شفاعت کا صحیح تصور

مصنف : معظم ثاقب

سلسلہ : نقطہِ نظر

شمارہ : فروری 2009

اس بات پر اس امت کے جلیل القدر علماکا اتفاق رہا ہے کہ قیامت میں شفاعت اللہ تعالی کے اذن کے ساتھ مشروط ہے تاہم جناب معظم ثاقب نے اس کو صرف جہنم سے نکالنے کے لیے خاص کر دیا ہے ۔ مصنف کی یہ بات مزید تحقیق کی متقاضی ہے ۔ اگر کوئی صاحب علم اس بات کو آگے بڑھانا چاہیں یا اس پر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیں تو سوئے حرم کے صفحات اس کے لیے حاضر ہیں۔

            دین کی بنیادی بات یہ ہے کہ خدا نے انسانوں کو آزمائش کی غرض سے دنیا میں بھیجاہے اور ایک دن وہ اُن سب کو اپنے حضور جمع کرے گا، پھر ہر ایک کو اُس عمل کے مطابق بدلہ دے گا جو اُس نے دنیا میں کیا ہو گا۔ اِ س مقصد کے لیے صرف شریعت اور اعمالِ صالحہ کی تفصیل و ترغیب ہی نہیں دی گئی بلکہ ایمان و عقائد کی وہ فکری بنیاد بھی واضح کردی گئی ہے جس کے بغیرعملِ صالح کچھ بھی کام آنے والا نہیں۔

            اگر عقائد کو غلط تصورات سے آلودہ کرلیا جائے تو درحقیقت وہ بنیاد ہی کھوکھلی پڑجاتی ہے جس پر عمل صالح کی عمارت کھڑی کرنا مقصود ہے۔ یہ ہماری کم قسمتی ہے کہ ہم نے قرآن وسنت کی پاکیزگی کے ہوتے ہوئے بھی اپنے ایمان و عقائد کو کئی فکری نجاستوں سے آلودہ کرلیا ہے۔

             ایسی ہی ایک فکری آلودگی دیگر اُمتوں کی طرح مسلمانوں میں بھی شفاعت کے غلط تصور کی صورت میں درآئی ہے۔ اسی لیے ہم نے کوشش کی ہے کہ اِس تحریر میں شفاعت کے تصور کو اِس کی اصلی صورت میں واضح کیا جائے۔

نجات کی بنیاد

            یہ قرآن کا امتیاز ہے کہ اِس نے ان تمام جاہلی تصورات کا خاتمہ کردیا جن کے مطابق دین ، خدا اور آخرت پر ایمان اور عملِ صالح نہیں بلکہ دیوتاؤں، فرشتوں، نبیوں ، بزرگوں اور راہبوں کے ساتھ فرضی یا نسلی عصبیت اور ان سے وابستہ بے بنیاد آرزوؤں کا مجموعہ بن چکا تھا۔ جس شخص کا خداکے دین ، اس کی کتاب اور اس کے پیغمبرﷺ سے معمولی سا بھی تعلق ہے اِس پر یہ بات پوری طرح واضح ہونی چاہیے کہ آخرت میں نجات کا دارومدار اِس بات پر نہیں کہ وہ کس نسل، قوم ، گروہ یا مذہب کے ماننے والوں میں پیدا ہوا یااُن کے ساتھ زندگی بسر کی بلکہ ہرشخص کے لئے نجات ایمان اور عملِ صالح پر منحصر کی دی گئہے ۔قرآن مجید نے متعد د مقامات پر اس کو واضح کیا ہے مثلاً:

‘‘ بے شک جو لوگ ایمان لائے(یعنی مسلمان) اور جو یہودی ہوئے اور نصاریٰ اور صائبی، ان میں سے جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لایا اور نیک عمل کئے تو اس کے لیے اس کے رب کے پاس اجر ہے اور نہ ان کے لیے کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ’’ (بقرہ 62 )

‘‘آرزوئیں نہ تمہاری پوری ہونی ہیں نہ اہل کتاب کی۔ جو کوئی برائی کرے گا اس کا بدلہ پائے گا اور وہ اپنے لئے اللہ کے مقابل کوئی کارساز اور مددگار نہ پا سکے گا’’(نساء 123)

            اسی طرح یہ بات بھی بہت سے مقامات پر آخری درجے میں واضح کردی گئی ہے کہ آخرت کی کامیابی صرف اسی کا حق ہے جس نے دنیا میں ہی آخرت کے لیے کچھ کمائی کرلی ہو گی ۔ جس شخص نے دنیا میں خدا کی ہدایت سے منہ موڑااور آخرت کے لیے صرف بدی کمائی ،دوزخ اس کا مقدر ہے۔

‘‘اور قیامت کے دن ہم میزانِ عدل قائم کریں گے تو کسی جان پر ذرا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اور اگر کسی کا رائی کے دانہ کے برابر بھی کوئی عمل ہو گا تو ہم اُس کو موجود کر دیں گے اور ہم حِساب لینے کے لئے کافی ہیں’’ (انبیا 47)

‘‘اور ہر جان جو کمائی کرتی ہے وہ اُسی کے کھاتے میں پڑتی ہے اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اُٹھائے گا’’ (انعام 164)

‘‘ ہر ایک پائے گا جو کمائے گا اور بھرے گا جو کرے گا’’ (بقرہ 286 )

‘‘اور ہم نے تم کو ایک قریب آ جانے والے عذاب سے آگاہ کر دیا ہے۔جس دن آدمی اپنی اُس کمائی کو دیکھے گا جو اُس نے آگے کے لئے کی ہو گی اور کافر کہے گا: کاش میں مٹی ہوتا’’(النبا 40)

قرآن اور شفاعت

ر وزِ محشرمیں شفا عت

‘‘اور اُس دن سے ڈرو جس دن کوئی جان کسی جان کے کچھ کام نہ آئے گی اور نہ اُس سے کوئی معاوضہ قبول ہو گا، نہ اُس کو کوئی شفاعت نفع پہنچائے گی اور نہ ان کی کوئی مدد ہی کی جا سکے گی’’(بقرہ 123)

‘‘ اے ایمان والو !جو کچھ ہم نے تم کو بخشا ہے اِس میں سے خرچ کرو اِس دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ تو خریدوفروخت ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ کسی کی شفاعت نفع پہنچائے گی او رجو لوگ انکار کرنے والے ہیں ، اپنے اوپر اصلی ظلم ڈھانے والے یہی ہیں’’ (بقرہ254)

قرآن اُن لوگوں کی حسرت کا ذکر کرتا ہے جو یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ انہیں خدا کی پکڑ سے کوئی ہستی بچالے گی، وہ ڈھونڈیں گے مگر کوئی سفارشی نظر نہ آئے گا، وہ پکاریں گے مگر کوئی جواب نہ دے گا اور اگر کسی کے سامنے ایسی ہستی کو لایاجائے گا تو وہ بھی ان کی امیدوں کی تردیدکردے گی۔

‘‘ اور بالآخر آئے تم ہمارے پاس اکیلے اکیلے جیسا کہ ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا تھا سب تم نے پیچھے چھوڑا اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کے بارے میں تمہارا گمان تھا کہ وہ تمہارے معاملے میں ہمارے شریک ہیں۔ تمہارا رشتہ بالکل ٹوٹ گیا اور جو چیزیں تم گمان کیے بیٹھے تھے سب ہوا ہوگئیں ’’ (انعام94 )

‘‘…… تو ہیں کوئی ہمارے سفارشی کہ ہماری سفارش کریں یا ہے کوئی صورت کہ ہم دوبارہ لوٹائے جائیں کہ اس سے مختلف عمل کریں……’’ (اعراف 53)

قرآن کا مشورہ

‘‘اور وہاں اُن کے اولیاء میں سے کوئی نہیں ہو گا جو خدا کے مقابلے میں اُن کی کوئی مدد کر سکے اور جس کو خدا گمراہ کر دے تو پھر اُس کے لئے کوئی راہ نہیں ہے۔اور اپنے رب کی دعوت پر لبیک کہو، قبل اِس کے کہ اللہ کی طرف سے ایک ایسا دِن آ دھمکے جو ٹالا نہ جا سکے۔ اُس دن تمھارے لئے نہ کوئی پناہ ہوگی اور نہ تم کسی چیز کو رد کر سکو گے’’ (شورٰی46-47 )

‘‘ کہہ دو : اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اللہ تمام گناہوں کو بخش دے گا وہ بڑا ہی بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے اور رجوع کرو اپنے ربّ کی طرف اور اس کے مطیع بن جاؤ قبل اس کے کہ تم پر عذاب آدھمکے ، پھر تمہاری کوئی مدد نہیں کی جائے گی’’ (زمر54,53 )۔

‘‘ تم اِسی (قرآن) کے ذریعے سے خبردار کرو ان لوگوں کو جو ڈر رکھتے ہیں۔اِس بات کا کہ وہ اپنے ربّ کے پاس اکھٹے کئے جائیں گے ۔ اِس حال میں کہ ان کے سامنے نہ     کوئی حامی ہوگا نہ شفیع، تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں ’’ ( انعام 51)۔

‘‘ کیا انہوں نے اللہ کے مقابلے میں دوسروں کو سفارشی بنارکھا ہے؟ کہو: اگرچہ نہ یہ کچھ اختیار رکھتے ہوں اور نہ کچھ سمجھتے ہوں؟ کہہ دو سفارش تمام تراللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے اور جب صرف اللہ کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل کڑھتے ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جب اس کے سوا دوسروں کا ذکر آتا ہے تو یہ خوش ہوجاتے ہیں۔ کہو کہ اے اللہ، آسمانوں اور زمین کے پیداکرنے والے، غائب و حاضر کے جاننے والے! تو اپنے بندوں کے درمیان اس چیز کے باب میں فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں ’’ (زمر 43-46)۔

دنیا میں شفاعت

            قیامت کا دن تو بعد کی بات ہے، دنیا میں بھی کوئی شخص اگر عقل و فطرت کی رہنمائی سے فائدہ نہ اُٹھائے اور غیب میں رہتے ہوئے ماننے کے بجائے بلاواسطہ (Direct) یعنی اپنے حواس کے ساتھ خدائی قانون کا مشاہدہ کرلے تو پھر اس کی مہلت ختم ہوجاتی ہے۔ ایسے موقع پر نہ اپنی توبہ کچھ نفع دیتی ہے اور نہ ہی کسی دوسرے کی سفارش کچھ مفید ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ آخری وقت میں موت کو سامنے دیکھ کر نہ تو فرعون کی توبہ قبول کی گئی اور نہ ہی اللہ کے جلیل القدر رسولوں کے پیارے ان کی شفاعت سے کچھ نفع پاسکے۔

‘‘ نبی اور مومنین کے لیے روا نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے مغفرت مانگیں اگرچہ وہ قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں ، جبکہ ان پر یہ ظاہر ہوچکا ہو کہ یہ جہنم میں جانے والے لوگ ہیں اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے مغفرت مانگنا صرف اس عہد کے سبب تھا جو اس نے اس سے کرلیا تھا۔ پھر جب اس پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس نے اس سے برا ت کا اعلان کردیا۔ بے شک ابراہیم بڑا ہی رقیق القلب اور بردبار تھا ’’ (توبہ113 - 114)۔

 جب حضرت نوحؑ نے اپنے بیٹے کے لیے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے منع کردیا ۔

‘‘ فرمایا اے نوح ! وہ تمہارے اہل میں سے نہیں ہے۔ وہ نہایت نابکار ہے۔ مجھ سے اِس چیز کے لیے درخواست نہ کرو جس کے باب میں تمہیں کچھ علم نہیں۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم جاہلوں میں سے نہ بنو ’’ (ھود46

اسی طرح آنحضرت ﷺ کو بھی فرمایا گیا‘‘ان کے لئے مغفرت چاہو یا نہ چاہو۔اگر تم اِن کے لئے ستر بار بھی مغفرت چاہو گے تو بھی اللہ اِن کو بخشنے والا نہیں……’’ (توبہ 80)۔

‘‘ یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے کہ تم ان سے راضی ہوجاؤ اور تم ان سے راضی بھی ہوجاؤ تو اللہ ان بدعہدلوگوں سے راضی ہونے والا نہیں ہے’’ (توبہ96)

‘‘ اور کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ اٹھانے والی نہیں بنے گی اور اگر کوئی بوجھل جان اپنے بوجھ کے اٹھانے میں کسی سے مدد طلب کرے گی تو اس میں ذرا بھی اس کی مدد نہیں کی جائے گی اگرچہ وہ قرابت مند ہی کیوں نہ ہو۔ تم تو بس انہی لوگوں کو ڈراسکتے ہو جو غیب میں رہتے اپنے ربّ سے ڈرتے اور نماز کا اہتمام کرتے ہیں اور جو پاکی حاصل کرتا ہے وہ اپنے لیے حاصل کرتا ہے اور اللہ ہی کی طرف سب کی واپسی ہے ’’ (فاطر18)۔

شفاعت کا صحیح تصور

‘‘اُس دن شفاعت نفع نہ دے گی سوائے اِس کے کہ خدائے رحمان جس کو اجازت دے اور جس کے لئے کوئی بات کہنے کو پسند کرے’’ (طٰہٰ 109)۔

اِس آیت میں اللہ کی اجازت کی شرط کے ساتھ شفاعت کا جواز ثابت ہوتا ہے مگر قبل اس کے کہ ہم اس تفصیل میں جائیں کہ شفاعت کی اجازت کس کو اور کِس کے لئے ہے، یہ بات غور طلب ہے کہ یہ معاملہ کِس مرحلہ میں ہو گا۔

شفاعت کا مرحلہ

            قرآن کے مطابق یوم القیامہ محض ایک دن نہیں بلکہ ایک پورا دَور ہے جِس میں زبردست تباہی کے نتیجے میں سب انسانوں کی موت، پھر سب کا دوبارہ اُٹھ کھڑے ہونا ، میدانِ محشر میں جمع ہونا، حساب کتاب کے بعد جنت اور دوزخ کی طرف روانگی، جنتیوں کی عیش اور شکرگزاری اور جہنمیوں کی تکلیفیں، آہ و پکار اور پچھتاوہ سب شامل ہیں۔اِس طویل دور میں پیش آنے والے ہر مرحلے کے لئے قرآن مجموعی طورپرایک ہی دن، یوم القیامہ(یعنی روزِقیامت) جیسے الفاظ استعمال کرتا ہے تا ہم قرآن ہی سے اُن تمام واقعات اور مراحل کی ترتیب بھی واضح ہو جاتی ہے۔

            شفاعت کی اجازت کو اگر حساب کتاب کے مرحلے سے متعلق کر دیا جائے تو ایک طرف جہاں اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کئے گئے اِس اصول کی نفی ہو جاتی ہے کہ مغفرت صرف اچھے اعمال کے ساتھ ممکن ہے اور برے اعمال کا نتیجہ لازماََ برا ہو گا وہیں ان واضح آیات کا بھی انکار ہو جائے گا جن کے مطابق مجرم خواہ مسلمان ہو یا کوئی اور، اُسے کسی کی شفاعت سزا سے نہیں بچا سکتی۔

            سورۃالنبا کی آیت ۱۸ سے جو سلسلہء کلام شروع ہوتا ہے اس میں روزِقیامت کے ابتدائی حالات، نیک و بد لوگوں کا انجام اور جنت و دوزخ کی زندگی میں ان کے حالات بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بتایاکہ یہ خدا کی طرف سے ان کے اعمال کا صلہ ہو گا۔ پھر ارشاد ہوا کہ جس ربِ رحمان کی طرف سے یہ سب کچھ ہو گا اس کے سامنے فرشتے بھی صف بستہ کھڑے ہوں گے اور اس وقت صرف وہی بات کر سکے گا جسے خدا کی طرف سے اِجازت ملے گی۔ ساتھ ہی مزید کسی غلط فہمی سے پہلے واضح کردیا کہ اس موقع پر بھی کوئی ناحق بات نہیں کی جا سکتی جس سے اللہ کے فیصلے میں کسی خلافِ عدل تبدیلی کی توقع کی جاسکے۔

‘‘ جس دن جبرائیل اور فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے، کوئی بات نہیں کرے گا مگر جس کو ربّ رحمان اجازت دے اور وہ بالکل ٹھیک بات کہے گا’’(النبا 38)۔

سورۂ مریم میں تو اس سے بھی زیادہ واضح طور پر شفاعت کے مرحلے کا تعین ہو جاتا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سلسلۂ کلام میں بھی اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے ہدایت کی راہ اورنیک اعمال کو نجات کی بنیاد قرار دیا، پھر مجرموں کو برے انجام کی خبر دی اور اُن کے لئے اُس پشت پناہی کا انکار کیاجس کی انھیں امید ہے ، پھر یہ بیان فرمایا جب نیک و بد لو گ اپنے اپنے انجام کی طرف روانہ کر دیے جائیں گے اُس وقت اگر اللہ چاہے تو کسی کو سفارش کی اجازت مل سکتی ہے۔

‘‘ جس دن ہم خدا ترسوں کو خدائے رحمان کی طرف گروہ در گروہ لے کر جائیں گے اور مجرموں کو جہنم کے گھاٹ کی طرف ہانکیں گے ، پیاسے۔ کسی کو شفاعت کا اختیار نہیں ہوگا مگر اس کو جس نے اللہ کے پاس کوئی عہد حاصل کرلیا ’’ ( مریم 85-87 )۔

             اِس ساری بحث کو اگر قرآن کے دیگر اصولوں کی روشنی میں سمیٹا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ شفاعت کا مرحلہ حساب کتاب کے نتیجے میں لوگوں کے جنت اور جہنم میں داخل ہو جانے کے بعد کا مرحلہ ہے۔یعنی اللہ کے بے لاگ قانون کے نفاذ کے بعداہلِ جنت جب اپنے پیاروں کو دوزخ میں دیکھیں گے تواُن کی بخشش کی آرزُو کریں گے۔ یہ ایک بالکل فطری جذبہ ہے مگر اللہ تعالیٰ کے جلال کے آگے بے بسی اور خاموشی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ تاہم اُن کی یہ آرزو چونکہ خیرخواہی کے جذبے پر مبنی ہوگی لہٰذا توقع ہے کہ جن لوگوں کے جرائم اتنے سنگین نہیں ہوں گے ، انھیں کچھ سزا دینے کے بعد اللہ تعالیٰ ان کے حق میں کسی کواپنی اِس آرزُو کے اظہار کا موقع دے دیں۔ مگر یہ شفاعت بھی کوئی ایسی چیز نہیں ہوگی جو صرف شفاعت کرنے والوں کی خواہش یا ان کے ساتھ تعلق کی وجہ سے مجرموں کو عذاب سے بچالے گی۔ جرم کی سزا کاٹے بغیر چارہ نہ ہوگا اور کسی باطل کے لیے کوئی شفاعت نہیں ہوگی۔

‘‘ اور اس کے ہاں کوئی شفاعت کارگر نہ ہوگی مگر اس کے لیے جس کے لیے وہ اجازت دے۔ یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے دہشت دور ہوگی، وہ پوچھیں گے کہ تمہارے ربّ نے کیا حکم فرمایا؟ وہ جواب دیں گے کہ بالکل حق ارشاد ہوا اور وہ نہایت عالی مقام اور عظیم ہے ’’ ( سبا 23)۔

قرآنی آیات کا خلاصہ

            اب تک کی بحث میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں، آگے بڑھنے سے پہلے ان کا خلاصہ دیکھ لینا ضروری ہے تاکہ پچھلی بحث کے اختتام کے ساتھ ساتھ اگلی بحث کے لیے تمہید فراہم کی جاسکے۔

٭انسان جو عمل دنیا میں کرے گا صرف اسی کمائی کے ساتھ روزِ قیامت خدا کے سامنے حاضر ہوگا۔

 ٭ذرہ برابر نیکی یا بدی بھی انسان کے سامنے پیش کردی جائے گی۔

 ٭ایمان اور عمل صالح کے بغیر نجات کی کوئی راہ نہیں۔ مجرم اپنے جرائم کی سزا لازماً بھگتیں گے۔کوئی فدیہ یا سفارش قبول کئے بغیر گناہگاروں کو جہنم اور پرہیزگاروں کو جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔

 ٭جزاو سزا کے نفاذ کے بعد اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے کسی کی درخواست سنے اور جس کے لیے چاہے قبول کرے۔

 ٭اس موقع پر جو درخواست قبول ہوگی وہ عین حق و اِنصاف کی بات ہوگی۔

٭اس بات کا امکان موجود ہے کہ کچھ مسلمانوں کے بارے میں شفاعت سُنی ہی نہ جائے یا قبول نہ کی جائے۔کچھ لوگ شفاعت کے بجائے ان لوگوں کے خلاف گواہی دے دیں گے جو اُن کی شفاعت کی اُمیدلگائے دنیا میں غافل پڑے رہے تھے۔

حدیث اور شفاعتِ رسولﷺ

 عمل کی حقیقت اور شفاعت کی نفی

جہاں تک عمل کی حقیقت کا تعلق ہے آپﷺ نے نہایت خوبصورت انداز میں سارا مضمون صرف ایک جملے میں بیان فرمادیا کہ‘‘ جس کا عمل اسے پیچھے کرے اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھائے گا ’’ (صحیح مسلم، بحوالہ مشکوٰۃ۔ علم کا بیان) یہی نصیحت آپ ؐ نے اپنے اقرباء اور اہل و عیال کو بھی فرمائی کہ ان کے ساتھ تعلق کی وجہ سے وہ دیگردنیاوی فوائد اور برکتیں توحاصل کرسکتے ہیں لیکن کوئی شخص اگر اپنی خطاؤں کی وجہ سے اللہ کے حضور پکڑا گیا تو آپ ؐاس معاملے میں کسی مدد کا اختیار نہیں رکھتے۔

‘‘ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جب آیت وانذر عشیرتک الاقربین نازل ہوئی (تو)نبی ؐنے قریش کو بلایا، وہ جمع ہوئے۔ آپؐ نے خطاب میں تعمیم و تخصیص کی۔ فرمایا اے کعب بن لوئی تم اپنی جانوں کو آگ سے بچاؤ۔ اے بنی مرہ بن کعب تم اپنی جانوں کو آگ سے بچاؤ، اے بنی عبد شمس تم اپنی جانوں کو آگ سے بچاؤ، اے بنی عبد مناف تم اپنی جانوں کو آگ سے بچاؤ،اے بنی عبد المطلب تم اپنی جانوں کو آگ سے بچاؤ، اے فاطمہ تو اپنی جان کو آگ سے بچا۔ پس بے شک میں اللہ کے ہاں تمہارے لیے کسی بات کا مالک نہ ہوں گا۔ اس بات کے سوا کہ تمہارے لیے قرابت کا حق ہے جس کو اس کی تری کے ساتھ ترکرتا ہے ’’ (مسلم بحوالہ مشکوٰۃ ،ڈرانے اور نصیحت کرنے کا بیان)

‘‘ فرمایا اے قریش کی جماعت تم اپنی جانوں کو خرید لو میں تمہیں اللہ سے کچھ کفایت نہ کروں گا اور اے بنی عبد مناف میں تمہیں اللہ سے کچھ کفایت نہ کروں گا ، اے عباس بن مطلب میں تمہیں اللہ سے کچھ کفایت نہ کروں گا ، اور اے صفیہ رسولؐ اللہ کی پھوپھی میں تمہیں اللہ سے کچھ کفایت نہ کروں گا ، اور اے فاطمہ محمد ﷺ کی بیٹی تو میرے مال سے جو چاہے مجھ سے مانگ لے ، میں تجھے اللہ سے کچھ کفایت نہ کروں گا’’۔ (بخاری، مسلم بحوالہ مشکوٰۃ ڈرانے اور نصیحت کرنے کا بیان)

غلط فہمی کی تصحیح

روایات میں آنحضرتﷺ کی طرف سے اپنی اُمت کی جس شفاعت کا ذکر ملتا ہے وہ شفاعت قیامت کے دن حساب کتاب کی کسی سختی کو ٹالنے کے لیے نہیں بلکہ جہنم میں جل بُھن کر کوئلہ ہوچکے لوگوں کی سزا پوری ہوجانے پر اللہ تعالیٰ کی اجازت سے انہیں باہر نکالنے کا معاملہ ہے۔اس کے سِوا ہمارے خیال میں کسی شفاعت کا قرآن و حدیث میں ذکر نہیں۔

‘‘حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ‘‘ جب جنت والے جنت اور جہنم والے جہنم میں داخل ہوجائیں گے، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو تم اس کو نکال لو، ان کو نکالا جائے گا، وہ جلے اور کوئلہ بنے ہوں گے۔ ان کو ‘‘ نہر حیاۃ’’ میں ڈالا جائے گا …… ’’ ( بخاری، مسلم )

بخاری اور مسلم کی انتہائی تفصیلی روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسے جہنمی لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہی آپ ؐ شفاعت فرمائیں گے مگر اس کے لیے بھی ایک حد مقرر کی جائے گی اور وہ یہ کہ جتنا کسی جہنمی کے دل میں ایمان رَہا ہوگا اس کے حساب سے اللہ تعالیٰ ایک خاص مدت تک اس کو جہنم میں جلائیں گے، تب آپؐ کو اجازت دی جائے گی کہ اب انہیں جہنم سے نکال لاؤ۔ پھر اسی طرح مرحلہ وار کم سے کمتر ایمان والے لوگ باہر نکالے جائیں گے تاکہ ہر کوئی اپنے جرم کے بقدر سزا بھگت لے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جن کی شفاعت تو کی جائے گی مگر اللہ تعالیٰ اُن کی شفاعت سے آپ ﷺ کو منع فرما دیں گے۔یعنی بالکل وہی معاملہ ہو گا جو ہم اِس سے پہلے قرآن کی آیات میں پڑھ چکے ہیں۔

‘‘ اور حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ بے شک نبی ﷺ نے فرمایا : روزِ قیامت مومن روک لیے جائیں گے حتیٰ کہ وہ اس بات کی فکر کریں گے، وہ کہیں گے اگر ہم اپنے ربّ کی طرف شفاعت طلب کریں وہ ہمیں ہماری اس جگہ سے راحت پہنچائے۔ …… ]آگے بیان ہے کہ وہ حضرت آدمؑ کے پاس جائیں گے اور اسی طرح بہت سے نبیوں سے ہوتے ہوئے حضرت محمد ؐ کے پاس جائیں گے کیونکہ باقی سب اپنے آپ کو شفاعت کے لائق نہ سمجھیں گے[…… فرمایا تو وہ میرے پاس آئیں گے۔ میں اپنے رب کے پاس اس کے در کی اجازت طلب کروں گا۔ مجھے اس پر اجازت دی جائے گی۔ جب میں اس کو دیکھوں گا، میں سجدے میں گِر جاؤں گا۔جب تک اللہ چاہے وہ مجھے (بحالت سجدہ) چھوڑ دے گا۔وہ فرمائے گا اے محمد! اپنا سراُٹھاؤ، کہو ،سُنا جائے گا، سفارش کرو قبول کی جائے گی اور سوال کرو عطا کیا جائے گا۔ فرمایا میں اپنا سر اٹھاؤں گا۔ میں اپنے رب کی ایسی ثنا اور حمد کروں گا جو وہ مجھے سِکھائے گا پھر میں سفارش کروں گا پس میرے لئے حد مقرر کی جائے گی۔ میں نکلوں گا پس اُن کو جہنم سے نکالوں گا اور جنت میں داخل کر دوں گا۔ پھر میں دوبارہ لوٹوں گا، میں اپنے رب سے اس کے در کی اجازت طلب کروں گا۔ مجھے اس پر اجازت دی جائے گی۔ جب میں اس کو دیکھوں گا، میں سجدے میں گِر جاؤں گا۔جب تک اللہ چاہے وہ مجھے (بحالت سجدہ) چھوڑ دے گاپھر فرمائے گا اے محمد! سراُٹھائیے کہو ،سُنا جائے گا، سفارش کرو قبول کی جائے گی اور سوال کرو عطا کیا جائے گا۔ فرمایا میں اپنا سر اٹھاؤں گا۔ میں اپنے رب کی حمدکے ساتھ ایسی ثنا ء کروں گا جو وہ مجھے سِکھائے گا پھر میں سفارش کروں گا پس میرے لئے حد مقرر کی جائے گی۔ میں نکلوں گامیں اُن کو نکالوں گا اور اُن کوجنت میں داخل کر دوں گا۔ پھر میں تیسری مرتبہ لوٹوں گا، میں اپنے رب سے اس کے در کی اجازت طلب کروں گا۔ مجھے اجازت دی جائے گی۔ جب میں اس کو دیکھوں گا، میں سجدے میں گِر جاؤں گا۔جب تک اللہ چاہے وہ مجھے (بحالت سجدہ) چھوڑ دے گاپھر فرمائے گا اے محمد! سراُٹھائیے، کہو سُنا جائے گا، سفارش کرو قبول کی جائے گی اور سوال کرو عطا کیا جائے گا۔ فرمایا میں اپنا سر اٹھاؤں گا، میں اس کی حمدکے ساتھ ایسی ثنا کروں گا جو وہ مجھے سِکھائے گا پھر میں سفارش کروں گا پس میرے لئے حد مقرر کی جائے گی۔ میں نکلوں گا، پس میں اُن کو جہنم سے نکالوں گا اور اُن کوجنت میں داخل کر دوں گا حتٰی کہ جہنم میں صرف وہی باقی رہے گا جس کو قرآن نے روکا ہو یعنی اس پر ہمیشگی واجب ہو گی۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی ‘‘ قریب ہے کہ تیرا رب تجھے مقامِ محمود پر پہنچا ئے’’ فرمایا یہ وہ مقامِ محمود ہے جس کا اُس نے تمہارے نبی سے وعدہ کیا ہے’’ ( بخاری، مسلم ۔ بحوالہ مشکوٰۃ)

اِس سلسلے کی ایک روایت میں حضور ﷺ کی طرف سے ‘‘ یا رب اُمتی اُمتی’’ اے میرے رب میری امت، میری امت!) کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ وہ اس طرح سے ہیں۔

‘‘……میں اپنے رب پر اجازت طلب کروں گا، مجھے اجازت دی جائے گی۔ وہ مجھے کلماتِ حمدالہام کرے گاجن کے ساتھ میں اُس کی حمد کروں گا جو اِس وقت مجھے معلوم نہیں۔ اور میں اُس کے لئے سجدہ میں گِر جاؤں گا۔ کہا جائے گا اے محمد! اپنا سر اُٹھائیے کہو سُنا جائے گا، سوال کرو عطا کیا جائے گا اور سفارش کرو قبول کی جائے گی۔ میں کہوں گا اے میرے رب میری امت، میری امت! ( یا رب اُمتی اُمتی) کہا جائے گا چلئے نکالئے جس کے دل میں ذرہ یا رائی کے دانے کے برابربھی ایمان ہو۔ میں چلوں گا، میں ایسا کروں گا۔ پھر میں لوٹوں گا…………کہا جائے گا چلئے نکالئے، جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابربھی ایمان ہواُس کو جہنم سے نکالو……’’

اس کے بعد یہ تفصیل بھی ملتی ہے کہ ‘‘ میں کہوں گا اے میرے ربّ مجھے (اب) اجازت دیجیئے اُس شخص کے بارے میں (بھی)جس نے کہا ہو لا الہ الااللہ ، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے یہ آپ ؐکے لیے نہیں ہے…… ’’ (بخاری، مسلم۔ بحوالہ مشکوٰۃ)

  [اختصار کے پیشِ نظر یہ روایت پوری نہیں لکھی گئی]

             معلوم یہ ہوا کہ یہ روایت بھی قانونِ الٰہی کے تحت کچھ جہنمیوں کو جہنم سے نکالنے کا معاملہ ہے جونبیﷺ اللہ کی اجازت کے تحت کریں گے۔یعنی یہ معاملہ بھی ہر امتی کے لیے نہیں ہو گا۔

‘‘اور حضرت سہل بن سعد ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا میں حوض پر تمہارا ، امیر سامان ہوں گا۔ جو میرے پاس سے گزرے گا، پیئے گا اور جو پیئے گا اس کو کبھی پیاس نہ لگے گی۔ ضرور میرے پاس ایسی قومیں آئیں گی جن کو میں پہچانوں گا اور وہ مجھے پہچانیں گے ۔ پھر میرے اور ان کے درمیان (کچھ) حائل کردیا جائے گا۔ میں کہوں گا وہ مجھ سے ہیں، کہا جائے گا بے شک آپﷺ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپؐ کے بعد کیا کیا نئی (بدعتیں) پیداکردی تھیں۔ تو میں کہوں گا دوری ہو دوری ہو ان لوگوں کے لیے جنہوں نے میرے بعد (دین کو) متغیرکردیا ’’ ( بخاری، مسلم ۔ بحوالہ مشکوٰۃ)

 یعنی معمولی ایمان پر بھی جہنم سے نکل جانا بالآخر اُنہی کو نصیب ہوگا جنہوں نے شرک و بدعت اور دوسرے کئی ایسے جرائم سے اپنے آپ کو بچاکے رکھا ہوگا جن کی سزا قرآن نے ہمیشہ ہمیشہ کی جہنم بیان کی ہے ۔اسی لیے آپؐ نے اپنی شفاعت سے بھی صرف انہی لوگوں کو جہنم سے نکالنے کا ذکر کیا جنہیں قرآن نہ روک لے۔ان لوگوں کا جہنم میں رہنا چندلمحوں کا ہوگا یا ہزاروں برس کا یہ تو معلوم نہیں لیکن جو لوگ گرمی کا موسم آنے پر بلبلا اٹھتے ہیں، وہ اس آگ میں ایک لمحہ بھی کیسے گزاریں گے جس کی تپش اس دنیا کی آگ سے بھی ستر گنا زیادہ بتائی گئی ہے۔پھر یہی نہیں بلکہ جہنم سے نکل جانا اگر کسی کونصیب ہوبھی گیا تب بھی اس پر جہنم کا لیبل چسپاں رہے گا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے کمتر درجہ کے جنتیوں کو جہنمی ہی پکارا جائے گا۔

 ‘‘حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ بے شک نبی ؐ نے فرمایا کچھ قوموں کو آگ کے شعلے پہنچیں گے ان گناہوں کی سزا میں جو انہوں نے کیے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل و رحمت سے جنت میں داخل کرلے گا۔ ان کو ‘‘ جہنمی ’’ کہا جائے گا’’ (بخاری۔بحوالہ مشکوٰۃ ) ‘‘ حضرت عمران بن حصینؓ فرماتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا کچھ لوگ محمدﷺ کی سفارش کے ساتھ جہنم سے نکلیں گے، وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ ان کا نام ‘‘جہنمی’’ رکھا جائے گا’’ (بخاری۔بحوالہ مشکوٰۃ )

‘‘ میری اُمت سے ایک قوم میری شفاعت کے ساتھ جہنم سے نکلے گی، ان کا نام ‘‘جہنمی ’’ رکھا جائے گا’’ (بخاری۔بحوالہ مشکوٰۃ )

حاصل کلام

قرآن و حدیث کی روشنی میں غور کرنے کے بعد اس احقر کی رائے یہ ہے کہ بلا شبہ شفاعت ثابت ہے مگر اتنی ہی جتنی اللہ چاہے گا اور جس کے لیے چاہے گا۔ اورجس کو اللہ کا اذن ہو گا وہ بھی اتنی ہی شفاعت کر سکے گا جتنی اللہ چاہے گا۔ اور ہمارے خیال میں یہ شفاعت بھی لوگوں کو جہنم سے نکالنے کے لیے ہو گی نہ کہ جہنم سے بچانے کے لیے۔ واللہ اعلم بالصواب