قاری اور کتاب کا رشتہ زوال پذیر کیوں

مصنف : ذیشان ظفر

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : جون 2009

لاہور کی معدوم ہوتی آنہ لائبریریاں

            محمد اسحاق بینائی سے محروم ہو چکے ہیں لیکن ماضی کی یادیں ان کے سامنے ایک کھلی تصویر کی مانند ہیں

            ‘آج بھی کوئی کتاب کرایہ پر نہیں گئی ہے بلکہ اب تو روزانہ ایسے ہوتا ہے’ یہ الفاظ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پچھلے تیس سال سے آنہ لائبریری چلانے والے محمد اسحاق کے ہیں’۔

            لاہور کی گلیوں اور محلوں میں نجی لائبریری کا آغاز پچاس کی دہائی میں ہوا جب مطالعے کے شوقین کچھ حضرات نے اپنی ذاتی کتابوں کو کرائے پر دینے کا سلسلہ شروع کیا۔

            شروع میں ان لائبریریوں سے کوئی بھی شخص ایک آنہ یومیہ کرائے پر اپنی من پسند کتاب حاصل کر سکتا تھا لیکن بعد میں یومیہ کرایہ تین سے پانچ روپے یومیہ تک پہنچ گیا لیکن پھر بھی یہ لائبریریاں آنہ لائبریری ہی کہلاتی رہیں۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ جہاں جدت اور مشینی ترقی کی وجہ سے بڑے شہروں میں سماجی اور ثقافتی تبدیلیاں رونما ہوئیں وہیں لاہور شہر میں قائم سینکڑوں کی تعداد میں نجی لائبریریاں اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائیں۔

            لاہور شہر میں اب چند ایک ہی آنہ لائبریریاں موجود ہیں لیکن یہ بھی قارئین کی عدم دلچسپی کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ان میں سے ایک قلعہ گجر سنگھ کے علاقے میں واقع ہے۔ لائبریری کے مالک محمد اسحاق نے آج سے کوئی تیس سال قبل پوسٹ آفس میں ملازمت کے دوران اپنے پاس مطالعے کے لیے جمع ہونے والی کتابوں کو کرایہ پر دینے کے لیے لائبریری قائم کی تھی۔ محمد اسحاق اب بینائی سے محروم ہو چکے ہیں لیکن ماضی کی یادیں ان کے سامنے ایک کھلی تصویر کی مانند ہیں جب ان کی لائبریری میں قارئین کا ہجوم ہوتا تھا اور بعض اوقات مطلوبہ کتاب کے حصول کے لیے لوگوں کو کئی روز تک انتظار کرنا پڑتا تھا۔ محمد اسحاق کے مطابق لاہور کے ہر محلے میں ایسی کم از کم تین سے چار لائبریریاں ہوا کرتی تھیں جو چھوٹی عمر کے قارئین کو ٹارزن ، عمرو عیار کی کہانیاں اور ہفتہ وار رسالے مہیا کرتی تھیں تو نوجوانوں کے لیے رومانوی داستانوں ، جاسوسی کہانیوں اور حالات حاضرہ کی کتابوں کے علاوہ سائنسی جریدے ، انگریزی معلوماتی کتابیں دستیاب ہوتی تھیں۔ دوسری طرف بڑی عمر کے لوگ ایسی لائبریریوں سے ادبی ، تاریخی اور دینی کتابیں حاصل کیا کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ شروع میں ان کی لائبریری میں شاعر فیض احمد فیض اور شورش کاشمیری سے لے کر منور ظریف اور امام دین جیسے فنکار کرایہ پر کتابیں لینے آیا کرتے تھے۔ محمد اسحاق نے بات کرتے ہوئے کہا کہ آٹھ دس سال پہلے لوگ ایک رات کے لیے دو دو کتابیں لے جایا کرتے تھے اس لیے وہ باقاعدگی سے لائبریری کے لیے نئی کتابیں خرید کر لاتے تھے لیکن جب سے کیبل ٹی وی گھر گھر پہنچ گیا اس وقت سے لوگوں میں مطالعے کا رجحان کم ہوتے ہوتے اب نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔

              آنہ لائبریریوں کی کتابیں انار کلی کے فٹ پاتھ اور نسبت روڈ پر واقع ردی کی دوکانوں میں پڑی نظر آتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ آج کوئی کتاب کرایہ پر نہیں گئی بلکہ اب تو روزانہ ہی ایسے ہوتا ہے کہ سارا دن گاہک کے انتظار میں گزر جاتا ہے لیکن کوئی نہیں آتا اور اگر کوئی کتاب لے کر جاتا ہے کئی دن کے بعد واپس یہ کہہ کر دینے آتا ہے کہ کتاب پڑھنے کے لیے وقت نہیں مل رہا تھا۔ دوسری جانب آنہ لائبریریوں کی کتابیں انار کلی کے فٹ پاتھ اور نسبت روڑ پر واقع ردی کی دوکانوں میں پڑی نظر آتی ہیں۔ محمد شہباز تقریباً تیس سال سے پنجاب یونیوسٹی کے عقب میں انار کلی بازار سے متصل فٹ پاتھ پر پرانی کتابیں فروخت کرنے کا کارو بار کر رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ دس سال پہلے تک نہ صرف لاہور بلکہ دوسری شہروں سے روزانہ بیسیوں نجی لائبریریوں کے مالکان کتابیں خریدنے کے لیے آیا کرتے تھے تاہم کچھ سالوں پہلے کتابیں خریدنے کی بجائے بیچنے کے لیے زیادہ لوگ آنے شروع ہوگئے تاہم اب ان کی تعداد بھی نہ ہونے کی برابر ہو گی ہے۔ محمد شہباز کے مطابق زیادہ تر نجی لائبریریوں کے مالکان یا ان کی اولاد یہ کہہ کر کتابیں بیچنے آتے ہیں کہ موجودہ دور میں کتابیں کرایہ پر نہیں جاتی ہیں جبکہ بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کے باعث لائبریری کو قائم بہت رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ فٹ پاتھ پر کتاب خریدنے والے ایک طالب علم حسن خان نے بتایا کہ نصاب کی کتابیں اتنی زیادہ ہوگئی ہیں کہ طلباء کے پاس غیر نصابی کتابیں پڑھنے کے لیے وقت نہیں ہوتا ہے۔

            انہوں نے کہا کہ اگر وقت ہو بھی توقریب میں کوئی لائبریری ہی نہیں ہوتی جہاں جا کر کچھ پڑھا جا سکے۔

            سرکاری قائداعظم لائبریری کے چیف لائبریرین محمد تاج نے محلوں میں قائم نجی لائبریریوں کے ختم ہونے کو ایک الیمہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جدید آلات کے آنے کی وجہ سے لوگوں میں مطالعے کا رجحان ختم ہو رہا ہے۔ تاہم لائبریری میں جدید سہولیات مہیا کر کے عوام کو دوبارہ سے راغب کیا جا سکتا ہے۔

            انہوں نے کہا کہ سرکاری طور پر پنجاب میں سنہ انیس سو نوے کے بعدکسی نئی لائبریری کا قیام عمل میں نہیں آ سکا ہے۔اس کے علاوہ پہلے سے قائم صرف چند ایک لائبریریوں میں انٹرنیٹ جیسی جدید سہولیات دستیاب ہیں باقی تقریباً تمام سرکاری لائبریریوں کی حالت فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے انتہائی خراب ہو چکی ہے۔ محمد تاج کے مطابق بھارت میں انیس سو اکاون میں لائبریری آرڈیننس کا نفاذ ہوا تھا تاہم پاکستان میں ابھی تک کوئی لائبریری ایکٹ نہیں آ سکا ہے۔جس کی وجہ سے ملک میں لائبریریوں کی نشوونما نہیں ہو سکی ہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ صرف لاہور جیسے بڑے شہر میں لائبریریوں کی واضح کمی ہے۔

            انہوں نے کہا کہ آج کل کے دور میں ایک طرف توطلباء کا نصاب ایسا نہیں ہوتا کہ وہ لائبریر ی کی طرف رجوع کریں دوسرا لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ گھر سے دور کسی لائبریری میں مطالعے کے لیے آئیں۔ ریڈیو آرٹسٹ اور مطالعے کے شوقین سید آفاق حسین کے مطابق گلی محلوں کی لائبریریاں لاہور کے کلچر کا حصہ ہوا کرتی تھیں جن سے سینکٹروں لوگوں کا روزگار وابستہ تھا لیکن عوام کو اپنے بڑھتے ہوئے معاشی مسائل کے حل کے لیے بھاگ دوڑ میں ان لائبریریوں کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے آج ہم ایک قیمتی اثاثے سے محروم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے سماجی ترقی کے لیے کبھی سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھائے ہیں اس لیے آج لاہور میں کھانے پینے کے لیے فوڈ سٹریٹ توبنائی جا رہی ہیں لیکن بدقسمتی سے مطالعے کے فروغ کے لیے ایک بک سٹریٹ نہیں بنائی جا سکی ہے۔

            آفاق حسین کے مطابق یہ غلط ہوگا کہ الیکڑانک میڈیا کی وجہ سے لوگوں میں مطالعے کے وجحان میں کمی آئی ہے بلکہ ہمیں شاید ابھی تک کتاب کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہو سکا ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی سرکاری یا غیر سرکاری رہائشی کالونی بنتی ہے تو اس میں ساری سہولیات میسر ہونگی سوائے لائبریری کے۔حقیقت خواہ کچھ بھی ہو لیکن یہ بات واضح ہے کہ لائبریری کا کردار قوم کی ترقی کے لیے کسی درس گاہ سے کم نہیں ہوتا ، آنہ لائبریریاں جو کبھی مطالعے کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتی تھیں ان کا زوال پذیر ہونا کسی المیے سے کم نہیں ہے۔