تین کہانیاں

مصنف : وسعت اللہ خان

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : مارچ 2010

            جنرل سرتھ فونسیکا کے دستوں نے جب گزشتہ برس کے موسمِ گرما میں دنیا کی چند سخت جان عسکری تحریکوں میں سے ایک یعنی تامل ٹائیگرز کو ختم کردیا اور ٹائیگرز کے قائد پربھاکرن کی لاش ٹی وی سکرین پر دکھا دی گئی تو سری لنکا کے صدر مہندا راجہ پکسا نے جنرل فونسیکا کو دنیا کا بہترین جنرل قرار دیا۔لیکن پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے۔صدر راجہ پکسا اور جنرل فونسیکا کے حامیوں میں بحث چھڑ گئی کہ اصل فاتح کون ہے ؟ وہ صدر جس نے ٹائیگرز کے خاتمے کے لیے سب وسائل وقف کردئیے یا وہ جنرل جس نے عملاً ٹائیگرز کا بھرکس نکال دیا!یہی بحث دونوں کو ایک دوسرے سے دور لے گئی اور جنرل فونسیکا نے اپنی مقبولیت کو آزمانے کے لیے صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ مگر انسانی حقوق کی پامالی کے خراب ریکارڈ اور مالیاتی بدعنوانی کے الزامات کے باوجود صدر راجہ پکسا نہ صرف اٹھارہ فیصد زیادہ ووٹ لے کر صدارتی انتخاب جیت گئے بلکہ تین حاضر سروس میجرجنرلوں، تین بریگیڈئیروں اور دو کرنلوں کو بھی جنرل فونسیکا کی حمائت پر برطرف کر دیا۔اور اس سارے سیاسی کھیل میں سری لنکا کی فوج نے خود کو غیرجانبدار رکھا۔

            لیفٹیننٹ جنرل اودیش پرکاش حکومت بھارت کے آٹھ کلیدی فوجی مشیروں میں شمار ہوتے تھے۔ مگرجنرل پرکاش نے مغربی بنگال کے پہاڑی صحت افزا مقام دارجلنگ میں فوجی ملکیت کی ستر ایکڑ زمین کوڑیوں کے بھاؤ ایک بلڈر کو بیچ دی۔ وزیرِ دفاع اے کے انتونی نے فوج کے سربراہ جنرل دیپک کپور سے پوچھا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ فوج کے سربراہ نے لیفٹیننٹ جنرل پرکاش اور چار دیگر فوجی افسران کو فوری ریٹائر کرکے کورٹ مارشل کا حکم دے دیا۔ اب ان افسروں کے سر پر قید اور پنشن سمیت دیگر مراعات کی ضبطی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ سن دو ہزار سے دو ہزار چھ تک بھارتی فوج سات ہزار سے زائد کورٹ مارشل کر چکی ہے۔

            جنوری کے آخری ہفتے میں بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان اور انکے اہلِ خانہ سمیت اٹھائیس افراد کو قتل کرنے والے پانچ سابق فوجی افسروں کو ڈھاکہ سنٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی۔پندرہ اگست انیس سو پچھتر کو جب شیخ مجیب الرحمان قتل کئے گئے تو جنرل ضیا الرحمان فوج کے نائب سربراہ تھے۔ قتل کے فوراً بعد بننے والی حکومت کے صدر خوندکر مشتاق احمد نے ایک خصوصی قانون بنا کر مجیب کے قاتلوں کو معافی دے دی۔اگلے گیارہ برس تک بنگلہ دیش میں فوجی حکومتیں آتی جاتی رہیں۔ شیخ مجیب کے قتل میں ملوث دو افسران نے نہ صرف سیاست میں حصہ لیا بلکہ انتخاب بھی لڑا۔جبکہ دو ملزم بیرونِ ملک سفارتی عہدوں پر بھی فائز رہے۔انیس سو چھیانوے میں جب شیخ مجیب کی صاحبزادی شیخ حسینہ وزیرِ اعظم بنیں تو معافی کا قانون منسوخ کردیا گیا اور پہلی مرتبہ دستیاب ملزموں کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ انیس سو اٹھانوے میں زیریں عدالت نے پندرہ ملزموں کو سزائے موت سنائی۔لیکن ہائی کورٹ نے اپیل سننے کے بعد تین کو بری کردیا۔ پھر شیخ حسینہ انتخابات ہار گئیں اور انکی جگہ لینے والی وزیرِ اعظم خالدہ ضیا نے عدالتی عمل کو تقریباً منجمد کر دیا۔جب دو ہزار نو میں شیخ حسینہ دوبارہ وزیرِ اعظم بنیں تو مقدمہ آگے بڑھا اور سپریم کورٹ نے بارہ ملزموں کی سزائے موت برقرار رکھی۔ یوں شیخ مجیب کے قتل کے پینتیس برس بعد پانچ مجرموں کو پھندا پہنا دیا گیا۔چھ مجرم ملک سے باہر ہیں۔ ان میں سے دو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وفات پاگئے ہیں۔

            یہ تینوں خبریں جنوری کی ہیں اور جنوبی ایشیا کی ہیں۔ اور پاکستان بھی جنوبی ایشیا میں ہے اس حوالے سے ان خبروں پر پھر غور کیجیے ۔