تعصب کی زبان

مصنف : ڈاکٹر سید حامد حسین

سلسلہ : لسانیات

شمارہ : دسمبر 2009

بظاہر مہذب انسان تعصب اور نفرت کے تصور سے کتراتا ہے ، لیکن ان تصورات کا سایہ اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا ۔ افراد، گروہوں اور نظریات کے درمیان اختلاف گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی تعصب اور نفرت کا رنگ ہلکا اور گہرا ہوتا رہتا ہے۔ دنیا کی زبانوں کے گودام میں ایسے لا تعداد الفاظ بھرے پڑے ہیں جنھوں نے اسی قسم کے تعصبات سے جنم لیا تھا۔ کسی زمانے میں الفاظ میں موجود نفرت اور ناگواری کے زہر اور تلخی کو نوک ِ زبان پر محسوس کیا جا سکتا تھا، لیکن اب یہ الفاظ دسترخوانِ زبان و بیان کی رنگا رنگ لذت کا سامان ہیں۔

نسلی برتری کے احساس نے غیر اقوام کو کمتر، غیر مہذب بلکہ عقلی اعتبار سے ناقص قرار دینے کے رجحان کو تقویت دی ۔ جس زمانے میں بحیرۂ روم کے شمال میں واقع یونان اور رومہ کے لوگوں نے یہ خود اعتمادی بحال کر لی تھی کہ وہ علم و تہذیب کی دولت سے مالا مال ہیں، اس وقت ان میں اپنے علاوہ دوسری قوموں کو حقیر و کمتر سمجھنے کا رجحان پیدا ہوا۔ چنانچہ انھوں نے بحیرۂ روم کے جنوب میں خاص طور پر افریقہ میں بسنے والی قوموں کو غیر فصیح، ناقابل فہم زبان بولنے والا اور بڑ بڑ کرنے والا سمجھتے ہوئے انھیں بربر قوموں سے موسوم کیا اور رفتہ رفتہ بربریت کے ساتھ بے رحمی، سفاکی، خونریزی کی وہ ساری صفات وابستہ کر دی گئیں جن کا تعلق وحشیانہ طرز عمل اور غیرمہذب انداز زندگی سے ہے۔ اپنی زبان کو فصاحت کا سرچشمہ سمجھنے اور دوسروں کو کج زبان اور تکلم سے قاصر سمجھنے کا یہی رجحان عربوں میں نظر آتا ہے۔ جنھوں نے ہر غیر عرب کو عجمی یعنی گونگے کا نام دیا ۔ اسی نسلی برتری کا اثر ہندوستانی لفظ ‘‘اناڑی’’ میں نظر آتا ہے جو دراصل ‘‘اناریہ’’ یعنی ‘‘غیر آریہ’’ تھا۔ آریہ لوگ خود کو تہذیب کا ضامن سمجھتے تھے اور دوسری قوموں کو ‘‘اناریہ’’ کہہ کر یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ انھیں تہذیب چھو کر بھی نہیں گئی ہے اور دھیرے دھیرے ‘‘اناڑی’’ کا یہ لفظ ناتجربہ کار، بے سلیقہ، نکمے اور بے شعور کے مترادف ہو گیا۔

جوں جوں شہروں اور بستیوں میں آباد ہونے والوں اور زمین پر ملکیت کا حق رکھنے والوں کو سیاسی، اقتصادی اور سماجی طاقت حاصل ہوتی گئی، ویسے ہی گاؤں میں رہنے والوں اور کھیتوں پر کام کرنے والوں کی تہذیبی حیثیت کو کمتر سمجھنے کا میلان بڑھتا گیا۔ تہذیب سماج کے اعلیٰ طبقوں کی میراث بن گئی اور عوام الناس سے تعلق رکھنے والے تہذیبی مظاہر کو گھٹیا اور معیار سے گرا ہوا سمجھا جانے لگا چنانچہ ایسے بیشتر الفاظ جو بد مذاقی، گھٹیا پن، چھچھورے پن اور خباثت کو ظاہر کرتے ہیں انھیں طبقات سے لیے گئے۔ اردو میں سوقیانہ پن، بازاریت، دہقانیت اور گنوارپن، حقارت کا اظہار کرنے والے الفاظ اسی طبقاتی نفرت کی جانب نشاندہی کرتے ہیں۔ انگریزی میں اس قسم کے بازاری پن کو لفظ ‘‘ولگر’’ VULGUR بتایا جاتا ہے جبکہ جس لاطینی لفظ VULGUS کی یہ ایک شکل ہے اس کے معنی صرف لوگوں کی ‘بھیڑ’ یا عوام الناس ہوتے ہیں۔

انگریزی لفظ ‘‘ولن’’ اب ہمارے لیے غیر معروف نہیں رہا ہے۔ ناول ، افسانے اور فلمی کہانیوں میں ایسا فسادی کردار جو جگہ جگہ مرکزی کردار کی راہ میں کانٹے بوتا ہے اور کہانی میں اپنی چالوں، ہتھکنڈوں، سازشوں وغیرہ سے دشواریاں پیدا کرتا ہے، اسے ‘‘ولن’’ کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ بھی زمیں دارانہ تہذیب کی پیداوار ہے۔ ‘‘ولن’’ کے اصلی معنی صرف گاؤں کے باشندے کے ہیں، لیکن کیونکہ زمین داروں نے اکثر اپنے دیہاتی مزدوروں کو آمادۂ شر اور اپنا دشمن سمجھا، اس لیے رفتہ رفتہ یہ لفظ شیطنت پر مائل کردار کے لیے مخصوص ہو گیا۔

اعلیٰ طبقے کے اس رویے کے خلاف دوسرے طبقوں میں رد عمل ہونا فطری بات ہے۔ چنانچہ عام لوگوں نے اعلیٰ طبقے کے لوگوں کی جانب اپنی نفرت کے اظہا رکے لیے الفاظ وضع کیے۔ انھیں میں سے ایک لفظ ‘‘بھدّا’’ ہے۔ جس کا مفہوم بدشکل اور بے سلیقہ ہے، لیکن ‘‘بھدّا ’’ کا لفظ ‘‘بھدر’’ سے نکلا ہے جس کا مفہوم شایستہ اور شستہ ہوتا ہے اور ‘‘بھدر لوک’’ کا لفظ اشراف کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عام لوگوں میں اشراف کے خلاف جذبات کی بنا پر ‘‘بھدر’’ نے بالکل متضاد مفہوم اختیار کر کے ‘‘بھدا’’ کی شکل لی۔ اسی طرح کسانوں اور مزدورں کے غصے اور احتجاج نے کئی دوسرے لفظوں کو لغت میں داخل کیا۔ انیسویں صدی کے آخر میں آئر لینڈ کے ایک زمین دار نے اپنی اراضی کے انتظام کے لیے برطانوی فوج کے ایک ریٹائرڈ افسر چارلس کنگھم بائیکاٹ کو ملازم رکھا۔ بائیکاٹ نے کسانوں پر بڑی زیادتیاں کرنا شروع کیں۔ خشک سالی کے باوجود ان سے پورا لگان وصول کرنا چاہا اور نادہند ہ کسانوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر دیا۔ اس کی سختیوں سے تنگ آ کر ۱۸۸۰ء کے قریب لوگوں نے متفق ہو کر بائیکاٹ سے مکمل قطع تعلق کر لیا۔ یہاں تک کے اس کے لیے کھانے پینے اور دوسری ضرورتوں کو پورا کرنا بھی محال ہو گیا۔ بالآخر وہ تنگ آ کر برطانیہ بھاگ گیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوامی غم و غصہ کے اظہار کے لیے بائیکاٹ کا لفظ لغت میں داخل ہو گیا۔ یہی کچھ لفظ ‘‘سبوتاژ’’ کے ساتھ ہوا۔ اس وقت سبو تاژ سے وہ توڑ پھوڑ مراد لی جاتی ہے جو کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کی جائے۔ فرانسیسی زبان میں ‘‘سابو’’ لکڑی کے جوتے کو کہتے ہیں۔ ایسے غریب کسان جو چمڑے کے جوتے نہیں خرید سکتے وہ سردی میں پیروں کو برف سے بچانے کے لیے لکڑی کو کھوکھلا کر کے جوتے بنا لیتے تھے۔ بعض اوقات جب ان کسانوں کا اپنے زمین داروں سے جھگڑا ہوتا تو وہ اپنے لکڑی کے جوتوں سے فصل کو روند کر اپنا غصہ نکالتے اور اسے ‘‘سبو تاژ’’ کہا جاتا۔ صنعتی دور میں جب کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں نے اپنی مانگوں کو منوانے کے لیے کارخانے کی مشینوں میں گڑ بڑ کر کے کام ٹھپ کر دینے کا طریقہ اختیار کیا تو ‘‘سبو تاژ’’ کا یہی لفظ استعمال ہونے لگا۔

تعصب کی ایک اور طاقتور بنیاد مذہب رہی ہے۔ آج ہماری لغت میں کئی ایسے لفظ اپنی جگہ بنا چکے ہیں، جنھوں نے کبھی مذہبی تعصب سے جنم لیا تھا۔ قدیم ہندوستان میں ایک وقت ایسا گزرا ہے جب بدھ مذہب کے پیرو اپنے پڑوسیوں کی ناپسندیدگی کا نشانہ بنے۔ جبکہ لفظ ‘‘بدھ’’ سے عقل، سمجھ اورالوہی علم کا مفہوم لیا جاتا ہے۔ ‘‘بدھو’’ جو دراصل مذہب کے پیرو کے لیے ایک لفظ ہے، کم عقل ، ناسمجھ اور بے شعور کے مترادف سمجھا جانے لگا۔ ‘‘پاشنڈ’’ بدھ فرقے کے نہایت پاکباز اور روحانی طاقتوں کے مالک سادھوؤں کا ایک طبقہ ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب ‘‘پاکھنڈی’’ کا لفظ جعلساز فریبی اور دھوکے باز کے مفہوم میں زبان زد خاص و عام ہے۔ پہنچے ہوئے بدھ سادھو ‘‘اودھوت’’ کہلاتے تھے کیونکہ وہ دوران ریاضت عرفان حقیقت میں پوری طرح محو ہو جاتے تھے۔ اس سے دوسرے لوگوں نے شراب پی کر مدہوش ہو جانے والوں کو ‘‘دُھت’’ کہنے کی روش اختیار کی۔ احمق، بے ڈھنگے اور دنیا سے بے خبر شخص کو بعض اوقات ‘‘بجبر بٹو’’ کہا جاتا ہے۔ بظاہر یہ ایک مہمل لفظ ہے۔ لیکن دراصل یہ ‘‘وجربٹک’’ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ ‘‘وجربٹک’’ وہ سادھو کہلاتے تھے جو پکے برہم چاری کی زندگی گزارتے تھے اور خود کو دنیاوی معاملات، تعلقات اور لذات سے دور رکھتے تھے۔

جین مذہب کے پیرو بھی تعصبات کے نشانے سے نہیں بچ سکے۔ جو شخص بے معنی ادھر ادھر کی ہانکتا ہے، اس کے لیے کہا جاتا ہے کہ ‘‘آئیں بائیں شائیں’’ کر رہا ہے۔ ‘‘آئیں بائیں شائیں’’ بظاہر بے معنی بکواس ہے لیکن یہ پالی زبان کے ایک فقرے ‘‘اتی پات شانتی’’ کی بدلی ہوئی شکل ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ خونریزی سے بچنے میں ہی امن و نجات ہے۔ یہ فقرہ جین مذہب کی تعلیمات میں سے ہے۔ اسی طرح جینیوں کا وگمبر طبقہ دنیا اور مادی تعلقات سے قطعاً بے نیازی کے اظہار کے لیے بے لباس رہنا پسند کرتا ہے اور جسم کو احساس سے بے نیاز کرنے کے لیے ان کے سادھو اپنے جسم کے بال تک نوچ نوچ کر اکھاڑ ڈالتے ہیں۔ اسی وجہ سے دوسروں نے انھیں ‘‘ننگا لچا’’ کہنا شروع کر دیا یہاں تک کہ ‘‘لچا’’ کا مطلب ہی بدمعاش، بدکردار اور دغا باز ہونے لگا۔

 فرقہ وارانہ کشاکش عجیب عجیب رنگ دکھاتی ہے۔ اگر ایک فرقے کی دل آزاری کے لیے حجام کو‘ خلیفہ’ کہنے کا رواج ڈالا جاتا ہے تو جواباً غنڈے اور بدمعاش کو ‘‘شہدہ’’ کہہ کر شہدائے کربلا کی بے حرمتی کی کوشش کی جاتی ہے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ عام محاورے میں دونوں ایسے کھپ جاتے ہیں کہ بعد میں یہ احساس بھی نہیں رہتا کہ کبھی ان کے پس پردہ کوئی تعصب یا تلخی بھی کار فرما تھی۔

پڑوسیوں سے چشمک اور ہمسروں سے رقابت ، افراد ہی نہیں گروہوں میں بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ انگریز جو اپنے کندھوں پر ہندوستان کی جہالت کو تہذیب کی روشنی سے دور کرنے کی ذمہ داری لے کر آیا تھا، وہ اسکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ میں رہنے والے پڑوسیوں کو جس حقارت کے ساتھ دیکھتا ہے اور فرانسیسیوں اور ڈچوں اور اسپین کے باشندوں کا جس طرح مذاق بناتا ہے اس سے بڑی عبرت ہوتی ہے۔

اسکاٹ لینڈ حکومت برطانیہ کا ایک حصہ ہے لیکن انگریز اسکاٹ لینڈ والوں کی طرز زندگی کا مذاق اڑانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا۔ اگر آپ کُھجا رہے ہیں تو آپ اسکاچ فڈل (گویا ستار) بجا رہے ہوں گے۔ اسکاچ آشیرواد کا مطلب ہے ڈانٹ پھٹکار۔ اسکاچ کنگھا مویشیوں کا کنگھا کہلاتا ہے۔ بلا چرچ کورٹ میں جائے جو شادی کا معاہدہ کیا جائے اسے اسکاچ بیاہ کہتے ہیں۔ جس گلاب میں بہت کانٹے ہوں وہ اسکاچ روز ہے اور ککر متا ہے۔ اسکاچ بانیٹ (عورتوں کاہیٹ) ہے۔ اسکاچ ناشتہ وہ ہے جس میں خوب ڈٹ کر کھایا جائے اور خود اسکاٹ لینڈ ، کھجلی، خارش اور بالوں کی جوؤں کا دیش ہے۔

آئر لینڈ انگلینڈ کا قریب ترین پڑوسی ہے، لیکن آئر لینڈ پر استعمال کرنے کے لیے انگریزوں کی ترکش میں تیروں کی کمی نہیں۔ پولیس اسٹیشن، آئریش کلب ہاؤس ہے۔ آئرش رتھ، آدمی کی دو ٹانگیں ہیں۔ پھاؤڑا، آئرش چمچہ ہے۔ آئرش گواہی، جھوٹی گواہی ہے۔ آئرش دعوت کا مطلب ہے فاقہ اور آئرش ترقی کا مفہوم ہے تنزل۔

سترھویں صدی میں ہالینڈ ایک بحری طاقت کی شکل میں ابھرا۔ انگلستان کی اس سلسلے میں ہالینڈ سے رقابت ایک شدید نفرت کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ چنانچہ انگریزوں نے ڈچ لوگوں سے منسوب کر کے بہت سارے توہین آمیز محاورے بنائے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ڈچ بلبل کیا ہوتی ہے۔ انگریزوں نے یہ خطاب مینڈک کو دیا ہے۔ اسی طرح ڈچ بیوہ، طوائف کا نام ہے جبکہ ڈچ بیوی سے مراد وہ سہارا ہے جس پر آپ اپنا ہاتھ ٹیک کر آرام کر سکیں۔ ڈچ ہمت وہ ہے جو شراب کے نشے میں ظاہر کی جائے۔ ڈچ کنسرٹ وہ ہنگامہ ہے جو شرابیوں کے ایک ساتھ شور مچانے سے پیدا ہو۔ ڈچ سودا نشے کی حالت میں کیا جاتا ہے اور ہوش میں آنے کے بعد اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ ڈچ ضیافت میں ہر شخص اپنا بل خود ادا کرتا ہے۔ ڈچ چچا وہ ہے جو خوب ڈانٹ ڈپٹ کرے او رڈچ آرام یہ ہے کہ کوئی آرام نہ ہو۔ پیدل چلنے کو ڈچ سواری کہا گیا ۔ موٹے اور بھدے جسم والے کو ڈچ کاٹھی بتایا گیا اور ایک ایک چیز کے حساب کی جگہ ایک ساتھ یک مشت رقم دینے کو ڈچ حساب کہا گیا۔ اس طرح ڈچ لوگوں کو شرابی جھگڑالو ، بے اعتبار ، بدمذاق، بد اخلاق اور احمق ظاہر کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی۔

انگریزوں اور فرانسیسیوں کے درمیان بھی پرانی رقابت ہے۔ انگریز فرانسیسیوں کو بے فکر، شرابی اور جنسی بے راہ روی کا شکار سمجھتے ہیں۔ چنانچہ فرنچ رخصت کا مطلب وہ چھٹی ہے جو بغیر اجازت کے منائی جائے اور فرنچ کریم سے مراد برانڈی ہوتی ہے، پھر جہاں جنسی معاملات اور عیاشی کا ذکر ہو انگریز فرانسیسیوں کو گھسیٹ لاتے ہیں۔ چنانچہ اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ میری ‘‘فرانسیسی معاف کیجیے گا’’ تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ میری باتوں میں جنسی معاملات کے ذکر یا جنسی گالیوں کو معاف کیجیے گا۔ انگریزوں کی بول چال کی زبان میں جنسی افعال سے متعلق کئی اصطلاحات میں فرانسیسیوں کا تعاون حاصل کیا گیا ہے۔ جیسے فرانسیسی بوسہ وہ ہے جس میں لبوں کے ساتھ زبان سے بھی کام لیا جائے۔ فرانسیسی چیچک، فرانسیسی گٹھیا، فرانسیسی بیماری یا فرانسیسی چیز سے آتشک (سفلس) کی اذیت ناک جنسی بیماری مراد لی جاتی ہے۔ فرانسیسی پرنٹ کا اشارہ عریاں گندی تصاویر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

فرانسیسی بھی انگریزوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ وہ من مانی چھٹی منانے کو انگریز چھٹی منانا کہتے ہیں ۔ ایک زمانے میں فرانسیسی لوگ ، نادہند قرض دار کو انگریز کہا کرتے تھے۔ سر کے بالوں میں پڑنے والی جوؤں کو فرانسیسی ‘‘اسپینی’’ کہتے ہیں اور پسووں کو ‘‘مادہ اسپینی’’ کا نام دیتے ہیں۔ اس کے برخلاف جرمن لوگ جوں کے لیے ‘‘فرانسیسی’’ اور تل چٹے (کاک روچ) کے لیے ‘‘روسی’’ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔

ہندوستانیوں کو آریوں کے غلبے کے بعد باہر سے آنے والی جن قوموں سے مزاحمت کرنا پڑی ان میں شدید ترین مقابلہ یونانیوں سے ہوا چنانچہ بعد میں سنسکرت میں غیر ہندوستانیوں کے لیے حقارتاً ‘‘یون’’ کا لفظ استعمال ہونے لگایہاں تک کہ آگے چل کر اس لفظ کا اطلاق مسلمانوں پر ہوا۔ شروع میں ایک عرصے تک ترک حاکم رہے چنانچہ لوک ادب میں ‘‘ترک’’ کے لفظ کے ساتھ ایک خاص تیکھا پن پیدا ہو گیا اور ‘‘ترکی’’ سے اکڑ، شیخی، دباؤ اور دبدبہ مراد لیا جانے لگا۔ ترکی تمام ہونا اور ترکی بہ ترکی جواب دینا وغیرہ محاوروں میں یہی مفہوم ابھر کر آیا۔

جب ہندوستان میں دھیرے دھیرے یورپی لوگوں نے اپنے قدم جمانے شروع کیے تو ان کے خلاف بھی نفرت کاجذبہ ابھرنے لگا اور ان کو حقارتاً ‘‘فرنگی’’ کے نام سے پکارا گیا۔ بنیادی طور پر ‘‘فرنگی’’ لفظ کا تعلق فرانس کے باشندوں سے تھا۔ صلیبی جنگوں کے دوران فرانسیسی قیادت میں یورپ کے لوگوں نے بیت المقدس پر چڑھائی کی تھی۔ اس بنا پر مسلمان یورپ کے لوگوں کو ‘‘اصحاب فرنج’’ سے تعبیر کرنے لگے اور ‘‘اصحاب فرنج’’ اور فرنگی کے فقروں کے ساتھ ایک ناپسندیدگی کا جذبہ وابستہ ہو گیا۔ ہندوستان میں پہلے ‘‘فرنگی’’ کا لفظ پرتگالی ڈاکوؤں کے لیے استعمال ہوا۔ بعد میں جب انگریزوں نے اس ملک پر تسلط کیا تو انھیں فرنگی کہا گیا، کیونکہ یہ یورپ کے لوگ عیسائی تھے، اس لیے بعض اوقات فرنگی سے مسیحی لوگ بھی مراد لیے جانے لگے۔

بعض دوسرے ممالک کے لوگوں کی ہندوستان میں اجنبیت نے بھی گل کھلائے۔ ازبک لوگ غالباً آسانی سے ہندستانی ماحول میں گھل نہیں پائے او ریہاں پہنچنے والے ایسے اکا دکا افراد ہندوستانیوں کو سراسیمہ اور حواس باختہ جیسے محسوس ہوئے چنانچہ لفظ ‘‘اجبک’’ ہونق اور ہکا بکا کے مترادف ہو گیا۔ اسی طرح وسط ایشیا کے خانہ بدوش قازق، قزاق کی شکل میں ڈاکو اور لٹیرے کے ہم معنی بن گئے۔

آپ دیکھیں گے کہ ہندوستان کے مختلف فرقوں کے ساتھ بھی بعض ایسی خصوصیات وابستہ ہو گئیں جو کسی ناگورا پہلو کی یاد دلاتی ہیں۔ جٹ قدیم ہندوستان میں سندھ کے گرد و نواح میں آباد ایک قبیلہ تھا جو عام معیار کے مطابق غیر متمدن اور جنگجو تھا اور یہ صفات اس کی جہالت پر محمول کرتے ہوئے ‘‘جاہل جٹ’’ کا محاورہ وضع کیا گیا۔ ‘‘جاٹ’’ اور ‘‘جٹا’’ کے ساتھ ابھی بھی اکھڑ پن کا مفہوم جوڑا جاتا ہے۔ کنجر چمارو غیرہ ذاتوں کے نام بھی بطور گالی کے استعمال ہوتے رہے۔

شیخ صاحب کی اکڑفوں نے ‘‘شیخی’’ کو جنم دیا۔ پٹھانوں کے ذرا سی بات پر مر نے مارنے پر آمادہ ہو جانے کو ‘‘پٹھانی’’ کہا گیا۔ لالا لوگوں کی چالاکی، پانڈوں کے کھانے پینے میں لالچ اور بنیوں کی کنجوسی ضرب المثل ہے۔

اسی طرح علاقائی نسبت کے ذریعے حقارت کے جذبے کا اظہار کیا گیا۔ ماڑواڑیوں کا نام لین دین اور قرض سود کی برائیوں کے ساتھ جڑ گیا۔ بنگال اور بہار میں قحط کی آفتوں نے ‘‘بھوکے بنگالی’’ کے فقرے کو جنم دیا۔ ‘‘بابو’’ کا لفظ تعظیم وتکریم کے لیے استعمال ہوتا ہے، لیکن جب یہی لفظ انگریزوں نے اپنے کارندوں کے لیے استعمال کیا تو ‘‘بنگالی بابو’’ انگریزوں کے پٹھوؤں اور کلرکوں سے متعلق ہو گیا۔ بنارس کے شہر میں روحانی تسکین اور نجات کے متلاشی سادہ لوح عقیدت مندوں کے ٹھگنے والوں کی وجہ سے ‘‘بنارسی ٹھگ’’ مشہور ہو گئے۔ واجد علی شاہ وغیرہ کے زمانے میں لکھنؤ کے عیش و عشرت کے افسانوں نے لکھنوی تہذیب کو بے جا نزاکت اور نسوانیت کا نمائندہ سمجھنے کا موقع فراہم کیا ۔ چنانچہ ‘‘گومتی کا پانی پینے’’ کا محاورہ استعمال کر کے مزاج میں نسوانیت کی جانب اشارہ کیا جانے لگا۔ شاہجہاں پورکے پٹھانوں کی وجہ سے ‘‘شاہجہاں پوری بغل میں چھری’’ جیسی کہاوتیں بن گئیں۔

یہ عام انسانوں کی نفسیات ہے کہ اسے ہر ایسے شخص سے کد ہو جاتی ہے جو اس پر کوئی پابندی لگائے۔ چنانچہ قاضی، محتسب، کوتوال، واعظ، ناصح استاد اور سخت گیر بزرگ سب اس بیر کا شکار ہوتے ہیں۔ شعر و ادب میں تو انھیں طنز کا نشانہ بنایا ہی گیا ہے، الفاظ اور محاوروں میں بھی اس نفسیات کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ مثلاً ریش قاضی وہ صافی کہلاتی ہے جس میں شراب چھانی جاتی ہے۔ استاد اور گرو اپنی جگہ قابل احترام ہیں لیکن استادوں کے استاد اور گرو گھنٹال سے لوگ ڈر تو سکتے ہیں لیکن ان کی عزت پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

 الفاظ میں ٹھونکی گئی کد و کینہ، نفرت و رقابت، تمسخر اور حقارت کی میخیں بہت جلد ہموار ہو جاتی ہیں اور ایک وقت وہ بھی آتا ہے کہ وہ فریق بھی جس کی توہین یا دل آزاری کے لیے شروع میں ان الفاظ و اشارات کو وضع کیا تھا، وہ بھی انھیں بلا تامل استعمال کر تا دکھائی دیتا ہے۔