والدین کے لیے سبق

مصنف : انعام الحسن کاشمیری

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : جنوری 2008

محترم مدیر!

 السلام علیکم!

            عمر بیس برس، تین بھائیوں کی اکلوتی بہن، چند ماہ پیشتر بی اے کا امتحان دیا ہے۔ یہ ہے میرا مختصر تعارف جس میں بظاہر دلچسپی کی کوئی بات نہیں لیکن انکشاف کا پہلو یہ ہے کہ میں گزشتہ چند روز سے خود کشی کرنے کا سوچ رہی ہوں۔ یہ خیال مجھ پر اس قدر حاوی ہے کہ میں کچھ اور سوچ نہیں پاتی۔ اس کی شدت لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی ہے۔ شاید جب یہ خط آپ تک پہنچے، اخبارات میں یہ خبر آچکی ہو کہ گھریلو حالات سے دلبرداشتہ بی اے کی طالبہ نے خود کشی کر لی۔

            آپ سوچیں گے ایک جوان لڑکی جسے گھروالوں کی طرف سے کوئی پریشانی نہیں، وہ خودکشی کیوں کرنے لگی؟ شاید یہی بتانے کے لیے میں اپنی آپ بیتی رقم کر رہی ہوں۔

            مجھے تعلیم کے حصول کا بے حد شوق تھا لیکن ابھی میٹرک میں تھی کہ ایک حادثے نے میری والدہ کی جان لے لی۔ ان کی ناگہانی موت سے گھر بار کی ساری ذمہ داری میرے نازک کندھوں پر آن پڑی۔ والد اور تین بھائیوں کے علاوہ گھر میں کوئی دوسری عورت نہیں تھی۔ والدصحت مند اور عمر کے اس حصے میں تھے جہاں بآسانی دوسری شادی کر سکتے تھے لیکن انہوں نے اس خیال سے ایسا نہیں کیا کہ سوتیلی ماں نجانے ہمارے ساتھ کیسا سلوک کرے۔ یہ فیصلہ ان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

            والد اور بھائی صبح سویرے کام پر چلے جاتے اور رات کو واپس آتے۔ میں گھریلو کام کاج سے فراغت کے بعد سارا وقت رسالے پڑھنے یا فلمیں دیکھنے میں گزار دیتی۔ غربت کی وجہ سے ہمارے ہاں مہمانوں کا آنا جانا بہت کم تھا اور ہمارے سماجی تعلقات بھی محدود تھے۔ رشتے داروں سے بھی کوئی خاص تعلق نہیں تھا۔ میں بھی کسی کے گھر نہیں جاتی تھی، یوں ہمہ وقت تنہائی کا شکار رہنے لگی۔ چنانچہ وقت کاٹنے کا بہترین ذریعہ ٹی وی اور رسالے ہی تھے۔ایک رات میں رسالہ پڑھنے میں مشغول تھی کہ ابو نے کھانا کھاتے ہوئے کہا:‘‘ بیٹی! تم سارا دن فارغ رہتی ہو، بہتر ہے کسی کالج میں داخلہ لے لو۔’’‘‘کالج تو صبح کے وقت لگتا ہے، اگر پڑھنے چلی گئی تو گھر کے کام کون کرے گا؟’’ میں نے جواب دیا۔‘‘تم شام کو کسی اکیڈمی میں داخلہ لے لو اور نجی طور پر امتحان دے دینا۔ اس طرح تمہاری پڑھائی ہوجائے گی اور تنہائی سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔’’مجھے یہ مشورہ اچھا لگا اور میں نے اگلے ہی روز نزدیکی اکیڈمی میں داخلہ لے لیا۔ اب میں سہ پہر کو اکیڈمی چلی جاتی جہاں تین چار گھنٹے پڑھائی کے بعد شام کو لوٹتی۔ اس طرح پہلے جو وقت بوریت میں کٹتا تھا، اب پر لطف گزرنے لگا۔اکیڈمی میں لڑکے بھی پڑھتے تھے لیکن ان کی نشستیں پیچھے ہوتی تھیں۔ اس کے باوجود میں نے دیکھا کہ لڑکے لڑکیاں آپس میں گپ شپ کا موقع تلاش کر لیتے تھے۔ اکثر طلبہ وقت سے پہلے آتے اور باتیں کرتے رہتے۔ ایک دن میری سہیلی نے ایک طلائی زنجیر مجھے دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ ایک لڑکے نے اسے تحفتاً دی ہے۔ اگر معاملہ یہیں تک محدود رہتا تو شایدمضائقہ نہ تھا۔ افسوسناک پہلو یہ تھا کہ طالبات گھر سے اکیڈمی پڑھنے کے بہانے آتیں اور لڑکوں کے ساتھ سیر کرنے چلی جاتیں۔ جب اکیڈمی کا وقت ختم ہوتا تو واپس آجاتیں۔ میں نے خود چند لڑکیوں کو اجنبی لڑکوں کے ساتھ جاتے دیکھا۔سچ پوچھیں تو شروع شروع میں یہ سب مجھے بہت برا لگا لیکن پھر ایک لڑکی نے میری زندگی کے پرسکون تالاب میں ایسا پتھر مارا کہ ہر طرف تلاطم برپا ہوگیا۔

            وہ غریب گھرانے کی ایک قبول صورت لڑکی تھی۔ داخلے کے چند روز بعد ہی وہ میری سہیلی بن گئی۔ ایک دن میں نے اس کی انگلی میں قیمتی انگوٹھی دیکھی تو چونک گئی۔ وہ جب اکیڈمی آئی تھی، تو اس کی انگلیاں خالی تھیں۔ میں نے انگوٹھی کے متعلق پوچھا تو وہ گھبرا گئی۔ میرے اصرار پراس نے بتایا کہ ایک لڑکے نے تحفتاً دی ہے۔ اگر چہ میں بظاہر اللہ کا شکر ادا کرتی تھی کہ اکیڈمی میں ایک سال گزرنے کے باوجود ابھی تک کسی لڑکے نے میرے ساتھ بات نہیں کی لیکن کبھی کبھی دل کو عجیب سا محسوس ہوتا۔

            اس دوران گھر پر کیبل لگ گئی تھی، فلموں اور رسالوں نے پہلے ہی میرا دماغ خراب کر رکھا تھا ۔ کیبل نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ اب مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ میر ا بھی کوئی ہم راز ہو ۔میں کون سا کسی سے کم ہوں۔

            جب میں نے ایف کیا تو میری خالہ نے اپنے بیٹے کے لیے میرا رشتہ مانگا۔لیکن بعض خاندانی معاملات کی وجہ سے والد صاحب نے انکار کر دیا۔ یوں خالہ کے گھر سے ہمارا رہا سہا تعلق بھی ٹوٹ گیا۔

            میں نجی طور پر ایف اے کرنے کے بعد بی اے میں پہنچ چکی تھی۔ اکیڈمی کی سرگرمیاں بدستور جاری تھیں۔ مجھے ملنے والے تحفوں کے متعلق گھروالوں نے کبھی استفسار نہیں کیا۔یہیں سے معاملہ آگے بڑھ گیا۔ابو نے اس خیال سے مجھے موبائل فون بھی لے دیا کہ رابطے میں آسانی رہے گی لیکن مَیں اس کا غلط استعمال کرنے لگی۔ موبائل آتے ہی میرے دوستوں کے حلقے میں مزید اضافہ ہوگیا۔

            ایک دن ہلکی ہلکی پھوار برس رہی تھی۔ میں حسب معمول اکیڈمی جانے کے لیے گھر سے نکلی۔ گلیوں سے نکل کر جونہی سڑک پر پہنچی توایک کار میرے قریب آکر رکی جسے خوبرو لڑکا چلا رہا تھا۔ اس نے مجھے کار میں بیٹھنے کی پیش کش کی لیکن میں انکا ر کر کے آگے بڑھ گئی۔ دوبارہ وہی کار میرے قریب رکی ، اس بار اس لڑکے نے کچھ کہنے کے بجائے کاغذ کا ایک ٹکڑا میری طرف بڑھا دیا۔جسے میں نے پکڑ لیا۔جب میں نے اسے کھولا تو اس میں اس کا نام اور فون نمبر لکھا ہو ا تھا۔ میں نے بہت ارادہ کیا مگر خود کو سنبھال نہ سکی اور رات کو میں نے قمر کو فون کر دیا۔میر ی آواز سنتے ہی اس نے میری تعریفوں کے پل باندھ دیے کچی عمر تھی ، میں مائل ہو گئی۔اور روز فون ہونے لگے۔پھر بات ملاقاتوں تک آ گئی۔ ہم کسی پارک وغیر ہ میں ملنے لگے۔اور میں اپنا مستقبل قمر سے وابستہ ہونے کے خواب دیکھنے لگی۔ایک دن باتوں باتوں میں قمر نے مجھ سے میرے گھر کا پتا پوچھا تا کہ وہ اپنے گھر والوں کو رشتے کے لیے بھیج سکے۔ میں نے نہ صرف اسے اپنے گھر کا پتا بتایا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ میں دن کے وقت گھر پر تنہا ہی ہوتی ہوں۔

             ایک دوپہر گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ سوچا محلے کی کوئی عورت ہوگی۔ بے دھیانی میں دروازہ کھول دیا، دیکھاتو سامنے قمر کھڑا تھا۔ اسے دیکھتے ہی میں پریشان ہو گئی۔ مگر وہ لفافے میں ایک تحفہ دے کر واپس چلا گیا۔ میں نے لفافہ کھولا تو اس میں ایک ویڈیو کیسٹ تھی۔ میں حیران ہوئی کہ کیسٹ دینے کا مقصد؟ مگر جب اسے لگا کر دیکھا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہ ایک فحش فلم تھی۔مگر اس کے باوجود مجھے عقل نہ آسکی۔اگلے روز وہ پھر آیااور اند ر آکر ضد کر نے لگا کہ وہ فلم لگاؤ۔ میں نے بہت کوشش کی کہ اسے نہ لگاؤں لیکن قمر کی ضد کے آگے ہتھیار پھینکنا پڑے۔ پھر ایسی فلمیں ہم اکثر دیکھنے لگے اورایسی فلموں کا نتیجہ بھی ۔مجھے ہوش اس وقت آیا جب تین ماہ بعد یہ پتا چلا کہ میں ماں بننے والی ہوں۔ ادھر یہ معلو م ہوا اور ادھر قمر نے یک بیک ملنا بند کردیا حالانکہ وہ پہلے مجھے یہ کہہ کر مطمئن کر رہا تھا کہ ابھی تھوڑے ہی دنوں میں وہ اپنے گھر والوں کو بھیج کر شادی کا پیغام دے گا اور یوں ہماری شادی ہو جائے گی اور ہمارا گناہ خود بخود ہی چھپ جائے گا۔ مگر اب کوشش کے باوجود اس سے رابطہ نہ ہو رہا تھا اور میں اتنی بیوقوف تھی کہ جس کی خاطر زندگی برباد کی تھی اس کے گھر کا بھی علم نہ تھا۔بڑی مشکل سے قمر کے ایک دوست سے رابطہ ہوا۔ اس نے بتایا کہ وہ تو عیاش طبع اور بدچلن انسان ہے لڑکیوں کو دھوکا دینا اس کا مشغلہ ہے ۔اب میں نے خود کو ایسی دلدل میں پایا جس سے نکلنے کا کوئی راستہ موجود نہیں تھا۔

            مجھے کسی طور سمجھ نہیں آرہا کہ اس آفت سے کیسے چھٹکارا پاؤں؟ والد سے بات نہیں کر سکتی ہوں اور کوئی عزیز بھی ایسا نہیں کہ جو میری مدد کر سکے ۔ اب ایک ہی راستہ سوجھتا ہے اوروہ ہے .... خود کشی۔

            والد کی بے پناہ محبت، بھائیوں کی الفت اور سب کا اعتماد....یہ سب میں نے اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا دیا۔ مجھے سب سے زیادہ اس بات کا ڈر ہے کہ میرے ابو اور بھائیوں کو خبر نہ ملے ورنہ وہ جیتے جی مرجائیں گے۔ اب میں ہر وقت روتی رہتی ہوں اور اس وقت کو کوستی ہوں جب خود ہی سہانے سپنوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے قدم اٹھایا تھا۔

            اس جاں گسل عذاب سے جان چھڑانے کا واحد ذریعہ یہی ہے کہ میں خود کشی کر لوں۔ میں جانتی ہوں کہ میرے دین میں خود کشی حرام ہے لیکن کیا کروں، مجھے کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا۔ میں زیرِ تعلیم طلبہ و طالبات کے والدین کووصیت کر رہی ہوں کہ اول وہ ان کا کسی اکیڈمی میں داخلہ کراتے ہوئے اچھی طرح اس کی چھان پھٹک کر لیں، دوم موبائل لے کر نہ دیں۔ بالفرض ضروری ہو تو ان پر کڑی نگاہ رکھیں۔ خصوصاً لڑکیوں کی سرگرمیوں کے بارے میں ہمشہ با خبر رہیں۔ اکیڈمی و کالج وغیرہ ، وقتاً فوقتاً ضرور جائیں۔ یہ بھی دیکھیں کہ ان کی سہیلیاں کس قسم کی ہیں۔ میں نے بڑی مقدار میں نیند آور گولیاں خرید لی ہیں اور آج یا کل میری زندگی کا آخری دن ہوگا۔ مجھے اپنے کیے کی یہی سزا ملنی چاہیے۔ شاید جب تک آپ کو میرا خط ملے اس سے قبل ہی کسی اخبار میں یہ خبر شائع ہوجائے کہ بی اے کی طالبہ نے گھریلو حالات سے دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کرلی۔

            آپ میرا خط ضرور شائع کیجیے گا تا کہ ایک لڑکی تو اپنی بے وقوفی اورنا تجربہ کاری کے باعث برباد ہوچکی، کل کوئی دوسری لڑکی یہ کہنے اور لکھنے پر مجبور نہ ہوکہ‘‘میرے پاس ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ ہے .... خودکشی۔’’

بشکریہ : اردو ڈائجسٹ: اکتوبر ۲۰۰۷