خود کش حملے

مصنف : وسعت اللہ خان

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : فروری 2009

آپ میں سے اکثر نے کلاسیکی انگریزی فلم سیمسن اینڈ ڈیلائلہ اگر دیکھی نہیں تو اس کا تذکرہ ضرور سنا ہوگا۔ دیومالائی سیمسن جس کا ذکر بائبل میں بھی ہے۔ اسکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسکی ساری طاقت سر کے بالوں میں تھی۔لیکن اگر خودکش حملوں کی تاریخ کا تذکرہ کیا جائے تو سیمسن بلاشبہ پہلا معلوم خودکش حملہ آور تھا جس نے غضبناک ہوکر اپنے دشمنوں کی عبادت گاہ کے ستون اکھاڑ ڈالے اور حریفوں سمیت دب کے مرگیا۔

گیارھویں صدی میں حسن بن صباح کے فدائین مسلمان تاریخ میں اولین خودکش حملہ آوروں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ سترھویں صدی میں تائیوان کے جزیرے پر حملہ آور ولندیزی سپاہیوں نے شکست کے بعد زندہ گرفتاری دینے کے بجائے خود کو اپنے کچھ حریفوں سمیت بارود سے اڑا لیا۔ انیسویں صدی میں جب برطانویوں نے لنکا پر قابض ہونے کی کوشش کی تو وہاں کے سنہالہ گوریلے بارود لے کر کھوکھلے درختوں میں چھپ جاتے تھے اور برطانوی فوجیوں کے قریب آنے پر خود کو اڑا لیتے تھے اور اپنے ساتھ کچھ حملہ آوروں کو بھی لے مرتے تھے۔خودکش حملہ بطور سیاسی ہتھیار سب سے پہلے اٹھارہ سو اکاسی میں استعمال ہوا جب ایک پولش شخص اگناسی ہرونسسکی نے زار نکولس اول کی گاڑی پر دستی بم سے حملہ کیا۔ حملہ آور مارا گیا اور زار نے چند روز بعد زخمی حالت میں دم توڑ دیا۔ بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں جب جاپانیوں نے شمالی چین اور مانچوریا پر قبضہ کیا تو ایک مقامی سپاہی نے اپنے جسم سے کئی گرینیڈ باندھ کر خود کو بیس جاپانی سپاہیوں سمیت مار ڈالا۔ جبکہ دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپانی پائلٹوں نے بموں سے بھرے طیاروں کو امریکی و برطانوی بحریہ کے جہازوں سے بطور خودکش ہتھیار ٹکرانے کا کامیاب استعمال کیا۔ ان فضائی کارروائیوں کے لئے کاما کازی حملوں کی اصطلاح وجود میں آئی۔ایسے خودکش پائلٹوں کو جاپانی سماج میں ہیرو کا درجہ دیا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مشرقِ وسطی میں خودکش حملوں کی ٹکنیک ایک جاپانی انتہا پسند گروپ ریڈ آرمی نے متعارف کروائی۔ پہلی خود کش کارروائی لبنانی شیعہ تنظیم حزبِ اللہ کے ایک فدائی نے انیس سو بیاسی میں ایک اسرائیلی فوجی ٹھکانے کے خلاف کی۔ لیکن سب سے مشہور کارروائی انیس سو تراسی میں ہوئی جب بیروت میں ایک خودکش بمبار نے بارود سے بھرے ٹرک کو امریکی فوج کے مرکز سے ٹکرا دیا اور دو سو سے زائد فوجی ہلاک ہوگئے۔ اسکے بعد فرانسیسی فوجیوں کے خلاف بھی یہی نسخہ استعمال ہوا۔حزب اللہ سے یہ تکنیک لبنان کی حزب الدعوۃ، امل ملیشیا ، لبنانی کیمونسٹ پارٹی، سوشلسٹ نصیری آرگنائزیشن اور فلسطینی تنظیموں حماس اور اسلامک جہاد اور وہاں سے مصر کی جماعۃ الاسلامیہ نے مستعار لی۔ علیحدگی پسند کردش ورکرز پارٹی نے جنوبی ترکی میں متعدد خودکش حملے کئے۔ سری لنکا کے تامل ٹائگرز نے مبینہ طور پر یہ طریقہ اگرچہ مشرقِ وسطی سے درآمد کیا لیکن پھر اس میں ایسی ایسی ندرتیں پیدا کیں کہ اپنے اساتذہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ انیس سو ستاسی سے سن دو ہزار تک دنیا میں جتنے بھی خودکش حملے ہوئے ان میں سے پچاس فیصد تامل ٹائگرز نے کئے۔ سن دو ہزار تین میں امریکی قبضے کے بعد عراق اس معاملے پر اول نمبر پر آگیا اور موجودہ سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران پاکستان میں ہونے والے خودکش حملوں نے عراق، افغانستان اور سری لنکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ انیس سو تراسی میں دنیا میں صرف پانچ خود کش حملے ہوئے تھے جن کی تعداد دو ہزار سات میں ساڑھے چار سو سے تجاوز کرگئی۔اب تک امریکہ سے انڈونیشیا تک تیس ممالک خودکش حملوں کا شکار ہوچکے ہیں۔اور یہ تعداد کم ہوتی نظر نہیں آرہی۔ خود کش حملہ اپنا غصہ ظاہر کرنے کی انتہائی شکل ہے۔لیکن جو شخص شدید غصے میں بھی ہو اور خودکش حملہ آور بھی نہ بن سکے وہ اپنا دل کیسے ہلکا کرے۔اس سوال کا جواب گزشتہ ہفتے بغداد میں صدر بش بر برسنے والے دو جوتوں کی شکل میں ظاہر ہوچکا ہے۔ بیشتر حکمرانوں کے لیے یہ کوئی اچھی خبر نہیں۔