رنگ برنگے الفاظ

مصنف : ڈاکٹر سید حامد حسین

سلسلہ : لسانیات

شمارہ : نومبر 2009

قسط ۔۲

کالے کے مقابلے میں سفید رنگ سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ خیر و شر اور نیک و بد کو سفید و سیاہ کے تضاد سے ظاہر کیا جاتا ہے اور کسی کے سفید و سیاہ کے مالک ہونے سے مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اچھے اور برے سب کا ذمہ دار ہے اور اسے کامل اختیار حاصل ہے۔

سفید کو نیکی، بے گناہی، معصومیت اور پاکیزگی کی علامت مانا جاتا ہے۔ مغرب میں دلہن کے باعصمت ہونے کو ظاہر کرنے کے لیے اسے روایتی سفید لباس میں ملبوس کیا جاتا ہے۔ ہندستان میں سوگ کے موقع پر بھی سفید لباس کو ترجیح دی جاتی ہے تاکہ موقع کی سنجیدگی کے موافق چمک بھڑک سے پرہیز کو ظاہر کیا جا سکے۔ بیواؤں کی بدنصیبی اور عیش و نشاط کو ترک کرنے کے عزم کو ان کا روایتی سفید لباس بتاتا ہے۔ سفید جانوروں اور سفید پرندوں کو اسی طرح مبارک شگون کی حیثیت سے قبول کیا جاتا ہے۔ سفید کبوتر کو امن اور چین کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں سفید ہاتھی کو خاص عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ سفید ہاتھی کو کیوں مقدس سمجھا جاتا ہے۔ اس کے متعلق رابرٹ ڈیل راٹ Robert Delrot نے اپنی کتاب THE LIFE AND LOVE OF THE ELEPHANT میں یہ روایت درج کی ہے کہ گوتم بدھ کی والدہ رانی شری مہاما یا نہایت حسین اور پاکباز خاتون تھیں۔ گرمیوں کی ایک پونم کی رات میں انھوں نے خواب دیکھا کہ ایک کھٹولے پر انھیں ہمالیہ کی چوٹی پر ایک شاندار محل میں لے جایا گیا۔ محل میں چاندی کی طرح ایک سفید ہاتھی ہمالیہ کی بلندی سے اتر کر آیا اور مہارانی کے کمرے میں داخل ہو کر ان کے سامنے جھک کر پرنام کیا۔ اس کی سونڈ میں ایک کنول کا پھول تھا جو اس نے مہارانی کے بطن میں رکھ دیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد لبنی کے ایک خاموش اور پر فضا باغ میں مہارانی نے بلا تکلیف گوتم بدھ کو جنم دیا۔ چنانچہ سفید ہاتھی کو میانمار (جسے پہلے برما کہتے تھے) تھائی لینڈ (جسے پہلے سیام کہتے تھے) او رلاؤس وغیرہ کے علاقوں میں گوتم بدھ کی پیدایش کی روایت سے وابستہ ہونے کی وجہ سے بڑا مقدس مانا جاتا ہے یہاں تک کہ قدیم سیام کے جھنڈے پر بھی ہاتھی کی شکل ہوتی تھی۔ سفید ہاتھی کو جو کہ بہت کمیاب ہوتا ہے صرف بادشاہ پالا کرتا تھا۔ اس کی خدمت بڑے ٹھاٹ باٹھ سے ہوتی تھی۔ اور اس کی خدمت کے لیے متعدد نوکر تعینات رہتے تھے۔ جب بادشاہ اپنے کسی درباری سے ناراض ہو جاتا تو وہ اس درباری کو ایک سفید ہاتھی بخش دیا کرتا تھا۔ درباری سفید ہاتھی کی دیکھ ریکھ میں غفلت برت نہیں سکتا تھا کیونکہ مقدس ہاتھی کو تکلیف میں رکھنے سے بڑاکوئی گناہ نہیں تھا۔ دوسرے بادشاہ کے دیے ہوئے تحفے کی ناقدری بھی ایک سنگین جرم تھا۔ چنانچہ سفید ہاتھی کے شایان شان دیکھ بھال سے درباری کا دیوالیہ نکل جاتا اور وہ پوری طرح تباہ ہو جاتا ۔ چنانچہ جو ذمے داری سنبھل نہ سکے اور تباہی کا باعث بن جائے اس کے لیے سفید ہاتھی بن جانے کی مثال دی جانے لگی۔

اردو میں صاف اور صریح جھوٹ کو ‘‘سفید جھوٹ’’ کہا جاتا ہے۔ اردو میں یہ محاورہ انگریزی سے مستعارلیا گیا ہے۔ لیکن معنی میں زمین و آسمان کا فرق ہو گیا ہے۔ یورپ میں رائج ضابطۂ اخلاق کے مطابق جھوٹ بولنا قابل تعزیر جرم تھا لیکن جھوٹ کی دو قسمیں مانی گئی تھیں۔ ایک وہ جھوٹ جو کسی گناہ کو چھپانے ، کسی کودھوکا دینے یا کسی کو نقصان پہنچانے کی نیت سے بولا گیا ہو۔ ا س جھوٹ کی سزا واجب تھی۔ دوسرا جھوٹ وہ تھا جو اچھی نیت سے بولا گیا ہو، جو کسی کو نیکی کی ترغیب دلانے، کسی کی پردہ پوشی کر کے اسے احسان کے دباؤ سے اصلاح پر آمادہ کرنے یا کسی قسم کے شریا فتنے کو پھیلنے سے بچانے کی غرض سے بولا گیا ہو۔ اسے قابل معافی سمجھا جاتا تھا۔ اس دوسرے قسم کے جھوٹ کو سفید جھوٹ کہا جاتا تھا اور اس کی سزا نہیں تھی۔ اردو میں ‘‘سفید جھوٹ ’’ کا فقرہ تو اپنا لیا گیا لیکن اس کا مفہوم بالکل بدل گیا۔

سفید پوشی سے سماج کے اس طبقے کی طریق زندگی کی جانب اشارہ مقصود ہوتا ہے جس کے افراد کو معاش کے لیے کھیتوں یا کارخانوں، دھندوں یا حرفتوں میں کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ ایسا کام کرنا جس میں کپڑے داغدار ہوں، اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پچھلے زمانے میں شرفا میں گنا جاتا تھا۔ آج کل انگریزی میں WHITE COLLAR JOB ایک محاورہ رائج ہے جس کا اطلاق انتظامی شعبے سے تعلق رکھنے والے ان افسروں اور بابوؤں پر ہوتا ہے جو کرسی اور میز پر بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ انھیں کارخانے یا میدان میں کیے جانے والے اس کام سے کوئی غرض نہیں ہوتی جس میں ہاتھ یا کپڑے گندے ہوں۔ ان کا سارا کاروبار قلم کے سہارے چلتا ہے۔

جب سرکاری طریق کار کی بات آئی ہے تو ‘‘قرطاس ابیض’’ کا بھی ذکر کیا جا سکتا ہے۔ قرطاس ابیض یاWHITE PAPER اس رپورٹ کو نام دیا جاتا ہے جو حکومت کسی مسئلے پر اپنی پالیسی کو بتانے کے لیے شائع کرتی ہے تاکہ اس پر پارلیمنٹ میں غور کیا جا سکے۔ وائٹ پیپر شائع کرنے کا طریقہ برطانوی پارلیمنٹ سے لیا گیا ہے اور اسے وائٹ پیپر پارلیمنٹ کی ایسی دوسری دستاویزوں سے ممتاز کرنے کے لیے کہا جاتا ہے جنھیں الگ الگ رنگوں کی جلدوں (COVERS) میں پیش کیا جاتا ہے۔ جیسے گرین پیپر جن کی شکل میں حکومت اپنی تجاویز کی ابتدائی رپورٹ پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کرتی ہے اور بلیو بک (Blue Book) جس کی شکل میں پارلیمنٹ کی ایسی دستاویزات شائع کی جاتی ہیں جن پر بحث ہو چکی ہے اور جو اب قابل نفاذ ہیں ۔ ان کتابوں کی شروع میں نیلے رنگ سے جلد بندی کی جاتی تھی کیونکہ نیلا رنگ شاہی رنگ سمجھا جاتا تھا۔

 سفید چھڑی کو اب عالمی سطح پر نابینا لوگوں کی پہچان کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ دور حاضر کی بھاگم بھاگ اور تیز رفتار ٹریفک میں نابینا لوگوں کو سڑک پر جن خطرات کا سامنا تھا ان سے بچنے کے لیے دوسری عالمی جنگ کے بعد سفید چھڑی تحریک نے ایک بڑا مفید کردار ادا کیا ہے۔

سفید جھنڈی شکست تسلیم کر لینے یا صلح کی پیش کش کے لیے دکھائی جاتی ہے۔ اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ جو فریق سفید جھنڈا یا جھنڈی دکھا رہا ہے وہ اب خون خرابہ یا جنگ و جدل نہیں چاہتا۔ یہاں انگریزی کے ایک محاورے کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا SHOW A WHITE FEATHER TO (سفید پر دکھانا) بزدلی دکھانے اور شکست مان لینے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ محاورہ مرغ بازی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ جو مرغ اپنی دم کے بال کھڑے کر کے یہ دکھاتا ہے کہ ان میں ایک سفید پر ہے وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اصیل نہیں ہے اور جلدی بازی چھوڑ کر بھاگ جائے گا۔

اردو میں لہو سفید ہو جانے کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ خون میں فطری سرخی باقی نہیں ہے، اس سے اس جانب اشارہ مقصود ہوتا ہے کہ خون کے رشتوں کا پاس کرنے کا وہ جوہر نہیں ہے جو اصل سرخ خون کا وصف ہے۔ چنانچہ جو شخص قرابت داری کا خیال نہ رکھے اور اپنے رشتہ داروں کی حق تلفی کرے اور انھیں نقصان پہنچائے اس کا خون محض سفید، بے رنگ پانی ہے۔ اسی طرح خوف و دہشت سے چہرے کا رنگ فق ہو جانے کو خون سوکھ جانے او رچہرہ سفید پڑ جانے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سفیدی کو بڑھاپے کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ بڑھاپے کے ساتھ ساتھ بال سفید ہونے لگتے ہیں اور سفیدی آنے کو بڑھاپا آنے کے محاورے کی شکل میں استعمال کیا جاتا ہے۔

اس کے برخلاف سرخ و سفید ہو نا، تندرست و فربہ ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ خون کا رنگ سرخ ہوتا ہے اور صحت مندی، جوش، غصے یا شرم سے جب دوران خون تیز ہونے کی وجہ سے گلابی رنگت ابھر آتی ہے تو اس سے ان کیفیتوں کو ظاہر کرنے والے کئی محاورے جنم لیتے ہیں جیسے غصے سے لال پیلا ہونا یا لال آنکھیں دکھانا۔ چہرہ سرخ ہونے کی ایک وجہ کامیابی سے ہونے والی خوشی بھی ہو سکتی ہے چنانچہ سرخ رو ہونے یا سرخ روئی کو کامیابی کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

خون بہنا یا بہانا جان کے لیے سنگین خطرے کو ظاہر کرتا ہے۔ چنانچہ سرخ رنگ کو خطرے کی نشانی کے طور پر اختیار کر لیا گیا ۔ اور سرخ جھنڈی کو خطرے سے خبردار کرنے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ انیسویں صدی کے آخر میں انگلستان اور امریکا میں ان عمارتوں کے سامنے لال بتی لگانا ضروری قرار دیا گیا جہاں شراب، جوا اور اسی قسم کے دوسرے دھندے ہوتے تھے۔ اسی رواج کے تحت جسم کا دھندا کرنے والی عورتوں کے کمروں اور چکلوں کے سامنے بھی لال بتی لگائی جانے لگی اور طوائفوں کے محلوں کو لال بتی کے علاقے (RED LIGHT AREAS ) کہنے لگے۔

انقلاب فرانس کے دوران سرخ رنگ کے جھنڈے کو خونی انقلاب کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا۔ انقلابیوں کو فرانس کے امراء کے کشت و خون کی نمایش سے ایک خاص قسم کی آسودگی حاصل ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ امراء کے قتل کے بعد ان کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتے اور اوپر اٹھا اٹھا کر سب کو دکھاتے اور خوشی کے نعرے لگاتے۔ انقلاب روس کے دوران بھی سرخ جھنڈے کو اپنایا گیا لیکن اس ترجیح کا باعث صرف کشت و خون میں لذت کو سمجھنا ٹھیک نہ ہو گا۔ روسیوں کے لیے حسن و خوبصورتی کا رنگ بھی ہے اور روسی زبان میں سرخ رنگ اور خوبصورت و نظر فریب کے لیے جو الفاظ آتے ہیں وہ قریب قریب ہیں۔ سرخ رنگ کو روسی میں ‘‘کراس نویہ’’ اور خوبصورت کو ‘‘کراسی ویہ’’ کہتے ہیں۔ ماسکو کا ‘‘لال چوک’’ سرخ انقلاب آنے سے تین سو سال پہلے سترھویں صدی میں بھی لال یا خوبصورت چوک کہلاتا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ انقلابی روس کے سرخ جھنڈے کے ساتھ ساتھ سرخ رنگ سوشلزم اور مزدور طاقت کی علامت بن گیا اور آج بھی جب کہ سوویت یونین منتشر ہو چکی ہے برطانوی لیبر پارٹی اپنے ترانے میں لال جھنڈے کے ساتھ عقیدت کا اظہار کرتی ہے۔

سرخ رنگ غلبے کی بھی علامت ہے جس زمانے میں دنیا کے طول و عرض پر برطانوی سامراج پھیلا ہوا تھا اور یہ کہا جاتا تھا کہ سلطنت برطانیہ پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا، اس وقت دنیا کے نقشے پر برطانوی عملداریوں کو سرخ رنگ سے ہی دکھایا جاتا تھا اور آج بھی ۱۲۹ ملکوں کے قومی جھنڈوں میں سرخ رنگ شامل ہے۔

پہلی قلمی کتابوں اور دستاویزات وغیرہ میں عام تحریر کے لیے یوں تو سیاہی کو استعمال کیا جاتا تھا لیکن جس عبارت پر خصوصی توجہ دینا مقصود ہوتی تھی، اس کے لیے سرخ یا شخبرفی روشنائی کو کام میں لایا جاتا تھا۔ بیوپاری اپنے کھاتوں میں ان رقموں کو جو رکی پڑی ہوں، جو قرضے واپس نہیں ہوئے ہوں، جو رقمیں ڈوب گئی ہوں اور گھاٹا ہوا ہو، ان سب کو سرخ رنگ سے دکھاتے ۔ اسی طرح آمد و خرچ کی میزان کو سرخ روشنائی سے لکھنے کا رواج پڑ گیا۔ کتابوں کے عنوانات وغیرہ کو سرخ رنگ سے لکھا جاتا یہاں تک کہ آج بھی ہم اخبارات میں خبروں کے عنوانات کو سرخیاں کہتے ہیں اور اہم اور نہایت جلی قلم سے لکھی گئی سرخی کو شاہ سرخی کا نام دیتے ہیں۔

سرخ رنگ کو خوشی اور خوش بختی کا رنگ بھی مانا جاتا ہے۔ ہندوستان میں سندور، سرخ بندی، سرخ چوڑیاں اور سرخ جوڑا دلہن کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے اور اسے سہاگ کی نشانی سمجھتے ہیں لیکن شادی کے بعد بچوں کی پیدایش پر روک لگانے کی ترغیب دلائی جاتی اور خاندانی منصوبہ بندی کے لیے لال تکون کی علامت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ لال تکون اس لال لنگوٹ کی نمائندگی کرتاہے جو پکے برہم چاری باندھتے ہیں اورمجرد زندگی پر اپنے کامل اعتقاد کو پختہ کرتے ہیں۔

سرخ فیتہ آج گفتگو کا عام موضوع بن چکا ہے۔ سترھویں صدی میں انگلستان میں دستاویزات اور دوسرے ضروری کاغذات کو لال فیتے سے باندھ کر رکھنے کا رواج ہوا۔ اس زمانے میں جن دستاویزوں کو مستقلاً رکھنا ہوتا تھا اور انھیں دائمی ریکارڈ بنانا مقصود ہوتا انھیں لال فیتے سے کس کر باندھ دیا جاتا تھا۔ ان دستاویزات کو رسی سے باندھنے سے اس لیے پرہیز کیا جاتا تھا کہ سختی سے باندھنے پر دستاویزات کے کاغذ کے کنارے سے پھٹنے کا ڈر تھا۔ چوڑے فیتے کے استعمال سے یہ اندیشہ نہیں رہتا تھا۔ لال رنگ سے یہ خبردار کرنا مقصود تھا کہ ان کاغذات کو ایسے کاغذات کے ساتھ ضائع نہ کر دیا جائے جن کی اب ضرورت نہیں رہی لیکن بعد میں دفتروں میں فوری نوعیت اور مستقل اہمیت کے سبھی کاغذات کو لال فیتے سے باندھا جانے لگا اور کاغذات کے انبار سے ضرورت کے کاغذات کو نکالنا دشوار ہو گیا۔اس کی وجہ سے دفتری کارروائی میں بھی زیادہ وقت لگنے لگا۔ انیسویں صدی میں انگریزی ناول نگار چارلس ڈکنس نے اپنے ناولوں میں لال فیتہ شاہی کا ذکر کیا ۔ لیکن لال فیتہ شاہی کے نظام پر بھر پور حملہ ڈکنس کے ہم عصر ٹامس کار لائل نے کیا۔ آج لال فیتہ شاہی کارروائی کی پیچیدگیوں اور بے مطلب ضابطے کی کارروائی کی علامت بن گئی ہے ۔

 لال رنگ سے ممتاز جس تنظیم نے دکھی انسانیت کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچایا وہ ریڈ کراس ہے۔ یوں تو جب چودھویں صدی کے وسط میں پلیگ (طاعون) کے مرض نے انگلستان میں تباہی مچائی (انگریزوں نے اسے بلیک ڈیتھ یا کالی موت کا نام دیا تھا) اس وقت جن گھروں میں پلیگ کے مریض ہوتے تھے ان کے دروازوں پر لوگوں کو خبردار کرنے کی غرض سے لال کراس کا نشان لگا دیا جاتا تھا۔ لیکن یہاں ہم جس تنظیم کا حوالہ دے رہے ہیں وہ سوئٹزر لینڈ کے ایک باشندے ژاں ہنری دیوناں (JEAN HENRI DU-NANT) کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ دیوناں نے ۱۸۵۹ ء میں فرانس اور اٹلی کے درمیان سال فے ری نو میں ہونے والی لڑائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس لڑائی میں تقریباً تیس ہزار سپاہی مارے گئے یا زخمی ہوئے تھے۔ ۱۸۶۰ ء میں اس نے ‘‘سال فے ری نو کی یاد’’ کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی اور لڑائیوں میں زخمی ہونے والوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک مستقل تنظیم قائم کرنے کی تجویز رکھی۔ اس کے نتیجے میں ۱۸۶۴ ء میں ریڈ کراس تنظیم کا قیام عمل میں آیا اور اسی سال منعقد ہونے والے جنیوا کنوینشن میں لڑائی میں زخمی ہونے والے لوگوں کی خیر و خبر اور علاج و معالجے کے سلسلے میں اہم فیصلے کیے گئے۔ اس تنظیم نے اپنی علامت کی شکل میں جس لال کراس کو اختیار کیا وہ دراصل سوئٹزر لینڈ کے قومی جھنڈے کی الٹی شکل ہے۔ سوئٹزر لینڈ کے جھنڈے میں لال زمین پر سفید کراس ہوتی ہے۔ دیوناں نے اپنی تنظیم کے لیے سفید زمین پر لال کراس کو اپنایا۔ کیونکہ کراس مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والی علامت ہے اس لیے مسلم ممالک نے اسے اختیار کرنا پسند نہیں کیا۔ چنانچہ مسلم ممالک میں یہ تنظیم ہلال احمر (RED CRESCETN) کے نام سے کام کرتی ہے۔

گلابی رنگت نرمی کو ظاہر کرتی ہے۔ چنانچہ گلابی جاڑا ایساموسم ہوتا ہے جس میں سردی کی پوری شدت ابھر نہیں آتی اور اس ہلکی خنکی میں بڑا مزہ آتا ہے۔ بھوپال کے ایک صاحب طرز ادیب ملا رموزی (۱۸۹۹ء تا ۱۹۵۲ ء) نے ۱۹۵۳ کے قریب قرآن حکیم کے قدیم اردو تراجم کے انداز پر ایک اسلوب ایجاد کیا تھا جس کی شگفتگی کے مد نظر انھوں نے اسے ‘‘گلابی اردو’’ کا نام دیا تھا۔

لال کے مقابلے میں اکثر ہرے رنگ کو استعمال کیا جاتا ہے جیسے اگر لال جھنڈی یا لال بتی خطرے سے آگاہ کرتی ہے یا رکنے کو کہتی ہے تو ہری جھنڈی یا ہری بتی خطرہ دور ہو جانے اور چل پڑنے کے نشان کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ ہرے رنگ کو بالعموم ہرے بھرے درختوں، سرسبزی و شادابی اور بہار کے موسم یا ساون کے مہینے میں بارش کی وجہ سے دکھائی دینے والی ہریالی کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے، جیسے کہاوت ہے ‘‘ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے’’ ۔ ہرا رنگ پودوں اور درختوں کی بھر پور نشو ونما اور ان کے پھلنے پھولنے کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر ہرے رنگ سے خوشحالی اور ترقی کی نشان دہی کی جاتی ہے۔ اور ‘‘ہرے بھرے رہو’’ کو خوش حال اور خوش و خرم رہنے کے لیے ایک دعا کے طور پر بولا جاتا ہے۔ بچے کی امید ہونے کے لیے عورتیں ‘‘گود ہری ہونا’’ کا محاورہ بولتی ہیں اور شادی کے گیت گاتے ہوئے دولہا کے لیے ‘‘ہریالا بنا’’ کاخطاب استعمال کیا جاتا ہے جس میں دولہا کی خوشحالی اور اس کے صاحب اولاد ہونے کی نیک خواہشات شامل ہوتی ہیں۔ ‘‘سبز بخت’’ کا فقرہ خوش نصیب اور خوش حال کے لیے بولا جاتا ہے۔

ماحول کے توازن کو برقرار رکھنے کی تحریک کے ساتھ ساتھ ہر رنگ نے ایک نئی معنویت حاصل کی ہے چنانچہ شہروں کو ہرا بھرا رکھنے، جنگلوں کی اندھا دھند کٹائی پر روک لگانے اور بڑے پیمانے پر نئے پودے لگانے کی ترغیب دلانے والے اشتہارات، پوسٹروں اور پیغامات سے ہمارا روز سامنا ہوتا ہے اور ہرا رنگ آلودگی سے پاک فضا اور صنعتی دور کی سفاکیوں سے محفوظ فطرت سے منسلک ہو گیا ہے۔ شہروں کی ہری پٹی (GREEN BELT) برقرار رکھنے پر زور دیا جا رہا ہے اور وقتاً فوقتاً گرین پیس (GREEN PEACE) کے رضا کاروں کی کارروائیوں کے بارے میں پڑھنے یا سننے کو ملتا ہے۔ گرین پیس تحریک نے ۱۹۷۷ ء میں جنم لیا اور جوہری دھماکوں، فاضل جوہری مادوں کے سمندر میں پھینکے جانے، وھیل مچھلیوں کے شکار اور دوسرے جانداروں کو نابود کرنے والے پروگراموں کی پوری شد و مد سے مخالفت کرنا اس نے اپنا نصب العین بنایا۔       سبز رنگ کو کھیتی باڑی اور بہتر پروگراموں کے ذریعے لائی جانے والی خوش حالی سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ گذشتہ ۲۵۔ ۳۰ برسوں کے دوران سبز انقلاب (GREEN REVOLUTION) نے دنیا میں زراعت کا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔ ۱۹۶۰ ء میں ڈاکٹر نارمن بار لاگ (NORMANE E. BORLAUG) نے میکسیکو میں کام کرنے کے دوران گیہوں، چاول، مکا اور دوسرے اناج کی بہتر قسمیں پیدا کرنے پر خاص زور دیا۔ زیادہ پیداوار دینے والے اور فصل کے جلد تیار ہونے میں مدد دینے والے بیج استعمال کر کے، کیمیاوی کھاد کے مناسب استعمال اور آبپاشی کے بہتر انتظامات کے ذریعے غذائی حالات کو بہتر بنانے کا ان کا منصوبہ یقینا انقلابی ثابت ہوا اور اس سے ہندوستان، پاکستان، سری لنکا، میکسیکو، فلپائن وغیرہ ترقی پذیر ممالک میں بڑا فائدہ اٹھایا گیا اور اس زبردست کام کے اعتراف میں ڈاکٹر بار لاگ کو ۱۹۶۶ ء میں امن کا نوبل انعام عطا کیا گیا۔ ہندوستان میں سبز انقلاب کے پروگرام پر ۱۹۶۶ء کی خریف فصل کے ساتھ عمل کیا گیا اور اس کے امید افزا نتائج حاصل ہوئے۔

سبز انقلاب کے پیمانے پر سفید انقلاب لانے کا بھی پروگرام بنایا گیا جس کا تعلق دودھ کی پیداوار میں اضافہ کرنے سے ہے۔ ۱۹۷۰ء میں ڈاکٹر ورگھیس کورین (VERGHESE KURIEN) کے زیر ہدایت آپریشن فلڈ (OPERATION FLOOD) کی ابتدا کی گئی اور اس زبردست کام کے لیے انھیں ۱۹۸۹ء میں عالمی خوراک انعام (WORL FOOD PRIZE) اور ۱۹۶۳ء میگ سائے انعام ملے۔ اس کے علاوہ اب مچھلیوں کی افزائش کے پروگرام کو توسیع دے کر نیلا انقلاب لانے کی بات سننے میں آتی ہے۔

لیکن ہرے رنگ کا دوسرا پہلو بھی ہے جہاں وہ درد و غم و نحوست کا پیش خیمہ بن کر آتاہے۔ بہار کے سرسبز موسم میں کلیاں چٹکتی ہیں اور پھول کھلتے ہیں لیکن اگر زخم چٹکتا ہے تو ٹیس ہوتی ہے اور درد کا احساس ہوتاہے۔ چنانچہ جب زخم بھرنے کی جگہ پھر سے پھٹ جائے، پرانی چوٹ پھر سے درد کرنے لگے تو کہتے ہیں کہ زخم ہرا ہو گیا اور کسی کو جسمانی طور پر شدید تکلیف پہنچانے یا برا بھلا کہہ کر طنز و تشنیع سے کسی کے دل کو چوٹ پہنچانے کو محاورے میں متاثر شخص کی ‘‘ طبیعت ہری کرنا’’ کہا جاتا ہے۔

اہل فارس بعض اوقات ہرے رنگ کوکالے رنگ کی طرح گہرا رنگ تصور کرتے ہیں اورکالے رنگ کی طرح اسے نحوست، سوگ، غم اور دنیاوی علائق سے بے تعلقی کی علامت سمجھتے ہیں۔ چنانچہ جس شخص کی آمد سے نحوست پیدا ہو، اسے ‘‘سبز قدم’’ کہا جاتا ہے۔ وہ درویش جو دنیا اوردنیاوی اسباب کو حقیر سمجھ کر فقیرانہ زندگی گذارتے ہیں وہ بعض اوقات سبز لباس پہننا پسند کرتے ہیں اورسبز پوشی کو ماتمی حالت میں ہونے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ جس شخص کی آنکھیں کرنجی ہوں اسے سبز چشم کہتے ہیں۔ عام عقیدہ یہ ہے کہ ایسی آنکھوں والا شخص بڑا بے مروت ہوتا ہے۔ اردو میں سبز طوطے سے تشبیہ دیتے ہوئے سبز چشم کواکثر طوطا چشم کہا جاتا ہے اور طوطا چشمی کو بے مروتی کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔

کبھی سبز رنگ کو دھوکا دینے سے جوڑ لیا جاتا ہے۔ ایک محاورہ ہے ‘‘سبز باغ دکھانا’’۔ دراصل یہ ان شعبدہ گروں کے نظر بندی کے کھیل سے لیا گیا ہے جو ایک چادر تانتے ہیں اور پھر اسے آہستہ آہستہ نیچے سے اوپر سرکاتے ہیں اوردکھاتے ہیں کہ چادر کے پیچھے ایک ہرا باغ اگ رہا ہے جب کہ حقیقت میں وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا وہ ذہن میں صرف ایک وہم پیدا کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ شخص جو جھوٹے وعدوں سے ہمیں امید برآری کی توقع دلاتا ہے وہ بھی ہمارے دماغ میں ایک خوبصورت وہم پیدا کرتا ہے اور سبز باغ دکھاتا ہے۔

ہرے رنگ کو آج کل اسلامی رنگ کی حیثیت دی جاتی ہے اور اس کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ ایسے ۲۹ ملکوں کے قومی جھنڈوں میں ہرا رنگ نمایاں طور پر شامل ہے، جہاں مسلم آبادی کافی بڑی تعداد میں ہے۔ لیبیا کا جھنڈا تو ایسا ہے جس میں صرف ہرا رنگ ہی ہے۔ اس رنگ کے کپڑے پر کسی اور رنگ کی کوئی پٹی، کوئی شکل، کوئی نشان یا کوئی عبارت نہیں ہے، لیکن سبز رنگ ہمیشہ سے اسلامی پرچم کی مستقل خصوصیت نہیں رہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کالے رنگ کے پرچم یا فتح مکہ کے موقع پر سفید پرچم استعمال کیے گئے۔ امام حسین کے رفقا نے البتہ کبھی سبز مستطیل اور کبھی سبز مثلث پرچم کا استعمال کیا۔ یزید کی فوج کے پرچم سیاہ تھے۔ عباسیوں نے بھی کالے پرچم کو اپنایا، خارجیوں کے جھنڈے سرخ تھے۔ ہاں دسویں صدی عیسوی میں جب مصر کے فاطمیوں نے جھنڈے کے لیے ہرے رنگ کا انتخاب کیا تواس کے بعد سے یہ رنگ مسلم طاقتوں کے جھنڈوں پر چھا گیا۔

چلتے چلتے گرین روم کا ذکر کر لیا جائے۔ تھیٹر میں کھیل میں حصہ لینے والے فنکاروں کے اپنے استعمال کے لیے ایک کمرہ ہوتا ہے، یہاں وہ اپنا لباس بدلتے ہیں یا میک اپ کرتے ہیں یااسے بدلتے ہیں۔ اسے گرین روم کہا جاتا ہے، کیونکہ اولاً اسے ہرے رنگ سے پوتنے کا رواج تھا۔ جب یہ آرٹسٹ اسٹیج پر کام کرتے تھے تو انھیں اسٹیج کی تیز روشنی کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور اس کی چکا چوند سے ان کی آنکھوں پر زور پڑتا تھا، اس لیے اسٹیج سے پیچھے بنے فنکاروں کے کمرے کی دیواروں اور چھت کو ہرے رنگ سے پینٹ کیاجاتا تھا تاکہ اسٹیج کی تیز روشنی میں کام کرکے لوٹنے والے فنکاروں کی آنکھوں کو سکون پہنچے۔

نیلا رنگ آسمان کا ہے اور سمندر میں آسمان کا عکس نظر آتا ہے اس لیے سمندر کا رنگ نیلا دکھائی دیتا ہے۔ اسی وجہ سے نقشوں میں سمندروں، جھیلوں اور ندیوں کونیلے رنگ سے دکھایا جاتا ہے۔ یورپ کے جہاز راں عام طور پر نیلے رنگ کے موٹے کپڑے کے لباس پسند کرتے تھے۔ اس لیے نیلی جنس اور نیلی جیکٹوں کا رواج ہوا۔ بحریہ (NAVY) میں نیلے یونیفارم کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اسی مناسبت سے مچھلیوں کی پیداوار میں اضافے کے پروگرام کو نیلے انقلاب (BLUE REVOLUTION) کا نام دیا گیا۔

چوٹ لگنے پر کھال پر جو خون جم جانے سے نشان پڑتا ہے اسے بھی نیلے رنگ سے تشبیہ دی گئی ہے اور ‘‘نیل ڈالنے’’ کا مفہوم مار پیٹ کر زخمی کرنا لیا گیا ہے۔ شدید غصے سے چہرے کی رنگت بدل جانے کو اسی طرح ‘‘نیلا پیلا ہونا’’ کہا گیا۔ سردی کی وجہ سے یا خون کی کمی کی بناپر جسم کی رنگت بدل جانے کو چہرے یا ہاتھ نیلے پڑنے کی مثال دی گئی اور کبھی کبھی اسے موت کے قریب ہونے کی علامت سمجھا گیا۔

بلیو پرنٹ تیار کرنے سے آج کل کسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری تفصیلات کوطے کرنے کا مفہوم لیا گیا ہے۔ یہ فقرہ اس خاکے سے لیا گیا ہے جو انجینئر وغیرہ مکان یا کسی قسم کی مشین یا ڈھانچے کو تیار کرنے سے پہلے اس کے سارے حصوں اور پرزوں کو ان کی ضروری پیمایش اور شکل کو دکھاتے ہوئے بنایا جاتا ہے لیکن بلیو پرنٹ کا نام اس طریقے سے تعلق رکھتا ہے جو ان نقشوں کی کاپیاں نکالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ ۱۸۴۲ ء میں سرجان ہرشل نے نکالا تھا اور اس میں پوٹاشیم فے ری سائے نائڈ (POTASSUIM FERRICYANIDE) اور فیرک سالٹ (FERRIC SALT) کی مدد سے خاص طور پر تیار کئے گئے کاغذ یا کپڑے پر جھلک دار کاغذ پر بنے نقشے کو رکھ کر ایسی نقل نکالی جاتی ہے جس میں نیلے پس منظر میں سفید رنگ کے اندر نقشہ اور عبارت ابھر آتی ہے۔

بلیو پرنٹ میں تو نیلا رنگ دکھائی دیتا ہے، لیکن بلیو فلم میں نیلا رنگ نہ ہوتے ہوئے بھی نیلے سے مناسبت پیدا کی جاتی ہے۔ ایسی فلمیں جن میں فحش اور عریاں مناظر ہوں انھیں اشارۃً بلیو فلم کہا جاتا ہے۔ سترھویں اور اٹھارھویں صدی میں انگلستان میں جن عورتوں کو بدچلنی یا عصمت فروشی کے جرم میں قید کی سزا دی جاتی تھی انھیں پہننے کے لیے جو یونیفارم دیا جاتا تھا وہ نیلے رنگ کا ہوتا تھا۔ اس طرح نیلا رنگ فحشیات کے ساتھ وابستہ ہو گیا اور فحش مذاق اور فحش کہانیوں ، فحش تصاویر کو ‘‘بلیو’’ رنگ سے نسبت دی جانے لگی۔ انیسویں صدی کے نصف آخر میں ملکہ وکٹوریہ کے عہد حکومت میں فحشیات کو بڑا معیوب سمجھا جاتا تھا اور ہر ایسی چیز جس پر فحاشی کا ذرا سا بھی شبہ ہوتا تھا، سختی سے پکڑ دھکڑ ہوتی تھی یہاں تک کہ فحاشی کا تذکرہ بھی بڑا گھما پھرا کر کیا جاتا تھا اور اس قسم کی باتوں کے لیے ایک بڑی محتاط اشاروں کی زبان وضع کر لی گئی تھی۔ اسی کی ایک مثال فحاشی کا ‘‘بلیو’’ سے تعبیر کیا جانا ہے۔ اس پابندی کے رد عمل کے طور پر وکٹورین عہد فحشیات کے عروج کا بھی دور رہا۔ اسی زمانے میں پہلے فوٹو گرافی اور بعد میں فلم سازی کو فروغ حاصل ہوا اور بیسویں صدی کے ربع اول میں جب فحش فلمیں بھی بننے لگیں تو انھیں بھی اشارۃً بلیو فلم کا نام دیا گیا۔

۱۹۵۴ء کے بعد نیلے رنگ کو اس وقت ایک نیا اعتبار حاصل ہوا جب تنظیم اقوام متحدہ نے اپنے جھنڈے کے لیے اس رنگ کو اختیار کیا۔ سفید رنگ کو صلح و امن کے رنگ کی حیثیت سے پہلے ہی تسلیم کیا جا چکا تھا اور اسے ریڈ کراس اور اولمپک کھیل تحریک وغیرہ جیسی فلاح و تعاون کی تنظیموں کے جھنڈے کے لیے اپنایا جا چکا تھا۔ دوسرے رنگوں کی بھی علامتی معنویت طے چکی تھی۔ اس لیے ہلکا نیلا رنگ جو آسمان کی بلندی اور پہنائی کی نمائندگی کرتا ہے ، ایک اچھا انتخاب ثابت ہوا۔

دوسرے ہلکے رنگوں میں پیلا رنگ سفید رنگت سے قریبی مماثلت رکھتا ہے لیکن اپنے پھیکے پن کی وجہ سے پیلے رنگ کو اکثر مریضانہ تاثر اور مردنی سے وابستہ کیا گیا۔ خون کی کمی سے چہرے پر سرخی نہ رہنے کو چہرے کے پیلا پڑ جانے سے تعبیر کیا گیا۔ اسی طرح خوف، شرمندگی اور خجالت کے تاثر کو زرد روئی کا نام دیا گیا۔ جگر کی خرابی سے خون کے سرخ ذرات کی بہت زیادہ کمی واقع ہونے کی وجہ سے یرقان (jaundice) کی بیماری ہو جاتی ہے اور آنکھوں اور ناخنوں پر بھی زردی دکھائی دینے لگتی ہے۔ اسی وجہ سے اس بیماری کو عام زبان میں پیلیا کہا جاتا ہے۔ گرم آب و ہوا کے علاقوں میں کبھی یرقان کے ساتھ کالے رنگ کی قے اور شدید بخار کے ساتھ ایک بیماری پھیلتی ہے۔ اسے زرد بخار (YELLOW FEVER) کا نام دیا جاتا ہے۔ اس طرح زرد رنگ بیماری سے منسلک ہو گیا اور ایسے جہازوں پر جن میں کوئی مہلک بیماری پھوٹ نکلی ہو، دوسرے جہازوں کو یہ خبردار کرنے کے لیے کہ وہ اس کے پاس نہ آئیں پیلی جھنڈیاں لگا دی جاتی تھیں۔

دوسری طرف سفید رنگت کو ابھارنے کے لیے بعض اوقات ہلکے پیلے پس منظر سے مدد لی جاتی ہے، جیسے جلد کی رنگت کو نکھارنے کی غرض سے دلہن کو ہلدی یا ابٹن وغیرہ لگایا جاتا ہے اور محاورے میں ہاتھ پیلے کرنے کا مفہوم شادی کرنا ہو گیا۔ سنسکرت میں پیلے کے لیے ‘‘پیت’’ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ پیلی دھات جو تانبے او رجست کو ملا کر تیار کی جاتی ہے ‘‘پیتل’’ کہلاتی ہے۔

آج کل ایسے اخباروں اور رسالوں کے لیے جو سنسنی پھیلا کر اور اسکینڈل چھاپ کر مقبولیت حاصل کرتے ہیں زرد صحافت (YELLOW JOURNALISM) کی اصطلاح سننے میں آتی ہے۔ یہ اصطلاح انیسویں صدی کے آخر میں ریاست ہائے متحدہ امریکا میں رائج ہوئی۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کی ابتدا ‘‘ینویارک ورلڈ’’ نامی اس رسالے کے سر ورق کے حوالے سے ہوئی جو کہ ۱۸۹۵ ء میں جاری ہوا تھا۔ اس سرورق پر ایک بچے کی تصویر بنی ہوتی تھی جس کا لباس زرد ہوتا تھا لیکن یہ اصطلاح ۱۸۹۸ء کے قریب اس وقت عام ہوئی جب اخبارات میں اس سنسنی خیز افواہ کو نمک مرچ لگا کر چھاپا گیا کہ چین اور جاپان کی زرد اقوام اس قدر تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہیں کہ چند سالوں کے بعد وہ ان علاقوں پر چڑھ دوڑیں گی جہاں سفید اقوام بستی ہیں اور سفید اقوام کو تہ و بالا کر دیں گی۔ اس کے بعد جارحانہ قسم کی قوم پرستی، سطحی قسم کی سنسنی ، اشتعال اور ہیجان پیداکرنے والی صحافت کو زرد صحافت کے نام سے پکارا جانے لگا۔

ملک وینز ویلا (VENEZUELA) کی راجدھانی کراکس میں بنی صدر کی رہایش گاہ کو ‘‘قصر عنبریں’’ (CASA AMARILLA) یعنی زرد محل کہا جاتا ہے۔ اس سے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے صدر کی رہایش گاہ ‘‘وائٹ ہاؤس’’ کی یاد آتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے وائٹ ہاؤس شروع سے سفید نہیں۔ اس عمارت کو امریکا کے پہلے صدر جارج واشنگٹن نے ۱۷۹۳ء میں شہر واشنگٹن ڈی سی میں بنوانا شروع کیا تھا لیکن ۱۷۹۹ ء میں ان کی موت تک یہ مکمل نہیں ہوئی۔ ان کے جانشین جان ایڈمس نے اس میں ۱۸۰۰ ء میں سکونت اختیار کی۔ ۱۸۱۴ ء میں انگریزوں کے حملے میں ریتلے پتھر کی اس عمارت کو جزوی طور پر نقصان پہنچا اور اس کی دیواریں توپوں کے حملے میں بری طرح جھلس گئیں۔ اس نقص کو چھپانے کی غرض سے اس پر سفیدی کی گئی اور تب سے یہ عمارت وہائٹ ہاؤس کہلاتی ہے۔ امریکی مورخین اس حملے میں انگریزوں کے غلبے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور وہ اس طرح لکھتے ہیں کہ جیسے یہ عمارت ہمیشہ سے سفید ہے۔

پیلا، نارنجی یا سنہری رنگ دور سے چمکتا ہوا نظر آتا ہے یہی وجہ ہے کہ سڑکوں پر ٹریفک بتیوں میں ‘‘ٹھہرو’’ کا اشارہ دینے کے لیے پیلے رنگ کی روشنی سے کام لیا جاتا ہے۔ اسی طرح اس غرض سے کہ کاروں کے ہجوم میں ٹیکسی کو دور سے پہچانا جا سکے اسے یا کم از کم اس کی چھت کو پیلے رنگ سے پینٹ کیا جاتا ہے۔ ہوائی جہاز کے ‘‘بلیک باکس’’ کو بھی نارنجی رنگ سے پوتا جاتا ہے تاکہ وہ جہاز کے ملبے میں دور سے دکھائی دے۔

دبے ہوئے رنگ جیسے بھورا، گیروا، کیسریا اپنے اندر گرد و غبار کو سمو لیتے ہیں ۔ اس لیے چمڑے کے جوتوں، تسموں وغیرہ پر اکثر بھورے یا براؤن رنگ کا پالش کیا جاتا ہے۔ اس طرح سادھو سنیاسی بھکشو جنھیں کہیں بیٹھ جانے یا لیٹ جانے میں کوئی تامل نہیں ہوتا وہ گیروے یا کیسریا رنگ کے کپڑوں کو ترجیح دیتے ہیں اور اس قسم کے رنگوں کو تیاگ، دنیا سے بے تعلقی اور زیب و زینت سے بے نیازی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

٭٭٭