شمعِ وفا

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : جولائی 2010

ایک شوہر کا اپنی بیوی کو خراج تحسین

            یہ ۱۹۹۷ کے اکتوبر کی آخر ی رات تھی ۔جوں جوں رات بیت رہی تھی اس کی بے کلی اور بے قراری میں اضافہ ہوتاجا رہا تھا۔ وہ کبھی بیٹھ جاتی اور کبھی ادھر ادھر گھومنے لگتی ۔ اسے طرح طرح کے اندیشے اور خیال آر ہے تھے۔ اس کا دلِ مضطرب مسلسل دعا میں مصروف تھا۔وہ اللہ سے اپنے شوہر کی خیریت مانگ رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اس کا خاوند کبھی وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا اور جو بات کہتا ہے اسے پورا کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتا ہے ۔ اس کے خاوند نے مغرب کے وقت اسے فون کیا تھا کہ وہ سفر سے واپس آ گیا ہے اور عشا تک گھر پہنچ جائے گا۔ اس پیغام سے وہ بہت خوش ہوئی کیونکہ وہ کم وبیش چالیس دن بعد واپس آر ہا تھا۔اس مسافر کی والدہ اور اس کے بچے الگ منتظر تھے مگر مغرب سے عشا ہو ئی وہ نہ آیا ۔ عشا کے بعد بھی رات ڈھلتی رہی، مگر وہ نہ آیا۔ ایک گھنٹہ ، دو گھنٹے ، تین گھنٹے ، مگر پھر بھی دروازے پر کوئی دستک نہ ہوئی ۔ اب تو وہ بہت مضطرب ہو گئی تھی۔آخر وہ نماز کے لیے کھڑی ہو گئی ۔ اور سجدے میں اپنے رب کوپکارتی رہی۔ نمازسے کچھ سکون ملا تو وہ بستر پر دراز ہوئی مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ ہرہر آہٹ پر چونک جاتی اور ہر ہر دستک پر تڑپ اٹھتی مگر بے سود۔ کروٹیں بدلتے بدلتے تہجد کا وقت آن پہنچا تھا۔ وہ ایک بار پھر رب کے حضور سجدہ ریز ہو گئی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اتنی بے قراری اور اضطراب بے وجہ نہیں ۔ دل تھا کہ سنبھل ہی نہیں پا رہا تھا۔

            اِدھر اس کی یہ بے قراری تھی اور اُدھر اس کا خاوند لاہور کے جنا ح ہسپتا ل میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھا۔وہ تبلیغی جماعت کے ساتھ چالیس دن کا سفر کر کے ژوب ،بلوچستان سے واپس آیاتھا اور رائے ونڈسے اس نے اپنی بیوی کو اطلاع دی تھی کہ وہ عشا کے بعد گھر پہنچ جائے گا۔حسب ِوعدہ وہ اپنے دو دوستوں کے ساتھ رائے ونڈ سے لاہور کے لیے ایک پرائیویٹ کار میں روانہ ہوا مگر ابھی رائے ونڈ سے پانچ ہی کلومیٹر دور آئے تھے کہ کا رایک ٹریکٹر ٹرالی کے ساتھ براہ راست ٹکر ا گئی ۔اللہ کی شان تھی کہ ڈرائیور سمیت اس کے دونوں ساتھی بالکل محفوظ رہے مگر تقدیر کو اس کا امتحاں مقصود تھا۔ اس کی ٹانگ تین جگہ سے اس طرح ٹوٹ گئی تھی کہ ہڈی کے بعض ٹکڑے ہی غائب ہو گئے تھے۔ہاتھ ، پسلیاں، چہرہ اور سر بھی بری طرح مجروح تھے۔پیشانی سے ایک بڑا شگاف سر کے اندر تک چلا گیا تھا اور اس میں سے بے تحاشا خون بہ رہا تھا ۔ وہ مکمل بے ہوشی میں تھا۔ اس کے ساتھیوں نے بڑی مشکل سے اسے پچکی ہوئی گاڑی میں سے نکالا اور جیسے تیسے جناح ہسپتال پہنچایامگر انہیں امید نہ تھی کہ زندگی کی شمع جلتی رہے گی۔

            رات کا اختتام ہوا چاہتا تھا۔ مساجد سے فجر کی صدا بلند ہوئی او راس نے انتہائی بے بسی کے عالم میں آسمان کی طرف دیکھا اور یا اللہ کہہ کر نظریں جھکا لیں۔بچے انتظارکر تے کرتے سو ئے تھے اس لیے فجر میں فوراً بیدا ر ہو گئے اور مسجد کی طرف بھاگے۔ ان کا خیا ل تھا کہ شاید ان کے والد مسجد میں آ چکے ہوں گے ۔ مسجد میں دیکھا تو اس کے والد کے وہ دوست تو موجود تھے جو اس کے ساتھ گئے تھے مگر والد کا کہیں پتا نہ تھا۔ یہ دیکھ کر بچے انتہائی اضطراب میں گھر کو واپس دوڑے اور ماں سے پوچھا ، امی، ابو کہاں ہیں؟ ماں نے یہ سنا تو دل تھام کے بیٹھ گئی ۔ اس یوں لگا کہ اس کے خدشات سچ ثابت ہو نے کا وقت آن پہنچا۔اسی اثنا میں وہ دوست گھر آ پہنچے ۔ان کی خاموشی ایک پوری داستان سنا رہی تھی۔ جب مسافر کی والدہ نے پوچھا کہ میرا بیٹا کہاں ہے ؟ تو انہوں نے بس یہ کہا کہ دعا کریں۔ یہ الفاظ سنتے ہی اسے یہ محسوس ہو ا کہ جیسے زمین اس کے پاؤں سے نکلی جارہی ہو یا جیسے اس کے سر سے آسمان کی چھت ہٹ رہی ہو ۔ایک بار پھر وہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ دست بدعاتھی۔ وہ روتی رہی اور روتی رہی ۔ پھر اچانک اسے یوں لگا کہ جیسے کسی فرشتے نے اس کے دل کو تھام لیا ہو۔ اس کے آنسو رک گئے تھے اور اس کا دل یقیں سے بھر گیا تھا۔ اب وہ ایک نئے عزم کے ساتھ ایک نئے سفرکے لیے تیار ہورہی تھی۔

            سورج نکل آیا تھا مگر اسے محسوس ہی نہ ہوا کیونکہ اس کا اپنا سورج جو گہنا گیا تھا۔ وہ ہسپتال جانے کی تیاری کر رہی تھی ۔ اور ساتھ ہی ساتھ تلاوت اور دعا میں مصروف تھی۔ لوگو ں کی تسلیاں اسے طفل تسلیا ں محسوس ہو رہی تھیں۔ البتہ اپنے مالک کے کرم سے اسے امید ضرور تھی کہ اس کے سر کا سائباں قائم رہے گا ۔ اس نے کہا مالک !میں اس بے رحم دنیا کی چلچلاتی دھوپ میں تنہا سفر نہیں کر سکتی تو کرم فرمادے ۔ وہ کبھی گھر سے باہر نہ نکلی تھی مگر اس کے مالک نے اسے اس مشکل گھڑی سے نبرد آزما ہونے کے لیے بے پناہ حوصلہ دے دیا تھا۔ اس نے ایک بچے کوگود اٹھایا ، ایک کو انگلی لگایا اور ہسپتال کے لیے روانہ ہو گئی۔ وہاں پہنچی تو آنسوؤں کاسیلاب پھر امڈ آیامگر اس نے انتہائی صبر سے خود کو تھامے رکھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کا خاوند نیم بے ہوشی میں ہے تا ہم پہچانتا ضرور ہے ۔ وہ اس بات پر اپنے مالک کی بے انتہاشکر گزار تھی کہ وہ ایک با رپھر اپنے شوہر کو زند ہ حالت میں دیکھ رہی تھی۔ اس نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنے شوہر کو تسلی دینے کی کوشش کی ۔تھوڑی دیر بعد اس کے شوہر نے کہا کہ اب تم گھر چلی جاؤ اسے عجیب سا لگا ۔وہ وہاں اور رکنا چاہتی تھی مگر اس کے شوہر کو یہ فکر تھی کہ اس نے اکیلے جانا ہے اس لیے رات سے پہلے پہلے گھر پہنچ جائے۔ اس کے بعد دو ہفتے مسلسل اس حال میں گزرے کہ وہ تہجد کے وقت بیدا رہوتی تو رات کے گیارہ بج جاتے مگر اسے آرام کا ایک لمحہ نہ ملتا۔مگر وہ پھر بھی مطمئن تھی کیونکہ اسے امید ہو چلی تھی کہ اس کاخاوند صحت یاب ہو جائے گا۔وہ تن تنہا اس نئے چیلنج کا سامنا کر رہی تھی۔گھرسے کبھی نہ باہرنکلنے والی یہ خاتون اب روزانہ ویگنوں میں سفر کرتی اور روزانہ ہسپتال جاتی۔وہ کئی گھنٹے وہاں ٹھہرتی اور پھر واپسی پر گھر کو سنبھالتی ۔ ایک یا دو بچوں کو وہ ہسپتال ساتھ لے جاتی اور دو کو ان کی دادی جان کے پاس چھوڑ جاتی۔اسکا دل چاہتا تھا کہ وہ ہسپتال ہی میں رہے اور اپنے خاوند کی خدمت کرے مگر اس کے گھر کو کون سنبھالتا اس لیے ہر روز وہ چاروناچار ہسپتال سے واپس لوٹ آتی۔ اس کے شوہر کے ہر ہر زخم پر پٹی بندھ چکی تھی مگر ٹانگ کے فریکچر باقی تھے ۔ ان کا آپریشن ہونا تھا مگر ڈاکٹر سر کی چوٹ سے مطمئن نہ تھے ان کا خیا ل تھا کہ آپریشن کے لیے اگر ہم نے اسے بے ہوش کیا تو یہ پھر ہوش میں نہ آئے گا۔ وہ خود بھی سر کی چوٹ سے بہت پریشان تھی کیونکہ کبھی کبھی اس کاخاوند ایسی بات کر جاتا تھا جس سے محسوس ہوتا تھا کہ اس کی یاد داشت صحیح کام نہیں کررہی یااسے پہچاننے میں دقت ہو رہی ہے ۔ او ر پھر اس دن وہ کتنی خو ش ہوئی تھی جب اس کے شوہر نے ڈاکٹر سے پوچھا تھا کہ ڈاکٹر آپ میری ٹانگ کا آپریشن کیسے کریں گے ؟ ڈاکٹر نے کہاتھا کیوں؟ تو اس نے کہا تھا کہ میرے سرہانے رکھی فائل پر سرخ روشنائی سے لکھا ہے no sedative تو آپ تو مجھے نیند کی ایک گولی بھی نہیں دے سکتے تو پھر بے ہوشی کی دوا کیسے دیں گے ،تو ڈاکٹر نے جواب میں اس کے لواحقین سے کہا تھا کہ مبارک ہو ۔ اس کا دماغ بالکل صحیح کا م کر رہا ہے اب وہ آپریشن کرے گا۔ وہ اس پر بہت خوش ہوئی تھی۔

            فریکچروں کے آپریشن کے بعد اسے گھر منتقل کر دیا گیا۔ اب اس کی مشقت میں اس حوالے سے تھوڑی کمی ہو گئی تھی کہ اسے ہسپتال نہیں جانا پڑتاتھا مگر ایک اور حوالے سے مشقت زیادہ ہو گئی تھی۔اب اس کی ڈیوٹی چوبیس گھنٹے کی ہو گئی تھی۔پہلے تو رات کو چند گھنٹے آرام کے مل جاتے تھے مگر اب وہ بھی نہ تھے۔جوں ہی وہ سونے لگتی تو اس کا شوہر آواز دیتا کہ اس کے پاؤں کویا ٹانگ کو سیدھا کر دے ، اوپر کر دے یا نیچے کر دے اور وہ پھر بیدار ہو جاتی ۔ کبھی پاؤں سہلاتی ، کبھی سر دباتی اور کبھی باتیں کر کے اسے تسلی دینے لگتی حالانکہ خود اسے تسلی کی ضرورت تھی ۔ اس نے کبھی اسے محسوس نہ ہونے دیا کہ اب وہ اس کا محتاج ہو گیا ہے حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ اب وہ اپنی بشری حاجات کے لیے بھی ہر وقت اس کا محتاج تھا۔ اس نے کبھی ماتھے پہ بل نہ ڈالا اور کبھی اکتاہٹ کا اظہا ر نہ کیا۔اگر اس کا شوہر بیماری کے ہاتھوں مجبور کوئی سخت بات کہہ بھی دیتا تو وہ ہنس کر ٹال دیتی اور کبھی شکا یت نہ کرتی۔وہ اس محتاجی کی حالت میں بھی اسے اپنے سر کا تاج سمجھتی تھی ۔اور یہ کوئی دو چار ہفتوں کی بات نہ تھی ،پورا ڈیڑھ برس اسی حال میں گزرا تھا۔اکیلی جان ، چھوٹے چھوٹے بچوں کی ذمہ داری، بوڑھی والدہ کی خدمت اور شوہر کی نگہداشت۔یہ اسی کا حوصلہ تھا کہ سب کچھ بطریق احسن ہو رہا تھا اورکسی کوبھی کوئی شکایت نہ تھی۔ اور پھروہ دن بھی آیا کہ اس کا شوہر ایک بار پھر اپنے پاؤں چلنے کے قابل ہو گیا۔ اس دن وہ کتنی خوش ہوئی تھی اور اس نے اپنے رب کاکتنا شکر ادا کیا تھا یہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ اس نے کسی کو بتایا ہی نہیں ۔ وہ کہتی ہے کہ یہ اس کا اور اس کے رب کا معاملہ ہے ۔

            اس مہیب سا ل کو گزرے تیر ہ برس ہو گئے مگر آج بھی اس کا شوہر اس کا احسان مند ہے ۔وہ اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا کہ شادی تو آئیڈیل سے دستبرداری کا نام ہے مگر ساتھ ہی کہا کرتا تھا ، لیکن دوستو، مجھے تو میرا آئیڈیل مل گیا ہے ۔ اس بھیانک سال کا ایک ایک پل اُس کے اس دعوے پر مہر تصدیق ثبت کر گیا تھا۔

            آج بھی جب کبھی وہ اس کا شکریہ ادا کرتا ہے تو وہ شرما کے کہتی ہے، جانِ من، میں نے آپ پر کوئی احسان نہیں کیاتھا بلکہ اپنا فرض اداکیا تھا ۔اور وہ سوچنے لگ جاتا ہے کہ کیا اس زمانے کی ازدواجی زندگی میں وفاداری ، محبت اور ایثارکی اس سے بہترمثال مل سکتی ہے؟ یا پھر بہتر نہیں توکیا ایک مسلمان بیوی اور مشرقی عورت کی اس جیسی مثال ہی مل سکتی ہے ؟ اور پھر اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس زمانے میں ایسی مثالیں ملنا نا ممکن نہیں تو محال ضرور ہیں۔

            اس کے شوہر کو ہمیشہ یہ اعتراف رہا اور ہے کہ اُس کی زندگی توبس دو عورتوں سے عبارت ہے ایک اُس کی ماں اور دوسری اُس کی بیوی۔اوراکثر شب تنہائی میں وقتِ نیم شب وہ جب ان عورتوں میں سے ایک کے لیے بخشش مانگتا ہے اور دوسری کے لیے سلامتی اور عافیت ،تو نہ جانے اس کی آنکھوں سے آنسو کیوں چھلک آتے ہیں ۔ اور وہ یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ یہ آنسو شکر کے ہیں یا عجز کے عجز اس بات کا کہ وہ ان دونوں کے احسانات کا بدلہ نہ ادا کر پایا۔ اور شکر اس بات کا کہ اس کے مالک نے جو بھی دیااس کی طلب سے سوِا دیا۔

٭٭٭