صومالیہ میں قزاقی ،ایک فیشن ایبل پیشہ

مصنف : عامر احمد خان

سلسلہ : حالاتِ حاضرہ

شمارہ : جنوری 2009

            بچپن میں بحری قزاقوں کے قصے الف لیلہ، سندباد، حاتم طائی یا محمد بن قاسم کے حوالے سے لکھی گئی تاریخی کتابوں میں پڑھا کرتے تھے۔ ان قصوں کے قزاق بے رحم اور ظالم ڈاکو بتائے جاتے تھے جن کا مقصد محض لوٹ مار اور قتل و غارت ہوتا تھا۔ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہلالی تلوار اور ان کا زور بازو تھا اور عام طور پر وہ کسی بحری جہاز پر قبضہ کرنے کے بعد مردوں کو قتل کر کے عورتوں کو لونڈیاں بنا لیتے تھے۔ ان کا زمین سے کوئی رشتہ نہ ہوتا تھا۔ ان سے کاروبار کرنے والے تاجر ان کی زیادہ تر ضروریات زندگی کشتیوں کے ذریعے ان کے جہازوں تک ہی پہنچا دیتے۔ اگر وہ کبھی زمین پر آتے بھی تو صرف لونڈیاں بیچنے کی خاطر ورنہ سمندر ہی ان کا گھر اور اوڑھنا بچھونا ہوتا۔ایسی بیشمار کہانیاں پڑھیں لیکن کبھی کسی رحم دل قزاق کا قصہ نظر سے نہ گزرا۔ نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ دور جدید کے کسی قزاق کے بارے میں کوئی کہانی پڑھنے کو ملی ہو۔ وجہ ہمیشہ یہی سمجھی کہ یہ گزرے وقت کے لٹیرے ہیں آجکل کے دور میں جب سطح زمین سے بارہ میل اوپر اڑتا طیارہ زمین پر پڑی ماچس کی ڈبیا کا لیبل تک پڑھ لیتا ہے، کسی کی کیا مجال کہ قزاقی کا سوچ بھی سکے۔ لیکن اس سال اندازہ ہوا کہ یہ قدیم پیشہ صرف مافوق الفطرت کہانیوں میں ہی نہیں بلکہ موجودہ دور میں ترقی یافتہ ممالک کے تاجروں کا درد سر بنا ہوا ہے۔ نہ صرف دھڑا دھڑ بحری جہاز تاوان کے لیے اغوا ہو رہے ہیں بلکہ قزاقی ایک غریب اور شورش زدہ افریقی ملک صومالیہ میں باقاعدہ ایک منافع بخش اور فیشن ایبل پیشہ بن گیا ہے۔

            پچھلے دو ہفتوں میں صومالیہ کے بحری قزاقوں نے چار بحری جہاز اغوا کیے ہیں جن میں سعودی عرب کا ایک بڑا تیل بردار جہاز بھی شامل ہے۔ گو یہ قزاق ایک عرصے سے خلیج عدن سے نکلنے والے بحری جہازوں کو نشانوں پر رکھے ہوئے ہیں لیکن ترقی یافتہ ممالک کی تمام تر سیاسی اور فوجی طاقت ان کے سامنے بے بس ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ ہماری آنکھوں کے سامنے پیدا ہوتی اور پلتی بڑھتی وہ الف لیلہ ہے جس میں بادبانی کشتیوں کی جگہ پاور بوٹس اور تلواروں کی جگہ راکٹ لانچر نظر آتے ہیں۔

            ذرا ان کی حالیہ کارکردگی پر نظر ڈالیے۔ صرف اس سال صومالیہ کے بحری قزاقوں نے خلیج عدن سے گزرنے والے بحری جہازوں پر اٹھانوے حملے کیے ہیں۔ ان کے اغوا کردہ جہازوں میں سعودی عرب کے ایک تیل بردار جہاز پر دس کروڑ ڈالر کا تیل لدا ہوا ہے اور صرف اس سال ان قزاقوں کی تاوان کی کمائی تین کروڑ ڈالر تک جا پہنچی ہے جو ان کے آبائی علاقے پنٹ لینڈ کے بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگاروں کے مطابق صومالیہ کے بحری قزاق صومالی علاقے پنٹ لینڈ میں عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں۔ پنٹ لینڈ کے ایک باسی ابی فرح جوہا کا کہنا ہے کہ ان قزاقوں کے پاس پیسہ بھی ہے اور طاقت بھی۔ نئی گاڑیاں رکھتے ہیں، جدید اسلحے سے لیس ہوتے ہیں، بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں اور حسین سے حسین لڑکیوں سے بیاہ رچاتے ہیں۔ ابی فرح جوہا کے مطابق قزاقی مقامی معاشرے کے لیے قابل قبول تو ہمیشہ سے تھی ہی، اب فیشن ابیل بھی ہو گئی ہے۔ بی بی سی کے صومالیہ کے تجزیہ کار محمد کے مطابق صومالی قزاق بنیادی طور پر تین قسم کے لوگوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ماہر مچھیرے جو مقامی پانیوں سے اچھی طرح واقف ہوں، قزاقوں کی آپریشنل ضروریات اور منصوبہ بندی سنبھالتے ہیں۔ صومالی میلیشیاؤں کے سابق رکن قزاقوں کے لیے جنگجوؤں کا کردار ادا کرتے ہیں جبکہ تکنیکی ماہرین جو سیٹیلائٹ ٹیلیفونوں اور بڑے بڑے جہازوں پر نصب جدید تکنیکی آلات چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں، صومالی قزاقوں میں تیسرے بڑے گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں بہت سے پرائیویٹ ماہرین کی خدمات بھی حاصل رہتی ہیں۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی بحری جہاز اغوا ہو کر پنٹ لینڈ پہنچتا ہے ایک بڑی تعداد میں منشی اور ثالث انہیں اپنی خدمات پیش کر دیتے ہیں۔ اب ان کے پاس پیسے کی اس قدر ریل پیل ہے کہ ہر ماہ سینکڑوں کی تعداد میں افریقی نوجوان قزاق بننے کی خواہش لیے پنٹ لینڈ پہنچ جاتے ہیں۔ صومالیہ کے بحری قزاق زیادہ تر اسلحہ بحیرہ احمر کے پار یمن یا پھر صومالی دارالحکومت موگادشو سے خریدتے ہیں۔ کچھ سال پہلے تک ایسی خبریں بھی تھیں کہ دبئی کے بڑے بڑے کاروباری شیوخ ان قزاقوں کی مالی سرپرستی کرتے ہیں لیکن آجکل یہ قزاق مالی طور پر اس قدر مستحکم ہو چکے ہیں کہ کاروباری حضرات خود ان سے قرضے لینے لگے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں ان بحری قزاقوں نے اپنے طریقہ واردات پر کافی مہارت حاصل کر لی ہے۔ جب بھی کوئی بحری جہاز ان کے نشانے پر آتا ہے، بھاری اسلحہ سے لیس آٹھ دس مسلح قزاق اس پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ جہاز کو قابو میں لیتے ہی ان کے پچاس اور ساتھی پورے جہاز میں پھیل جاتے ہیں۔ اس دوران تقریباً اتنے ہی ساحل پر ان کی مدد کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اس تیزی سے پھیلتے کاروبار سے عام تاجر لوگ بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ علاقے کے کچھ لوگوں کے مطابق بحری قزاقوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور دیدہ دلیری پورے علاقے کے لیے نئے مسائل کھڑے کر رہی ہے۔ ایک مکین کا کہنا ہے کہ یہ لوگ اتنا کھلا خرچ کرتے ہیں کہ صرف ان کی شاہ خرچیوں کی وجہ سے پورے علاقے میں مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ قزاقوں میں بھرتی کے لیے سینکڑوں مسلح نوجوانوں کی پنٹ لینڈ آمد سے امن عامہ کا مسئلہ بھی کھڑا ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو قزاقوں کی موجودگی اور کارروائیوں کو علاقے کے لیے مفید سمجھتے ہیں۔ کیونکہ بحیرہ احمر سے گزرنے والے بحری جہازوں کو تاوان کے لیے اغوا کیا جاتا ہے اس لیے یرغمالی عملوں سے بہت اچھا سلوک ہوتا ہے۔ پنٹ لینڈ میں ایسے کئی ریستوران کھل چکے ہیں جن کا کاروبار بنیادی طور پر یرغمالیوں کے لیے انواع و اقسام کے کھانے بنانے اور ان کی دیگر ضروریات پوری کرنے پر چلتا ہے۔ اس کے علاوہ نئی گاڑیوں اور لیپ ٹاپ کمپیوٹر بیچنے والوں کی بھی چاندی ہو گئی ہے۔ علاقے کے لوگوں کے مطابق مقامی انتظامیہ کبھی بھی نہ تو قزاقوں اور نہ ہی ان کے کاروبار سے متعلق لوگوں کی سرکوبی میں سرگرم نظر آئی ہے۔ مقامی تجزیہ کار اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ یہ سب کچھ صومالیہ یا کم از کم پنٹ لینڈ کی مقامی انتظامیہ کی ملی بھگت کے بغیر ہونا ممکن نہیں۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انہیں اتنی کھلی چھٹی کیوں دی جا رہی ہے؟ مقامی لوگوں کے مطابق وہ لوگ جو آج بحری قزاقوں کے لیبل سے جانے جاتے ہیں دراصل ان خدائی خدمتگاروں کی ارتقائی شکل ہے جنہوں نے پہلے پہل صومالیہ کو غیر قانونی ماہی گیری سے بچانے کے لیے ہتھیار اٹھائے تھے۔ غالباً دس سال قبل صومالیہ کے پانیوں میں غیر قانونی ماہی گیری اس قدر بڑھ گئی تھی کہ اس نے مقامی ماہی گیری کی صنعت کو برباد کر ڈالا تھا۔ چنانچہ جب ان قزاقوں نے غیر قانونی ماہی گیری کے خلاف ہتھیار اٹھائے تو انہیں مقامی آبادی کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان قزاقوں کے حوصلے بڑھتے گئے اور وہ صومالی پانیوں میں سے گزرنے والے ہر قسم کے جہاز پر نظر رکھنے لگے۔ بہت سے جہاز غیر قانونی سرگرمیوں کے الزام میں اغوا ہونے لگے اور یوں قزاقی نے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آجکل بحیرہ احمر کے آس پاس کے ممالک اور سعودی عرب کے علاوہ کئی مغربی ممالک بھی قزاقی پر قابو پانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ لیکن تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ معاملہ اب مقامی سیاست سے اس قدر جڑا ہوا ہے کہ اس کا کوئی فوری حل شاید نہ نکل سکے۔