ہندستانی ریاست اور مشکوک مسلمان

مصنف : شکیل اختر

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : اگست 2010

            ہندوستان میں مسلمان ملک کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہی نہیں بلکہ آبادی کے اعتبار سے انڈیا میں مسلمانوں کی تعداد دنیا میں تیسرے نمبرپرہے۔ جمہوری ہندوستان میں آئین کی رو سے انہیں مساوی حقوق اور مواقع حاصل ہیں لیکن ہندستان کی ریاست، حکومت اور ملک کے مسلمانوں کے درمیان آزاد ہندستان میں جو اعتماد کا رشتہ قائم ہونا چاہیئے تھا وہ قائم نہیں ہو سکا ہے۔

            ہندستان تیزی سے ترقی کے راستے پر گامزن ہے اور مسلمانوں کا ایک طبقہ تیزی سے بدلتے ہوئے ہندستان میں اپنا مقام حاصل کر رہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی مسلمانوں میں حکومتوں کے تئیں بے اعتمادی کے جذبات بھی نمایاں ہیں۔مسلم پرسنل لابورڈ کے ایک سرکردہ رکن اور ترجمان سید محمد قاسم رسول الیاس کہتے ہیں کہ بے اعتمادی کا یہ عالم تو آزادی کے بعد سے ہی قائم ہے۔‘مسلمانوں کو حکومتوں سے جو جائز توقعات ہوتی تھیں وہ کبھی پوری نہیں ہوئیں جس کے نتیجے میں بے اعتمادی بڑھی ہے۔ ملک کی تمام سیکولر جماعتوں نے مسلمانوں کو مایوس کیا ہے۔ مسلمان یہ محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں اب سیاسی طاقت جاصل کرنی چاہیئے۔’

            مسلمانوں کو حکومتوں سے جو جائز توقعات ہوتی تھیں وہ کبھی پوری نہیں ہوئیں جس کے نتیجے میں بے اعتمادی بڑھی ہے۔ڈاکٹر عمر خالدی امریکہ کے تعلیمی ادارے ایم آئی ٹی سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے ‘مسلمز ان انڈین اکونومی’ نامی کتاب لکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں جو عدم تحفظ اور عدم اعتماد کا احساس ہے اس کا اہم سبب یہ ہے کہ خود حکومت میں مسلمانوں کے متعلق سوچ واضح نہیں ہے سیاست کا بڑاطبقہ ایسا ہے جو مسلمانوں کو اب بھی اجنبی سمجھتا ہے۔ ساٹھ برس گزرنے کے بعد بھی وہ مسلمانوں کو ہی ملک کی تقسیم کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ مسلم کش فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ رہا ہے جو مسلمانوں کے لیے عدم تحفظ کا شدید مسلہ بنا رہا ہے۔’ڈاکٹر خالدی نے ہندستان میں پولیس اور فوج میں مسلمانوں کی نمائندگی کی بھی تحقیق کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ سکیوریٹی فورسز میں بقول ان کے مسلمانوں کی ‘دانستہ طور پر کمی’ تشویش کا باعث ہے۔‘ کچھ تو مسلمانوں کی اپنی تعلیمی پسماندگی اور کچھ تعصب کے سبب فوج پولیس اور خفیہ اداروں میں ان کی نمائندگی بہت کم ہے۔ پندرہ لاکھ کی فوج میں مسلمان صرف ڈیڑھ فی صد ہیں۔’ مشکل یہ ہے کہ ہمارے ملک کے مسلمان ، جو مذہبی رہنما کہے جاتے ہیں ، سوائے اس طبقے کے اور کسی کی سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اور علما کا یہ طبقہ یہ چاہتا ہے کہ حکومت وقت مسلمانوں کے لیے سب کچھ کرے اور ان کی شرط پر کرے۔حالیہ برسوں میں ہندستان کے مسلمانوں کو اگر کسی ایک واحد مسئلے نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے تو وہ ہے دہشت گردی کا سوال۔ دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری عمومًا مسلم ‘شدت پسندوں’ پر ڈالی جاتی ہے۔ مختلف واقعات میں سینکڑوں مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔لیکن تفتیش کے عمل میں خرابی اور بعض واقعات غلط ثابت ہونے کے سبب ملک کے مسلمانان خفیہ ایجنسیوں اور پولیس کے بارے میں مکمل طور پر شک و شبہات میں مبتلا ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات پر کتاب لکھنے والے مہاراشٹر پولیس کے ایک سابق انسپکٹر جنرل شمس الدین مشرف کا خیال ہے کہ ‘دہشت گردی کے سبھی واقعات مسلمانوں کے خلاف خفیہ ایجنسیوں کی سازش ہیں۔’اقلیتی کمیشن کے سابق چیرمین اور ماہر قانون طاہر محمود کہتے ہیں کہ ملک میں مرکز سمیت اکتیس ریاستی اور مقامی حکومتیں ہیں اور مسلمانوں کے بارے میں ضروری نہیں ہے کہ ہر حکومت کی سوچ ایک جیسی ہو لیکن یہ سوچنا کہ ان کے خلاف کوئی سازش کی جا رہی بالکل غلط ہے۔وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے اعتمادی کے لیے صرف حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور اقلیتی امور کے ماہر ڈاکٹر امتیاز احمد کہتے ہیں کہ سیاست میں عدم اعتماد کا مسئلہ آزادی کے وقت سے ہی رہا ہے۔ آزادی کے وقت یہ تصور تھا کہ اگر پاکستان بن گیا تو ملک میں جو حکومت بنے گی وہ ہندوؤں کی ہو گی۔ مسلمانوں نے ہر چیز کو اسی ایک نظریے سے دیکھا۔اس نے حکومت کو ہندو سماج سے الگ کر کے نہیں دیکھا۔ اس کا پورا تصور ہی یہی ہے کہ ہندوستان کی ریاست ایک ہندو ریاست ہے ۔

            اس میں دو رائے نہیں کہ ہندستان کے جمہوری نظام میں بہت سی خامیاں موجود ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ملک کے جمہوری نظام میں پختگی آ رہی ہے۔ہندستان کا مسلمان جمہوریت کا حامی اس لیے رہا ہے تاکہ اسے بھی ہندوؤں کے مساوی حق حاصل ہو سکیں۔مبصرین کا کہنا ہے کہ وہ خود اپنے معاشرے میں جمہوریت نہیں لانا چاہتا۔ ریاست اور حکومت سے عدم تحفظ اور عدم اعتماد کا احساس اس وقت جائے گا جب خود مسلمان اپنے معاشرے میں جمہوری احساس کو ابھار سکیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مسلم معاشرے میں پسماندہ مسلمانوں کے لیے رزرویشن کی مانگ، خواتین کی حالت بہتر کرنے کے لیے تحریکیں اور شادی و طلاق کے سلسلے میں بڑھتی بیداری اسی اندرونی جمہوریت کے آغاز کا اشارہ ہیں۔