بات سے بات

مصنف : وسعت اللہ خان

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : جنوری 2009

            ایسی کون سی سرحدی لکیر، قبیلہ یا دریا ہے جس نے کبھی اپنی جگہ نہ بدلی ہودنیا کا ایسا کون ساخطہ ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ اس کا نام ساتویں آسمان سے اترا ہے اس لیے کبھی تبدیل نہیں ہوسکتا۔یا کسی نے سنا ہے کہ فرانسیسیوں نے ایک دوسرے کو اس لیے کھری کھری سنائی ہوں کہ ان کے خطے کا نام گال سے فرانک اور فرانک سے فرانس کیوں ہوگیا یا جرمنی میں اس بات پر تلواریں نکل آئی ہوں کہ کس مائی کے لال میں جرات ہے کہ پراشیا کا نام جرمنی رکھ سکے یا فارس کا نام ایران ناجائز ہے یا نجد و حجاز کو سعودی عرب کہنا بے غیرتی ہے یا سیام کو تھائی لینڈ پکارنا قوم دشمنی ہے۔یا سیستان کا نام افغانستان رکھ دینا بہت بڑی تاریخی زیادتی ہے یا ریاست ماسکووی کو کیا پڑی تھی کہ اپنا نام روس رکھ لے یا حبشہ کو کون سا احساسِ کمتری تھا کہ اس نے خود کو ایتھوپیا اور طرابلس نے خود کو لیبیا کہلوانا پسند کیا۔ نیوانگلینڈ کے آباد کاروں کو کیا پڑی تھی کہ وہ اس علاقے کو امریکہ کہنا شروع کر دیں یا سیلون نام میں ایسی کون سی خرابی تھی کہ اب وہاں کے لوگ اسے سری لنکا کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اگر نام واقعی پتھر کی لکیر ہوتے تو جو خطہ تیرہ اگست انیس سو سینتالیس کو ہندستان کہلواتا تھا وہ چوبیس گھنٹے بعد پاکستان کیسے ہوگیا۔ قلات اچھا بھلا نام تھا اسے بلوچستان کہنے کی کیا منطق تھی۔ قدیم صوبہ ٹھٹھہ سندھ کیسے ہوگیا۔ سندھ بمبئی کیوں پکارا جانے لگا اور پھر واپس سندھ کیوں ہوگیا۔ ریاست بہاولپور، صوبہ ملتان اور صوبہ لاہور کہاں غائب ہو گئے اور صوبہ پنجاب کہاں سے آگیا۔ اس تناظر میں یہ خبر کیسی لگتی ہے کہ اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں اراکین کے درمیان اس پر گالم گلوچ ہوگئی کہ شمال مغربی سرحدی صوبے کا نام پختون خواہ کیوں لیا جا رہا ہے۔ انگریزوں نے جس طرح کبھی گندھارا، کبھی سیستان، کبھی کابل، کبھی قندھار تو کبھی پنجاب کا حصہ کہلائے جانے والے اس سرحدی علاقے کو ایک بے نام صوبے کے طور پر تشکیل دیا اسی طرح ہندوستان میں سنٹرل پراونس اور یونائیٹڈ پراونس کے نام سے بھی دو صوبے بنائے گئے جنہیں عرفِ عام میں یوپی سی پی کہا جاتا ہے لیکن آزادی کے بعد جب صوبے کو ریاست اور سی پی کو مدھیہ پردیش اور یوپی کو اتر پردیش کہا جانے لگا تو اس سے نہ تو بھارت کی تاریخ مسخ ہوئی اور نہ ہی اتحاد پارہ پارہ ہوا بلکہ انہی ریاستوں کی کوکھ سے چھتیس گڑھ اور اترا کھنڈ کی ریاستیں بھی نکلیں۔ اگر انگریزوں کے عطا کردہ خطابات اور تمغوں کی طرح نام بھی اتنے ہی مقدس ہیں تو پھر لائل پور کو فیصل آباد، کیمبل پور کو اٹک اور فورٹ سنڈیمن کو ژوب سے بدلنے کی کیا ضرورت تھی۔ کیسی عجیب بات ہے کہ محمد اسلم اگر اپنا نام رفیق احمد رکھنا چاہے تو یہ کام صرف پچاس روپے کا اخباری اشتہار دینے سے ہوجاتا ہے لیکن دو کروڑ آبادی کے صوبے کی اسمبلی اپنے بینام صوبے کو نام دینا چاہے تو وفاق کی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ بنگال سے مشرقی بنگال، مشرقی بنگال سے مشرقی پاکستان اور مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش !

ایک ہی حادثہ تو ہے، اور وہ یہ کہ آج تک

بات نہیں کہی گئی، بات نہیں سنی گئی