کیا جمہوریت کفر ہے؟

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : نقطہِ نظر

شمارہ : اگست 2009

            کیا جمہوریت کفر ہے ؟ یہ وہ سوال ہے جوعالم اسلام کے بعض حلقوں ،علما اور اسلامی سکالرز میں عموماً زیر بحث رہتا ہے۔سطور ذیل میں ہم اپنی طالب علمانہ رائے پیش کر رہے ہیں۔

            ہمارے نزدیک یہ فتویٰ اور اس قسم کے دیگر فتاوی،غلط مقدمہ پر قائم ہیں اوروہ غلط مقدمہ یہ ہے کہ ہم اس طرح کے مسائل کودینی عقائد کا حصہ سمجھتے ہیں جبکہ اصل میں ایسا ہے نہیں۔ہمارے ہاں کچھ دینی طبقات میں یہ نفسیات سرایت کر گئی ہے کہ وہ مغرب سے آنے والی ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس پر پہلے پہل کفر کا ہی فتویٰ لگاتے ہیں الا یہ کہ بعد میں وہ اپنے آپ کو اسلام ثابت کروا دے۔جمہوریت کا نظریہ ،چونکہ اہل مغرب کی طرف سے آ یا ہے اس لیے یہ بھی محض اسی وجہ سے کفر ہے اور اس کے علمبردار کافر ہیں ۔ حالیہ سالوں میں اس نظریے کے حامل لوگ ،چونکہ امریکی جبر کا نشانہ بن رہے ہیں اور دنیا کے جدید ترین اور ہلاکت خیزہتھیاروں کا عذاب برداشت کر رہے ہیں،اس لیے امت کے اندر وہ اپنی مظلومیت اور استقامت کے باعث ایک با اعتماد درجہ پا رہے ہیں ،لیکن خالص علمی معاملات میں بہر حال ابھی وہ اس مقام پر نہیں پہنچے کہ اُن کی بات کو سنجیدگی سے لیا جائے۔لیکن ،چونکہ وہ عوامی سطح پر پذیرائی لے رہے ہیں اس لیے ڈر ہے کہ اُن کے نظریات بھی، جو علم و عقل کی کسوٹی پر بالکل بودے ثابت ہو چکے ہیں ،عوام الناس میں سرایت نہ کر جائیں۔ان سے تمام تر ہمدردی رکھنے کے باوجود ،بات جب کسی نظریے کے کفر یا اسلام ہونے تک آ پہنچے تو ہم اپنی غیرت ایمانی کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے اور حق کو واضح کرنا ہماری ذمہ داری بن جاتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اب بھی اگر خاموشی اختیار کی گئی تو گویا ہم نے حق کو چھپانے کا جرم کیا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ علما کرام ،اس طرح کی باتوں کو در خور اعتنا نہیں سمجھتے اور وہ خا موشی سادھے ہوئے ہیں اس لیے ہم ایسے کم علموں کو اپنا فرض ادا کرنا پڑرہا ہے۔

            سب سے پہلے ایک اصولی بات سمجھ لینی چاہیے۔جب بھی کسی ایسی چیز،نظریے اور خیال کے بارے میں ،اس کے مطابق اسلام ہونے یا نہ ہونے کا سوال پیدا ہو،جس کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس زمانے میں وجود نہ ہو،اُس میں یہ دیکھا جائے گا کہ کیا وہ نظریہ اسلام کے عقیدہ توحید سے ٹکرا تو نہیں رہا،یا اس کے اندر کوئی اخلاقی عیب تو نہیں پا یا جاتا۔اس اصول کے مطابق ،جو چیز مطابقت رکھتی ہو ،اُسے لے لیا جائے گااور جو مطابقت نہ رکھتی ہو اُسے رد کر دیا جائے گا۔جمہوریت کو کفر قرار دینے والوں کے استدلال کا جتنا بھی ہم نے مطالعہ کیا ہے ،اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات،نہ صرف جمہوریت اور دیگر معاصر علوم سے کما حقہ واقف نہیں ہیں بلکہ دینی نظریات اور مسلمانوں کی تاریخ کے فہم میں بھی چند در چند غلط فہمیوں کا شکا ر ہیں۔

            جمہوریت کے بارے میں ،عام طور پر مخالفین اس تعصب میں مبتلا ہیں کہ یہ ایک مغربی نظریہ ہے اوراُن کے ہاں یہ طے ہے کہ مغرب سے آ مدہ کوئی بھی چیز ہمارے لیے مفید نہیں یا ہم نے مغرب سے آمدہ ہر چیز کی مخالفت ہی کرنی ہے۔یہ طرزِفکر اور طرز ِ عمل ہمارے دین سے مطابقت نہیں رکھتا ۔اس کے برعکس ہو نا یہ چاہیے کہ اصل نظریہ جمہوریت کو دیکھنا چاہیے اور اُس میں جو چیز ہمارے اصولوں کے مطا بق ہو ،چاہے وہ کسی عنوان سے ہو ،اُسے لے کر باقی کو مسترد کر دینا چاہیے۔اسی بات کومد نظر رکھ کر ماضی کے جید علما کرام نے جمہوریت پر تنقید کی ہے اور اس کا اصل اور مفید جوہر نکال کر ،ملک کے دیگر دانشوروں اور سیاستدانوں کے مشورہ سے،۱۹۷۳ء کے دستور کی شکل میں ایک دستاویز پیش کر دی ہے۔اس دستاویز میں بھی ،طے شدہ طریقہ کار کے تحت ردو بدل کیا جا سکتا ہے ۔

            جمہوریت کے خلاف بات کرنے والے حضرات جس دوسری بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں وہ یہ ہے کہ پاکستان کے اندر جس قسم کی حکمرانی کو جمہوریت کہا جا تا ہے اُسے ہی وہ ماڈل بنا کر تنقید اور فتویٰ کا نشانہ بناتے ہیں۔یہ حضرات دوہری غلطی کرتے ہیں۔جب جمہوریت پر بطور مغربی نظام تنقید کرتے ہیں تو وہاں مغرب کے عمومی معاشرتی بگاڑ پر تنقید کر کے جمہوریت کے کھاتے میں ڈالتے ہیں اورجمہوری نظام نے جس طرح ان کے سیاسی نظام کو استحکام بخشا ہے اُسے وہ بھول جاتے ہیں اور جب پاکستانی پس منظر میں بات کرتے ہیں تو تمام خرابیوں کی جڑ جمہوریت کو قرار دیتے ہیں حالانکہ یہاں کبھی بھی جمہوریت نے یا ۷۳ کے آئین نے حکومت کی ہی نہیں۔ جمہوریت کو جب یہاں رائج ہی نہیں کیا گیا تووطن عزیز کے گوناں گوں مسائل کا ذمہ دار جمہوریت کو کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔وطن عزیز میں جتنے ادوار بھی جمہوریت کے نام پر آئے ہیں ،وہ محض جمہوریت پر بد نامی کا داغ ہیں ۔جس طرح ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام پر تنقید کرنا غلط سمجھتے ہیں اسی طرح پاکستانی جمہوری حکمرانوں کے طرزِ عمل کو دیکھ کر جمہوریت پر فتویٰ لگانا بھی زیادتی ہے۔

            بنیادی طور پر انسان اجتماعیت پسند ہے۔اس کے پیدا کرنے والے نے ،اس کو ایک دوسرے کا محتاج بنا کر پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے ،یہ اس کی فطرت میں ہے کہ وہ مل جل کر ایک سماج میں رہے۔یہی وجہ ہے کہ پہلے دِن سے ہی ،یہ بات انسان کی سوچوں کامحور رہی ہے کہ جب مل جل کر اور ایک سماج بنا کر رہنا ہے تو پھراس سماج ،معاشرہ ،اجتماعیت ،یا جدید زبان میں ریاست میں حق ِ حکمرانی کس کو حاصل ہو گا۔یہ بنیادی سوال ہے جس پر انسان نے صدیوں سوچا ہے۔ہمیشہ سے ہر سماج میں یہ پہلا سوال بن کر کھڑا ہوا ہے۔صدیوں کے غور و فکر کے بعد ، انسان اس بات پر متفق ہواہے کہ کسی سماج میں ،یا کسی ایک انسانی اجتماعیت میں یا جدید زبان میں کسی ایک ریاست میں ،حق حکمرانی ،اس سماج کے کل پرزوں ،کسی اجتماعیت کے ممبروں یا اس ریاست کے شہریوں کو ،حاصل ہے۔ اِسی بات کادوسرا نام جمہوریت ہے۔

            جمہوریت پر ہمارے ہاں کے مذہبی لوگوں نے جو تنقیدیں کی ہیں ،اُس میں سب سے زیادہ زور اس بات پر ہے کہ دین میں عوام کو حق حکمرانی حا صل نہیں ہے بلکہ اللہ کریم کو حق حکمرانی حاصل ہے۔اُن کے نزدیک یہ کہنا کفر ہے کہ عوام کو حق حکمرانی حا صل ہے۔ہمیں اس نکتے کی اصابت سے اتفاق ہے۔بلاشبہ یہ valid تنقید ہے۔ہم اللہ عزو جل کے حق حکمرانی کے مقابل میں کسی اور کے حق حکمرانی کے تصور تک سے پنا ہ مانگتے ہیں۔ ۷۳ء کے آئین کے خا لقین نے اس تنقید کا واضح جواب دے دیا ہے اوراُس کی موجودگی میں پاکستانی آئین کو کفر قرار دینا محض ہٹ دھرمی اور عاقبت نا اندیشی اور بہت بڑی ملک دشمنی ہے۔ پاکستان کے آئین میں واضح طور پر لکھ دیا گیا کہ وطن عزیز میں حاکمیت اعلیٰ اللہ عزو جل کو سزاوار ہے اوریہ کہ اس ملک میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا۔ریاست نے جب یہ اعلان کر دیا تو وہ‘‘ مسلمان ’’ ہو گئی۔اب یہ کیسی مسلمان ہے اوراسے کس طرح بہتر مسلمان بنایا جا سکتا ہے ،یہ بعد کی باتیں ہیں۔اس کو بہتر سے بہتر بنانا ہر شہری کی درجہ بدرجہ ذمہ داری ہے جو ہر کسی کو ادا کرنی چاہیے۔اب اگر کوئی آدمی اس آئینی دستاویز کو کفر قرار دیتا ہے تو کیا وہ دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس آ ئین میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا اور سیدی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا جو اعلان کیا گیا ہے وہ خاکم بدہن غلط ہے۔ استغفراللہ من ذالک

            اس نظری نکتے کے حل ہو جانے کے باوجود ،اصل سوال ،اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے کہ اللہ کی حاکمیت تواپنے آپ قائم ہے لیکن ایک ریاست میں اس کا اظہار کیسے ہوگا۔اللہ عزو جل تو حاکم ہیں ہی ،لیکن،ظاہر ہے وہ کسی مادی روپ میں آکر حکومت تو نہیں کریں گے اس لیے بجا طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی ریاست کا سربراہ کون ہوگا اور کیسے اپنے منصب پر فائز ہوگا،وہ منصب سے معزول کیسے ہوگا ،وغیرہ وغیرہ ۔

            ایک ریاست کی سربراہی کے لیے،تاریخ انسانی میں عموماً جبرو قہر ہی کام کرتا رہاہے اور جب غصب اور جبر سے حکومتیں چھین لی جاتی رہیں تو بعد میں وراثت کو اس میں داخل کر دیا جاتاتھا،یا پھر نامزدگی کا اصول چلایا جاتارہا،مسلمانوں کا جسے شاندار ماضی کہا جاتا ہے وہ بھی اس قسم کی سربراہی سے بھرا ہوا ہے ،کیا اسے اسلامی طریقہ قرار دیا جائے ؟اور کیوں قرار دیا جائے۔اس کے علاوہ تاریخ انسانی میں بعض لوگ خدا کی طرف سے نامزدگی کا جھوٹادعویٰ لے کر بھی لوگوں کا استحصال کرتے رہے ہیں۔(بعض انبیا ء کرام علیہم السلام ،اپنے اپنے زمانے میں اپنے لوگوں کے سیاسی حکمران بھی رہے ہیں،وہ ہماری اس بحث سے خارج ہیں،کیونکہ ختم نبوت کے بعد حکمرانی کا یہ option ختم ہو چکا ہے۔)یہ سب طریقے انسانی علم و عقل نے غلط ثابت کر دیے۔اللہ کریم نے بھی ان کو غلط قرار دے دیا ،یہ ہم آ گے چل کر واضح کریں گے۔ اس مقصد کے لیے جمہوریت سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہے۔جمہوریت کے مقابلے میں خلافت کا نام لیا جاتا ہے ۔اس لفظ کے تمام تر تقدس کے باوجود ،اس کے داعین بھی دنیا ئے علم کے سامنے کوئی متاثر کن چیز سامنے نہیں لا سکے۔مسلمانوں کے ماضی میں جن ادوار کو خلافت سے پکارا جاتا ہے ،اس میں خلافت راشدہ کو چھوڑ کر،باقی خلافتیں شخصی اور موروثی حکمرانیاں تھیں ،جو اسلام کے آئیڈیل سے کچھ بھی لگا نہیں کھاتیں۔کچھ حلقوں میں،شورائی نظام کی بات کی جا تی ہے ،ہماری جدید تاریخ میں جنرل ضیا ء الحق مرحوم نے‘‘ شوریٰ ’’کے لفظ کو استعمال کر کے ،جس طرح اپنے ذاتی اقتدار کو دوام دینے کا راستہ نکالا تھا ،اُس نے اس نظام کا بھی پو ل کھول دیا ہے اور انسانیت اس‘‘ شورائی نظام ’’ سے بھی پناہ مانگنے لگی ہے۔

            جمہوریت کی دیگر اقدارvalues میں ،ایک اہم قدراظہار رائے کی آ زادی ہے۔جب اظہار رائے پر قدغن ہو تو ایسی حالت کو قرآن فتنہ قرار دیتا ہے۔جبروقوت سے ،لوگوں پر مسلط ہو جانا اوراپنی بات منوانا اور دوسرے کو اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت نہ دینا ،ایسی چیزیں ہیں جنھیں اسلام بڑے اصرار سے condemnکرتا ہے اور یہی جمہوریت کا بھی حسن ہے۔

            اسی طرح ایک ریاست میں ،اس کے شہریوں کے درمیان،نسلی امتیاز برتنا،لسانی تفریق یا حسب نسب کی بنیاد پر فرق مراتب روا رکھنا ،آج کی جدید جمہوری ریاستوں میں سختی سے منع کیا گیا ہے اور یہی تعلیمات ۱۴ صدیاں قبل آ منہ کے در ِ یتیم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ،اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں عنایت فرمائی تھیں۔ یہ چیزیں اسلام کا طرہ امتیاز ہیں اور اگر یہی values کوئی اور قوم اپنائے یانظام جمہوریت میں سمو دی جائیں تو وہ کفرکیسے ہوئیں؟؟

            اِن لوگو ں کے ہا ں جمہوریت کی ایک اور قدرجو شدیدتنقید کا باعث بنتی ہے وہ انتخابات ہیں۔انتخابات کا طریقہ،امیدواروں کا کھڑے ہونا اور ہر شہری کا ووٹ برابر ہو نا وغیرہ وغیرہ اکثراِن لوگوں کے ہاں زیر بحث رہتا ہے۔ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کے انتخابی عمل میں بہت کچھ اصلاحات کی گنجائش موجود ہے لیکن فی نفسہٖ انتخابات جس مقصد کے لیے کروائے جاتے ہیں اس کے حصول کا اور کوئی طریقہ کار ،انسانی عقل نے تجویزہی نہیں کیا اور نہ ہی وحی سے ایسی کوئی رہنمائی ملتی ہے۔جمہوریت اور انتخابات کے نظام کفر ہونے کی ،سوائے ،حاکمیت والی بات کے ،جس کی اصلاح ہو چکی ہے،ایک بھی دلیلvalidنہیں ہے۔

وامر ھم شوریٰ بینھم:

            نظم حکومت کے طور پر،جمہوریت کے متبادِل اور اس سے بہتر، کوئی ایک بھی منظم اور مترتب سسٹم وضع نہیں کیا جا سکااگرچہ اس میں یہ نقص موجود ہے کہ اس میں جاہل اور عالم کا ووٹ برابر ہوتا ہے اور ہمارے خیال میں ماہرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ جلداز جلد اس خامی کو دور کر نے کی کوشش کریں لیکن ہمارے خیال میں فی الوقت یہی وہ سسٹم ہے جو اللہ کریم کے ارشادو امر ھم شوریٰ بینھم(الشوریٰ ۴۲:۳۸) ‘‘اوران کانظام باہمی مشورے پر مبنی ہے۔‘’ کے قریب ترین ہے۔

            عام طور پر اس آیت سے ،مختلف معاملات میں ایک دوسرے سے مشورہ کرنا ہی مراد لیا جاتا ہے ،لیکن ہمارے خیال میں اسلام کے قانون سیاست میں نظم حکومت کی اساس یہی آیت ہے۔سورہ شوریٰ میں تین لفظوں کا یہ جملہ اپنے اندر جہان ِ معنی سمیٹے ہو ئے ہے۔اس آیت کے ضمن میں جاویداحمد صاحب غامدی لکھتے ہیں:

            ‘‘اس میں پہلا لفظ ‘امر’ہے۔عربی زبان میں یہ کئی معنوں میں استعمال ہو تا ہے لیکن آیہ زیر بحث میں اس کا موقع محل دلیل ہے کہ یہ نظام کے مفہوم میں ہے۔یہ معنی اس لفظ میں حکم ہی کے معنی میں وسعت سے پیدا ہوئے ہیں۔حکم جب بہت سے لوگوں سے متعلق ہو تا ہے تو اپنے لیے حدود مقرر کرتا اور قواعد وضوابط بناتا ہے ۔اُس وقت اس کا اطلاق سیاسی اقتدار کے احکام اور جماعتی نظم ،دونوں پر ہوتا ہے۔غور کیجئے تو لفظ نظام ہماری زبان میں اسی مفہوم کی تعبیر کے لیے بولا جاتا ہے۔ پھر اس مقام پر چونکہ قرآن مجید نے اسے ضمیر غائب کی طرف اضافت کے سوا کسی دوسری صفت سے مخصوص نہیں کیا ،اس لیے نظام کا ہر پہلو اس میں شامل سمجھا جائے گا ۔بلدیاتی مسائل ،قومی و صوبائی امور،سیاسی و معاشرتی احکام،قانون سازی کے ضوابط،اختیارا ت کا سلب وتفویض ،امرا کا عزل و نصب ،اجتماعی زندگی کے لیے دین کی تعبیر ،غرض نظام ریاست کے سارے معاملات اس آیت میں بیان کئے گئے قاعدے سے متعلق ہو نگے۔ریاست کا کوئی شعبہ اس کے دائرے سے باہر اور کوئی حصہ اس کے اثرات سے خالی نہ ہوگا۔اس کے بعد ‘شوریٰ ’ہے۔یہ‘ فعلیٰ ’کے وزن پر مصدر ہے اور اس کے معنی مشورہ کرنے کے ہیں۔آیت زیر بحث میں اس کے خبر واقع ہونے سے جملے کا مفہوم اب وہ نہیں رہاجو شاورھم فی الامر ،فاذا عزمت فتوکل علی اللہ میں ہے۔(آل عمران۳:۱۵۹، ‘‘نظم اجتماعی کے معاملے میں ان سے مشورہ لیتے رہو۔پھر جب کوئی فیصلہ کر لو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔’’)وہی بات کہنی مقصود ہوتی تو الفاظ غالباً یہ ہوتے ، و فی الامر ہم یشاورون،(اورمعاملات میں اُن سے مشورہ لیا جاتا ہے۔)اس صورت میں ضروری تھا کہ معاشرہ امیر و مامور میں پہلے سے تقسیم ہو چکا ہوتا ۔امیر یا تو مامور من اللہ ہوتا یا قہر و تغلب سے اقتدار حاصل کر لیتا یا کوئی امام معصوم اُسے نامزد کردیتا ۔بہر حال وہ کہیں سے بھی آتا اور کسی طرح بھی امارت کے منصب تک پہنچتا ،صرف اسی بات کا پابند ہوتا کہ قومی معاملات میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے لوگوں سے مشورہ کر لے ۔اجماع یا اکثریت کا فیصلہ تسلیم کر لینے کی پابندی اُس پر نہیں لگائی جا سکتی تھی۔رائے کے ردو قبول کا اختیار اُسی کے پاس ہوتا وہ چاہتا تو کسی کی رائے قبول کر لیتا اور چاہتا تو بغیر کسی تردد کے اُسے رد کر دیتا۔لیکن وامر ھم شوریٰ بینھم کی صورت میں اسلوب میں جو تبدیلی ہوئی ہے اُس کا تقاضا ہے کہ خود امیر کی امارت بھی مشورے کے ذریعے سے منعقد ہو۔نظام مشورے سے ہی وجود میں آ ئے۔مشورہ دینے میں سب کے حقوق برابر ہوں جو کچھ مشورے سے بنے ،وہ مشورے سے توڑا بھی جا سکے جس چیز کو وجود میں لانے کے لیے مشورہ لیا جائے ،ہر شخص کی رائے اس کے وجود کا جز بنے۔اجماع واتفاق سے فیصلہ نہ ہو سکے تو فصل ِ نزاعات کے لیے اکثریت کی رائے قبول کر لی جائے۔’’(میزان ،صفحہ نمبر۴۹۴)

            ہماری رائے میں قرآن مجید کے درج بالا حکم مشورہ کی بہترین صورت یہی انتخابات ، جمہوری دساتیر اور جمہوری روایات ہیں جن کی مخالفت کو بعض علما کرام نے اپنا مقصد بنا لیا ہے۔یہ کیسے ممکن ہے جن لوگوں پر آپ حکومت کرنے جا رہے ہیں ،انھیں آپ شریک معاملہ ہی نہ کریں۔عوام کی مرضی کے بغیر کوئی آدمی آ خر کس طرح اُن پر حکومت کرنے کا اہل ہو سکتا ہے؟؟کیا جبر و قوت سے؟انسان نہ ہوئے مویشی ہو گئے کہ انھیں، جس طرف چاہے اور جو چاہے ، ہانک لے جائے۔اللہ سے بھی اس نا انصافی کی توقع نہیں ہے اور اب تو انسان کا اپنا شعور بھی اتنا ترقی کر چکا ہے کہ وہ اس طرح کے جبر کو مسترد کر چکا ہے۔ہمارے اس دور کے ،دین اسلام کی سیاسی تعبیرو تشریح کے امام سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ،اسی آیۃ کریمہ کے ضمن میں لکھا ،

            ‘‘دوم یہ کہ اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمہ داری جس شخص پر بھی ڈالنی ہو اسے لوگوں کی رضا مندی سے مقرر کیا جائے اور یہ رضا مندی ان کی آزادانہ رضا مندی ہو۔جبر یا تخویف سے حا صل کی ہوئی ،یا تحریص و اطماع سے خریدی ہوئی ،یا دھوکے اور فریب اور مکاریوں سے کھسوٹی ہو ئی رضا مندی در حقیقت رضا مندی نہیں ہے۔ایک قوم کا صحیح سربراہ وہ نہیں ہوتا جو ہر ممکن طریقہ سے کوشش کر کے اس کا سربراہ بنے ،بلکہ وہ ہوتا ہے جس کو لوگ اپنی خوشی اور پسند سے اپنا سربراہ بنائیں۔‘‘(تفہیم القرآن،جلد۴،صفحہ نمبر۵۱۰)

            نظم اجتماعی کے سربراہ کے معلوم کرنے کے لیے ،عوام اور شہریوں کی آزاد مرضی کے تعیین کا ،شفاف انتخابات کے علاوہ اور کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔یہ انسانی معاشرہ ہے اور انسانی کمزوریوں اور خامیوں سے مبرا نہیں ہو سکتا۔نہ یہاں پر اب سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ ایسی بزرگ شخصیت کا آ نا ممکن ہے کہ جس کی نامزدگی کو قبول عام حاصل ہو جائے اورنہ ہی سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ ایسی بزرگ شخصیت موجود ہے کہ جن کے سربراہ نامزد ہو جانے پر عام شہریوں کو اطمینا ن حاصل ہو جائے نہ ہی کسی نبی نے اب تشریف لا نا ہے کہ اُسے ہی سربراہ بنایا جائے۔ہم گناہ گاروں میں سے ہی کسی نہ کسی کو حاکم بننا ہو گا اور اس کا طریقہ ،انتخابی عمل کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین ،اس سلسلے میں جو رہنمائی کرتا ہے وہی قابل عمل اور اُسی میں خیر ہے اور یہی دین کا مطالبہ ہے۔