عراق کی کہانی اور تاریخ کا سبق

مصنف : اینڈریو نارتھ

سلسلہ : حالاتِ حاضرہ

شمارہ : جنوری 2009

            اس وقت جب برطانیہ عراق سے فوجیں واپس بلانے کی تیاری کر رہا ہے بغداد میں بی بی سی کے سابق نامہ نگار اینڈریو نارتھ ماضی پر نظر ڈالتے ہیں کہ کہیں تاریخ اپنے آپ کو دہرا تو نہیں رہی؟

            ‘‘جیسے ہی مزاحمت تیز ہوئی ایک برطانوی سفارتکار کی طرف سے ملنے والا خط یوں تھا‘ہم مزاحمت میں گھر چکے ہیں اور تشویش کا شکار ہیں۔۔۔ہمارے پاس اس سے نمٹنے کے لیے فی الحال ضروری فوج نہیں’۔ ایک ماہ بعد اس نے لکھا ‘اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہم یہاں پر بری طرح ناکام ہو گئے ہیں’۔

             یہ مزاحمت دراصل وہ ہے جو انیس سو بیس میں برطانوی فوج کے خلاف ان علاقوں میں ہوئی جو اب عراق کا حصہ ہیں۔ خط گرٹروڈ بیل نے لکھا تھا۔

            بیل عرب امور کی ماہر تھیں اور عراق کا نقشہ تیار کرنے کا سہرا ان کے سر باندھا جاتا ہے۔ انہوں نے انیس سو اکیس کے اواخر میں لکھا تھا کہ ‘صبح دفتر میں جنوبی عراق کی سرحد کا تعین کرنے میں اچھا وقت گزر گیا۔’ بیل کے خطوط اور ڈائریاں پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ وہ شاید سن دو ہزار تین کے بعد کے واقعات کا ذکر کر رہی ہیں جب کہ امریکہ اور برطانیہ کی گرفت اس ملک پر کمزور پڑ رہی ہے جسے انہوں نے فتح کیا تھا۔

            برطانیہ کی عراق میں مداخلت کا تازہ ترین باب اپنے انجام کے قریب ہے کیونکہ حکومت عنقریب آئندہ سال کے دوران زیادہ تر فوج کی واپسی کے نظام الاوقات کا اعلان کرنے والی ہے۔

            جامعہ لندن کے کوین میری کالج میں عراقی امور کے ماہر ٹوبی ڈاج کا کہنا ہے کہ اس خطے کی موجودہ صورتحال کا نوے سال پہلے والی صورتحال سے کئی طرح سے موازنہ ہو سکتا ہے لیکن عراق پر ‘حملے سے پہلے ڈاؤننگ سٹریٹ اور نہ ہی دفتر خارجہ میں تاریخ کو قطعاً کوئی اہمیت دی گئی’۔

             گرٹروڈ بیل کی طرف سے عراق اور مشرق وسطیٰ کے دیگر علاقوں سے اپنے والدین کو لکھے گئے سینکڑوں خطوط کسی کے بھی پڑھنے کے لیے انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ بیل کی زندگی میں بہت سی مصروفیات تھیں جن میں کوہ پیمائی بھی شامل تھی لیکن ان کی زیادہ تر توانائیاں عراق کی تشکیل میں صرف ہوئیں۔

             برطانیہ نے سن انیس سو سترہ میں بغداد کو سلطنت عثمانیہ سے قبضہ میں لیا تو اسے ایک مقصدیت کا احساس تھا، اپنے عزائم پر یقین تھا اوربالکل وہی موڈ تھا جو واشنگٹن اور لندن میں اپریل سن دو ہزار تین میں صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعد تھا۔ بیل نے قابض حکومت کی انتظامیہ میں اورینٹل سیکرٹری کا عہدہ سنبھالنے کے بعد لکھا تھا کہ ‘بغداد پھولوں اور مبارکبادوں سے بھرا ہے۔ یہ ترکوں سے آزادی ملنے پر حقیقتاً خوش ہیں’۔ اس سے کچھ ہفتے قبل برطانوی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سر سٹینلے ماڈ نے بغداد کے لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ ‘ہماری فوجیں آپ کے علاقوں میں فاتح یا دشمن کے طور پر نہیں بلکہ آزادی دلانے والوں کی حیثیت سے آئی ہیں’۔

            بیل جو روانی سے عربی زبان بولتی تھیں پوری طرح برطانیہ نواز عرب حکومت کے قیام میں جت گئیں اور جلد ہی ملک کے نئے سیاستدانوں سے رابطے کا اہم ذریعہ بن چکی تھیں۔ وہ عربوں کے لیے لندن میں حکام کی بنسبت زیادہ آزادی کے حق میں تھیں۔ کچھ سالوں تک معاملات پر سکون رہے۔ اس وقت مواصلات کے جدید ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے اختلافات پھیلنے میں دیر لگتی تھی۔ آجکل عراقی مزاحمتکاروں کے پاس موبائل فون ہیں۔ اسلیے بات جلد پھیل جاتی ہے۔

            بیل نے شیعہ اکثریت کے رہنماؤں خاص طو ر پر علما کی طاقت کااندازہ لگانے میں غلطی کی۔ بیل نے انیس سو بیس میں اپنی ماں کو خط لکھا کہ ‘ان کا ماحول قدامت سے اٹا ہوا ہے۔۔۔صدیوں کی دھول سے اتنا گہرا ہو چکا ہے کہ پار نہیں دیکھا جا سکتا اور نہ ہی یہ دیکھ سکتے ہیں’۔ اسی سال شیعہ رہنماؤں نے برطانوی حکومت کے خلاف مزاحمت شروع کر دی جس سے نمٹنے میں اسے دشواری پیش آ رہی تھی۔ کچھ ہی ہفتوں کے بعد بیل نے اپنی والدہ کو لکھا کہ ‘ہمیں اب بھرپور جہاد کا سامنا ہے’۔ جیسے جیسے صورتحال خراب ہوئی لندن میں عراقی مِشن کی مخالفت میں اضافہ ہونے لگا۔ بیل نے ذمہ داری سے آنکھ نہیں چرائی۔ ‘حقیقت یہ ہے کہ ہم نے لوگوں کے لیے خودمختار اداروں کا وعدہ کیا تھا اور نہ صرف یہ کہ ہم نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس سے کچھ مختلف بنانے میں لگ گئے’۔

            بیل کے خطوط میں ایک تضاد واضح طور پر ابھرتا ہے کہ نیت چاہے جتنی بھی اچھی تھی لیکن برطانیہ ایک قابض طاقت تھی۔ بیل نے نومبر انیس سو بیس میں لکھا کہ ‘ایسا مشکل ہے کہ ہم ملک کے کونے میں برطانوی فوج کے ذریعے دیہات کو آگ لگائیں اور ساتھ ہی لوگوں کو یقین دلائیں کہ ہم نے اقتدار ان کے نمائندوں کو منتقل کر دیا ہے’۔ مزاحمت کے باوجود ایک نئی حکومت قائم ہو گئی جیسے کہ عراق میں آج ہوا ہے۔ ایک ہدف حاصل ہو گیا تھا۔ نئی حکومت برطانیہ کی حمایتی تھی اور انیس سو اکیس میں عراق ایک ریاست بن گیا۔ لیکن اس عمل میں دس ہزار عراقی ہلاک ہوئے تھے۔ شاہ فیصل اول کو اس کا سربراہ بنایا گیا۔ لیکن یہ ریاست بنیادی طور پر غیر مستحکم تھی جس کی قیادت سنی اقلیت کے ہاتھ میں تھی اور شیعہ اکثریت کو اقتدار سے باہر رکھا گیاتھا۔ بعد میں صدام حسین نے بھی اسی طرز پر حکومت قائم کی۔

            اب شیعاؤں کے لیے ‘ناانصافی’ کا ازالہ ہو گیا ہے اور اب وہ حکومت میں غالب ہیں۔ لیکن برطانوی حکومت میں زندگی کا تجربہ ان کے ذہنوں میں نقش ہے اور یہ یاد آئندہ سالوں میں سیاست کے رخ کا تعین کرے گی۔ اب سنی ہیں جو اپنے آپ کو اقتدار سے باہر محسوس کرتے ہیں۔

            گرٹروڈ بیل انیس سو چھبیس میں زیادہ مقدار میں خواب آور گولیاں لینے سے ہلاک ہو گئیں۔ بہت سے بزرگ عراقی اب بھی انہیں‘مِس بیل’ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ وہ وسطی بغداد کے ایک عیسائی قبرستان میں دفن ہیں۔

            عراق میں اب بھی ہر روز تقریباً دس سے بیس لوگ تشدد میں ہلاک ہوتے ہیں۔ کوین میری کالج کے ٹوبی ڈاج آج کی حکومت اور بیسویں صدی کے اوائل میں قائم ہونے والی ‘غیر مستحکم اور غیر نمائندہ’ حکومت میں بہت مماثلت دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک ہم سب جانتے ہیں ‘امریکی سن دو ہزار گیارہ میں عراق ایک غیر مستحکم اور غیر مقبول اشرافیہ کے حوالے کر جائیں گے جنہیں اقتدار میں رہنے کے لیے تشدد کا سہارا لینا پڑے گا’۔

            گرٹروڈ بیل اس صورتحال کو کیسے دیکھتیں؟ انہیں حالات کا اندازہ ہو گیا تھا۔ انیس سو اکیس کے اواخر میں طاقتور ہوتا امریکہ نئی عراقی ریاست کے ساتھ ایک معاہدے کی کوشش میں تھا۔ بیل نے لکھا تھاکہ‘ ‘مسئلہ تیل ہے، ایک قابل نفرت شے’’۔

٭٭٭