کہا کہ میرا خط لے جاؤ مکہ معظمہ میں حاجی امداد اللہ تمہارے منتظر ہیں ، یہ سن کر آپ کی مسرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا اللہ نے غیب سے حج کے اخراجات کا انتظام کر دیا ، مکہ معظمہ پہنچے تو حاجی صاحب اپنے رفقا کے ساتھ شہر سے باہر آپ کے استقبال کے لیے اپنے رفقا کے ساتھ موجود تھے ۔ مولانا نے خط پیش کیا حاجی صاحب نے معانقہ کیا اور بہت کچھ عطا فرمایا پھر اپنے مکان پر لے گئے ۔ مولانا خلیل الرحمان کو حاجی صاحب سے ایسا انس ہوا کہ وہیں مستقل طور پر قیام کا ارادہ کر لیا لیکن حاجی صاحب نے فرمایا میاں خلیل الرحمان! تم ابھی ہندستان واپس جاؤ اللہ کو تم سے وہاں بہت کام لینا ہے اور سنو تم بار بار انشاء اللہ حج کے لیے آؤ گے ، یہ سن کر آپ خوش ہوئے حاجی صاحب کا ارشاد صحیح نکلا ، مولاناخلیل الرحمان سولہ مرتبہ حج کے لیے تشریف لے گئے اور وہ بھی طویل اقامتوں کے ساتھ ، اس لیے برابر حاجی صاحب سے فیض یاب ہوتے رہے حضرت نے آپ کو بیعت سے بھی سرفراز کیا اور خلافت عطا فرمائی ، 1317 ھ میں حاجی امداد اللہؒ واصل بحق ہوئے ، مولانا کو اس قدر صدمہ ہوا کہ حالت غیر ہو گئی ۔

حاجی صاحب ؒ کے وصال سے اگلے برس مولانا عبدالسمیع بھی وفات پاگئے تو دل بجھ گیا ، خانہ نشین ہو گئے لیکن آکر لوگوں کی منت سماجت پر بچوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا ، وعظ و نصیحت ، بیعت و ارشاد اور تعلیم و تلقین کا یہ اثر ہوا کہ دور دراز سے لوگ کھنچے آتے ، بے شمار افراد کو کفر کی تاریکیوں سے نکالا اور اسلام کی روشنی میں لائے ۔ تقریبا ًسترہ برس کی طویل مدت اسی حالت میں گزرگئی ، شہر کے معزز و مقتدر مسلمان شخصیتوں کے زور دینے پر آپ نے 1305 ھ میں ایک دینی مدرسہ قائم کیا تھا ۔ آج رڑکی اور گردونواح میں جو کچھ علم کے آثار و انوار نظر آتے ہیں وہ اس مدرسہ رحمانیہ کے زندہ جاوید فیض کا پرتو ہیں اب تک لاتعداد حفاظ ، قرا ، آئمہ مساجد اور علما اس عالی شان مدرسے سے فیض یاب ہو چکے ہیں۔

1319 ھ میں مولانا خلیل الرحمان دیار رحمت اللعالمین کی جانب ہجرت کی نیت سے عازم سفر ہوئے اور مدینہ منورہ پہنچ کر مستقل سکونت اختیار کر لی ، آپ کے ا س سفر سے اہلیان شہر ، اراکین مدرسہ اور معتقدین حد درجہ مضطرب ہوئے اسی زمانے میں مدرسہ رحمانیہ کی روداد میں اس اضطراب کا اظہار ان الفاظ میں ہوا ‘‘حضرت مولانا حافظ جی مہاجر الی اللہ جناب مخدو مناو مکر منا خلیل الرحمان صاحب کا مدرسے اور اہل مدرسہ سے جدا ہو جانا سخت رنج و الم کی بات ہے ۔ فی الحقیقت حضرت مولانا مدرسے کے لیے باغبانی اور اہل مدرسہ کے لیے نور ایمانی کا کام فرماتے تھے ، اب آپ اپنے لگائے ہوئے علمی باغ کی آبیاری اپنی خلوت کی دعاؤں اور مدینتہ العلم کی ضیاپاشیوں سے فرمائیں گے۔’’

غرض جس ذات اقدس کی محبت میں آپ نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا ، ا سی کے کوچے میں اپنے کو لا کر ڈال دیا ، آپ 1327 ھ تک مدینہ منورہ میں مقیم رہے یہاں تک کہ 17 محرم الحرام 1328 ھ مطابق 1919 کو آپ انتقال فرما گئے ۔ آپ کی زندہ و تابندہ یادگار مدرسہ عربیہ رحمانہ رڑکی آج بھی علوم و فنون کے خزانے لٹا رہی ہے اسے من جانب اللہ ہر دور میں مخلص دیندار ، صالح اور جفاکش افراد کی خدمات حاصل ہوتی رہیں اور یہ سب بانی مدرسہ حضرت مولانا خلیل الرحمان صاحبؒ کے اخلاص کا مظہر ہے ۔ (بحوالہ ، ‘‘ہم کیوں مسلمان ہوئے ’’، ڈاکٹر عبدالغنی فاروق)