گم شدہ لوگ

مصنف : عبدالحی کاکڑ

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : جنوری 2009

            گزشتہ سات سال سے لاپتا اور مبینہ طور پر ‘خفیہ ایجنسیوں’ کی تحویل میں ہونے والے علی اصغر بنگلزئی کی بارہ سالہ بچی زرینہ بی بی سے میں نے جوں ہی اس کے والد کے بارے میں پوچھا تو اس کی زبان گنگ ہوگئی، حلق سے جو بھی آواز نکلی ہچکیوں میں ڈھل گئی اور کمرے میں موجود ہر شخص کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔

            کوئٹہ کے غریب علاقے شاہوانی روڈ کی کچی آبادی کی ایک تنگ سی گلی میں واقع مٹی سے بنا یہ مکان گزشتہ سات برس سے ماتم کدہ بنا ہوا ہے۔ اہل خانہ کے مطابق ٹیلر ماسٹر علی اصغر بنگلزئی اٹھارہ اکتوبر دو ہزار ایک سے مبینہ طور ‘خفیہ ایجنسیوں’ کی تحویل میں ہیں۔

اس گھر کا چھوٹا سا کمرہ علی اصغر کی والدہ، اہلیہ، چھ بیٹوں، دو بیٹیوں اور خاندان کے دیگر افراد سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا اور ہر کوئی دکھ کی ایک طویل داستان سنا رہا تھا۔

            مجھے ان کی گمشدگی کے حوالے سے عدالتوں میں دائر کی گئیں درخواستوں، سیاستدانوں کی خفیہ ایجنسیوں سے اس حوالے سے رابطوں کے حوالے سے دی گئی تفصیلات پر مشتمل خطوط، احتجاجی مظاہروں کی تصاویر، اخباری بیانات کی ایک بہت بڑی فائل دکھائی گئی۔ مگر میری دلچسپی اس فائل میں نہیں بلکہ ایک ایسے خاندان کے افراد کی زندگیوں میں تھی جو کئی برسوں سے ایک مسلسل اذیت اور کرب سے گزر رہا ہے۔

            علی اصغر بنگلزئی کی اہلیہ نے روتے ہوئے بتایا کہ ‘شوہر کی گمشدگی کے بعد گھر میں ہر وقت ماتم رہتا ہے’ میرے تمام بچوں کی تعلیم چھٹ گئی ہے، پریشانی کی وجہ سے مجھے دل کا عارضہ اور بلڈ پریشر کی بیماری لاحق ہوگئی ہے’۔

 تھوڑا بولنے کے بعدوہ رونے لگی۔ پرویز مشرف کی حکومت کے خاتمے اور جمہوری حکومت کے قیام کے باوجود میرے شوہر کو ٹارچر سیل میں رکھا گیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان کا کیا حشر کیا جا رہا ہوگا’۔ علی اصغر کی والدہ کہنے لگیں ‘میرے بیٹے کی غیر موجودگی میں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے زمین مجھے لمحہ بہ لمحہ کھا رہی ہے۔ جب کبھی بھی خوشی کا کوئی موقع آتا ہے تو ہم مسکرانے کی بجائے اس کی یاد میں آنسو بہاتے رہتے ہیں’۔ علی اصغر بنگلزئی کی گمشدگی کے بعد ان کے تقریباً سترہ سالہ بیٹے غلام فاروق طالبعلم تھے جب کہ آج وہ گھر کا خرچہ چلانے کے لیے درزی بن گئے ہیں۔

انکے بقول ‘جب میرے والد کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا تو اس وقت وہ میرے چھوٹے بہن بھائیوں کو صبح سکول لے جایا کرتے تھے اور اسکے بعد اپنی ٹیلرنگ شاپ پر چلے جاتے مگر گمشدگی کے بعد ہم سبھی نے تعلیم چھوڑ دی۔ میں نے اور چھوٹے بھائیوں نے تعلیم چھوڑ کر گھر کا خرچہ چلانے کے لیے والد کی دکان سنبھال لی ہے’۔ علی اصغر کے اہل خانہ ان کی رہائی کے بارے میں خدا سے پرامید مگر حکومتِ وقت سے نا امید ہوچکے ہیں۔

(بشکریہ ، بی بی سی ڈاٹ کام)