سید مودودیؒ

مصنف : آباد شاہ پوری

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : فروری 2008

آخری قسط

سید مو دو دی علم کا بحر ذخار تو تھے ہی ،ان کا اسلوب بیان وا ظہا ر بھی اپنے عہد کے علماء میں بے مثا ل تھا ۔ وہ بڑے بڑے علمی مو ضو عات پر قلم اٹھاتے ،مگر ان کی زبان اور انداز بیان کے آگے گو یا پتھر پانی ہو کر رہ جاتے ۔سید صاحب کا اسلوب دل میں کھب جانے والا ہے ،اسے ادبی اسلوب بھی کہا جا سکتا ہے ،لیکن نہیں یہ محض ادبی نہیں ہے ،محض ادبی اسلوب تو دل کا چٹخارا اور دماغی تفریح کا سامان بن جاتا ہے ۔مرشد مودودی کی فکر نے اس اسلوب کو ادبی اسلوب سے بڑھ کر کچھ اور ہی رنگ دے دیا ہے ۔یہ فکر اس رنگ کے ساتھ مل کر ایک ایسی تحریر وجود میں لاتی ہے جو دل کے تاروں کو جھنجھوڑتی اور دماغ میں ہلچل بپا کر دیتی ہے ۔پھر دل و دماغ کی یہ ہلچل سوچ کی لہروں میں ڈھل کر ایک ایسی انقلابی قوت میں تبدیل ہو جاتی ہے جو قاری کی زندگی کو بدل کر رکھ دیتی ہے اور مرشد مودودی کے لٹریچر نے ان گنت زندگیوں کو بدل ڈالا ۔ان زندگیوں کی داستان انقلاب چند اوراق کے کو تاہ دامن اپنے اندر نہیں سمیٹ سکتے صرف دو ایک مثالوں سے مرشد کے قلم کی بے پناہ انقلابی قوت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔سوڈان کے اسماعیل الرفاعی راوی ہیں کہ ان کے ایک عزیز ،فاروق ،منکرات میں مبتلا تھے ،شراب پیتے اور لہو و لعب اور فو احش میں ڈوبے رہتے ۔ملازمت کے سلسلے میں ان کا تبادلہ جنوبی سوڈان کے کسی گاؤں میں ہو گیا ۔وہاں وقت گزاری کے لئے انہیں کتابوں کا سہارا لینا پڑا ۔کسی مقامی مسلما ن نے انہیں سید قطب اور سید مودودی کی کتابیں پڑھنے کو دیں ان کتابوں نے ان کے دل و دماغ کی دنیا ہی بدل دی ۔جام شراب کی جگہ تسبیح ہاتھوں میں آگئی ،راتیں کلبوں اور تفریح گاہوں کے بجائے مصلے پر گزرنے لگیں ،کچھ عرصے بعد ان کا تبادلہ پھر خرطوم ہو گیا ۔عزیزوں نے اس تبدیلی کو عارضی سمجھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں معلوم ہوگیا کہ اس آدمی نے تو اپنے آپ کو سب سے اچھے رنگ میں رنگ لیا ہے ، ‘‘اللہ کے رنگ میں ’’

پھر وہ اپنی ذات کی تبدیلی ہی پر مطمئن ہو کر نہ رہ گئے بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے پر جوش داعی بن گئے ۔اسماعیل کا بیان ہے کہ دین کے بارے میں ان کی حمیت اتنی شدید ہو گئی تھی کہ جہاں کہیں بدعت اور گمراہی دیکھتے اس کی مزا حمت کرتے ۔وہ بعض اوقات انتہا پسندی پر اتر آتے چنانچہ سید مودودی کو انہیں خط لکھ کر حکمت تبلیغ سے کام لینے کی تلقین کرنی پڑی ’’ سوڈان ہی کے یاسمین عمراس لٹریچر کی انقلابی تاثیر کا ذکر اپنی ذات کے حوالے سے کرتے ہیں

‘‘سید مو دودی کی کتابیں پڑھنے سے پہلے میں کمیو نزم کا شیدائی تھا ۔خود کو کمیو نسٹ اور سوشلسٹ کہلانے میں خوشی محسوس کرتا تھا ۔یہ سید مودودی کی کتابیں تھیں جو مجھے اندھیروں سے اسلام کی روشنی میں نکال لائیں ۔سید مودودی فوت ہو چکے ہیں لیکن میں ان کا یہ احسان نہیں بھول سکوں گا اور میں ہمیشہ شکر گزار رہوں گا کہ وہ مجھے اسلام کی جانب واپس لائے ۔’’ وہ جسے ایمانی فراست و بصیرت کہتے ہیں اللہ نے سید مو دودی کو اس سے و افر حصہ عطا کیا تھا ۔حالات کو فوراً بھانپ جاتے ،الجھے ہوئے مسائل کی تہہ تک پہنچ جاتے ،ان کا تجزیہ کرتے اور اان کا اطمینان بخش حل تلاش کر لیتے ۔اکثر ایسا ہوا کہ ملک کے سیاسی حالات نے بگڑتے بگڑتے امت کو بند گلی میں پہنچا دیا ۔اس عالم میں سید صاحب کی فراست و بصیرت آگے بڑھی اور اسے اس بند گلی سے نکال لے گئی ۔اسی طرح مرشد کا تاریخی شعور بڑا توانا تھا ۔امت کی تاریخ اور اس عروج و زوال کے اسباب اور قوموں کے بگاڑ اور بناؤ کے عومل اور ان کے نتائج و عواقب پر ان کی گہری نظر تھی ۔اپنے اس تاریخی شعور کی بنا پر ان کی رہنمائی کا انداز بھی دو سرے رہنماؤں سے بالکل مختلف تھا ۔ان کی تحریروں میں یہ تاریخی شعور رہنمائی کرتا ہو جا بجا نظر آتا ہے ۔جدو جہد کے ایک مر حلے میں جب حکمران اوچھے حربوں پر اتر آئے ،قانون کے نام پر لا قا نو نیت کو حرکت دینے کے ساتھ جھوٹ اور مکرو فریب کا جال پھیلانے لگے تو مرشد مودودی نے ان اوچھے ہتھکنڈوں اور مکرو فریب کی چالوں کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا ۔انھوں نے تاریخ کی شہادت بیان کرتے ہوئے اعلان کیا کہ جھوٹ اور مکرو فریب کے حربوں پر اعتماد کرنے والے وقتی طور پر کامیاب ہو بھی جائیں تو آخر کا ر منہ کے بل آگر تے ہیں ۔

‘‘میرا عمر بھر کا مطالعہ مجھے یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں کبھی وہ طاقتیں زندہ نہیں رہ سکی ہیں جنھوں نے قلعوں میں پناہ لینے کی کو شش کی کیونکہ میدان کے مقابلے سے جی چرانا اور قلعوں کے پیچھے چھپنا بزدلی کی کھلی علامت ہے اور خدا نے اپنی یہ زمین بزدلوں کی فرمانروائی کے لئے نہیں بنائی ہے ۔اسی طرح میرا مطالعہ مجھے یہ بھی بتاتا ہے کہ جن لوگوں کا کاروبار جھوٹ اور فریب اور مکر کے بل پر چلتا ہے اور جن کے لئے حقیقت و صداقت کا روشنی میں آجانا خطرے کا حکم رکھتا ہے اور جن کو اپنی حکمرانی کی حفاظت کے لئے سیفٹی ایکٹ قسم کے قوانین کی ضرورت پیش آتی ہے ،ایسے اخلاقی بزدلوں کی چوبی ہنڈیا زیادہ دیر تک چو لہے پر نہ کبھی چڑھی رہ سکی ہے اور نہ رہ سکتی ہے یہ چیز عقل کے خلاف ہے ،قانون فطرت کے خلاف ہے اور ہزارہا برس کے تاریخی تجربات اس پر شاہد ہیں کہ ان سہاروں پر جینے والے تھوڑی دیر کے لئے چاہے کتنا ہی زور باندھ لیں بہر حال وہ دیر تک نہیں جی سکتے ۔’’

قومیں اپنی کن صفات اور صلاحیتوں کی بناء پر ابھرتی ،ترقی کرتی اور ایک دنیا پر اپنا سکہ جماتی ہیں ،ان پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا :

‘‘ایک قوم کو جو چیز اور طاقتور اور سر بلند بناتی ہے،وہ اس کے مکان ،اس کے لباس ،اس کی سواریاں اس کے اسباب عیش ،اس کے فنون لطیفہ ،اس کے کار خانے ،اس کے کالج نہیں ہیں بلکہ وہ اصول ہیں جن پر اس کی تہذیب قائم ہوتی ہے اور پھر ان اصولوں کا دلوں میں راسخ ہونا اور اعمال پر حکمران بن جانا ہے ۔یہ تین چیزیں یعنی اصولوں کی صحبت ان پہ پختہ ایمان اور عملی زندگی پر ان کی کامل فر مانروائی حیات قومی میں وہی حیثیت رکھتی ہیں جو ایک عمارت میں اس کی مستحکم بنیادوں ،اسکی پختہ دیواروں اور اس کے مضبوط ستونو ں کی ہے جس قوم میں یہ تینوں چیزیں بدرجہ اتم موجود ہوں وہ دنیا پر غالب ہو کر رہے گی ۔اس کاکلمہ بلند ہوگا ،خدا کی زمین پر اس کا سکہ چلے گا ۔گردنیں اس کے حکم کے آگے جھک جائیں گی اور اس کی عزت ہوگی خواہ وہ جھونپڑیوں میں رہتی ہو،پھٹے پرانے کپڑے پہنتی ہو ۔اس کے ہاں ایک بھی کالج نہ ہو ،علوم وصناعات میں وہ بالکل صفر ہو ۔تم جن چیزوں کو سامان ترقی سمجھ رہے ہو وہ محض عمارت کے نقش ونگار ہیں اس کے قوائم وارکان نہیں ۔کھوکھلی دیواروں پر اگر سونے کے پترے بھی چڑھادو گے تو وہ ان کو گرنے سے نہ بچا سکیں گے ۔’’

ایک اور جگہ لکھتے ہیں :

‘‘انقلاب یا ار تقاء ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے اور اور قوت ڈھل جانے کا نام نہیں ڈھال دینے کا نام ہے ۔مڑ جانے کو قوت نہیں کہتے مو ڑ دینے کو کہتے ہیں ۔دنیا میں کبھی نامردوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا ۔تاریخ بنانا صرف بہادر مردوں کا کام ہے انہی نے جہاد اور اپنی قربا نیوں سے زندگی کے دریا کا رخ پھیرا ہے ۔دنیا کے خیالات بدلے ہیں ،مناہج عمل میں انقلاب بر پا کیا ہے ۔پس یہ نہ کہو کہ دنیا جس راستے پر جارہی ہے اس سے وہ پھیری نہیں جاسکتی ۔مجبوری کا جھوٹا دعویٰ کر نے کی بجائے تم کو خود اپنی کمزوری کا سچا اعتراف کرنا چائیے اور جب تم اس کا اعتراف کر لو گے تو تم کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ کمزور کے لئے دنیا میں نہ کوئی مذہب ہو سکتا ہے نہ کوئی اصول اور نہ کو ئی ضابطہ اس کو تو ہر زور آور سے دینا پڑے گا ،ہر طاقتور کے آگے جھکنا پڑے گا ۔’’

سید مو دودی نے امت مسلمہ کے مرض کی کتنی صیح تشخیص فر مائی اور تیر بہدف علاج تجویز فر مایا ۔سید مودودی کی مختصر تحریر جو کئی کتابوں پر بھا ری ہے ۔

‘‘جو قوم خدا کی کتاب رکھتی ہو اور پھر بھی ذلیل و خوار اور محکوم و مغلوب ہو تو سمجھ لیجئیے کہ وہ ضرور کتا ب الہٰی پر ظلم کر رہی ہے اور اس پر یہ سارا و بال اسی ظلم کاہے ۔خدا کے اس غضب سے نجات پانے کی اس کے سو ا کو ئی صورت نہیں کہ اس کی کتاب کے ساتھ ظلم کرنا چھوڑ دیا جائے اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے ۔اگر آپ اس گناہ عظیم سے باز نہ آ ئیں گے تو آپ کی حالت ہر گز نہ بدلے گی ۔خواہ آپ گاؤں گاؤں کالج کھول دیں اور آپ کا ہر بچہ بچہ گریجویٹ ہو جائے اور آپ یہودیوں کی طرح سود خوری کر کے کروڑ پتی ہی کیوں نہ بن جائیں ۔’’

قوموں کے عروج و زوال سے تعلق رکھنے والی ایک حقیقت کو مر شد مودودی نے مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا :

جو قوم کسی شخصیت کے بل پر اٹھتی ہے وہ اس شخصیت کے ہٹتے ہی گر بھی جاتی ہے ۔اس کے قیام کو دوام اور اس کے ارتقا کو استمرا ر اگر کوئی چیز بخش سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اس شخصیت کے سہارے اٹھنے کے بعد وہ کو ئی ایسا نصب العین پالے جس کے عشق میں وہ پیہم سر گرم عمل رہے اور کچھ ایسے اصول پالے جن کی بنیادپر وہ اپنی حیات قومی کی عمارت مستحکم کر سکے ۔شخصیتیں بہرحال فانی ہوتی ہیں ۔ان کے بل پر قوم اٹھ تو سکتی ہے مگر قائم نہیں رہ سکتی ۔قائم رہنے کے لئے اسے ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جن کی عمر اشخاص و افراد کی عمر سے زیادہ ہو ،جو مر دان کار کی موت کے ساتھ مر نہ جائیں ،بلکہ نسل پر نسل ان سے گر مئی حرکت اور طاقت پاتی چلی جائے ۔’’

ہم مسلمانوں میں شخصیت پر ستی کا مرض بڑا گہرا ہے ۔ کچھ توہمارا قومی مزاج ہی ایسا بن گیا ہے کہ جس شخص سے ہمیں عقیدت ہوتی ہے اندھی عقیدت ہوتی ہے اور کچھ خود شخصیتیں اپنے طرز عمل سے باقاعدہ اس جذبے کو غذا فراہم کرتی ہیں ۔مرشد مودودی کا انداز عمل بالکل مختلف تھا ۔انھوں نے کبھی شخصیت پر ستی کی تلقین نہ کی ۔یہ مرض اندھی عقیدت کی کو کھ سے جنم لیتا ہے ۔ سید صاحب نے اپنے ساتھیوں کو اندھی عقیدت سے ہمیشہ دور رکھا ۔انھوں نے اپنی شخصیت کو کبھی دعوت کا مرکز نہ بنایا بلکہ لو گو ں کو نصب العین کی طرف دعوت دی ۔اسی طرح اپنی ذات کو دوسروں سے بالا تر رکھنے کی بھی کوشش نہ کی ۔ان کا ارشاد تھا :اشخاص نصب العین کے لئے ہوتے ہیں نہ کہ نصب العین اشخاص کے لئے ۔ مرشد مودودی اپنی رائے کسی پر نہ ٹھو نستے بلکہ آزادانہ غور و فکر اور کھلے بحث مباحثہ کی دعوت دیتے۔اپنے ساتھیوں کو کنویں کا مینڈک نہ بناتے ،ان کے اندر جستجو اور تگ ودو کی لگن پیدا کرتے ۔مشورہ دیتے کہ کسی تحریک کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اسے سمجھنا اور خود اس کے اپنے لٹریچر سے سمجھنا چاہیے ،مگر چوکس ذہن اور کھلی آنکھوں کے ساتھ ۔ان کا ارشاد تھا :آدمی کو نہ اندھا مخالف ہونا چاہیے اور نہ اندھا حامی ۔سوچ سمجھ کر اور پڑھ کر قائم کی ہوئی رائے ٹھوس بھی ہوتی ہے اور وزنی اور موثر بھی عصر کی ایک مجلس میں ایک صاحب جو دیر سے پہنچے تھے ،آنکھیں بند کرکے نماز پڑھ رہے تھے ۔مر شد کی نگاہ ان پر پڑی تو فر مایا :مسلمان دنیا میں آنکھیں کھول کر رہتاہے اور عبادت بھی آنکھیں کھول کر کرتا ہے ۔

مر شد مودودی نہ تو اپنے چہرے مہرے پر رہبری کے پندار اور مصنوعی عالمانہ وقار کی ردا تان کر پر تصنع لہجے میں بات چیت کرتے نہ علم و فضل کی بلندیوں سے مر عوب کرتے بلکہ اپنے سامعین کے درمیان کو ئی فرق و امتیاز نہ کرتے ۔کسی دینوی مفاد کے طالب نہ ہوتے نہ یہ تاثر دل و دماغ میں بٹھاتے کہ میں غلطیوں سے پاک اور علم و عمل کی کو تاہیاں سے مبرا ہوں ۔اس لئے جو بات کہوں اسے شک و ریب دل میں لائے بغیر مان لو بلکہ اپنے آپ کو انہی میں کا عام آدمی سمجھتے جو غلطی بھی کر سکتا ہے اور ان کی طرح علم و عمل کی کو تاہیا ں بھی رکھتا ہے ۔دنیوی لیڈرہوں یا مذہبی پیشوا ان کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اپنے دل اور سر کی آنکھیں بند کر کے ان کے پیچھے چلیں ،ان کے کسی قول و فعل پر انگلی نہ اٹھائیں ،لیکن مرشد مودودی ان کے بر عکس اپنے ساتھیوں اور مخاطبین سے ہر آن چو کنا رہنے اور وہی بات ماننے کو کہتے جو کتاب و سنت کے موافق ہو ۔

علامہ اقبال کی دعوت پر اکتالیس برس پہلے ۱۹۳۸ ء میں مرشد ،حیدر آباد دکن سے ہجرت کر کے دارالاسلام ( پٹھانکوٹ ) پہنچے اور دارالاسلام کی بستی میں نماز جمعہ قائم کیا تو نمازیوں سے جن کی اکثریت ان پڑھ دیہاتیوں پر مشتمل تھی ،ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا :

‘‘بر ادران اسلام ! میں ایک دور دراز علاقے کا رہنے والا اپنا گھر بار اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کو چھوڑ کر آپ کی اس بستی میں صرف اس لئے آیا ہوں کہ میں اسلام اور مسلمانوں کی کچھ خدمت کرنا چاہتا ہوں ۔مجھے یہاں کوئی لالچ کھینچ کر نہیں لایا ہے ۔نہ میں آپ سے کسی اجرت کا طالب ہوں ۔میں صرف آ پ کے لئے اور سب مسلمانو ں کے لئے دنیا اور عاقبت کی بھلائی چاہتا ہوں۔ اس کام میں میری مدد کرنا تمھارا فرض ہے اور میری مدد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ خدا اور اس کے رسول ﷺکی تعلیم کے مطابق جو کچھ میں تم سے کہوں اس کو قبول کرو اور جس بات سے منع کروں اس سے باز آجاؤاور تمھاری فلاح دارین کے لئے جو کام میں کروں اس میں میرا ساتھ دو ۔ اگر تم ایسا کرو گے تو خدا اپنے فضل سے میری اور تمھاری سب کی تا ئید کرے گا اور ہمیں کامیابی عطا کرے گا ۔۔۔۔

بھائیو !مجھے نہ علم میں کامل ہونے کا دعویٰ ہے نہ عمل میں کامل ہونے کا ۔میں تو گناہوں کی دنیا سے بھاگ کر یہا ں پناہ لینے آیا ہوں تاکہ شاید مجھ کو اپنی اصلا ح کرنے اور پورا مسلمان بن جانے کا موقع مل جائے ۔جس طرح دوسرے انسانوں کے علم و عمل میں کو تا ہیاں ہیں اسی طرح میرے علم و عمل میں بھی ہیں ۔اس لئے میں یہ بھی نہ چاہو ں گا کہ تم آ نکھیں بند کر کے میری پیروی کرو اور اگر میں غلطی بھی کروں تو میرا ساتھ دو ۔تم میں سے ہر شخص کو اپنے دین کے معاملے میں چوکنا رہنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ جو کچھ میں کہتا ہوں خدا اور رسول ﷺ کی تعلیم کے مطابق کہتا ہوں یا نہیں ؟ اگر تمھیں شبہ ہوتو مجھ سے دلیل طلب کرو اور اگر میں غلطی کرو ں تو مجھے ٹوک دو اور میری اصلاح کرو ۔اور اگر کبھی تم دیکھو کہ میں خدانخواستہ گمراہ ہو گیا ہوں ،تو میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ مجھے اپنی بستی سے نکال دینا ۔’’

گفتار میں سادگی اور صاف گوئی اور کردار میں یہ اجلا پن مرشد کا زندگی بھر طغرہ امتیاز رہا ۔نماز عصر کے بعد کی مجالس کو مرشد مودودی کی زندگی میں اہم خصو صیت حاصل رہی ہے ۔ان مجالس میں شریک ہو نے والوں نے ان کی شخصیت کے گو ناگوں پہلو بہت قریب سے دیکھے ہیں ۔یہ مجالس بناوٹ اور تصنع سے بالکل پاک ہوتیں اور مرشد کی زندگی کا یہی رخ سب سے نمایاں ہو کر سامنے آتا ۔ مجلس کا اندازبالکل سیدھا سادھا ہو تا ۔یہاں نہ پیروں اور مشائخ کی مجلسوں کی سی فضا ء ہوتی اور نہ دنیا پرستوں کے درباروں اور محفلوں کی ۔ایسا نہ تھا کہ دربار میں حاضر عقیدت مند نگاہیں نیچی کئے ہاتھ باندھے گم سم بیٹھے ہیں ۔بس گاہے گاہے حضرت کے کسی نکتہ غریب پر سر دھنتے ہو ئے سبحان اللہ پکار اٹھتے ہیں یا وجد میں آئے ہوئے کسی خوش عقیدہ مرید کی لمبی ‘‘ہو ’’مجلس پر چھائے ہوئے سناٹے کو توڑ دیتی ہے ۔یہاں نہ تو کشف و کرامات کی باتیں ہوتیں نہ خوابوں کا تذکرہ ۔بلکہ امت کی جیتی جاگتی ،دکھوں اور مصیبتوں کی آماجگاہ زندگی سے تعلق رکھنے والے مسائل پر ہلکی پھلکی گفتگو ہوتی ۔ آنے والے اپنی الجھنیں اور مشکلات پیش کرتے جو انھیں حق کی راہ میں جدو جہد کرتے ہوئے پیش آتیں ۔مرشد بڑے معقول طریقے اور ٹھنڈے مزاج کے ساتھ مسائل کی ذہنی سطح کے مطابق جواب دیتے جواب مختصر اور اطمینان بخش ہوتا سید صاحب کی حاضر جوابی اور شگفتہ مزاجی مجلس کو بوجھل فضا سے بچائے رکھتی ۔اس مجلس میں بیٹھ کر آدمی ایک اپنائیت اور سید صاحب کے ساتھ قرب سا محسوس کرتا ۔ہر شخص کھلے طور پر گفتگو کرتا یہاں کوئی بڑا نہ ہوتا جس کو جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتا سید صاحب کا سلوک بھی سب کیساتھ مساوی ہوتا ہر چھوٹے بڑے شخص کے لئے احترام کے جذبات رکھتے ۔ایک مرتبہ میں مجلس میں ذرا دیر سے حاضر ہوا ۔چٹائیوں پر جگہ نہ رہی تھی ۔میں فرش پر بیٹھنے لگا ۔فرمایا کرسی پر بیٹھ جائیے ۔میں نے ادباًگریز کیا ۔بھانپ گئے ۔فرمانے لگے : کرسی خالی ہے اور بیٹھنے کے لئے ہے ۔ایک رفیق مسکرا ئے اور بولے لوگ تو زبر دستی قبضہ کر لیتے ہیں ۔نماز مغرب سے کچھ پہلے مجلس بر خاست ہوتی تو لوگ اپنے دلوں میں ایمان کی حرارت لئے اٹھتے ۔کتنوں ہی کے سینے حق کیلئے کھل جاتے اور کتنے ہی نیا حو صلہ اور ولولہ لے کر رخصت ہوتے ۔سید صاحب کی صحبت میں میں نے وہ چیز محسو س کی جو بزرگان دین کے تذکروں میں پڑھنے میں آتی ہے کہ انھیں دیکھ کر خدا یا د آجاتا اور تفکرات کی دنیا سے دل آزاد ہو جاتا تھا ۔میں جب کبھی ملک و ملت پر امڈ تی ہوئی تاریکیوں سے پریشان ہو کر حاضر خدمت ہوتا ،چہرے پر نظر پڑتے ہی میری ساری پریشانی کا فور ہوجاتی امید کی کرن نمودار ہو کر مایو سی کے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے دل و دماغ کو جگمگا دیتی اور جب مجلس سے اٹھتا تو یہ یقین لئے کہ رات چاہے کتنی ہی طویل ہو،صبح نمودار ہو کر رہے گی ۔ مرشد مودودی کے فکر و عمل کی بے شمار جہتیں ہیں ۔

ہم یہاں تین بنیادی جہتوں کا ذکر کریں گے ۔

پہلی جہت کا تعلق مرشد مودودی کی بنیادی فکرو دعوت سے ہے ۔سید نے انسانی زندگی کو مختلف الگ الگ خانوں میں بانٹنے اور دین اور دنیا میں تفریق کے تصور پر کاری ضرب لگائی انھوں نے کہا کہ انسانی زندگی ایک اکائی ہے اور اسلام پوری زندگی پر حاوی ہے ۔وہ ایک مکمل نظام حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے اس کامل و اکمل اور مربوط و منظم نظام حیات کو ٹکڑوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا اسے ماننا ہے تو پورے کا پورا ماننا ہو اگا ۔یو منون ببعض الکتاب و یکفرون ببعض کی کیفیت کو ترک کرنا ہوگا اور اد خلو فی السلم کافۃ کے فر مان کے مطابق اپنی پوری کی پوری زندگی اسلام کے حوالے کرنی ہو گی ۔مرشد مودودی کی بنیادی دعوت اسی ایک نکتے میں سمٹ آئی ہے اور اس کی وضاحت انھوں نے اپنی تحریروں میں جگہ جگہ کی ہے ۔وہ بڑے قو ی استدلال کے ساتھ اپنے اس نقطہ نظر کو پیش کرتے ہیں ۔ایک جگہ اسلام کے مکمل ضابطہ حیات ہونے پر بحث کرتے ہوئے فر ماتے ہیں :

‘‘آپ جس چیز کو انسان کہتے ہیں وہ آدمی کا سالم وجود ہے نہ کہ انسانی وجود کے الگ الگ کئے ہوئے ٹکڑوں کا مجموعہ ۔ایک کٹی ہوئی ٹانگ کو آپ ۸؍۱انسان نہیں کہہ سکتے ۔نہ یہ کٹی ہوئی ٹانگ ان خدمات میں سے ایک خدمت انجام دے سکتی ہے جو زندہ اور سالم جسم کا ایک عضو ہو نے کی صورت میں وہ انجام دیا کرتی ہے ۔نہ اس ٹانگ کو کسی اور جانور کے جسم میں لگا کر آپ یہ توقع کر سکتے ہیں کہ اس جانور میں ایک ٹانگ کے بقدر انسانیت پیدا ہو جائے گی ۔اسی طرح انسانی جسم کے ہاتھ پاؤں ،آنکھ ،ناک وغیرہ اعضا ء کو الگ الگ لے کر آپ ان کے حسن یا ان کے فائدے کے متعلق بھی کوئی رائے قائم نہیں کر سکتے جب تک کہ پورے زندہ جسم میں ان کے تناسب اور عمل کو نہ دیکھیں ۔ٹھیک ٹھیک یہی حال شریعت کے نقشہ زندگی کا ہے ۔اسلام اس پورے نقشے کانام ہے نہ کہ اس کے جدا جدا ٹکڑوں کا ۔اس کے اجزاء کو پارہ پارہ کر کے نہ تو اس کے بارے میں جدا گانہ رائے زنی کرنا درست ہو سکتا ہے، نہ مجموعہ سے الگ ہو کر اس کا کوئی جزو وہ کام کر سکتا ہے ،جو وہ صرف اپنے مجموعے میں رہ کر کیا کرتا ہے ،نہ اس کے بعض اجزاء کو قائم کر کے آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے آ دھا یا چو تھائی اسلام قا ئم کر دیا ہے اور نہ کسی دوسرے نظام میں اس کے کسی اجزاء کو پیوست کر کے کوئی مفید نتیجہ ہی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔شارع نے یہ نقشہ اس لئے بنایا ہے کہ یہ پورے کا پورا ایک ساتھ قائم ہو ،نہ اس لئے کہ آپ حسب منشاء اس کے کسی جز کو جب چاہیں لے کر قائم کر دیں ،بغیر اس کے کہ دوسرے اجزاء اس کے ساتھ ہوں ،اس کا ہر جز دوسرے اجزاء کے ساتھ اس طرح جڑا ہو اہے کہ ان کے ساتھ مل کر ہی کام کر سکتا ہے اور آپ اس کی خوبی کے متعلق صیح رائے اسی وقت قائم کر سکتے ہیں جب کہ پورے اسلامی نظام کے تناسب اور عمل میں اس کو کام کرتے ہوئے دیکھیں ۔’’

اسلام کے مکمل نظام حیات اور زندگی کے اکائی ہونے کا منطقی نتیجہ تھا کہ مرشد مودودی نے مذہب اور سیاست کی تفریق کے اس نظر یہ کو غیر اسلامی قرار دیا اور اس پر بھر پور تنقید کی جو مسلمان ملکوں کے اندر ہر جگہ جڑ پکڑ رہاتھا اور سیکولر نظام قائم کرنے کی جدو جہد ہو رہی تھی ترکی تو سب سے پہلے اس راہ پر قدم بھی اٹھا چکا تھامرشد مودودی نے ‘‘جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو اور جو قیصر کا ہے ،وہ قیصر کو دو ’’کے نظریہ کو غلط ٹھہرایا اور اس ‘‘بانٹ ’’کو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے فساد اور بگاڑ کا بنیادی سبب قرار دیا ۔انھوں نے کہا یہاں ‘‘قیصر ’’ کا کچھ نہیں ،سب کچھ خدا کا ہے اور خدا کا حق کسی اور کو اس میں شریک کئے بغیر خدا کو ہی ملنا چاہیے۔خدا ہی اس بات کا سزا وار ہے کہ اس کی کا ئنات میں صرف اسی کا حکم چلے اور اسی کی مرضی مانی جائے ۔

سید مودودی کی یہ فکر و دعوت ایک انقلابی فکراوردعوت ہے ۔ اس انقلابی فکر دعوت نے لو گوں کی سو چ بچا ر کے اندا ز اور مدتوں سے جمے ہوئے نظریات بدلے ہیں ۔ان کی زندگیوں کا رنگ ڈھنگ بدلا ہے ،پھر اس فکر کا لایا ہوا انقلاب آدمی کو انفرادی نیکی پر مطمئن کر کے نہیں رہ جاتا ،بلکہ اس کے اندر ایک اضطراب پیدا کرتا ہے کہ جس بات کو اس نے حق مانا ہے اسے عملاً نافذ کرنے کی جدو جہد بھی کرنی چائیے ۔عقل عیار فرار کے حیلے بہانے تراشی ہے ، لیکن یہ اضطراب روز بروز بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ زبر دست کشمکش بر پا ہو جاتی ہے جو بیشتر صورتوں میں اسے میدان عمل میں لا کھڑا کرتی ہے ۔

اس انقلابی فکر و دعوت نے جو افراد تیار کئے ،انھیں پچاس برس کی طویل مدت میں زمانہ کئی بار آزما چکا ہے ۔مجھے وہ دن یاد ہیں جب لہو میں نہائے ہوئے قا فلے پاکستان کی منزل مراد کی طرف بڑھ رہے تھے ۔یہاں کیمپوں کی زندگی بڑی وحشتناک تھی ۔کیمپوں کے منتظمین اور ‘‘رضاکاروں ’’کے ہاتھوں بعض ایسے گھناؤ نے اور لرز ہ خیز واقعات رونما ہوئے جنھیں آج بھی بیان کرتے ہوئے قلم ندامت محسوس کرتا ہے ۔خورد برد اور لوٹ کھسو ٹ کے واقعا ت تو عام تھے ۔لیکن کچھ کیمپ ایسے بھی تھے جن کا انتظام مرشد مودودی کے تیار کردہ افراد کے ہاتھ میں تھا ۔ان کیمپوں میں جو لوگ مقیم رہے تھے وہ آج بھی ان لوگوں کی دیانت و امانت اور شرافت و پاکیزہ کرداری کی گواہی دیں گے یہاں خواتین کی عزت و عصمت بھی محفوظ تھی اور ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق راشن ،کپڑے اور دوسری اشیائے ضرورت بھی ملتی تھیں ۔یہ لوگ کس طرح مستحق کی ضرورت پوری کرتے تھے اس کا اندازہ ایک مثال سے ہو سکتا ہے ۔ایک مخیر تاجر نے مہاجرین کے لئے کمبلوں کی ایک گانٹھ بھیجی ۔دوسرے کیمپوں میں ایسے مواقع پر عموماً یہ ہوتا کہ اچھی اچھی چیزیں چھانٹ کر آپس میں بانٹ لی جاتیں ،جو باقی رہ جاتیں انھیں ایسے بے ہنگم طریقے سے تقسیم کیا جاتا کہ غیر مستحق ،مگر طاقت ور لوگ لے اڑتے اور کمزور اور ضعیف مرد عورتیں اور بچے مستحق ہونے کے باوجود محرو م رہتے ،لیکن یہاں یہ کمبل اس وقت تقسیم کئے گئے جب مہاجر رات کے وقت سوئے پڑے تھے ۔ تحریک کے کارکن کمبل لے کر کیمپ میں پھیل گئے اور جس شخص کو لحاف یا کمبل کے بغیر سوتے پایا اس پر ایک ایک کمبل ڈالتے چلے گئے۔ آٹا ،دودھ کپڑے اور دوسری ضروری اشیاء تقسیم کرنے کے لئے ان کیمپوں میں راشن کارڈ جاری کئے گئے جس پر ہر کنبے یا فرد کو اشیاء مہیا کی جاتیں پھر یہ حیرت ناک منظر بھی آنکھوں نے دیکھا کہ خاکروبوں کے بھارت چلے جانے سے لاہور میں غلاظت اور گندگی کے ڈھیر لگ گئے کوئی اٹھانے والا نہ تھا ۔لوگ ان ڈھیروں کے پاس سے ناک بند کر کے گزرجاتے اور ان میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا یہاں تک کہ وبا پھوٹنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ۔مرشد مودودی نے اپنے جوانوں کو آواز دی اور پھر لوگ یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے کہ خوش پوش افراد کی ٹولیاں ،گندگی کے ٹوکرے بھر بھر کے کارپوریشن کی گاڑیوں میں پھینک رہی ہیں ۔ان میں ڈاکٹر بھی تھے ،انجینئر اور پروفیسر بھی، تاجربھی اور دوکاندار بھی تھے اور اساتذہ اور سرکا ری ملازم بھی ۔

مرشد مودودی کی دعوتی زندگی کی دوسری بنیادی جہت یہ ہے کہ وہ دعوت و ارشاد کی مسند بچھاکر نہیں بیٹھ گئے بلکہ انھوں نے اس دعوت کو ایک تحریک کی شکل دی اور پھر ایک جماعت منظم کر کے اس نظریے کو ملک اور معاشرے کا حکمران بنانے کی جدوجہد شرع کر دی جس کی طرف وہ لوگوں کو بلاتے رہے تھے جماعت اسلامی کی تنظیم میں سید صاحب کی تنظیمی صلاحیتیں گویا ڈھل کر مجسم صورت اختیار کر گئی تھیں یہ تنظیم اور کا طریق کار شہادت دیتا ہے کہ محض فکری و نظریاتی آدمی نہ تھے بلکہ عملی آدمی بھی تھے۔

مرشد مودودی کی فکری و دعوتی زندگی کی تیسری جہت ان کے علمی کمالات و فضائل کی جہت ہے ۔ سید صاحب نے اپنے پیچھے بے بہا وسیع لٹریچر چھو ڑاہے ۔یہ سارا لٹریچر ان کی دعوتی اور عملی جدو جہد کے دوران میں تیار ہوا بلکہ اس کا بنیادی تعلق اسلام کی فکری و عملی دعوت سے ہے یہ لٹریچر نصف صدی کے عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس دوران میں سید صاحب کو بڑے کڑے مرا حل سے گزرنا پڑا ۔ایسے مراحل جنہیں سخت جنگی مراحل سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے ۔فی الحقیقت سید صاحب کا یہ سارا عرصہ بیک وقت مختلف محاذوں پر باطل اور مخالف قوتوں سے چومکھی لڑائی لڑنے میں گزرا ۔یہ لٹریچر جہاد مسلسل کے انہی شب وروز میں تیار ہوا ۔ایسی رواروی کے عالم میں تیار ہونے والا لٹریچر بالعموم سطحی اور وقتی نوعیت کاہوتا ہے ،لیکن سید مودودی نے اسی ہنگامہ رستاخیز میں علمی تحقیق و جستجو کا کام جمیعت خاطر کے ساتھ تن تنہا کسی کی مدد کے بغیر کیا اور پھر ان کے قلم سے جو چیز نکلی اس نے زیر بحث موضوع کا حق اداکر دیا ۔اثرات کے لحاظ سے یہ زبردست انقلابی لٹریچر ہے اور عملی لحاظ سے نہایت بلند پایہ اور اپنے مباحث کے اعتبار سے مستقل نوعیت کا ۔پھر وہ کتابیں ہیں جو صدیوں تک کسی رد و بدل اورحذف ترمیم کے بغیر دنیا کے کسی بھی گوشے میں پڑھی جا سکیں گی اور جن کے الفاظ میں سمٹا ہو ا کتا ب و سنت کا نور مشرق و مغرب ہر جگہ دلوں کو منور کرتار ہے گا ۔ الجہاد فی الاسلام ،پردہ ، سود ،اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبا دی ،دینیات ،خطبات ، اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر ،اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات ،رسائل و مسائل ،اسلام اور جدید معاشی نظریات ،اسلام اور ضبط والادت ، اسلامی ریاست ،تنقیحا ت ، تفہیمات ،سیرت سرور عالم ﷺ اور دیگر بیسیوں چھوٹے بڑے پمفلٹ اور کتابیں اپنی لازوال مستقل حیثیت رکھتی ہیں ان کی ایک بڑی تعداد کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں ہو چکے ہیں اور مغربی تہذیب و افکار کی یلغار اور دینی و معاشرتی بگاڑ کے مقابلے میں ہر جگہ مینارۂ نور کاکام دے رہی ہیں اور آنے والے ادوار میں بھی اسی طرح امت کو اسلام کی سیدھی شاہراہ پر چلانے میں اپنا موثر کردار ادا کرتی رہیں گی۔

اس عظیم انقلابی لٹریچر کے علاوہ مرشد مودودی کے قلم سے نکلی ہوئی قرآن عظیم کی تفسیر ،تفہیم القرآن ہے جو چھ صخیم جلدوں پر مشتمل ہے تعصب ،معاصرانہ عناد اور دل تنگ سے پاک ہر صاحب علم اسے سید صاحب کی قرآنی بصیرت کا شاہکار اور عظیم الشان علمی اور تحقیقی کارنامہ قرار دیتا ہے ، اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس تفسیر میں بالعموم ان تمام سوالات و اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی جو قرآن کریم کا مطالعہ کرتے وقت جدید و قدیم ذہن میں اٹھ سکتے ہیں ۔دوسری خصوصیت یہ ہے کہ تفہیم القرآن میں ہر سورۃکا تاریخی پس منظر دیا گیا ہے اور پھر آیات کی تفہیم میں علمی استدلال کے ساتھ تشریح و تفسیر کا جو رنگ اختیار کیا گیا ہے اس سے پڑھنے والا یوں محسوس کرتا ہے جیسے وہ اس دور میں پہنچ گیا ہے جب یہ آیات اور سورتیں نازل ہو رہیں تھیں ۔سید مودودی نے تفہیم القرآن لکھ کر دور حاضر کے انسان کے ہاتھوں میں قرآن کریم اور اس کے احکام و تعلیمات سے بہرہ یاب ہونے کا ایک نہایت موثر ذریعہ دے دیا ہے ۔قرآن کریم کے تفسیر ی خزائن میں اس گو ہر کی کیا قدرو قیمت ہے اور اسلام کی علمی میرا ث میں اس کا حقیقی مقام کیا ہے ،اس کا فیصلہ بھی مستقبل میں اسلام کی دینی علمی اور علمی تہذیبی و ثقافتی تاریخ لکھنے والا مورخ کرے گا ۔

مصر کے مشہور عالم اور مفسر قرآن اور الجواہر کے مصنف علامہ جوہر طنطاوی اپنی تفسیر الجواہر پر تفہیم القرآن کو ترجیح دیا کرتے تھے پاکستان کے ایک سابق مرکزی وزیر مشتاق احمد گورمانی حج پر گئے تو وہاں ان کی علامہ سے ملاقات ہوئی ۔انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ اگر علامہ اجازت دیں تو الجواہر کا اردو ترجمہ شائع کر دیا جائے تاکہ پاکستان کے مسلمان اس سے استفادہ کر سکیں ۔علامہ طنطاوی نے فر مایا کہ سید مودودی کی تفہیم القرآن کے بعد الجواہر کے ترجمے کی کیا ضرورت ہے ،ہم تو خود اس سے استفادہ کرتے ہیں۔

 مرشد مودودی کی عظمت و فضیلت کا ایک رخ یہ ہے کہ انھوں نے اپنے دور کی تاریخ پر گہرا اثر ڈالا سو ڈان کی تحریک اسلامی کے ممتاز راہنما شیخ یاسین عمر نے اس حقیقت کو مندرجہ ذ یل الفاظ میں بیان کیا :‘‘میں سید مودودی کو ’’گریٹ ’’کہتا ہوں لیکن مجھے احساس ہوتاہے کہ یہ لفظ ان کی عظمت کو بیان نہیں کر سکتا ۔سید ابو الاعلیٰ مودودی وہ شخص تھے جنہوں نے تاریخ کا رخ موڑ دیا ہے ۔ وہ تاریخ ساز شخصیت تھے ۔ان کے قلم نے مغربی تہذیب ،افکار اور ثقافت کو شکست سے آشنا کیا چنانچہ آج یہ انقلاب ہے کہ مسلمانوں کی نئی نسل مشرقی یا مغربی کے بجائے صرف اسلامی ہونے کا نعرہ لگاتی ہے ۔یہ بہت بڑی تبدیلی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا اثر پوری دنیا میں رونما ہوگا اور اس میں زیادہ دیر بھی نہیں لگے گی ’’اور یہی بات بنگلہ دیش کے ڈاکٹر سراج الحق نے اپنے انداز میں اس طرح کہی :‘‘سید مودودی اپنی زندگی ہی میں اپنے دور کی تاریخ پر اثر انداز ہو چکے ہیں اور آج کے بعد رونما ہونے والے واقعات پر ان کا اثر بدستور قائم رہے گا بلکہ یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید گہرا ہوتا چلا جائے گا ۔ ان کی زندگی کے بعد ان کے پیچھے چلنے والوں میں اضافہ ہوتا رہے گا ،ان کی عزت و تو قیر بڑھتی ہی چلی جائے گی ،وہ ہر دلعزیز سے دلعزیز ہوتے رہیں گے ۔