ہمارے وزیر

مصنف : مختار مسعود

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : فروری 2008

چند سال پہلے کی بات ہے ۔ پاکستان کے وزیر خزانہ کے دفتر میں ایک قالین بچھا ہوا تھا بڑی اچھی حالت میں تھا ، لیکن وزیر موصوف کے معیار پر پورا نہ اترا۔ حکم ہوا کہ اسے بے داغ سفید رنگ کے قالین سے تبدیل کر دو ۔ تعمیل ہوئی۔ اسلام آباد میں بارش بہت ہوتی ہے ، سیکرٹریٹ کی ساری عمارتیں پورچ کے بغیر ہیں ۔ لوگ گیلے کپڑوں اور گندے جوتوں سمیت اندر داخل ہوتے ہیں ۔ وزیر خزانہ جو خزانے کی حفاظت پر مامور تھے وہ اپنے دفتر میں نہ صرف سفید قالین بچھواتے ہیں بلکہ اپنی میز کرسی کے پیچھے جو دیوار ہے اسے تہ دار سرخ کم خواب سے ڈھانپ دیتے ہیں ۔ ایک دوست کو جس نے 1946 میں اپنی ملازمت کا آغاز نئی دلی میں برطانوی ہند کی وزارت خزانہ سے کیا تھا ، کئی دہائیوں کے بعد بھارت کے وزیر خزانہ کے دفتر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ کہتے ہیں کہ وہی ساگوان کی میز جو انگریز استعمال کرتے تھے اسی طرح کمرے میں رکھی ہوئی ہے ۔ فرش لکڑی کا ہے ، چلتے ہوئے کھٹ کھٹ کی آواز آتی ہے مگر کسی نازک مزاج نے اسے دیوار سے دیوار تک قالین سے ڈھانکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ البتہ اس ذ را سے حصے میں جہاں صوفہ رکھا ہوا ہے ایک چھوٹا اورسادہ قالین بچھا ہوا ہے ۔

ہمارے یہاں ملک کی دولت کو حکومت کے سیاسی اور انتظامی کارندے جس بے دردی سے علانیہ ضائع کرتے ہیں ، اگر اس کی مثالوں کا دفتر جمع کیا جائے تو ترقی یافتہ ملکوں میں اسے الف لیلہ کے قصوں کی طرح شوق اور حیرت سے پڑھا جائے گا۔ سوئٹزرلینڈ دنیا کا ایک امیر ترین ملک ہے ۔ اس کے معتمد تجارت سے میں نے اسلام آباد سے رخصت ہوتے ہوئے یونہی پوچھ لیا کہ وہ جنیوا کے راستہ جا رہا ہے یا زیورچ کے ۔ اس نے کہا میں ہمیشہ زیورچ کے راستے وطن واپس پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ وہاں ریلوے سٹیشن ہوائی اڈے سے نزدیک ہے ۔ اگر جنیوا جاؤں تو سامان اٹھا کر دور تک چلنا پڑتا ہے میں نے حیرت سے پوچھا کیا ہوائی اڈے پر تمہاری سٹاف کار اور تمہارا عملہ تمہیں لینے نہیں آتا آخر باسل ہے ہی کتنی دور۔ اس نے کہا اگر سٹاف کار صدر مقام سے باہر کسی دوسرے شہر محض استقبال کے لیے پہنچ جائے تو اخبارات اس واقعہ کو سیکنڈل کے طور پر شائع کریں گے اورجو افسر یا وزیر اس حرکت کا مرتکب ہو گا اسے استعفا دینے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہو گا، اس پر مجھے موٹروں کے وہ کارواں یاد آئے جو وزیروں کے استقبال کے لیے دوسرے شہروں میں بھیجے جاتے ہیں ۔ مجھے بے شمار افسر اور وزرا یاد آئے جو اپنے سرکاری استحقاق سے کہیں زیادہ تعداد میں موٹریں استعمال کرتے ہیں اوراخراجات ذیلی اداروں میں تقسیم کر دیے جاتے ہیں تاکہ وہ کھاتا در کھاتا درج ہو کر نظروں سے اوجھل ہو جائیں۔ ایک صاحب اقتدار سیاست دان کابینہ ڈویژن کی موٹروں کو اس طرح تصرف بے جا میں لائے کہ جب کسی موٹر کے لیے کوئی محکمہ مطالبہ کی پرچی بھیجتا تو وہ اس اندراج کے ساتھ واپس آجاتی ۔ تمام موٹریں ڈیوٹی پر ہیں ، آپ کو ٹرانسپورٹ کرایہ پر لینے کی اجازت ہے ۔ ان دنوں کابینہ کے پول میں ساٹھ باسٹھ موٹریں ہوا کرتی تھیں۔

ہماری پسماندگی میں سب سے بڑا حصہ اس خوف اور ماحول کا ہے جس کی وجہ سے ہم حکمرانوں کے دوران اقتدار میں کوئی سوال نہیں پوچھتے ۔ جہاں یہ سوال پوچھنے کی روایت ترک کر دی جائے کہ سربراہ ریاست کے پاس دوسری چادر کہاں سے آئی ہے تو پھر حکمرانوں کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں ۔ وہ دوسری چادر کے بجائے کپڑا بنانے کے کارخانے اور انہیں سرمایہ فراہم کرنے والے بنکوں پر قابض ہو جاتے ہیں ۔

میں انقرہ میں ایوان صدر کی گیلری کے دوسرے سرے پر دروازہ کے پاس کھڑا قالینی پٹی پر نظریں گاڑے گہری سوچوں میں ڈوبا ہوا ہوں ۔ اس گھسے ہوئے قالین نے مجھ سے کہا۔ کیا آپ میرا ایک پیغام اہل پاکستان کو پہنچا دیں گے زندہ قومیں عمل اور جرات سے پہچانی جاتی ہیں نہ کہ فرش اور فرنیچر سے ۔ اسراف جرم ہے ۔ غربت میں اسراف دہرا جرم ہے۔ (بحوالہ ‘‘لوح ایام’’)