وادیِ نون

مصنف : حافظ نذر احمد

سلسلہ : قرآنیات

شمارہ : جنوری 2008

            حضرت یونس علیہ السلام اللہ کے ایک جلیل القدر نبی تھے ۔ نینوا کا مشہور تاریخی شہر ان کی تبلیغ کا مرکز تھا ۔ حضرت یونس نے اپنے گھر بار اور وطن کو چھوڑ کر بحری سفر اختیار کیا ۔ ان کی کشتی منجدھار میں ڈانواں ڈول ہونے لگی تو وہ دریا میں چھلانگ لگانے پر مجبور ہو گئے ۔ مشیت الہی کے مطابق یونسؑ دریا میں کودے ، اللہ تعالی نے غیب سے ان کی حفاظت کا سامان کر دیا ۔ وہ یوں کہ ایک بڑی مچھلی نے انہیں زندہ نگل لیا ۔ وہ کئی دن اس مچھلی کے پیٹ میں رہے ۔ آخر اللہ کے حکم سے مچھلی نے انہیں ساحل پر اگل دیا ۔ اور وہ مچھلی کے پیٹ سے صحیح سالم باہر نکل آئے ۔ اگر مچھلی انہیں نہ نگلتی تو سمندر کی گہرائیوں میں غرق ہو جاتے ۔

            یہ ساحل کونسا تھا ، کس دریا کا کنارہ تھا؟ کس ملک میں تھا؟ اور اس ملک کی اس وادی کا کیا نام تھا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ‘‘وادی نون’’ ہے ۔ وادی نون کے تذکرہ سے پہلے خود حضرت یونس ؑ کے بارہ میں کچھ بیان کر دینا ضروری معلوم ہوتا ہے تاکہ پورے واقعات سامنے آجائیں۔

حضرت یونس علیہ السلام:

            حضرت یونسؑ اللہ کے نبی تھے ، نبیوں کے خاندان سے تھے ۔پورا نام یونس بن متی تھا ۔ توریت مقدس میں آپ کو یحنّٰی ، یونا اور یوناہ کے ناموں سے یاد کیا گیا ہے ۔ انگریزی میں آپ کو Jonah لکھا جاتا ہے ۔ قرآن مجید میں انہیں یونسؑ کے علاوہ ‘‘ذوالنون’’ اور ‘‘صاحب الحوت’’ کے القاب سے یاد کیا گیا ہے ۔ ‘‘حوت’’ کے معنی مچھلی کے ہیں اور ‘‘نون’’ بڑی مچھلی کو کہتے ہیں ۔ ‘‘ذو’’ اور ‘‘صاحب’’ کے معنی ہیں مالک اوروالا۔ حضرت یونسؑ کئی دن ایک بڑی مچھلی کے شکم میں رہے ۔ اس لیے انہیں ‘‘مچھلی والا’’ کہا گیا ہے ۔

            حضرت یونسؑ نینوا(مشہور قدیم تاریخی شہر) کے باشندے تھے ۔ آپ کا زمانہ اسرائیلی بادشاہ یرلعبام (۷۸۱ ق م تا ۷۴۱ ق م ) کا ہے ۔ اس کے زمانے میں شہر نینوا اپنے انتہائی عروج پر تھا۔ ملک عراق میں دجلہ کے بائیں کنارے موجود موصل شہر کے نینوا کی بستی تھی ۔ اس وقت اس شہر کا رقبہ ایک ہزار آٹھ سو ایکڑ تھا ۔ نینوا کی قدامت کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ ۲۲۸۵ سال قبل مسیح کے حمورابی نوشتوں میں بھی نینوا شہر کا ذکرموجود ہے ۔

            توریت مقدس کے بیان کے مطابق اس وقت نینوا کی آبادی ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ تھی۔ (کتاب یوناہ ۴:۱۱) کیپٹن جانسن نے ۱۸۵۳ء میں شہر کے کھنڈرات کی پیمائش کی تھی ۔ ان کی تحقیق کے مطابق اس کا رقبہ ایک ہزار آٹھ سوایکڑ تھا ۔

            حضرت یونس ؑ نے اہل نینوا کو عذاب الہی سے ڈرایا مگر قوم کے سرکش لوگ نہ مانے ۔ انہوں نے ہر سنی ،ان سنی کر دی ۔ اللہ کے نبی نے قوم کو عذاب الہی کی آمد کی اطلاع دی ۔ او ران کے درمیان سے چلے گئے تاکہ عذاب الہی کے مقام سے الگ ہو جائیں اس طرح نبی کے شہر چھوڑنے پر اہل شہر ڈر گئے ۔ انہوں نے توبہ استغفار کی اور عذاب الہی ٹل گیا ۔

قرآن مجید میں حضرت یونسؑ کا ذکر:

            کلام مجید میں پانچ مقامات پر حضرت یونسؑ کا ذکر ہوا ہے ۔ ان کے اصل نام ‘‘یونس’’ کے عنوان سے بھی اور‘‘ذوالنون’’ اور ‘‘صاحب الحوت’’ کے القاب کے زیر عنوان بھی ۔ ملاحظہ ہو :

پارہ ۷ سورۃ الانعام (۶:۸۷)

پارہ ۱۱ سورہ یونس (۱۰:۹۸)

            یہ مستقل سورہ انہیں کی ذات سے منسوب اور انہیں کے اسم گرامی سے موسوم ہے ۔

پارہ ۱۷ سورۃ الانبیا (۲۱:۸۷،۸۸)

پارہ ۲۳ سورۃ الصّٰفّٰت (۳۷: ۱۳۹ تا ۱۴۸)

پارہ ۲۹ سورۃ ا لقلم (۶۸: ۴۵ تا ۵۰)

            مچھلی کے ا س واقعہ کو قرآن مجید نے یوں بیان کیا ہے : ‘‘یقینایونسؑ نبیوں میں سے تھے ۔ جب وہ بھری ہوئی کشتی کی طرف بھاگے تو انہوں نے قرعہ ڈالا۔ سو وہ مغلوبوں میں سے ہو گئے ۔ مچھلی نے انہیں لقمہ بنا لیا ۔ او روہ الزام خوردہ ہو گئے ۔ اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو اس دن تک مچھلی کے شکم میں رہتے جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے (یوم محشر) ۔ پھر ہم نے انہیں کھلے میدان میں ڈال دیا ۔ اور وہ بیمار تھے اور ہم نے ان پر بیل والا (کدو کا) درخت اگایا ۔ اور ہم نے لاکھوں یا اس سے بھی زیادہ آدمیوں کی طرف بھیجا۔ (الصّٰفّٰت۱۳۹ تا ۱۴۸ )

            ایک دوسری جگہ ان کا تذکرہ ان الفاظ میں آیا ہے

            ‘‘اور ذوالنون (مچھلی والے یونسؑ نبی) جب (قوم سے ) ناراض ہو کر چلے گئے اور انہوں نے گمان کیا کہ ہم ان پر تنگی نہ کریں گے ۔ پھر شکم ماہی کے اندر اندھیروں میں پکارا ۔لاا لہ الا انت سبحنک انی کنت من الظّٰلمین ۔‘‘تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔ تو پاک ہے ۔ بیشک میں اپنے اوپر ظلم کرنے والوں میں سے ہوں ۔’’ (الانبیا ۸۷) حضرت یونس ؑ کے منہ سے نکلی ہوئی دعا کے یہ الفاظ آج بھی ہر مشکل اور تکلیف سے رہائی کے لیے بطور ایک وظیفہ اور بطور ایک دعا کے پڑھے جاتے ہیں ۔

توریت میں حضرت یونس کا ذکر:

             توریت مقدس میں جیسا کہ ہم اوپر لکھ چکے ہیں انہیں یوناہ اور یونا کے ناموں سے یاد کیا گیا ہے ۔ اور ان کے اس نام سے منسوب ایک مختصر کتاب بھی توریت میں شامل ہے۔ اس کتاب ‘‘یوناہ’’ کے چار باب ہیں ۔ آیات کی تعداد ۴۸ ہے ۔

            مچھلی کے پیٹ میں جانے ، باہر سلامت نکلنے اور ‘‘وادی نون’’ کے بارہ میں توریت کی کتاب یوناہ کی مندرجہ ذیل آیات خاص طورپر قابل ذکر ہیں : ‘‘لیکن یوناہ خداوند کے حضور سے ترسیس کوبھاگا اوریافا میں پہنچا۔ اور وہاں سے اسے ترسیس کو جانے والا جہاز ملا ۔ اور وہ کرایہ دے کر اس میں سوار ہوا تاکہ خداوند کے حضور سے اہل جہاز کے ساتھ ترسیس کو جائے ۔’’ (باب ۱:۴) اس کے بعد سمندر میں شدید طوفان چڑھنے کا ذکر ہے ۔ اور یہ کہ کشتی طوفان میں گھر گئی۔ تو کشتی والوں نے سمجھا کہ اس میں کوئی مجرم سوار ہے ۔ انہوں نے مجرم کا نام معلوم کرنے کے لیے قرعہ ڈالا ۔ اتفاق کی بات دیکھیے کہ حضرت یونسؑ کا نام نکلا۔ اس پر حضرت یونسؑ بولے ‘‘مجھ کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دو ۔ تو تمہارے لیے سمندر ساکن ہوجائے گا۔’’ (یوناہ باب اول)

            ‘‘اہل کشتی نے ایسا ہی کیا ۔ لیکن خداوند کریم نے ایک بڑی مچھلی مقرر کر رکھی تھی کہ یوناہ کونگل جائے اور یوناہ تین دن تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہا تب یوناہ نے مچھلی کے پیٹ کے اندر اپنے خداوند سے دعا ما نگی ۔’’ (یوناہ باب ۱ تا ۱۷) ‘‘ اور خداوند نے مچھلی کو حکم دیا ۔ اور اس نے یوناہ کو خشکی پر اگل دیا ۔ اور خداوند کا کلام دوسری بار یوناہ پر نازل ہوا کہ اٹھ اور شہر نینوا کو جا ۔’’ (یوناہ باب ۲:۱۰ باب ۳:۱۔۲)

احادیث میں حضرت یونس کا ذکر:

             احادیث میں بھی حضرت یونسؑ کا تذکرہ موجود ہے۔ ان کے بارہ میں حضور کے مشہور صحابہ حضرت ابن عباسؓ ، ابن مسعودؓ اور حمید بن ہلال ؓ وغیرہ کی متعدد روایات موجود ہیں۔ ان میں سے ہم صرف عبداللہ ابن عباسؓ کی ایک روایت کا ترجمہ پیش کرتے ہیں:

            ‘‘حضرت یونس علیہ السلام نبی بنا کر ایک بستی میں بھیجے گئے ۔ جب وہاں کے لوگوں نے انکار کیا ، اور وہ ایمان نہ لائے تو اللہ تعالی نے انہیں اطلاع دی کہ میں ان پر فلاں دن عذاب بھیجوں گا۔ تم ان سے علیحدہ ہو جاؤ ۔ یونسؑ نے قوم کو اللہ کے عذاب کی وعید سے باخبر کر دیا ۔ یہ لوگ بولے ، دیکھتے رہو ، اگر یونسؑ باہر چلے گئے تو سمجھو کہ عذاب ضرور آئے گا ۔’’

            ‘‘جس دن عذاب کی وعید تھی ۔ یونسؑ اس سے پہلی رات میں وہاں سے نکل کھڑے ہوئے۔ اب لوگ ڈر گئے ۔ سب اپنے بال بچوں اور جانوروں سمیت شہر سے باہر نکلے اورتوبہ استغفار کی۔ اللہ تعالی نے ان پر رحم کیا ۔ ’’

            ‘‘یونسؑ راستہ میں نتائج کے انتظارمیں ٹھہرے رہے ۔ ایک راہ گیر سے قوم کا حال دریافت کیا کہ ان پر کیا گزری ؟ اس نے جواب دیا ۔ جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ ان کا نبیؑ انہیں چھوڑ گیا ہے تو انہیں عذاب الہی کا یقین ہو گیا اور وہ بال بچوں اور جانوروں سمیت شہرسے نکل کر استغفار میں لگ گئے ۔ اللہ تعالی کو ان کی اس حالت پر رحم آگیا اور عذاب ٹل گیا ۔ یہ سن کر یونسؑ اپنے راستہ پر چل پڑے کہ میں اب ان کے پاس نہ جاؤں گا کہ وہ مجھے غلط اطلاع دینے والا سمجھیں گے ۔’’ (در منشور ، جزو ۵ صفحہ ۲۸۷)

حضرت یونس شکم ماہی میں:

            حضرت یونسؑ نینوا چھوڑ کر ایک کشتی میں سوار ہوئے ۔ کشتی میں سواریاں معمول سے زیادہ ہو گئیں ۔ کشتی کا تواز ن درست نہ رہا ۔ ان لوگوں نے اپنے عقیدے کے مطابق خیال کیا کہ کشتی میں کوئی ایسا شخص سوار ہے جو اپنے مالک سے بھاگ کر آیا ہے ۔ کشتی والوں نے قرعہ ڈالا۔ اللہ کی حکمت دیکھیے کہ حضرت یونسؑ کا نام نکل آیا آپ نے بحث و تمحیص کے بغیر دریا میں چھلانگ لگا دی ۔ دریا کے اندر ایک بڑی مچھلی منہ کھولے ہوئے تھی۔ اس نے آپ کو نگل لیا ۔ اس طرح آپ ڈوبنے کے بجائے شکم ماہی میں چلے گئے اور یہ قدرت الہی کا ایک کرشمہ تھا۔

            حضرت یونسؑ مچھلی کے پیٹ سے کب اور کیسے واپس آئے؟ کس جگہ یہ واقعہ پیش آیا؟ اس بارہ میں متعدد اقوال موجود ہیں ۔ عام طور پر یہ کہا گیا کہ یہ واقعہ دریائے فرات میں پیش آیا تھا۔ بعض حضرات نے اس واقعہ کو بحر اخضر اور دریائے نیل سے منسوب کیا ہے ۔ ایک بڑی جماعت اسے دریائے دجلہ سے منسوب کرتی ہے اور قرین قیاس یہی بات معلوم ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ حضرت یونسؑ اہل نینوا کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور نینوا شہر کے قریب ترین دریائے دجلہ ہی بہتا ہے ۔

شکم ماہی سے وادی نون میں:

             حضرت یونسؑ کے شکم ماہی میں رہنے سے متعلق صبح چاشت سے دوپہر ظہر کے وقت تک مختلف روایات ہیں اور مدت تین ، سات یا چالیس دن بیان ہوئی ہے ۔ وقت اور دنوں کے بارہ میں ان مختلف روایات میں تطبیق یوں ہو سکتی ہے کہ چاشت (صبح ۸ ، ۹ بجے کے قریب) مچھلی کے پیٹ میں گئے ہونگے اور تین ، سات یا چالیس دن بعد ظہر کے وقت باہر آئے ہونگے ۔

            قرآن مجید کے بیان کے مطابق مچھلی نے آپ کو دریا کے کنارے عرا ء کے چٹیل میدان میں ڈال دیا ۔ یہاں دور دور تک کوئی سایہ دار درخت نہ تھا ۔ توریت مقدس کا بیان ہے ۔ ‘‘خداوند نے مچھلی کو کہا۔ تو اس نے یوناہ کو خشکی پر اگل دیا ۔’’ (یوناہ ۳: ۱۰) ایک طرف شکم ماہی کی قید تنہائی اور مسلسل بھوک پیاس سے جد درجہ نقاہت ، دوسری طرف چٹیل میدان ، جہاں نہ کوئی درخت نہ کوئی سایہ ۔ اللہ کریم نے اپنی قدرت سے گھنے پتوں والی ایک بیل کا سایہ عطا فرما دیا ۔ اسے کدو کی بیل کہا گیا ہے جو گھنی بھی ہوتی ہے اور ٹھنڈی بھی ۔ یہ بیل بڑھتی بھی بہت جلد ہے ۔ اس ضمن میں حدیث کی کتابوں میں یہ روایت موجود ہے : ‘‘حضور اکرمﷺ سے کسی نے دریافت کیا آپ کو کدو کیوں پسند ہے ؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا ۔‘‘ کدو میرے بھائی یونسؑ کا درخت ہے۔’’

            اس بارہ میں توریت مقدس کا بیان ہے کہ آپ نینوا شہر سے ناراض ہو کر باہر نکلے ۔ اور شہر کے مشرق میں ایک چھپر بنا کر اس میں رہنے لگے ۔ ‘‘تب خداوند نے کدو کی بیل اگائی اور اسے یوناہ (یونسؑ) کے اوپر پھیلا دیا کہ ان کے سرپر سایہ ہو ۔ اور وہ تکلیف سے بچے ۔ اور یوناہ اس بیل سے بہت خوش ہوا۔ (یوناہ ۳ : ۶)

وادی نون کا محل وقوع:

             موجودہ جغرافیائی تقسیم کے اعتبار سے یہ وادی مراکش میں سمندر سے بیس میل دور شمال جنوب میں واقع ہے ۔ یہ وادی ایک وسیع میدان کی صورت میں وادی سید ، وادی عم ، وادی العشر ، اور وادی عساکر کے درمیان واقع ہے ۔ اس کے اردگرد دور دور تک نخلستان ہی نخلستان دکھائی دیتے ہیں ۔ ان میں متعدد منتشر دیہات ہیں ۔ مثلا اوجل میم (اس کا تلفظ جل میم بھی کیا جاتا ہے) قصبی ،صنطق ،ابیان ، اور عبودہ وغیرہ ۔ یہ گاؤں صحرا نشینوں کے لیے تجارتی مرکز اور کاروباری منڈیوں کا کام دیتے ہیں ۔ ان میں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے البتہ کچھ یہودی بھی آباد ہیں ۔ وادی نون آج بھی کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے ۔ مراکش میں نخلستان کا سب سے بڑا مرکز ہے ۔ ملک کا سب سے محفوظ راستہ ہے ۔ یہی وہ وادی ہے جو یورپ اور سوڈان کے درمیان تجارتی شاہراہ کا کام دیتی ہے ۔

            وادی نون کو اس متعارف نام کے علاوہ وادی نوک NUX بھی کہا جاتا ہے ۔ جس کا ترجمہ ہے ‘‘اونٹنیوں کا دریا’’ یہ نام اس زرخیز وادی کی چراگاہوں اور ان میں چرنے والی اونٹنیوں کی کثرت سے پڑا ہو گا۔ وادی نون کے نام کی نسبت لفظ ‘‘نون’’ سے بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ لفظ عبرانی ، عربی اورفارسی تینوں زبانوں میں مستعمل ہے اور اردو ابجد میں ایک مستقل حرف نون ہے ۔ عبرانی زبان میں ‘‘نون ’’ مچھلیوں کے دیوتا کو کہتے ہیں ۔ عربی میں اس کے کئی معنی ہیں ۔ مثلا مچھلی ، کنواں ، تلوار کی دھار ، دوات ، دوات کی سیاہی اور رات وغیرہ۔ (مصباح اللغات)

            یہودی قصص میں کہا گیا ہے کہ حضرت یونسؑ سوس کے ساحل پر پھینکے گئے تھے اور خود توریت کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مقام یانا اور ترسیس کے درمیان تھا ۔ (یونا ۱:۴ تا ۱۳) یہ پورا علاقہ بارہ سنگھے کی کھال سے بنی ہوئی ڈھالوں کے لیے بہت مشہور تھا ۔ وادی نون ایک زرعی علاقہ ہے ۔ مختلف قسم کے غلے پیدا ہوتے ہیں ۔ تمباکو بکثرت پیدا ہوتاہے ۔ بدیشی حکمران یہاں سے کثیر مقدار میں شراب کشید کر کے لے جاتے تھے ۔ کھجوروں کے باغ بھی یہاں پر بکثرت ہیں ، سنگترہ اور مالٹا کے درخت بھی ہیں ، شہد بڑی مقدار میں دستیاب ہوتا ہے ۔ وادی نون کی اصل دولت آج بھی یہاں کے مال مویشی ہیں ، خصوصا اونٹ ، گھوڑے اور بکریاں وغیرہ۔ وادی نون کے ا ہل حرفہ میں لوہار ، سنار اور مچھیر ے خاص شہرت رکھتے ہیں ۔

وادی نون کا ماضی و حال:

            طلوع اسلام کے وقت یہاں بربر کا قبضہ تھا ۔ اس وقت یہاں کے باشندے خانہ بدوشی کی زندگی بسر کر رہے تھے ۔ اکثر تجارتی قافلے یہاں سے گزرتے تھے ۔ گیارھویں صدی عیسوی میں یہاں المرا ودیوں کا قبضہ ہو گیا اور اس لیے بہت جلد عرب مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا اس کا ساحل بندرگاہ کے طور پر استعمال ہونے لگا سپین والوں نے یہاں اپنے قلعے تعمیر کرنے شروع کر دیے اور اس طرح مسلمان اور عیسائی حکومتوں میں کشمکش شروع ہو گئی ۔ لیکن عیسائی حکمران یہاں قدم نہ جما سکے ۔ ماضی قریب میں ‘‘وادی نون’’ پر کئی انقلاب آئے ۔ آخر گزشتہ صدی میں شیخ بیروق کی سرکردگی میں یہ وادی ایک خود مختار ریاست بن گئی ۔ سید محمد عبداللہ نے یورپ کے خود مختارانہ تجارتی تعلق کو بھی قبول نہ کیا اور وادی نون کی جنوبی بندرگاہ بند کر دی ۔ یہودیوں نے سازش کر کے وادی نون کو انگلستان ، سپین اور دوسرے یورپی ملکوں سے وابستہ کرنا چاہا۔ لیکن اس وقت ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکیں ۔ لیکن 1916 میں سپین نے قبضہ جمالیا ۔ جرمنی نے شیخ کی مدد کی مگر کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ کشمکش جاری رہی آخرفرانسیسی حکومت نے اپنا قبضہ جما لیا ۔

بیسویں صدی عیسوی کا زندہ ثبوت:

             حضرت یونسؑ کے شکم ماہی میں جانے اور کئی دن بعد سلامتی کے ساتھ باہر آجانے پر مادہ پرست شک و شبہ کا اظہار کرتے تھے ۔ اللہ جل شانہ نے عین یورپ کے اندر بیسوی صدی عیسوی میں اس کی ایک مثال قائم کردی ۔

            1958 کے اواخر کی بات ہے کہ کچھ ملاح شکار کو نکلے ۔ ان کا تعلق ستارہ مشرقی نامی جہاز سے تھا ۔ ان ملاحوں کو فاک لینڈ Falk land کے جنوبی جزائر میں ساحل سمندر سے تقریبا تین میل دور ایک بڑی مچھلی نظر پڑی ۔ ان لوگوں نے فوراً اس کے پیچھے کشتیاں لگا دیں اورہر طرف سے اس پر کانٹے پھینکے ۔ مچھلی کانٹوں میں الجھ تو گئی لیکن زخمی ہو کر بھی اس نے ایک بار پھر بھاگ نکلنے کی کوشش کی ۔ جونہی مچھلی مڑی اس کی بارہ فٹ لمبی دم نے دوسری کشتی کو تہہ وبالا کر دیا ۔ اس بدنصیب کشتی کا ایک ملاح سمندر کی گہرائیوں میں ڈوب گیا ۔ اور دوسرے کو اس مچھلی نے نگل لیا ۔ اس ملاح کا نام بار کلے تھا ۔ اس کے ساتھیوں کو گمان بھی نہ ہوا کہ بار کلے مچھلی کے پیٹ میں پہنچ گیا ہے ۔ سب نے یہی خیال کیا کہ اپنے دوسرے ساتھی کی طرح سمندر کی لہروں کا شکار ہو گیا ہے ۔ دوسری کشتی کے ملاحوں نے مچھلی کو شکار کرنے کی جدوجہد جاری رکھی اور آخر وہ اسے شکار کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ مچھلی کو ساحل پر لگایا گیا اور جہاز کا پورا عملہ اسے بڑے بڑے اوزاروں سے چیرنے ، اور کلہاڑیوں سے کاٹنے میں مصروف ہو گیا ۔ سب لوگ دن بھر اس کام میں لگے رہے ۔ رات کے ابتدائی حصے میں بھی چیر پھاڑ کرتے رہے ۔ ان کے جسموں پر مچھلی کی چربی لگنے سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ سر سے پاؤں تک تیل میں نہائے ہوئے ہوں ۔ انہوں نے صبح اٹھ کر پھر اپنا کام شروع کر دیا ۔ ابھی زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ مردہ مچھلی کے پیٹ میں کچھ ہل جل محسوس ہوئی ، ملاحوں نے اپنے سابقہ تجربات کی بنا پر خیال کیا کہ اس بڑی مچھلی کے پیٹ میں کوئی چھوٹی مچھلی ہے جو اس کے شکم کے قید خانہ سے نکلنے کے لیے بیتاب ہے ۔ چونکہ عام طور پر وہیل مچھلیاں شارک مچھلی کو زندہ ہضم کر لیتی ہیں ۔ ملاحوں کی خوشی کی حد نہ تھی کہ انہوں نے وہیل کے ساتھ شارک مچھلی بھی شکار کر لی ہے ۔ ملاحوں نے اور دوسرے کام چھوڑ کر جلدی جلدی مچھلی کا پیٹ چاک کیا۔ مگر یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہیل مچھلی کے پیٹ میں شارک کے بجائے ان کا ساتھی بار کلے تھا ۔ جسے وہ اپنے خیال میں دنیا سے رخصت کر چکے تھے ۔ بار کلے مچھلی کے تیل اورچربی میں لتھڑا ہوا تھا ۔ اس کا رواں رواں چکناہٹ سے بھرا ہوا تھا اور وہ بالکل بے ہوش تھا ۔ ملاحوں نے بار کلے کو ہاتھوں ہاتھ جہاز کے عرشے پر پہنچایا ۔ سب اس کی دوا دارو میں لگے گئے ۔ چند گھنٹوں بعد اسے آہستہ آہستہ ہوش آنا شروع ہو گیا ۔ اس کا دماغ مختل ہو چکا تھا اور اس کی عقل کام نہیں کر رہی تھی ۔ اسے جہاز کے ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ۔ مسلسل دو ہفتے اس کا علاج معالجہ ہوتا رہا۔ اس دوران میں وہ مسلسل بے معنی الفاظ بڑبڑاتا تھا وہ بالکل ادھ موا تھا اور سر سے پاؤں تک بالکل سفید نظر آتا تھا ۔ آہستہ آہستہ اس کی حالت سدھرنی شروع ہوئی ۔ تیسرے ہفتے کے آخر میں وہ مکمل طور پر ہوش میں آگیا اور اس کی تمام جسمانی صلاحیتیں عود کر آئیں ۔ بار کلے نے اپنی آپ بیتی یوں بیان کی۔

بار کلے کی آپ بیتی:

             ‘‘جب میں سمندر میں گرا تو میں نے پانی میں ایک شدید سرسراہٹ محسوس کی ۔ یہ سرسراہٹ وہیل مچھلی کی دم سے پیدا ہو رہی تھی اور میں بے اختیار اس کی طرف کھنچا چلا جا رہا تھا اور بالکل بے بس تھا ۔ اس کے بعد اچانک مجھے ایک تہ بہ تہ تاریکی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ اب میں نے اپنے آپ کو ایک نرم مگر مختصر سے راستے سے گزرتے ہوا محسوس کیا ۔ یہاں حد درجہ پھسلن تھی ۔ چند لمحوں کے بعد میں نے یوں محسوس کیا کہ میں ایک وسیع تر جگہ پہنچ گیا ہوں ۔ جہاں اردگرد دیواریں کھڑئی ہوئی معلوم ہوتی تھیں ۔ میں نے ہاتھ سے چھوا تو وہ بہت ہی نرم ، گداز اور چکنی تھیں اب حقیقت مجھ پر کھل گئی کہ میں وہیل مچھلی کے پیٹ میں پہنچ گیا ہوں ، اور بظاہر اب باہر نکلنے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ لیکن میں نے خوف کی جگہ اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کی اور ہر دم موت کو لبیک کہنے کے لیے تیار ہو گیا ۔’’ ‘‘یہاں روشنی بالکل نہ تھی ۔ البتہ میں سانس لے سکتا تھا ۔ لیکن سانس لیتے وقت ہر بار ایک عجیب سی حرارت میرے اندر دوڑ جاتی تھی ۔ میرے لیے یہ عجیب وغریب اور ایک نیا تجربہ تھا ۔ میں آہستہ آہستہ کمزور ہوتا چلا گیا اور اپنے آپ کو بیمار محسوس کرنے لگا ۔میری سب سے بڑی بیماری ماحول کی خاموشی تھی ۔ اس کے بعد کیا ہوا ، مجھے کچھ معلوم نہیں ۔ اب میں نے آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو کپتان کے کمرے میں پایا ۔ ’’

            ‘‘ستارہ مشرق ’’ جب وطن واپس لوٹا تو بار کلے کو سندی ہسپتال میں داخل کر دیا گیا ۔ اور چند دنوں کے اندر وہ ہر طر ح سے مکمل صحت یاب ہو گیا ۔ یہ خبر اخبارات تک پہنچی تو علم وسائنس کی دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا ۔ متعدد نامہ نگاروں نے اس سے انٹرویو حاصل کیے اور اس واقعہ پر مضامین لکھے ۔ ایک مشہور سائنسی جر یدہ کے ایڈیٹر مسٹر ایم ڈی پاول نے بہ نفس نفیس تحقیق احوال کر کے واقعہ کی تصدیق کی اور لکھا: ‘‘اس حقیقت کے منکشف ہو جانے پر میں تسلیم کرتا ہوں کہ حضرت یونسؑ کے متعلق آسمانی کتابوں میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے ، وہ حرف بہ حرف صحیح ہے ۔ اور اس میں شک کرنا ایک زندہ حقیقت کو جھٹلانے کے برابر ہے ۔ ’’