نرالی دنیا کے نرالے واقعات

مصنف : محسن فارانی

سلسلہ : عجیب وغریب

شمارہ : نومبر 2009

سویٹ ڈش کھانا اس کی ملازمت ہے

کیا مزے ہیں 26 سالہ خاتون فائی کلارک کے جسے لندن کے مشہور فوڈ سٹور مارکس اینڈ سپنسر میں مٹھائی چکھنے والی (Dessert Produce Developer) کا منصب ملا ہوا ہے اور اس کا کام کیا ہے.... دن بھر پڈنگ یا شیرینی چکھتے رہنا۔ گویا اس کی ذمہ داری پڈنگ ٹیسٹر (Pudding Taster) کی بھی ہے۔ مختلف جیلی، گرم شیرینی (Hot Dessert)، منجمد شیرینی اور آئس کریم سب اس کے چکھنے ہی پر قابل فروخت ہوتے ہیں اور فائی کادفتر کیا ہے، وہ ایک ٹیسٹنگ روم یا فوڈ لیبارٹری ہے جو لندن کے پیڈنگٹن اسٹیشن کے پاس واقع ہے۔ اسے روزانہ 8 تا 12 پڈنگ اور اتنی ہی سہ پہر کو چکھنی پڑتی ہیں۔ ہر پڈنگ کھانے کے بعد وہ اپنے حلق کو پانی یا کھیرے کی تازہ قاش سے صاف کرتی ہے۔ فائی نے غذا چکھنے کا کام جنوبی افریقہ میں شروع کیا تھا جو اس کی جنم بھومی ہے۔ پھر جب وہ برطانیہ آئی تو اسے اپنے گلے کو برطانوی غذائیں کھانے کی تربیت دینی پڑی۔ اس کے بقول ‘‘جنوبی افریقہ کے لوگ زیادہ میٹھے اور زیادہ شیرے والا ذائقہ پسند کرتے ہیں جس میں قدرتی تیزابیت ہو، اس لیے یہاں مجھے اپنے ذائقے بدلنے پڑے، چنانچہ جو کھانے پسند نہ ہوں وہ بھی چکھنے پڑتے ہیں۔’’ (‘‘نیشن’’ 9 دسمبر، 2008ء)

70 سالہ بڑھیا ماں بن گئی

راجو دیوی کی شادی 50 سال پہلے ہوئی تھی مگر وہ اولاد کی نعمت سے محروم تھی۔ اس نے مصنوعی باروری (IVF) کے ذریعے گزشتہ 28 نومبر کو حصار فرٹیلٹی سینٹر (ریاست ہریانہ) میں ایک بچی کو جنم دیا ہے۔ اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق راجو دیوی اور اس کا شوہر بالا رام علاج کے لیے بارآوری مرکز آئے تھے اور ڈاکٹروں نے 19 اپریل 2008 ء کو Embryo Transfer کیا تھا۔ مرکز کے ڈاکٹر انوراگ بشنوئی کے بقول ‘‘راجو دیوی دنیا کی سب سے معمر ماں ہے۔’’ ایک اور 70 سالہ بھارتی خاتون نے مبینہ طور پر مصنوعی بارآوری کے ذریعے پچھلے جولائی میں دو جڑواں بچوں کو جنم دیا تھا جبکہ ایک 66 سالہ ہسپانوی عورت نے 2006 ء میں جڑواں بچے پیدا کیے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ راجو دیوی کے 72سالہ شوہر نے شادی کے دس سال بعد اس کی بہن سے بھی شادی کر لی تھی مگر اس کی گود ہری نہ ہو سکی تھی۔ (‘‘نیشن’’ 9 دسمبر 2008ء)

ٹام اور سام کی اہل چاگوس پر ‘‘نظر کرم’’

سات ننھے جزیروں پر مشتمل مجمع الجزائر ‘‘چاگوس’’ سری لنکا کے جنوب میں بحر ہند کے وسط میں واقع ہیں۔ فرانسیسی اٹھارویں صدی عیسوی میں یہاں غلام لے کر آئے تھے جن سے ناریل کے باغات میں کام کرانا مقصود تھا۔ پھر 1814 ء میں برطانیہ نے یہ جزیرے فرانس سے چھین لیے۔ اس دوران میں جنوبی ہند کے لوگ بھی یہاں آن بسے اور ایک مخلوط نسل پروان چڑھی جو فرانسیسی بولتی تھی۔ لیکن 1967 میں برطانیہ نے اچانک ان لوگوں کو جلا وطن کر دیا، چنانچہ اب جزائر چاگوس میں کوئی مستقل آبادی نہیں۔ اس برطانوی سکھا شاہی کا سبب 1966 ء کا امریکہ برطانیہ معاہدہ بنا جس نے یہاں ڈیگوگارشیا میں امریکی فضائی اڈا قائم کرایا ہے۔ اس معاہدے نے ہر فریق کو ویٹو کا حق دیا ہے جسے عملاً صرف امریکہ استعمال کرتا آرہا ہے ۔ چاگوس کے بیشتر جلاوطنوں کو ماریشس میں لے جا پھینکا گیا لیکن ان میں سے بعض لوگ برطانیہ پہنچ گئے۔

وہ لوگ واپس جزائر چاگوس جانا چاہتے ہیں، لہٰذا انھوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا، برٹش ہائی کورٹ نے 2000ء میں فیصلہ دیا کہ وہ واپس ان جزائر میں جا سکتے ہیں، تاہم جزیرہ ڈیگوگارشیا ان کے لیے بدستور ممنوع ہے جس پر امریکہ نے فضائی اڈہ قائم کر رکھا ہے۔ دراصل امریکہ اور برطانیہ نے طے کر رکھا ہے ہے کہ ان جزائر کو مستقل باشندوں سے خالی رکھا جائے گا، چنانچہ 2004 ء میں برطانوی حکومت نے ‘‘آرڈرزان کونسل’’ جاری کر کے جزائر چاگوس واپسی پر پابندی کو برقرار رکھا۔ 2007ء میں کورٹ آف اپیل کے سات ججوں نے متفقہ طور پر آرڈرز ان کونسل کو ناجائز قررا دے دیا مگر حکومت نے اپیل داغ دی اور پھر اکتوبر 2008ء میں ہاؤس آف لارڈز اپیل کمیٹی نے فیصلہ دیا کہ حکومت ان جزائر کے باسیوں کی آرزوئیں پس پشت ڈالنے کا حق رکھتی ہے، تاہم اختلافی رائے دینے والے جج لارڈ بنگ ہیم نے ‘‘انتہائی خیالی خطوط’’ کا ذکر کیا ہے جو امریکی حکام کی طرف سے عدالت میں پیش کیے گئے تھے۔ ان میں افسانہ طرازی کی گئی تھی کہ اسامہ بحر ہند کے ان جزائر پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

اس ضمن میں برطانوی صحافی گوائن ڈائر لکھتے ہیں: فرانسیسی، برطانیہ کے لیے دھوکے باز البیون ( Perfidious Albion) کی اصلاح استعمال کیا کرتے تھے مگر اب برطانوی دفتر خارجہ دھوکے بازی میں طاق ہو گیا، برطانیہ نے (امریکہ کی ) خدمت گزاری کے گر سیکھ لیے ہیں اوراب وہ دراصل امریکی دفتر خارجہ ہے جو اہل چاگوس کو اپنے واطن واپس آنے سے روک رہا ہے۔ اس وقت جزائر چاگوس میں چند ہزار عارضی باسی مقیم ہیں جو امریکہ کے فضائی اڈے میں کام کرتے ہیں۔ (‘‘ڈان’’ 31 اکتوبر 2008ء)

بھٹو کی گلی اور ٹھیک کرنا مجید نظامی کو

جناب مجید نظامی ایک انٹرویو میں کہتے ہیں: ‘‘ایوب خاں سے علیحدگی کے بعد بھٹو صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا۔ وہ ان دنوں بہت پریشان تھے۔ پھر وہ مجھ سے ملنے نوائے وقت کے دفتر شاہ دین بلڈنگ بھی چلے آئے۔ یوں بھی ہوتا کہ کسی اطلاع کے بغیر گھر پہنچ جاتے۔ وہ پہلی بارگرفتار ہوئے تو میں ان سے ملنے جیل بھی گیا۔ میں واحد ایڈیٹر تھا جو ان کے مقدمے کی سماعت سننے جیل جایا کرتا تھا۔ پھر ان کا منشور آ گیا جس میں سوشلزم کو ان کی معیشت قرار دیا گیا تھا۔ میں نے بھٹو صاحب سے کہا: یہ کیا ہے؟ انھوں نے جے اے رحیم کو موٹی سی گالی دے کر کہا: یہ سب اس کی شرارت ہے۔ میں باہر آ کر سب کچھ ٹھیک کر لوں گا۔ باہر آ کر انھوں نے مجھے ہی ٹھیک کرنا شروع کر دیا، چنانچہ بھٹو کے اورمیرے راستے الگ ہو گئے۔’’ (ماہنامہ ‘‘نظریہ پاکستان’’ آزادی نمبر 2008ء)

یہ بھی حقائق ہیں

٭ تاریخ میں سب سے پہلے دس لاکھ کی آبادی کو پہنچنے والا شہر روم (اٹلی) تھا۔ 133 ق م میں روم کی مردم شماری نے اس بات کو ثابت کیا۔ (اندلس کے اموی خلیفہ عبد الرحمن سوم کے عہد میں قرطبہ کی آبادی بھی دس لاکھ تھی)۔

٭ یورپ نے ایلومینیم نامی دھات کااستعمال 1827ء میں سیکھا جبکہ مسلم سائنس دان 9 ویں صدی عیسوی میں اپنی ایجادات میں ایلومینیم استعمال کر رہے تھے۔

٭ دنیا کا واحد شہر جو دو براعظموں (یورپ اور ایشیا) میں واقع ہے، استنبول ہے۔ (استنبول ماضی میں قسطنطیہ اور اس سے پہلے بیز لظیم کہلاتا تھا)۔

٭وینزویلا کی اینجل آبشار کی اونچائی 3200 فٹ سے زیادہ ہے اور وہ مشہور عالم نیاگرافالز سے پندرہ گنا زیادہ اونچی ہے۔

٭ننھی منی سی چیونٹی سولہ برس زندہ رہتی ہے جبکہ اس مدت میں زیادہ تر عام جانور مر جاتے ہیں۔

٭ مرغی کے انڈے کے برابر اولے تو بہت جگہ پڑے ہوں گے، تاہم دنیا میں سب سے بڑا اولا دیکھا اور تولا گیا تو وہ ایک کلو گرام کا نکلا اور وہ کہاں؟ چٹاکانگ میں 1986ء میں۔ (ڈاکٹر شبیر احمد۔ ‘‘تہذیب الاخلاق)

سعودی کھجوریں، تیل کا بحران اور کسنجر کی دھمکی

حرم نبوی میں ایک نرم سی محبت بھری آواز میرے کانوں میں پڑی : ‘‘لو بابا! یہ کجھوریں کھاؤ’’۔

ساتھ ہی کھجوروں سے بھرا ڈسپوزیبل گلاس میرے سامنے آ گیا تھا۔ روشن آنکھوں اور سفید رنگت والا عربی نوجوان جس نے جبہ اور سیاہ گول عمامہ پہن رکھا تھا، میرے پہلو میں بیٹھ گیا۔ وہ مجھ سے صاف اردو میں مخاطب ہوا تھا۔ میں نے شکراً کہہ کر گلاس لے لیا۔ ایک کھجور منہ میں ڈال کر گلاس اس کی طرف بڑھا دیا۔ کھجوریں بہت نرم اور لذیذ تھیں۔ وہ بولا: ‘‘یہ طائف کی کھجوریں ہیں۔’’ اس نے بتایا کہ اس کی صاف اردو اس پاکستانی عملے کی وجہ سے ہے جو جدہ میں اس کے کارخانے میں کام کرتا ہے۔ اس نے انکشاف کیاکہ سعودیہ میں سو سے زائد اقسام کی کھجوریں پیدا ہوتی ہیں۔ ان کی خوشبو اور ذائقہ الگ الگ ہوتاہے۔’’ واللہ، تم میری آنکھوں پر پٹی باندھ دو اور مجھے ایک، ایک، دو، دو کھجوریں کھلاتے جاؤ، میں سو فیصد بتا سکتا ہوں کہ یہ کس علاقے کی کھجور ہے۔ میرا دادا بدو تھا، پورے سعودیہ میں موسموں کے حساب سے اپنے اونٹوں ، خیموں اور بیویوں کے ساتھ صحرا نوردی میں مشغول رہتا تھا۔ یہ کھجوروں کی خوشبو اور ذائقے کی پہچان اسی کا عطا کردہ وصف ہے۔ اب وہ شہر میں میرے باپ کے پاس رہتا ہے۔ بڑے اہتمام سے ہر علاقے کی کھجوریں منگواتاہے او رانھیں سے ناشتہ کرتا ہے۔

اس نے اپنے باپ کے حوالے سے یہ واقعہ سنایا: ‘‘کوئی تیس برس پہلے سعودی شاہ کے پاس امریکہ سے ہنری کسنجر آیا تھا۔ شاید دھمکی دینے آیا تھا کہ تیل کی سپلائی میں رکاوٹ ڈالی گئی تو تمھارے ملک کو تہس نہس کر دیں گے۔ شاہ نے فوری طور پر کوئی جواب نہ دیا۔ دو روز بعد ہنری کسنجر کو صحرا میں ہیلی کاپٹر پر لے جایا گیا جہاں شاہی خیمہ نصب تھا۔ باہر اونٹ بندھے ہوئے تھے۔ خیمے میں سعودی شاہ قالین پر بیٹھے تھے ۔ سامنے طباق میں کھجوریں اور بھنا ہوا گوشت رکھا تھا۔ کسنجر کو دعوت طعام دی گئی۔ کھانے سے فارغ ہو کر شاہ نے کہا: ‘‘آپ کی دھمکی کا یہ جواب ہے۔ ہم تو اپنی آبائی صحرائی زندگی کی طرف لوٹ آئیں گے اورکھجوروں سے پیٹ بھر لیا کریں گے۔ ذرا آپ سوچیں کہ ہمارے تیل کے کنویں تہس نہس کرنے کے بعد آپ لوگ کس قسم کی تکالیف میں مبتلا ہوں گے۔ زندگی آپ کے لیے عذاب بن جائے گی۔’’ (ممتاز احمد تسنیم، ‘‘سفر مقدس’’ سیارہ ڈائجسٹ مارچ 2005ء)

یہ سعودی شاہ مرحوم فیصل تھے جنھوں نے اکتوبر 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد مغرب کے خلاف تیل کا ہتھیار استعمال کیا تھا، تیل کی پیداوار کم کر دی تھی جس کے نتیجے میں تیل کی قیمت آٹھ دس ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر 37 ڈالر تک چلی گئی تھی۔

امیر عبدالقادر کالوئی فلپ کے نام تاریخی خط

امریکی دانشور جون ڈبلیو قیصر کہتے ہیں کہ فرانسیسی سو سال سے زیادہ عرصہ الجزائر میں رہنے کے باوجود وہاں موجود آزادی کی امنگ ختم نہیں کر سکے تھے۔ الجزائری تحریک آزادی کے سالار امیر عبدالقادر کی سیاسی سوجھ بوجھ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انھوں نے شاہ فرانس لوئی فلپ کے نام امیر عبد القادر کے ایک خط کا متن بھی دیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عراق اور افغانستان میں اگر باہمی احترام کے جذبے سے کام لیا جاتا تو آج امریکہ معاشی بدحالی کا شکار نہ ہوتا۔ امیر عبد القادر نے لوئی فلپ کو لکھا تھا:

‘‘فرانسیسیوں کے عظیم بادشاہ! اللہ نے ہم میں سے ہر ایک کو اپنی کچھ مخلوق پر حکومت کرنے کے لیے مامور کیا ہے۔ آپ اپنی (قوم کی) تعداد ، طاقت اور اپنی رعایا کی دولت کے لحاظ سے مجھ پر کہیں فائق ہیں، لیکن اس نے ہم دونوں پر یہ فریضہ عائد کیا ہے کہ اپنی اپنی قوم کو خوشحال بنائیں۔ آئیں ہم اپنی پوزیشنوں پر اکٹھے نگاہ ڈالیں اور آپ اس سے متفق ہوں گے کہ ہم دونوں قوموں کی خوشحالی صرف آپ پر منحصر ہے۔ آپ کہتے ہیں: ‘‘(ہتھیار ڈالنے کے معاہدے پر) دستخط کریں اور اگر آپ انکار کریں گے تو جنگ ہو گی۔’’ ٹھیک ہے، میں دستخط نہیں کروں گا۔ پھر بھی میں امن اور صرف امن چاہتا ہوں۔ اگر جنگ دوبارہ چھڑ گئی تو مزید کوئی تجارت نہیں ہو گی، آپ کے آباد کار سلامت نہیں رہیں گے۔ قیمتیں اوپر جائیں گی اور پیداوار نیچے آئے گی۔ تمھارے فوجی بے فائدہ خون بہائیں گے اور یہ دو طرفہ جنگ تامرگ جاری رہے گی۔’’

چالیس سال سے زیادہ عرصہ امیر عبدالقادر جانی پہچانی شخصیت رہے۔ پہلے الجزائر کے فرانسیسی مقبوضات میں سامراج کے خلاف مزاحمت کی نشانی کے طور پر، پھر فرانس میں نہ جھکنے والے قیدی کی طرح اور آخر میں دمشق میں ایک محترم جلا وطن شخصیت کی حیثیت سے۔ جہاں ان کی شہرت بلندیوں کو چھونے لگی جب انھوں نے دمشق میں ایک خونیں ہنگامے کے دوران تقریباً دس ہزار عیسائیوں کی جان ایک انتہائی مشتعل اور مسلح ہجوم سے بچائی جن میں متعدد غیر ملکی نمائندے بھی شامل تھے۔ ان کے عقیدے کے مطابق بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنا جہاد اسلامی کے اصولوں کے منافی تھا۔ ان کے اس بے مثال کارنامے پر صدر لنکن ، ملکہ وکٹوریہ، پوپ پائیس نہم، سر رچرڈ برٹن اور فرانسیسی قیدیوں نے امیر عبد القادر کی توصیف کی اور ان کے اعزاز میں لووا کے ایک ٹاؤن کا نام ان سے منسوب کیا گیا۔ (رانا عبدالباقی، نوائے وقت، 15 فروری 2009ء)

گجرات میں ہندو درندوں کی بہیمیت

برطانوی مورخ فراؤڈ سانحہ احمد آباد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: جنگلی درندے بھی محض شوقیہ طور پر کسی جانور کو قتل نہیں کرتے جبکہ 2002ء میں احمد آباد کی خونریزی کا سانحہ جنونی ہندو قاتلوں کے لیے باعث فخر تھا۔ ایک قاتل جس کا نام چاوال تھا، اس نے بڑے فخریہ انداز سے اس بات کا اقرار کیا کہ کس طرح انھوں نے کانگرس کے رکن احسان جعفری کے جسم کے پہلے ٹکڑے کیے اور پھر انھیں نذر آتش کر دیا۔ اس سانحے میں ملوث ہر کردار بڑے فخر سے اپنے کارنامے بیان کر رہا تھا کہ اس نے کتنے مسلمانوں کو تہ تیغ کیا ہے، چن چن کے مارا ہے۔ ایک بڑے قاتل کا کہنا تھا : ‘‘ہم نے پہلے ان کی لاشوں کے ٹکڑے کیے، پھر انھیں آگ لگا دی کیونکہ مسلمانوں کوجلانا ہمارا ایمان ہے۔ یہ حرامی مسلمان کہتے ہیں کہ ہمیں چتا میں نہ جلایا جائے۔ یہ آگ سے ڈرتے ہیں لیکن ہم ان کوجلائیں گے۔ میری خواہش ہے کہ کاش میں مسلمانوں کے اکثریتی آبادی والے شہر جوہا پورہ جا کر وہاں سات آٹھ لاکھ کے قریب آباد مسلمانوں کو ختم کر دوں یا کم از کم بیس پچیس ہزار تو مار ہی ڈالوں۔ گجرات میں مسلمانوں کے منظم قتل عام کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد ارکان پارلیمنٹ اور پولیس کی زیر نگرانی ہوا حتیٰ کہ اس میں چند جج بھی شامل تھے۔ (بھارتی سیکولرزم پر حملہ’’ جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ)

شہرت کا شوق اسے لے ڈوبا

کینیڈا کے ہنری پیلیٹ نے بے شمار دولت کمائی۔ وہ صنعت کار، سرمایہ کار اور پتا نہیں کیا کیا تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ دولت کیسے خرچ کریں ۔ آخر کار انھیں قلعہ بنانے کا شوق چڑھا۔ چنانچہ 1911ء میں انھوں نے ٹورانٹو شہر میں ایک ایسا قلعہ بنانا شروع کیا جو قرون وسطیٰ کے یورپی قلعوں کی ہمسری کرتا ہو۔ یہ عظیم الشان قلعہ تین سال میں تین سو معماروں نے مل کر تعمیر کیا۔ اس پر اس زمانے میں 35لاکھ ڈالر خرچ ہوئے۔ اس قلعے میں 98 کمرے ہیں۔ ایک ایک کمرے اور ایک ایک ہال میں آرایش کی چیزیں آج کے حساب سے اربوں ڈالر کی ہیں۔ ان دنوں ملکہ برطانیہ کینیڈا آئیں تو اس قلعے میں ٹھہریں۔ پیلیٹ صاحب یورپی بادشاہوں کے برابر بننے کے شوق میں اپنی ساری دولت اس قلعے پر خرچ کرتے رہے حتیٰ کہ کنگال ہو گئے اور پھر قلعے کا سامان نیلام ہونے لگا۔ لاکھوں کی چیزیں سینکڑوں میں بکنے لگیں۔ جب بالکل ہی ان کا دیوالہ نکل گیا تو بلدیہ نے قلعہ اپنی تحویل میں لے لیا۔ ہنری پیلیٹ اپنے ڈرائیور کے گھر چلے گئے اور وہیں مر گئے۔ آخری میں ان کا اکلوتا بیٹا بھی ان سے ملنے نہیں آتا تھا۔ (مسعود اشعر ‘‘جنگ’’ اگست 2008ء)

کمیشن کھانے کا عدالتی ہتھکنڈا

امریکی ریاست پنسلوینیا کی لوزرینے کاؤنٹی کے دو ججوں، مائیکل کوناہن اور مارک سیاؤ ریلا پر الزام تھا کہا انھوں نے پہلے نوجوان بچوں کا ایک سنٹر قائم کروانے کے لیے ایک میونسپل کمیٹی سے 58ملین ڈالر کی زمین لے کر دی اور پھر یہ معاہدہ کروایا کہ یہاں جتنے بھی بچے عدالت بھیجے گی ان کی دیکھ بھال کے لیے میونسپل کمیٹی سنٹر کے منتظمین کو مستقل فیس ادا کرے گی۔ اور پھر ان دونوں ججوں نے اس سنٹر کے منتظمین سے ہر بچے کو جیل (سنٹر) بھیجنے کا کمیشن طے کیا اور اس طرح انھوں نے تین ملین ڈالر کمائے۔ ان کے سامنے چھوٹی سے چھوٹی حرکت پر بھی کوئی بچہ پیش ہوتا تو وہ اسے وکیل تک بھی نہ پہنچنے دیتے، اسے بہلا پھسلا کر اقرار جرم کرواتے اور سزا کے طور پر اس سنٹر میں بھیج دیتے۔ ان میں ایک بچہ ایسا بھی تھا جس نے انٹرنیٹ پر چیٹ کے دوران اپنے سکول کے پرنسپل کی نقل اتاری تھی۔ اسے نوے دن کی سزا سنائی گئی۔ ایک بچے کو تین ماہ کی سزا سنائی گئی کہ وہ دکان سے چوری کرنے والے ایک بچے کے ساتھ دکان میں گیا تھا۔ متاثرہ بچوں کی تعداد تقریباً 5 ہزار تھی۔ 26 جنوری 2009 ء کو ان دونوں ججوں کا مقدمہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ امریکہ کے میڈیا میں لوگ چیخ رہے تھے، ان پر لعنتیں بھیج رہے تھے۔ بچوں کی مائیں غصے میں بپھری ہوئی تھیں۔ دونوں ججوں کو سات سال قید کی سزا سنائی گئی۔ (‘‘حرف راز’’ اوریا مقبول جان ، ‘‘جنگ’’ 5 مارچ 2009ء)

علامہ اسد شاہ ابن سعود کے خواب میں

علامہ محمد اسد (سابق لیوپولڈ ویئس) سعودی بادشاہ عبد العزیز ابن سعود کے بہت ہی قریبی دوست بن گئے تھے اور ان کی مجلس کا حصہ تھے۔ اس قربت کی وجہ سے بہت سے درباری ان کے حاسد ہو گئے تھے اور بادشاہ کے کان بھرنے لگے تھے۔ اسد تک جب یہ بھنک پہنچی تو انھوں نے ایک دن ابن سعود سے کہا کہ لوگ مچھ پر عیسائی یا یہودی جاسوس ہونے کا شبہ کر رہے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ملک چھوڑ دوں تاکہ بادشاہ اس بہتان بازی سے محفوظ رہیں۔ ابن سعود نے کہا: ‘‘محمد اسد! میں نے بھی یہ باتیں سنی تھیں لیکن ایک دن میں نے مسجد نبوی میں خود خواب میں تم کو اذان دیتے دیکھا ہے۔ اللہ کی قسم! جو شخص مسجد نبوی میں اذان دے رہا ہو، نہ وہ غیر مسلم ہو سکتا ہے اور نہ ہمارے خلاف جاسوسی کر سکتا ہے’’۔ قیام پاکستان کے بعد محمد اسد نے پاکستانی شہریت حاصل کر لی تھی اور وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے نائب مندوب کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے تھے۔ (ڈاکٹر عبد القدیر خاں... ‘‘سحر ہونے تک’’)

 جب نواز شریف اور غلام اسحق کی مت ماری گئی

جب میاں نواز شریف (1993ء میں) بحال ہوئے تو وہ سیدھے میرے والد کی قبر پر آگئے اور وہاں فاتحہ پڑھی۔ پھر فیصل مسجد میں دو نفل پڑھے اور رات کو میری امی سے ملنے آئے۔ میری والدہ نے ان سے پہلی بات جو کہی، وہ یہ تھی کہ ‘‘میاں صاحب، تسی جا کے غلام اسحق نال صلح کر لو۔ انھاں نوں کہو جیہڑا ہونا سی ہو گیا، اگے تو اسیں اکٹھے چلاں گے۔’’ مگر میاں نوازشریف نے کہا: ‘‘نہیں، بیگم صاحبہ، (اس بات کو) چھوڑیں’’۔ میری والدہ نے کہا: ‘‘نئیں تے تہانوں بڑا نقصان ہوئے گا۔’’ اور وہی ہوا، غلام اسحق سے انہوں نے صلح نہیں کی۔ دو ماہ بعد لڑائی ہوئی اور دونوں گھر چلے گئے۔ (بعد میں سینئر صحافی ہارون الرشید سے ایک ملاقات میں غلام اسحق نے تاسف ظاہر کیا اور اپنی غلطی کا اعتراف کیا) یہی ہوا پرویز مشرف اور چیف جسٹس افتخار چودھری کا۔ ہم سب، شجاعت، میں، مشاہد (مشرف کو) سمجھاتے رہے کہ صلح کر لو، ان کو بحال کر دو۔ ان کے گھر جا کر چائے پی آؤ یا ان کو اپنے گھر چائے پر بلالو۔ کہنے لگے: ‘‘نہیں’’۔

چیف جسٹس افتخار چودھری صلح کے لیے تیار تھے۔ وہ کہتے تھے (صدر) آئینی طریقے سے چلیں۔ میں نے سردار عبد القیوم کے ذریعے جنرل پرویز مشرف سے پوچھوایا کہ میں چیف جسٹس سے صلح کی بات چلاؤں؟ پہلے تو کہا: ٹھیک ہے۔ جب میں نے (چیف جسٹس سے بات کر کے کہا کہ اب آپ دونوں کی ملاقات کرانی ہے۔ بتائیں آپ ان کے گھر جائیں گے یا وہ آپ کے گھر آئیں یا تیسری جگہ یعنی سردار عبد القیوم کے گھر آپ دونوں کی ملاقات کر ا دیں... تو کہنے لگے رہنے دو۔( اعجاز الحق۔ ‘‘فیملی’’ 15 تا21 فروری 2009ء)

کنواروں کا گاؤں

بہار (بھارت) کے ایک گاؤں میں کچھ مرد اپنی شادی کروانے کے لیے چھ کلو میٹر لمبی سڑک تعمیر کر رہے ہیں۔ سولہ سے اسی برس کے یہ آدمی بروان کالا نامی گاؤں کے باسی ہیں جو کیمور پہاڑیوں کے درمیان آباد ہے۔ اس گاؤں کے 121 افراد کی شادی نہیں ہو سکی۔ ان کے بقول دشوار گزار علاقے میں بسنے کے باعث وہ کنوارے رہ گئے ہیں۔ (اے ایف پی ۔ 4 مارچ، 2009ء)

ہاتھیوں کے ریوڑ تلے بوڑھا کچلا گیا

انڈونیشیا کے جزیرہ سماٹرامیں بدمست جنگلی ہاتھیوں نے 83 سالہ بوڑھے کو اپنے پاؤں تلے کچل کر ہلاک کر دیا۔ جنگل سے نکل کر منہ زور ہاتھی بنگ کالیں نامی گاؤں میں آ دھمکے ۔ ان کی تعداد 30 کے لگ بھگ تھی۔ انہوں نے بدقسمت بوڑھے اور اس کے بیٹے کو گھیر لیا۔ بیٹا تو دوڑ کر گھیرے سے نکل گیا مگر بوڑھا وحشی ہاتھیوں کے قدموں تلے بری طرح کچلا گیا اور اس کا انگ انگ الگ ہو گیا۔ بیٹا دور سے باپ کوموت کے منہ میں جاتے بے بسی کے ساتھ دیکھتا رہا۔ بوڑھا اس گاؤں میں اپنے عزیزوں سے ملنے آیا تھا اور اس کا پہلے کبھی بدمست ہاتھیوں سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ درختوں کے غیر قانونی کٹاؤ کے نتیجے میں وحشی جانوروں کے انسانوں پر حملہ آور ہونے کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ پچھلے پانچ ہفتوں میں شیروں نے 9 افراد ہلاک کر ڈالے ہی جبکہ ماحولیاتی گروپ WWF (ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ) کے مطابق سماٹرا کے جنگلوں میں صرف 2440 تا 3350 ہاتھی باقی رہ گئے ہیں۔ (‘‘نیشن’’ 5 مارچ 2009ء)

مالٹوں کی جنگ

اٹلی کا ایک قصبہ ایوورا مالٹوں کی جنگ کے لیے مشہور ہے۔ یہ ایک انوکھا تہوار ہے جو قرون وسطیٰ میں لڑی گئی جنگ کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ ہزاروں افراد ہر سال فروری میں ایک دوسروں پر مالٹے برساتے ہیں۔ اس سے تمام گلیاں اور سڑکیں مالٹوں سے بھر جاتی ہیں۔ یہ انوکھی جنگ دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے بڑی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔

اسپین کے قصبے بیونول میں ٹوماٹینا نامی تہوار منایا جاتا ہے۔ یہ میلہ اگست کے آخری بدھ کو منعقد ہوتا ہے۔ علاقے کے مرد اور عورتیں ہزاروں من ٹماٹر ایک دوسرے پر اس وقت تک برساتے رہتے ہیں جب تک ان کا ملیدہ نہیں بن جاتا۔ یہاں تک کہ سڑکوں پر ہر طرف ٹماٹروں کا ملیدہ بکھرا نظر آتاہے۔ یورپ ہی کے ملک فن لینڈ میں ایک انوکھی دوڑ منعقد ہوتی ہے جس میں شوہر اپنی بیویوں کوکندھوں پر اٹھا کر دوڑتے ہیں اور شائقین کثیر تعداد میں دوڑدیکھنے آتے ہیں۔ ادھر ایشیائی ملک کمبوڈیا میں ستمبر کے مہینے میں دو ہفتے کا روحوں کا میلہ منعقد ہوتا ہے۔ اس میں شرکت کرنے والے سورج نکلنے سے کافی پہلے کھلے آسمان تلے اکٹھے ہو کر بڑے بڑے لکڑی کے ڈھول بجاتے ہیں اور ان لاکھوں افراد کی روحوں کو خوش کرنے کے لیے طرح طرح کے کھانے سجائے جاتے ہیں جو پول پوٹ کے چار سالہ ظالمانہ دور (1975-79) میں قتل کیے گئے تھے۔

٭٭٭