جنتر منتر

مصنف : سعید احمد باجوہ

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : فروری 2009

            یہ 1964کا واقعہ ہے۔ ایک دن میری طبیعت اچانک خراب ہوگئی، صبح سو کر اٹھا تو گردن میں ہلکا ہلکا درد محسوس ہوا۔ اُن دنوں ، میں چار ماہ کی چھٹی پر اپنے گاؤں ماہیا ضلع سیالکوٹ آیا ہوا تھا۔ درد میں شدت ہوئی تو ڈاکٹر سے رجوع کیا، اس نے مالش وغیرہ کے لیے دوا دی۔ اس سے افاقہ نہیں ہوا ۔ والد صاحب اصرار کر کے مجھے کسی غیر مسلم چیلے کے پاس لے گئے، جو ہمارے گاؤں سے تین کلومیٹر موضع شہرک میں رہتا تھا۔ میں کسی غیر مسلم کے پاس نہیں جانا چاہتا تھا۔ لیکن والد صاحب نے اس شخص کی اتنی تعریفیں کیں کہ میرا اِحتجاج دھرا رہ گیا۔ وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے۔ وہاں بے شمار لوگ اپنے اپنے مسائل لے کر آئے ہوئے تھے۔ اپنی باری کے لیے میں بھی وہاں بیٹھ گیا۔ میں نے نوٹ کیا کہ حاجت مندوں میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی تھی جو اپنی چوری یا گمشدہ چیزوں کی بازیابی کے لیے دعائیں کروانے آئے ہوئے تھے۔ مسئلہ سن کر چیلے صاحب زور سے سر گھما کر کوئی منتر جنتر پڑھتے تھے، پھر سائل کو اس کے مسئلے کا حل پیش کردیتے تھے۔ میری باری پر مجھے بھی اندر بلا کر انہوں نے میرا مسئلہ پوچھا اور کئی بار سر گھمانے کے بعد کہا‘‘تمہارے عزیزوں میں سے کسی حاسد نے کچھ کر دیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نہیں بھی کیا ہو؟’’۔میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی ، میں نے وضاحت چاہی تو اس نے چند پڑیا ں میرے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا:‘‘یہ ایک ہفتے کی خوراک ہے ، خالی پیٹ انگوری سرکے کے ساتھ کھا لیا کریں۔’’ میں نے اس نسخے پر عمل کیا تو تیسرے ہی دن میرے پیٹ سے خون آنے لگا۔ بعد میں یہ خبر آئی کہ وہ چیلے صاحب پکڑے گئے، کیونکہ وہ چوروں کے بڑے گروپ کی سرداری کر رہے تھے اور خود چوریاں کروا کر چند چوری کی چیزیں بچوں یا عورتوں کے ذریعے متعلقہ یا ان کے عزیزوں کے گھروں میں رکھوا دیتے تھے۔ جب سائل چوری کے بارے میں معلومات لینے آتے تو جھوٹے جنتر منترپڑھ کر ان چیزوں کی نشان دہی کر دیتے کہ فلاں جگہ یا فلاں عزیز کے گھر میں اس جگہ پڑی ہیں۔ یہ کام وہ اتنی مہارت اور ڈرامے بازی سے کرتے تھے کہ ان کے عقیدت مندوں کو شبہ تک نہیں ہوتا تھا۔ جاہل لوگ بڑے بڑے نذرانے پیش کرتے تھے، جو ان کی اضافی آمدنی کا سبب بنتے تھے۔ بہر حال وہ پکڑے گئے اور اپنے ساتھیوں سمیت جیل چلے گئے۔ اِدھر میں نے حکیم سے اپنا علاج شروع کرایا، مگر پوری طرح افاقہ نہیں ہوا۔ میں نے سمبڑیال کے ایک پیر کے بارے میں سنا کہ وہاں نہر کے کنارے سنتھا نامی گاؤں میں رہتے ہیں، وہ صرف دعا بتاتے ہیں اور مریض تندرست ہوجاتا ہے۔ لوگوں نے اِس پیر کے بارے میں مجھے بتایا کہ وہ مجذوب ہیں اور کسی سے کچھ لیتے نہیں ہیں۔

            میرے دل میں پھر کھد بُد ہوئی کہ چلو ایک تجربہ اور سہی۔ پہلے والا شخص غیر مسلم تھا اور اس نے اچھا خاصا نذرانہ بھی لیا تھا۔ مجذوب آدمی کی دعا میں واقعی تاثیر ہوتی ہے، کیوں نہ یہ دعا بھی اُن سے کروا لوں۔ میں وقت نکال کر ان کے گاؤں پہنچ گیا۔ نہر کے کنارے واقع ایک بڑے سے کمرے میں ان کا قیام تھا۔ کمرے کے آگے جلی ہوئی راکھ کے اتنے بڑے بڑے ڈھیر لگے ہوئے تھے، جیسے راکھ کی پہاڑیاں ہوں۔ وہاں لاتعداد مٹی کے برتن بھی پڑے ہوئے تھے۔ جگہ جگہ لوگ لکڑیاں اور اپلے جلا رہے تھے۔بہت سے لوگ برتنوں میں نہر سے پانی بھر کر آگ بجھا رہے تھے۔ پہلے مجھ پر ان عجیب و غریب مناظر کا مطلب واضح نہیں ہوا۔ حیران و پریشان پیر صاحب کے کمرے میں داخل ہوا۔ کئی لوگ ان کے پلنگ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے اور پیر صاحب ایک چھوٹی سی قمیص میں تقریباً ننگے پلنگ پر لیٹے تھے۔ میں نے ادب سے سلام کیا۔ انہوں نے شانِ بے نیازی سے مجھے دیکھا اور جواب دیتے ہوئے پوچھا‘‘کیوں آئے ہو؟’’میں نے اپنی تکلیف بتاتے ہوئے کہا :‘‘حضرت اگر آپ میری صحت کے لیے دعا فرمادیں تو میں ساری عمر مشکور رہوں گا۔’’ انہوں نے باہر کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے کہا:‘‘جاؤ باہر جا کر پہلے آگ جلاؤ، پھر پانی بھرو اور وہ آگ بجھا کر میرے پاس آؤ۔’’میری سمجھ میں اب آگ جلانے اور بجھانے والے منظر کا مطلب آگیا تھا۔ میں بھی کچھ دیر بعد اسی منظر کا حصہ بن گیا۔ قریبی ٹال سے کچھ لکڑیاں اور اپلے خریدے اور آگ جلا کر بیٹھ گیا۔ جب وہ بجھنے کے قریب ہوئی، یعنی سب چیزیں راکھ بننے کے قریب ہوگئیں تو برتن لے کر نہر سے پانی لے کر اُسے بجھا دیا اور پھر پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ وہ بدستور اسی پوزیشن میں ننگے لیٹے ہوئے تھے۔ میں نے کہا:‘‘حضرت میرے حق میں دعا فرما دیں۔’’ انہوں نے پھر انگلی اٹھا کر باہر کی طرف اشارہ کر کے کہا:‘‘جاؤ آگ جلاؤ، پانی بھرو اور وہ آگ بجھاؤ’’ میں نے عرض کیا:‘‘حضرت یہ کام تو میں کر چکا ہوں۔’’وہ کہنے لگے :‘‘جاؤ یہ کام پھر کرو۔’’ پاس بیٹھے لوگوں نے کہا:‘‘انکار مت کرو حضرت جو کہتے ہیں کرو۔’’ بادل نخواستہ میں نے یہ عمل ایک بار پھر دہرایا۔ دعا کرانے پھر پیر صاحب کے پاس آیا۔ اس وقت وہ کمرے میں اکیلے تھے۔ میں نے ادب سے کہا:‘‘ حضرت میں دوبار لکڑیاں اوراُپلے جلا چکا ہوں، اب تو میرے لیے دعا فرما دیں۔’’وہ میرے لہجے پر تھوڑا سا مسکرائے اشارہ کر کے مجھے اپنے قریب آنے کے لیے کہا۔ میں نے اس پر عمل کیا۔ انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور کہا:‘‘اسے چھو کر دیکھو’’ میں نے ہاتھ پکڑا تو وہ گرم ہورہا تھا۔ یقینا انہیں تیز بخار تھا۔ وہ کہنے لگے:‘‘ایک ہفتے سے بخار میں جل رہا ہوں۔ اگر میری دعا میں اتنی تاثیر ہوتی تو سب سے پہلے میں اپنا بخار اتارتا۔ مجھے تم پڑھے لکھے اور باہر کے کسی علاقے کے لگتے ہو، تم کِن چکروں میں پڑ گئے۔ یہ سب دنیاوی جنجال ہے، کچھ لو اور دو کے نام پر لوگوں کے دھندے چل رہے ہیں۔ تم اپنی صحت سے مت کھیلو، شہر جاؤ اور کسی اچھے سے ڈاکٹر کو جا کر دکھاؤ۔ اللہ بھلا کرے گا اور میرے لیے بھی دعا کرنا۔’’

            یہ کہہ کر اس مجذوب یا پیر( جو چاہے سمجھیں) نے کروٹ بدل لی۔ گویا اس نے صاف کہہ دیا تھا:‘‘میاں اپنا وقت برباد مت کرو اور جاؤ۔’’ میں ہکا بکا رہ گیا۔ دل میں اس شخص کی عقیدت تو نہیں، البتہ عزت پیدا ہوگئی کہ اس نے گول مول الفاظ میں سچائی اگل دی تھی۔ جب بعد میں اس کی بات پر مزید غور کیا تو اور زیادہ واضح ہوگئی کہ یہ ٹال والے کا گورکھ دھندا تھا۔ اس کا ایندھن اس نام نہاد پیر کی وجہ سے دھڑا دھڑ بک رہا تھا اور وہ پیر صاحب کو یقینا اس کے عِوض کچھ دیتا ہوگا۔ ہمارے جاہل اور معصوم لوگ ان کے ہاتھوں بے وقوف بن رہے تھے اور جانے کب تک بنتے رہیں گے۔

(بشکریہ جنگ مڈ ویک میگزین)