قاری اور کتاب کا رشتہ زوال پذیر کیوں

مصنف : اشتیاق احمد

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : جون 2009

سائیں سائیں کرتی لائبریری

            پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد، مارگلہ کی پہاڑیوں کا دامن اور وزیراعظم سیکرٹیریٹ کی قربت، یہ ہے نیشنل لائبریری آف پاکستان کا محل وقوع۔

            پاکستان کی اس جدید ترین لائبریری میں کوئی ڈیڑھ لاکھ کتب کاذخیرہ ہے۔ مطالعے کا ذوق رکھنے والوں کے لئے چار بڑے ہال ہیں جو بیک وقت پانچ سو افراد کو وہیں پر کتب بینی کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔ لیکن یہ کیا کہ کتابیں تو ہیں مگر پڑھنے والے نہیں۔

            اسلام آباد دس لاکھ کی آبادی کا شہر ہے جہاں مکینوں کی اکثریت تعلیم یافتہ سرکاری ملازمین پر مشتمل ہے۔ ان ابتدائی معلومات کے ساتھ لائبریری کی طرف جانے والا ہر شخص یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو گا کہ یہ جگہ اہل اسلام آباد کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں اور ظاہر ہے یہاں بھیڑ تو ہو گی ہی۔ لیکن لائبریری کے مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی یہ خیال بدل جاتا ہے۔

            سو سے زائد لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش والے ہر ایک ہال میں صرف چند لوگ مطالعے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب نہایت ہی سلیقے سے الماریوں میں رکھی گئی کتابیں یہ شکایت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ ان میں سے اکثر کو کوئی نہیں پڑھتا۔ ہال میں موجود لوگوں نے بتایا کہ اس نادر سہولت سے استفادہ کے لیے اوسطاً صرف تیس سے پینتیس افراد روزانہ یہاں آتے ہیں۔ یہاں آنے والوں میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے جو کسی موضوع پر تحقیق کر رہے ہوتے ہیں یا یہاں وہ نوجوان دکھائی دیتے ہیں جو سول سروس کے امتحانات کی تیاری میں مصروف ہوتے ہیں۔لائبریری ہال میں موجود ایک میڈیکل کے طالب علم راحیل خان نے بتایا کہ اس لائبریری کی مناسب تشہیر نہ ہونے کی وجہ سے چند ماہ قبل تک وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ اسلام آباد میں ایک ایسی نایاب لائبریری بھی موجود ہے جہاں ان کے پڑھنے کے لئے ہر طرح کی سہولیات میسر ہیں، حالانکہ وہ لائبریری سے کچھ ہی فاصلے پر رہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ لائبریری ایک ایسی جگہ واقع ہے جہاں عام آدمی کے رسائی بہت مشکل ہے۔وہاں پر موجود ایک اور طالبعلم عثمان کے خیال میں لوگوں کی لائبریری میں عدم دلچسپی کی ایک وجہ اس کے اوقات کار ہیں کیونکہ اکثر کتب خانے سہ پہر تین بجے بند ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ لوگ جو اپنے دفتروں اور تعلیمی اداروں کے اوقات کے بعد یہاں آنا چاہتے ہیں اس سہولت سے استفادہ حاصل نہیں کر پاتے ان کے خیال میں اگر یہ اور اس طرح کی سرکاری لائبریریاں رات گئے تک کھلی رہیں تو ان میں آنے والوں کے تعداد میں یقیناً اضافہ ہو سکتا ہے۔ایم اے سوشیالوجی کی ایک طالبہ نے بتایا کہ اب اکثر اساتذہ اس بات کی ترغیب ہی نہیں دیتے کہ ان کے طالبعلم کتابوں سے ریسرچ کریں۔ اس کی بجائے وہ اب اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انٹرنیٹ کی مدد سے جلدی اور بہتر طریقے سے مدد مل سکتی ہے۔

            نیشنل لائبریری آف پاکستان میں روزانہ ایک سو آٹھ ملکی اخبارات یہاں آنے والوں کے لئے دستیاب ہوتے ہیں۔ ایک اور دلچسپ حقیقت یہ سامنے آئی کہ یہاں آنے والوں کی اکثریت حالات حاضرہ کی بجائے اخبارات میں خالی آسامیوں کے لئے چھپنے والے اشتہارات یا ٹینڈر نوٹس دیکھتی ہے۔ وہاں موجود ایک صاحب محمد اکبر نے بتایا کہ وہ مختلف قسم کا دفتری سامان سرکاری دفاتر میں دینے کا کام کرتے ہیں اور وہ نیشنل لائبریری اس لئے آتے ہیں کہ یہاں انہیں تمام بڑے انگریزی اور اردو اخبارات دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ اکثر یہاں ان اخبارات میں چھپوائے ہوئے اشتہارات ہی دیکھنے آتے ہیں، کیونکہ ان کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ تمام بڑے ملکی اخبارات خرید سکیں۔

            نیشنل لائبریری کے ڈپٹی ڈائریکٹر حافظ حبیب احمد سے جب انکی رائے جاننی چاہی کہ لائبریریوں میں لوگوں کی عدم دلچسپی کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں لائبریری جا کر کتاب پڑھنے کا کلچر فروغ ہی نہیں پا سکا ہے۔ ان کی نظر میں اس کی بنیادی وجہ سکول اور کالج کی سطح پر مناسب کتب خانوں کا فقدان ہے۔ وہیں بزرگ اور معروف شاعر احسان اکبر سے بھی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ کتاب کی جگہ کمپیوٹر نے لے لی ہے انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ آج کا نوجوان کتاب کو چھوڑ کر کمپیوٹر پر موجود دیگر دلچسپوں میں کھو گیا ہے جہاں سے وہ ایک بٹن دبا کر اپنی پسند کا ہر قسم کا مواد حاصل کر سکتا ہے۔

انہوں اسی مناسبت سے اپنی کتاب ‘ہوا سے بات’ کا ایک شعر پڑھ کراپنی گفتگو کو سمیٹا۔

علم اب دیکھا سنا ہو گا پڑھا لکھا نہیں

کاہے کودیکھے گی دنیا بھلا اخبار کتاب