نرالی دنیا کے نرالے واقعات

مصنف : محسن فارانی

سلسلہ : عجیب وغریب

شمارہ : دسمبر 2009

خود کشی کا نیا انداز

ایک ترک نژاد کینیڈین کو خود کشی کا عجب طریقہ سوجھا۔ 31سالہ پائلٹ آدم دالان لیون عرف یادوز برق خودکشی کرنا چاہتا تھا، مگر ہمت نہیں پڑتی تھی۔ چنانچہ اس نے کینیڈا سے ایک سیسنا طیارہ چرایا اور امریکہ کی طرف لے اڑا تاکہ امریکی اسے مار گرائیں اور یوں اس کی ‘‘خود کشی’’ خود بخود عمل میں آ جائے، چنانچہ ایک انجن کا سیسنا جیسے ہی کینیڈا سے امریکی حدود میں داخل ہوا، امریکی ایف 16 طیاروں نے اسے گھیر لیا مگر وہ پانچ گھنٹے اسے اڑاتا چلا گیا اور اس دوران میں اس نے کوشش کی کہ امریکی طیارے اسے نشانہ بنا ڈالیں، تاہم انھوں نے آخرکار اسے ریاست مزوری کی ایک شاہرہ پر طیارہ اتارنے پر مجبور کر دیا۔ اس نے ریاستی پولیس کی حراست میں بتایا کہ خودکشی کا حوصلہ نہ تھا اس لیے اس نے کوشش کی تھی کہ سیسنا کو مار گرایا جائے مگر ‘‘یہ نہ تھی ہماری قسمت!’’ ہائی جیکر نے طیارہ کینیڈین صوبہ اونٹاریو کے ایک فلائیٹ ٹریننگ سکول سے ہائی جیک کیا تھا۔ (‘‘دی نیشن’’ 8 اپریل 2009ء)

انگلستان کے چند سر پھرے

بینتھم انگلستان کا ایک سر پھرا فلسفی تھا۔ وہ اس بات کا پرچار کرتا کہ آباؤ اجداد کی لاشوں کو دفنانے کے بجائے انھیں حنوط کر کے گھروں کے باغیچے میں نصب کیا جائے۔ ایک اور سر پھرے چارلس اوجڈن (متوفی 1957ء) نے بینتھم کا ایک بت اپنے کمرے میں لٹکا رکھا تھا ۔ اوجڈن کے گھر میں چہروں کے نقلی خول، بڑے بڑے پیانو، طرح طرح کی گھڑیاں اور عجیب و غریب تحریریں لٹکی رہتی تھیں اور اس پر طرہ یہ کہ وہ کھڑکی میں بیٹھ کر بڑی اونچی آواز میں گنگناتا تھا لیکن پڑوس سے ابھرنے والی ذرا سی اونچی آواز برداشت نہیں کرتا تھا۔ نیز اس نے ‘‘شور دشمن لیگ ’’ بھی بنا رکھی تھی، مگر اس کا اپنا ریڈیو اتنا اونچا بجتا تھا کہ لوگوں کے لیے سڑک پار کرنا محال ہوتا۔

گارڈن سٹون نامی ایک اور انگریز سر پھرا اپنی پالتو سؤرنی کو نہ صرف کوٹ پتلون میں ملبوس رکھتا بلکہ اسے اپنے بستر میں سلاتا تھا۔ جیمی ہرسٹ بھی عجیب و غریب انسان تھا۔ وہ جب کبھی اپنے کھیتوں کے دورے پر نکلتا تو دس بیس سؤر اس کے ہمراہ ہوتے۔ غضب یہ تھا کہ وہ سواری کے لیے بھینسے کا انتخاب کرتا تھا۔ یوں اسے سؤروں کے جلوس میں جاتے دیکھ کر لوگ تالیاں بجاتے تھے۔ لیکن واٹر ٹن سر پھروں کا سرخیل تھا۔ وہ اپنے چاروں ہاتھوں پیروں پر گھوڑے کی طرح چل کر دروازے پر مہمانوں کا استقبال کرتا جو اکثر بھاگ کھڑے ہوتے۔ واٹر ٹن (متوفی 1865ء) کالی بلیوں کا دشمن تھا اور انھیں دیکھتے ہی مار ڈالتا تھا۔ جونز نامی سر پھرا کھیتوں میں جاتا او روہاں نصب کووں وغیرہ کو ڈرانے والے پتلے کا ہیٹ اتار کر خود پہن لیتا اور اپنا پھٹا پرانا ہیٹ اس کی کھوپڑی پر رکھ دیتا۔ (ہفت روزہ ‘‘لاہور’’ 4 اپریل 2009ء)

بہو اور گائے میں فرق

ایک لڑکی جس کی عمر بیس بائیس برس ہو گی، کالج میں پڑھتی تھی۔ اس کے لیے ایک رشتہ آیا۔ لڑکا امریکہ میں انجینئر تھا۔ لڑکے کے والدین دیہاتی پس منظر رکھتے تھے، لہٰذا بہو اور گائے میں کوئی خاص فرق نہیں سمجھتے تھے۔ بچی ان کے سامنے آئی تو لڑکے کی ماں نے اس کا اس طرح جائزہ لیا جس طرح دیہات میں عموماً جانوروں کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ بچی حساس تھی۔ اس کا دل ٹوٹ گیا۔ آخر لڑکے کی ماں نے ایک عجیب حرکت کی ۔ وہ لڑکی کو باہر لے گئی اور اسے دھوپ میں کھڑی کر کے اس کا رنگ دیکھنے لگی۔ یہ انتہا تھی۔ بچی روتی ہوئی اندر گئی۔ اس نے دروازے کی اندر سے چٹخنی لگائی اور پورا دن اندر بند رہی۔ (جاوید چودھری ‘‘جنگ’’ 14 اپریل 2005ء)

نقلی داڑھی والی فرعون ملکہ

الاقصر (Luxor) بالائی مصر میں دریائے نیل پر واقع تاریخی شہر ہے۔ یہ ماضی قدیم میں تھیبس (Thebes ) کہلاتاتھا۔ اس وقت یہ مصر کا دار الحکومت تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہیں فرعون رعمیس ثانی کے محل میں پرورش پائی تھی۔ الاقصر کے قریب شہر مردگان (Necropolis) واقع ہے۔ اس کے حوالے سے اے ایف پی نے خبر دی ہے:

‘‘ درع ابو النجا نیکرو پولس ساڑھے تین ہزار سال پرانا ایک مقبرہ دریافت ہوا جس کی اندرونی دیواریں نادر تصویروں اور ہیرو غلفی تحریروں سے مزین ہیں۔ ان میں قدیم مصریوں کی کتاب اموات کی تدفینی ہدایات پر مشتمل تصویریں بھی ہیں۔ یہ مقبرہ اٹھارویں مصری شاہی خانوادے کی، ملکہ ہاتشپسوت کے ایک درباری ‘‘جیہوٹی’’ کا ہے۔ اس ملکہ نے 1479 ق م سے 1458 ق م تک کروفر سے حکومت کی تھی۔ نو دریافت مقبرے کا خانۂ تدفین 3.5 مربع میٹر پر محیط ہے اور وہ ڈیڑھ میٹر اونچا ہے۔ یہ دریافت ہسپانوی ماہر آثاریات جوز مینوئل گالان کی کاوش کا نتیجہ ہے جو درع الو النجا نیکرو پولس میں کئی برسوں سے کھدائی کر رہے تھے جو کہ دریائے نیل کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔ الاقصر میں وادئ شاہاں میں ایک مقبرے سے ایک صدی پہلے ایک حنوط شدہ نعش ملی تھی جسے ماہرین نے 2007ء میں ملکہ ہاتشپسوت کے طور پر شناخت کیا تھا۔ یہ ملکہ اپنے شوہر اور سوتیلے بھائی توتھموس سوم کی وفات کے بعد فرعون مصر بن بیٹھی تھی۔ وہ مردانہ بھیس بدل کر نقلی داڑھی کے ساتھ تخت پر جلوہ افروز ہوتی تھی۔(‘‘دی نیشن’’ 18مارچ 2009ء)

بہادر عورت کا مجاہدانہ وار

سکھوں کے حملے میں والد صاحب کی چچی فاطمہ بی بی کو سترہ زخم آئے مگر وہ زندہ رہیں۔ وہ اس قدر بہادر عورت تھیں کہ انھوں نے حملہ آور سکھوں میں سے ایک کو تلوار سے وارکر کے اسے قتل کر دیا۔ اس سکھ نے دراصل طاقت کے نشے میں فاطمہ بی بی کو کمزور عورت جان کر اپنی تلوار دیوار کے ساتھ رکھ کر لوٹ مار کرنی چاہی تھی۔ فاطمہ نے آنکھ بچا کر تلوار اٹھائی اور اس سکھ کے پیچھے سے سر پر ایسا کاری وار کیا کہ وہ زمین پر گرتے ہی دم توڑ گیا۔ اس دوران میں دوسرے سکھوں نے آ کر فاطمہ بی بی اور ان کی بیٹی حمیدہ کو شدید زحمی کر دیا۔ پھر انھیں گاڑی پر لاد کر پاکستان لایا گیا۔ اللہ کے فضل و کرم سے وہ کئی سال بعد بھی زندہ رہیں۔ (قربان انجم۔ ہفت روزہ ‘‘عزم’’ 22 مارچ 2009ء)

2040 پونڈ کا جوتا

حالیہ پیرس شو میں نسوانی جوتوں کی نمائش کی گئی جو رنگا رنگ منکوں، جواہرات اور گلابی ، سبز اور نارنجی پتھروں سے سجے ہوئے تھے۔ ایک جوتے کا نام Spicy تھا جبکہ اس کی قیمت 2040 پونڈ تھی۔ انتہائی مہنگے جوتے پہن کر دکھانے والیوں میں وکٹوریہ بیکہم (سپائس گرل) اور میڈونا جیسی ہستیاں شامل تھیں۔ جوتوں کو خوبصورت پروں اور فیتوں سے بھی سجایا گیا تھا اور ان کی بناوٹ میں سانپ، بھیڑ اور چیتے کا چمڑااستعمال کیا گیا تھا۔ ان کے اوپر عجیب و غریب ماسک بھی لگائے گئے تھے۔ شو میں جوتوں کا ہر جوڑا اپنی مثال آپ تھا۔ فیشن پاپا رازی اس شو میں جہاں اداکارہ کیٹ موس کوخوش آمدید کہہ رہے تھے، وہیں نادر ‘‘سپائسی’’ اور دیگر جوتے ان کے لیے باعث حیرت تھے۔ (‘‘دی نیشن’’ 21 مارچ 2009ء)

منظور وٹو نے سن یات سن کی سمادھی پر مراد مانگی

میاں منظور احمد وٹو سپیکر پنجاب اسمبلی کی سربراہی میں پارلیمانی وفد کے دورۂ چین (اپریل 1993 ) میں ، میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔ چین کے صوبہ جیانگ سو کے دار الحکومت نانجنگ میں چین کے ایک روحانی سکالر ڈاکٹر سن یات سن کی ایک گنبد کی شکل میں یادگار ہے۔ اس کے تہ خانے میں ایک پر اسرار جگہ ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں اپنے من کی جو بھی مراد مانگی جائے وہ پوری ہو گی۔ اس جگہ کے دورے سے پہلے ہمیں خبر مل چکی تھی کہ صدر غلام اسحق خاں اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کے مابین معاملہ خراب ہو گیا ہے اور صدر کے صوابدیدی اختیارات کا ٹوکہ میاں نواز شریف کی حکومت اور قومی اسمبلی پر چلنے والا ہے۔ یہ خبر سن کر انتہائی گہرے میاں منظور وٹو کے چہرے پر چمک کا کوندا سا لپکا مگر انھوں نے اپنے مچلنے والے سرخوشی کے کسی جذبے کوظاہر نہ ہونے دیا۔ ڈاکٹر سن یات سن کی یادگارمیں پہنچ کرانھوں نے تہ خانے میں جانے کی خواہش ظاہر کی او رہمارے میزبان اس جگہ کاپس منظر بیان کرتے ہوئے ہمیں وہاں لے گئے۔ میاں منظور وٹو آنکھیں بند کیے چند لمحات تک وہاں مؤدب بنے کھڑے رہے۔ ان کے ہونٹوں کی لرزش چغلی کھا رہی تھی کہ وہ اپنے من کی مراد مانگ رہے ہیں۔ وہاں سے لوٹے تو میں نے از رہ مذاق ان سے پوچھ لیا: ‘‘کیا آپ نے اپنے لیے پنجاب کی وزارت اعلیٰ مانگی ہے؟’’ وہ دھیرے سے مسکرائے اور خاموش ہو گئے۔

ہمارے دورۂ چین سے واپسی تک میاں نواز شریف کی حکومت، قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلیاں لپیٹی جا چکی تھیں۔ صرف پنجاب اسمبلی اور حکومت قائم تھی۔ واپسی کے دوسرے ہی روز میاں منظور وٹو کو وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں کی حکومت الٹانے کا مشن ایوان صدر کی جانب سے اسی طرح سونپا جا چکا تھا جس طرح ڈیڑھ ماہ قبل انھیں ایوان صدر سے پنجاب پیپلز پارٹی کی حکومت قائم کرنے کا مشن سونپا گیا ۔ وائیں مرحوم کی حکومت الٹانے کے لیے ان کی بھاگ دوڑ کے بعض مناظر میرے ذاتی مشاہدے میں بھی آئے۔ اس بھاگ دوڑ میں ترغیب و تحریص کے وفاقی سرکاری ٹوکرے ان کے ساتھ جایا کرتے تھے جس سے ایسی پھسلن پیدا ہو گئی کہ غلام حیدر وائیں کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے موقع پر صرف 44 ارکان ان کے ساتھ رہ گئے اور سوا سو کے قریب ممبر منظور وٹو کے پلڑے میں آ گئے۔(‘‘بیٹھک’’ سعید آسی۔ ‘‘نوائے وقت’’ 10 اپریل 2009ء)

سجدہ ریز ‘‘مومن’’ اور روسی جرنیل

زار روس نے انیسویں صدی کے نصف آخر میں وسط ایشیا پر قبضہ کیا تو روسی جرنیلوں نے ظلم کی انتہا کر دی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ نمنگان (فرغانہ) کی ایک مسجد میں یہ اہتمام کیا گیا کہ جب نمازی دوران نماز سجدے میں ہوں تو روسی جرنیل ان کے اوپر سے گزرے، چنانچہ حکم ہوا کہ سجدے سے کوئی سر نہ اٹھائے۔ روسی جرنیل صف کے ایک سرے سے سجدہ ریز گردنوں پہ پاؤں رکھتا ہوا صف کی دوسری طرف پہنچ گیا۔ (محمد اظہار الحق۔ ‘‘تلخ نوائی’’ نوائے وقت 26 مارچ2009ء)

80 برس بعد محبت مل گئی

 سعودی عرب میں 97 سالہ شخص نے 80 سال بعد اپنی نوجوانی کی محبت سے شادی رچا لی۔ 97 سالہ محمد عید جس نے پہلے دو شادیاں کیں اور اس کے 42 بچے اور آٹھ پوتے پوتیاں ہیں، اس نے اپنی نوجوانی کی محبوبہ کو حاصل کرنے میں بالآخر کامیابی حاصل کر لی۔ محمد عید 80 سال پہلے ایک عرب قبیلے کی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا تھا جو اب اس کی طرح بوڑھی ہو چکی ہے۔ خاصے بڑھاپے میں یہ شادی دنیا کے لیے ایک دلچسپ خبر بن گئی ہے۔ (نوائے وقت 26 مارچ 2009ء)

ادھر بھارتی ریاست ہریانہ میں سابق نائب وزیر اعلیٰ چندر موہن نے سابقہ ایڈیشنل سالیسٹر جنرل انو رادھا بالی کو طلاق دے دی ہے۔ چندر موہن انو رادھا سے شادی کے لیے مسلمان ہو گئے تھے۔ چندر موہن کا نام چاند محمد اور انو رادھا کا نام فضہ رکھا گیا تھا۔ اس ہندو جوڑے نے عشق میں مبتلا ہو کر اپنے اپنے عہدے پر لات مار دی اور مسلمان ہو گئے۔ لیکن چاند محمد کے قدم ڈگمگانے لگے اور پھر وہ سین سے غائب ہو گئے اور ان کا کچھ اتا پتا نہیں چل سکا۔ اس دوران فضہ کو احساس ہو گیا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ تاہم اچانک چاند لندن چلا گیا اور ایس ایم ایس کر کے تین طلاقیں دے دیں اور پھر ٹیلی فون پر بھی طلاق، طلاق، طلاق کے الفاظ کہہ دئیے۔ اس طرح یہ ڈرامہ جو طربیہ سے شروع ہوا تھا ، المیہ پر ختم ہو گیا۔ دار العلوم دیو بند نے اپنے فتوے میں کہا کہ طلاق ایس ایم ایس کے ذریعہ دی گئی یا ٹیلی فون پر دی گئی بہرحال وہ نافذ ہو گئی ۔ اس کے علاوہ اگر چاند محمد نے اپنے پچھلے مذہب کی طرف مراجعت کر لی ہے یعنی وہ پھر سے ہندو ہوکر چندر موہن ہو گیا ہے تو طلاق خود بخود نافذ ہو گئی ، اسے دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

جب گورنر ہاؤس لاہور میں گھوڑوں کی منڈی لگی

زرداری حکومت نے پنجاب فتح کرنے کے جوش میں فروری ، مارچ 2009ء میں گورنر ہاؤس لاہور میں ارکان صوبائی اسمبلی کی خریداری کا بازار سجایا۔ اس ہارس ٹریڈنگ یا ‘‘خربازاری’’ کے مدار المہام دبئی پلٹ سیٹھ اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور آصف زرداری کے چہیتے مشیر داخلہ رحمان ملک تھے۔ رحمان ملک پر تو میاں شہباز شریف نے الزام لگایا کہ ان صاحب نے خر بازاری کے لیے قومی حزانے سے پچاس کروڑ روپے نکلوائے ہیں جو ان کے پیٹ سے نکلواؤں گا۔ لیکن اس خر بازاری میں صرف ایک لیلیٰ مقدس ہاتھ لگی۔ معروف صحافی اسرار بخاری اپنے کالم براہ راست میں اس حوالے سے لکھتے ہیں:

‘‘میں اس پریس کانفرنس میں موجود تھا جب اس بی بی (لیلیٰ مقدس) نے قاسم ضیاء کے ساتھ بیٹھ کر (ن) لیگ میں فارورڈ بلاک بنانے کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ (ن) لیگ کے 27 ارکان پنجاب اسمبلی کے ساتھ ہیں۔ او ران میں خواتین کتنی ہیں؟ اس سوال پر وہ گڑ بڑا گئیں اور چند لمحے سوچنے کے بعد جواب دیا: ‘‘جی ٹین، جی ٹین۔’’ مگر سننے والوں نے محسوس کیا کہ لب و لہجہ اعتماد سے خالی ہے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ لیلیٰ مقدس نے اس گنگا میں ہاتھ دھوئے یا نہیں جو لاکھوں سے کروڑوں کی شکل میں لاہور سے اسلام آباد تک بہہ رہی تھی۔ (ن) لیگ کے ارکان کو شکار کرنے کے لیے شکاریوں کی کئی ٹولیاں بنائی گئی تھیں۔ ان میں صدر آصف زرداری سے تعلق کی شہرت رکھنے والے ایک صحافی بھی شامل تھے۔ انھوں نے ان الفاظ میں (ن) لیگ کے ایک رکن سے رابطہ قائم کیا: ‘‘ویسے تو 20 لاکھ والے بھی ہیں مگر آپ کا نام پانچ کروڑ والوں کی فہرست میں ہے۔ ہم لاہور آئیں یا آپ اسلام آباد آ رہے ہیں؟’’ (اسرار بخاری۔ ‘‘نوائے وقت’’)

85 سالہ دولہا اور 73 سالہ دلہن کا ہنی مون

محبت زمانے کی قید سے کس طرح آزاد ہوتی ہے، اس کا عملی مظاہرہ 19 اپریل 2009ء کو ضلع کچہری سرگودھا میں دیکھنے میں آیا جب چک 66 کے 85 سالہ عطا محمد اور 73 سالہ حیاتاں بی بی کورٹ میرج کرنے کے لیے مجسٹریٹ کے رو برو پہنچ گئے۔ انھیں دیکھنے کے لیے کچہری میں میلہ لگ گیا۔ عطا محمد جس کے منہ میں صرف ایک دو دانت باقی بچے ہیں، اس کی یہ تیسری شادی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اور حیاتاں بی بی دونوں ایک دوسرے کو شروع ہی سے پسند کرتے تھے لیکن دونوں خاندانوں میں شادی پر اتفاق نہ ہو سکا تھا۔ اب حیاتاں نے اس نکاح میں ایک شرط یہ بھی رکھی کہ اگر عطا محمد اس کی زندگی میں کسی اور سے نکاح کرے گا تو اسے ایک لاکھ روپے جرمانہ دینا پڑے گا۔ عطا محمد اور حیاتاں بی بی نکاح کے بعد ہنی مون منانے قصور روانہ ہو گئے۔ (‘‘نوائے وقت ’’12اپریل 2009)

لا ل مسجد

وژ گراڈ (بوسنیا) کے سٹی ہال سے چند گز دور ایک مسجد کو ڈائنا مائٹ لگا کر اڑا دیا گیا۔ اڑانے کا حکم دینے والے مار کووچ کا عالمی عدالت انصاف کے سامنے استدلال تھا کہ اس قصبے میں پارکوں کی بہت کمی ہے اور مسجد پارک کی جگہ پر بنائی گئی تھی، لہٰذا حالات معمول پر آنے پر اسے پارک میں تبدیل کر دیا جائے گااور مارکووچ کے مظالم کا نگران یوگو سلاوی صدر میلا سووچ عالمی عدالت انصاف میں کھڑا کہہ رہا تھا کہ مسجد کے میناروں کو وہاں کے مکین مشین گنوں سے فائرنگ کے لیے استعمال کرتے تھے، اس لیے مسجد تباہ کرنی پڑی۔عدالت نے سوال کیا: اگر ایسا ہے تو کوئی گولی، کوئی بم آس پاس کسی عمارت کو کیوں نہ لگا؟ میلاسووچ کو اندازہ نہیں تھا کہ تاریخ اپنے ثبوت ساتھ لیے پھرتی ہے۔ عدالت نے اسے مشترکہ مجرمانہ گٹھ جوڑ کا مرتکب قرار دیا کہ جب اس کے فوجی کمانڈر انسانوں پر ظلم روا رکھ رہے تھے، قتل عام کر رہے تھے تواس نے انھیں عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیوں نہیں کیا، انھیں سزاکیوں نہیں دی۔ (میلا سووچ دوران مقدمہ ہی ہیگ میں انتقال کر گیا)۔

میں سوچتا تھا کہ انسان اس قدر بھی ظالم ہو سکتا ہے کہ بوسنیا کی ایک مسجد کے دروازے پر ایک شخص کومیخیں ٹھونک کر صلیب کی طرح لٹکایا گیا۔ نہتے لوگوں کو ایک پل پر جھکنے کو کہا گیا اور پھر انھیں یا تو گولی مار دی گئی یا دریا میں دھکا دے دیا گیا۔ لیکن حیرت ہے کہ چار برسوں کے اس ظلم و تشدد اور سربریت میں مجھے ایک بھی قصہ ایسا نہ مل سکا جو درندگی میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے سانحے کی گرد کو بھی پہنچتا ہو۔ کہیں معصوم بچیوں کو اس طرح خوفزدہ حالت میں اکٹھے کر کے بموں سے نہیں اڑایا گیا کہ جب ان کی لاشیں سمیٹی جا رہی ہوں تو وہ اپنی بہنوں اور ماؤں کی لاشوں سے لپٹی ہوئی ملیں۔ بوسنیا میں پورے ظلم و تشدد کے مقدمے میں کہیں بھی ثبوت مٹانے کے لیے سفید فاسفورس استعمال نہیں کیا گیا۔ سرب ظالم تھے، سربریت اور درندگی ان کا شعار تھا لیکن وہ شہر کا محاصرہ کرتے، نوجوانوں کو ایک سمت لے جاتے اور بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کو کسی کیمپ میں قید کر دیتے یا پھر انھیں شہر سے بھاگنے پر مجبور کر دیتے ۔ (اوریا مقبول جان۔ ‘‘ایکسپریس’’ 6 جولائی 2008ء)

‘‘بڑے لوگوں’’ کے لیے آرڈیننس

12 اکتوبر 2007 ء کو این آر او کے خلاف رٹ درخواستوں کی سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان (افتخار محمد چودھری) نے باقاعدہ حکم دیا تھا کہ ‘‘درخواست کے حتمی فیصلے تک اس آرڈیننس کے تحت نہ کسی کو کوئی ریلیف دیا جائے اور نہ ہی ایسے مقدمات کی سماعت کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا جائے کیونکہ اس آرڈیننس کی چار دفعات آئین پاکستان سے متصادم ہیں۔ اس سے پہلے اسی رٹ درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے یہ بھی فرمایا تھا : ‘‘ایسے عجیب و غریب آرڈیننسوں کے ذریعے ایک دوسرے کو ریلیف دیا جا رہا ہے ۔ حکومت بے ایمانی کے راستے بند کرے۔’’ انھوں نے سرکاری وکیل وسیم سجاد سے پوچھا: ‘‘ایسا آرڈیننس پٹواریوں کے لیے کیوں نہیں؟’’ جس کے جواب میں وسیم صاحب نے کہا تھا: ‘‘پٹواری چھوٹے لوگ ہیں، یہ آرڈیننس بڑے لوگوں کے لیے ہے۔’’ (‘‘دید شنید’’ رفیق ڈوگر۔ ‘‘نوائے وقت’’ 11 اپریل2009ء)

عورت جس کا بدن مقناطیس ہے

لپسٹک (روس) کی 71 سالہ الینا کو والیوا ایک مقناطیسی عورت ہے۔ کھانا پکانے کی اشیاء مثلاً چمچ، پلیٹ کانٹے، پلاسٹک کے برتن، کرسٹل ایش ٹرے وغیرہ اس کے جسم پر چپک جاتی ہیں۔ اسے اپنی اس صلاحیت کا علم 45 سال کی عمر میں ہوا تھا۔ جب وہ ایک حادثے سے دو چار ہوئی تھی۔ یہ چیزیں اس کے جسم سے چپکنے کے بعد تھوڑی گرم ہو جاتی ہیں۔ انھیں اس کے بدن سے اتارنا مشکل ہوتا ہے، جیسے وہ گلو سے چپکائی ہوئی ہوں۔ الینا نے بتایا: ‘‘چیزیں جب میرے جسم سے چپکتی ہیں تو وہ میری خاصی توانائی لے لیتی ہیں۔ مقناطیسی لوگ عموماً لوہے کی چیزیں ہی چپکا سکتے ہیں، مگر مجھ سے تو پلاسٹک ، شیشے اور چینی کی اشیاء بھی چپک جاتی ہیں ۔’’ جب چیزیں اس کے جسم سے اتاری جاتی ہیں تو متعلقہ اعضاء برف کی طرح ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ الینا بہت دور سے دیکھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ (‘‘دی نیشن’’ 19 اپریل 2009ء)

جھوٹی خدائی کی طرف پیشکش

ڈاکٹر قیوم سومرو (خصوصی معاون برائے صدر زرداری) جب عطا مانیکا کو لے کر اپنی پیشکش کے آخری کنارے پر پہنچ گیا توعطا اس شرط پر مان گیا کہ جس رات آپ کی ‘‘مہربانیاں ’’ میرے گھر آ جائیں گی تو کیا دوسری صبح میں بیدار بھی ہو سکوں گا یا نہیں۔ جواب آیا کہ یہ تو خدا کو معلوم ہے۔ عطا مانیکا نے کہا: ‘‘اس کے بعد خدا سے تو میرا رابطہ ٹوٹ جائے گا۔ آپ اپنے ‘‘خدا’’ سے پوچھ کر بتائیں۔’’ اس بارے میں شہباز شریف نے حبیب جالب کا شعر پڑھا تھا

تجھ سے پہلے بھی تو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا

اس کو بھی اپنے خدا ہونے کا اتنا ہی یقین تھا

(‘‘بے نیازیاں’’ ڈاکٹر اجمل نیازی، ‘‘نوائے وقت’’ 11 اپریل2009ء)

گیمبیا کے جادو گر ڈاکٹر

مغربی افریقہ کے چھوٹے سے اسلامی ملک گیمبیا میں جادو گر ڈاکٹروں نے پولیس اور فوج کی مدد سے سینکڑوں لوگوں کو اغوا کر کے حراستی مراکز میں لے جا کر ایک عجیب و غریب مشروب پینے پر مجبور کیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق متاثرین اور عینی شاہدین نے بتایا کہ 1000 تک افراد کو گھیر کر لے جانے والوں میں صدر گیمبیا یحییٰ جمہ کے ذاتی حفاظتی دستے کے ارکان ‘‘سبز لڑکے’’ بھی شامل تھے۔ پر اسرار مشروب پینے والوں میں سے کئی ایک گردوں کے عوارض کا شکار ہو گئے۔ کم از کم دو افراد ہلاک بھی ہو گئے۔ ایک متاثرہ فرد نے بتایا: ‘‘ان جادو گر ڈاکٹروں نے 12 مارچ کو مجھے گھر سے اٹھایا اور تین دن حراست میں رکھا اور پھر رہا کر دیا۔ وہاں ہمیں عجیب سا مشروب پینے کو دیا جاتا تھا جسے پی کر ہم میں سے اکثر لوگ واہمے کا شکار ہو گئے اور ہمیں اپنے پیشاب پاخانے پر قابو نہ رہا ۔’’ (‘‘دی نیشن’’ 19 مارچ 2009ء)

اخباری تصویر کے مطابق جادوگر ڈاکٹروں نے اپنے چہروں پر عجیب سے ماسک چڑھا رکھے تھے اور ان کے جسم پر لمبے لمبے مصنوعی بال تھے جیسے وہ پر اسرار پہاڑوں سے اتر کر آئے ہوں۔

٭٭٭