پیشوں اور پیشہ وروں کے نام

مصنف : ڈاکٹر سید حامد حسین

سلسلہ : لسانیات

شمارہ : مارچ 2010

ہماری سماجی زندگی میں پیشوں اور ان سے وابستہ خدمتوں کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ان پیشوں یا خدمتوں کے براہ راست بیان سے پرہیز کیا جاتا ہے اور غالباً ان پیشہ وروں کی دل آزاری سے بچنے کی غرض سے انھیں ایسے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے جو ان کی خدمتوں کی جانب محض بالواسطہ اشارہ کرتے ہیں۔ چنانچہ ان ناموں کا مطالعہ بجائے خود بڑا دلچسپ موضوع ہے۔

خدمت گار کے لیے بالعموم ‘‘ملازم’’ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ عربی لفظ دراصل ‘‘لزوم’’ سے نکلا ہے۔ جس کا مطلب چسپاں یا پیوستہ ہوتا ہے۔ اور ملازم سے وہ شخص مراد لیا گیا ہے جو اپنے مالک کے ساتھ چسپاں رہے او رہر وقت حاضر و موجود رہے۔ یعنی یہ انگریزی لفظ اٹنڈٹ کا مترادف ہے۔ بعض اوقات ہمیں کسی کام کرنے کے لیے مزدور رکھنا پڑتا ہے۔ مزدور دو لفظوں ‘‘مزد’’ اور ‘‘ور’’ سے مرکب ہے۔ ‘‘مزد’’ کا مطلب صلہ یا معاوضہ ہے اور اس طرح مزدور سے وہ شخص مراد ہے جس کی خدمات اجرت پر لی گئی ہیں۔یعنی وہ بیگاری نہیں ہے جس سے بلاومعاضہ کام لیا جائے۔ عام زبان میں مزدور کا لفظ مجور کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ محض اتفاقی بات ہے کہ ‘‘مجور’’ اس عربی لفظ ‘‘ماجور’’ سے معنوی اعتبار سے بڑا قریب ہے جس کے معنی صلہ پانے والے کے ہیں۔

خدمت گار کے لیے عام طور پر ‘‘نوکر’’ کا لفظ استعمال میں آتا ہے۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ چنگیز خاں اپنے بیٹے تولی خاں کو ‘‘نوکر’’ کہا کرتا تھا۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ابتداء ً لفظ ‘‘نوکر’’ کے معنی خدمت گار کے علاوہ کچھ اور بھی ہوتے ہیں۔ یوں خادم لڑکا یا چھوکرا کہنے کا رجحان کئی زبانوں میں ملتا ہے۔ انگریزوں نے ہندوستان، ملایا، چین، ویسٹ انڈیز وغیرہ علاقوں میں نوکروں کو بوائے کہہ کر پکارنے کا رواج ڈالا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سلیو بوائے (Slave Boy) کا مخفف ہے۔ یہ اس زمانے کی یادگار ہے جب خدمت گاروں کو پیسے دے کر خرید لیا جاتا تھا۔ ان زر خرید خدمت گاروں کے لیے اردو میں ‘‘غلام’’ کا استعمال کیا جاتا ہے حالانکہ اس عربی لفظ کے معنی ایسا نوجوان لڑکا ہیں جس کے چہرے پر مونچھیں اور داڑھی ابھی صرف روئیں کی شکل میں نمودار ہو رہی ہوں ۔ (اردو میں اس لفظ کو اپنے اصل معنی میں ‘‘اغلام’’ میں دیکھا جا سکتا ہے) اردو میں زر خرید خادم کے لیے بھی ایک ایسا لفظ ایجاد کیا گیا ہے جو متعلقہ فرد کی دل آزاری کا سبب نہ بن سکے جبکہ بعض دوسری زبانوں میں اس نوع کے الفاظ میں نفرت وحقارت کی بو محسوس کرنا دشوار نہیں ۔ انگریزی لفظ سلیو (Slave) کی ابتدا کو تلاش کرتے ہوئے ہم وسط یورپ کی سلاو (Slav) قوم تک پہنچ سکتے ہیں جس کا وطن موجودہ سرویا، چیکو سلویکیہ کے آس پاس تھا۔ سنسکرت میں غلام کے لیے ‘‘داس’’ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ دراصل ‘‘داس’’ اور ‘‘دسیو’’ وہ قومیں تھیں جن سے آریاؤں کو وسط ایشیا سے ہندوستان کی جانب پیش قدمی کرتے وقت سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن جنھیں آریاؤں نے بالآخر مغلوب کر لیا۔

خدمت گاروں کا ایک طبقہ وہ ہے جنھیں ‘‘قلی’’ کہا جاتا ہے اور جو لال وردی میں ملبوس ریلوے اسٹیشنوں پر سامان اتارتے چڑھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس لفظ ‘‘قلی’’ کو انگریزوں نے کافی رواج دیا ۔ بعض اوقات یہ سمجھا جاتا ہے کہ قلی (Coolie) وہ مزدور کہلاتے تھے جو کمروں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے چھت سے لٹکنے والے جھالر دار پنکھوں کو ڈوری سے کھینچ کر جھلایا کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریز ہر مزدور اور بوجھ اٹھانے والے کو قلی کہتے تھے۔ چنانچہ جو لوگ ماریشس، ویسٹ انڈیز، ملایا وغیرہ مزدوری کی غرض سے گئے وہ بھی قلی کہلائے۔ دراصل ‘‘قلی’’ لفظ ‘‘کولی’’ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ کولی ذات کے لوگ مغربی ہندوستان میں خاص طور پر گجرات اور کونکن علاقوں کے باشندے ہیں۔ ذات پات کی تقسیم میں کولی چمار سب سے نچلی ذاتوں میں شمار کیے جاتے تھے اور بے انتہا غربت کی وجہ سے یہ معمولی سے معمولی کام کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ اور اس طرح ان کا نام ہی مزدور کا مترادف بن گیا۔ انگریز اس لفظ کا تلفظ ‘‘کاف’’ سے کرتے تھے اردو میں قاف کے ساتھ رائج ہوا۔ اس کی وجہ ترکی لفظ قلی سے مماثلت تھی۔ ترکی لفظ غلام کے لیے بولا جاتا تھا اور ناموں میں عبد (جیسے عبد القادر) یا ‘‘غلام’’ (جیسے غلام قادر) کی طرح جنوبی ہند اور دوسرے علاقوں میں (علی قلی خاں میں) مستعمل تھا۔

بوجھ اٹھانے والوں کے لیے عام طور پر عربی لفظ ‘‘حمال’’ استعمال کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر ایسے مزدوروں کے لیے جو سواریوں سے بھاری تجارتی سامان اتارنے یا ان پر لادنے کا کا کام کرتے ہیں، لیکن ایک اور قسم کا بوجھ اٹھانے والے آج کل ہوٹلوں میں بیرے بن گئے ہیں۔ ‘‘بیرا’’ انگریزی لفظ ‘‘بیرر’’ (Bearer) کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ انگریز شروع میں اس لفظ کو پالکی اٹھانے والوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ یہ لوگ عام طور پر کہار ذات کے ہوتے تھے جو دریا یا کنوئیں سے برتنوں میں پانی بھر کر امیروں اور زمین داروں کے گھر پہنچاتے تھے۔ انھیں ان گھروں میں برتنوں وغیرہ کی صفائی کے لیے بھی رکھا جاتا تھا۔ انگریزوں کے یہاں بھی اس کام کے لیے کہار لگائے گئے۔ جو ضرورت پڑنے پر پالکی بھی اپنے کندھوں پر اٹھا کر چلتے۔ اسی مناسبت سے انگریزوں نے ان خدمت گاروں کو جو کھانے کی میز پر کھانا پہنچانے کا کام کرتے تھے، ‘‘بیرر’’ کہنا شروع کیا اور صاف ستھری سفید وردی میں ملبوس یہ خدمت گار ہندوستانی زبان میں بیرے ہو گئے۔

خدمت گاروں کا ایک طبقہ وہ ہے جو جہازوں پر معمولی خدمتیں سر انجام دیتا ہے اور خلاصی کہلاتا ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی بتاتے ہیں کہ یہ لفظ دراصل خلاسی ہے۔ عربی میں ‘‘خلس’’ ملے جلے، سیاہ اور سفید کو کہتے ہیں اور ‘‘خلاسی’’ اس بچے کو کہا جاتا ہے جس کے ماں باپ میں سے ایک گورا اور ایک کالا ہو۔ اس قسم کی ملی جلی نسل کے لوگ اکثر بندرگاہوں کے آس پاس کے علاقے میں پائے جاتے ہیں اور کیونکہ ان کی معاشی حالت اچھی نہیں ہوتی تھی اس لیے کشتیوں اور جہازوں پر مزدوری کیا کرتے تھے۔ دھیرے دھیرے جہازوں پر مزدوری کرنے والے ہر قسم کے لوگ خلاصی کہے جانے لگے۔

کشتی چلانے والے کو ہم ملاح کہتے ہیں، لیکن یہ لفظ جس عربی لفظ سے نکلا ہے اس کا مطلب کھارا یا نمکین ہوتا ہے۔ کیونکہ سمندر کا پانی کھارا ہوتا ہے۔ اس لیے اشارۃً کھارے پن سے سمندر بھی مراد لینے لگے۔ ملاح شروع میں سمندر کے پانی سے نمک بنانے والے کو کہتے تھے۔ پھر سمندر میں جانے والے کو ملاح کہنے لگے اور اب کسی بھی کشتی والے کو ملاح کہا جانے لگا۔ چاہے وہ سمندر کے کھارے پانی میں اپنی کشتی چلائے یا ندی میں یا جھیل کے میٹھے پانی میں۔

اوپر ہم نے لفظ ‘‘بیرا’’ کا ذکر کیا ہے۔ اسی کے ساتھ انگریزوں نے فارسی لفظ خانسامان کو بھی اپنایا تھا، حالانکہ انھوں نے اس کے مفہوم کو بہت محدود کر دیا۔ عہد مغلیہ میں خانسامان ایک باعزت اور بااختیار عہدہ ہوا کرتا تھا۔ خانسامان شاہی محل کے اسباب و سامان کا ذمہ دار ہوتا تھا اور شاہی محل کی ساری ضرورتوں کا اہتمام اور سارے سامان کی نگہداشت کرتا تھا۔ اسے بعض اوقات میر سامان کا نام بھی دیا جاتا تھا۔ انگریزوں کے زمانے میں خانسامان کی ذمہ داریاں باورچی خانے تک محدود ہو گئیں اور اس کا کام کھانا تیار کرنا یا کروانا، کھانے کو میز تک پہنچانا اور کھانے کے دوران ضروری خدمت کے لیے حاضر رہنا ہو گیا۔

یہی حال کچھ باورچی کے ساتھ ہوا۔ بادشاہوں اور نوابوں کے ساتھ ساتھ باورچی کی قدر و منزلت بھی جاتی رہی۔ ایک وقت وہ تھا کہ جب باورچی نہایت بھروسے والا شخص سمجھا جاتا تھا۔ ورنہ کون جانے کون سی سازش کھانے میں زہر شامل کر کے امیر کی جان لے لے۔ یہی وجہ ہے کہ باور کرنے کا مفہوم ‘‘یقین’’ کرنا ہو گیا۔ لیکن یہ تو سب بعد کی بات ہے۔ ڈاکٹر عبد الستار صدیقی بتاتے ہیں کہ اصل میں ‘‘با’’ کے معنی کھانا یا کھانا پکانا کے تھے۔ اس لیے باور کے معنی ہوئے کھانا پکانے کے فن کا ماہر یا استاد۔ اسی مناسب سے نان بائی روٹی پکانے والا ہوا اور ‘‘بازار’’ شروع میں وہ جگہ تھی جہاں کھانا پکا پکایا ملے۔

روزہ مرہ کے کاموں میں مدد دینے والوں کے نام شروع میں ان پیشوں کی بنا پر رکھے گئے جیسے سنسکرت لفظ ‘‘کنبھہ کار’’ یعنی برتن بنانے والے سے کمہار اور ‘‘چرم کار’’ یعنی چمڑے کا کام کرنے والے سے چمار کے لفظ بنے، لیکن جوں جوں تہذیب و شایستگی کا اثر گہرا ہوتا گیا، پیشہ وروں کے لیے نئے اور غیر راست الفاظ رائج ہوتے گئے۔ مثلاً جوتا بنانے والے کے لیے موچی کا لفظ اختیار کیا گیا جو فارسی لفظ ‘‘موچک’’ سے بنایا گیا تھا جس کا مطلب گھٹنوں تک پہنچنے والا جوتا ہوتا تھا۔ پیشے کے طور پر کپڑا سینے والے کو درزی کا نام دیا گیا جو کہ درز یا شگاف کو سوئی دھاگے سے سینے کا کام کرتا تھا۔ بعض اوقات اسے عربی لفظ ‘‘خیاط’’ سے بھی پکارا گیا،کیونکہ خیط لفظ کے معنی دھاگے کے ہوتے ہیں جس کی مدد سے درزی سینے کا کام کرتا ہے۔

گھر کے کام کے لیے مشک میں پانی بھر کر لانے والے کو پہلے سقہ یعنی پانی پلانے والا کہا گیا لیکن بعد میں اسے بہشتی کا نام دیا گیا۔ کیونکہ پانی پلانے والا بہشت کا حقدار ہوتا ہے۔ پھر بہشتی بگڑ کر بھشتی ہو گیا۔

کوڑا کرکٹ دور کرنے والے اور غلاظت اور گندگی صاف کرنے والے کو ‘‘بھنگی’’ کہہ کر یاد دلایا گیا کہ اس قسم کے لوگ بھنگ وغیرہ پی کر نشہ کرتے ہیں لیکن بعد میں شرافت کے تقاضے نے اس پر آمادہ کیا کہ بجائے حقارت کے مخاطب کرنے کے انھیں ‘‘مہتر’’ کہا جائے۔ ‘‘مہتر’’ کی اصطلاح رئیس اور سردار قوم کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ جیسا کہ پاکستان میں شامل ریاست چترال کے امیر کو ‘‘مہتر’’ چترال کہا جاتا تھا۔ بھنگیوں کے لیے اس اصطلاح کا استعمال کیے جانے کا سبب یہ ہوا کہ اصطبل کے داروغہ کو ‘‘مہتر اسپ’’ کہا جاتا تھا۔ بعد سائیس کو مہتر کہا جانے لگا اور اس کے بعد اصطبل کی غلاظت صاف کرنے والے کو اس نام سے موسوم کیا گیا اور پھر تو کہیں کی غلاظت اٹھانے والے کے لیے یہ نام عام ہو گیا۔ کبھی ان لوگوں کو ‘‘حلال خور’’ کہہ کر اس بات سے چشم پوشی کرنے کی کوشش کی گئی کہ انھیں مردار کھانے سے کوئی پرہیز نہیں ہوتا۔ آج کل یہ لگتا ہے کہ مہتر کا لفظ بھی بہت واضح ہو گیا ہے چنانچہ ‘‘جمعدار’’ کالفظ استعمال ہونے لگا ہے۔ جمعدار یعنی جماعت دار کا لفظ شروع میں فوج کے دوسرے نمبر کے اعلیٰ افسر کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ بعد میں اسی حیثیت کے پولیس افسر کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہونے لگا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ صفائی کرنے والے خادم کے لیے جمعدار کا لفظ جماعت کی وجہ سے نہیں بلکہ (کچرا وغیرہ) جمع کرنے والے کو فوجی افسر جیسی عزت کا احساس دلانے کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔

بال کاٹنے اور داڑھی بنانے کے کام کو حجامت کرنا کہا جاتا ہے، لیکن عربی میں حجام کے یہ معنی نہیں ہیں، بلکہ پچھوا یا سینگی لگا کر جسم کا فاسد خون نکالنے والے کے ہیں۔ کیونکہ ہندوستان میں اس قسم کا کام بھی نائی کیا کرتے تھے، اس لیے نائی کو ہی بالواسطہ حجام بھی کہا جانے لگا۔

لفظ ‘‘قصائی’’ کا املا ابھی بھی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اکثر لوگ اسے صاد سے لکھتے اور وہ اسے معنی میں عربی لفظ قصاب کی بدلی ہوئی شکل سمجھتے ہیں۔ ‘‘قصاب’’ عربی لفظ ‘‘قصب’’ سے مشتق ہے۔ جس کا مطلب ٹکڑے پارچے کرنا ہوتا ہے۔ کیونکہ قصائی گوشت کے پارچے کرتا ہے اس لیے یہ لفظ اس کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ بعض زباندان یہ سفارش کرتے ہیں کہ اس لفظ کو سین سے ‘‘قسائی’لکھا جائے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لفظ قساوت سے مشتق ہے۔ جس کا مطلب دل کی سختی اور بے رحمی ہوتا ہے۔ اس طرح یہ لفظ بالواسطہ جانوروں کو ذبح کر کے ان کا گوشت فروخت کرنے والے کے پیشے کو ظاہر کرتا ہے۔

پھولوں کے پودوں کی نگہداشت اور باغ کی دیکھ بھال اور اس کے رکھ رکھاؤ کا کام کرنے والے کو عام طور پر ‘‘مالی’’ کہا جاتا ہے ۔ دراصل یہ لفظ ‘‘مالا’’ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور وہ شخص مراد ہے جو پھولوں کو گوندھ کر ان کے ہار بناتا ہے، لیکن اب اس لفظ کے معنی کو کافی توسیع دی جا چکی ہے۔

پرتگالیوں نے ہماری زبان کو کاریگر کے معنی میں ایک اہم لفظ دیا ہے۔ ‘‘مستری’’ کا لفظ پرتگالی لفظ ہے۔ (Mestre) کی بدلی ہوئی شکل ہے اور پرتگالی زبان کی طرح ہی یہ کئی قسم کے کاریگروں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ عام طور پر اسے فورمین یا ہیڈکاریگر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن راج مستری کہہ کر دیوار اٹھانے والے کو مراد لیا جاتا ہے۔ جنوبی اور مغربی ہندوستان میں بعض اوقات باورچی اور درزی کو بھی مستری کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ جو غالباً ہندوستان میں مقیم پرتگالیوں کا اثر ہے۔

انگریزوں نے ہمیں ‘‘پلمبر’’ کا لفظ دیا ہے جو اس کاریگر کے لیے استعمال ہوتا ہے جو غسل خانے وغیرہ میں پانی کے نلوں، پائپوں وغیرہ کو فٹ کرتا ہے یا ان کی مرمت کرتا ہے۔ دراصل یہ ایک لاطینی لفظ ہے۔ ‘‘پلمبم’’ سے نکلا ہے جو سیسے کی دھات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ شروع میں غسل خانوں وغیرہ میں اکثر سیسے کے پائپ، ٹب استعمال ہوتے تھے یا سیسے کی مدد سے لوہے کے پائپوں یا ٹنکیوں وغیرہ میں سے پانی کو رسنے سے روکا جاتا تھا۔ اس لیے ان کا کام کرنے والوں کو پلمبر کہنے لگے۔

علاج معالجے سے متعلق تین الفاظ حکیم، وید اور ڈاکٹر بنیادی طور پر علاج کی نہیں بلکہ عقل، علم اور فراست کی یاد دلاتے ہیں۔ لفظ حکیم کا تعلق حکمت و دانائی سے ہے اور قدیم فلسفیوں اور مفکروں کو اکثر حکیم کے لقب سے پکارا جاتا ہے، جیسے حکیم افلاطون، حکیم ارشمیدس وغیرہ۔ کیونکہ قدیم یونانی طریقۂ علاج کے بانی یونانی فلسفی تھے (جیسے حکیم جالنیوس) اس لیے بعد میں حکیم کا لفظ طبیب اور معالج کے معنی میں بھی استعمال ہونے لگا۔ اسی طرح لفظ ‘‘وید’’ کی اصل ‘‘ود’’ کا وہ سنسکرت مادہ ہے جس کا مطلب جاننا ہے اور جس سے تعلیم کے معنی میں ‘‘ودیا’’ بنا ہے۔ وید کے معنی علم کے ہیں اور بعد میں یہ لفظ بھجنوں اور پرارتھناؤں کے مجموعے کے لیے استعمال ہونے لگا۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ یہ مجموعے مذہبی علم کا خزانہ تھے جو لوگ ان پرارتھناؤں وغیرہ سے پوری واقفیت رکھتے تھے، انھیں ویدیہ کہا جانے لگا۔ ان لوگوں کی روحانی طاقت پر عقیدہ رکھنے والے ان لوگوں کے پاس علاج کے لیے بھی جانے لگے۔ پھر علاج کرنے والے والوں کو بھی تعظیماً ‘‘وید’’ کہا جانے لگا اور طریقۂ علاج کو ‘‘آیوروید’’ یعنی ‘‘زندگی کاوید’’ نام دیا گیا۔ ڈاکٹر کا بنیادی مفہوم تعلیم دینے والے کا ہے اور ایک زمانے میں اس سے کسی بھی شعبۂ علم کے فاضل کو مراد لیتے تھے۔ چنانچہ پادریوں کو فاضل دینیات ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر آف چرچ کہا جاتا تھا۔ بعد میں کسی یونیورسٹی کی کسی اونچی ڈگری حاصل کرنے والے کوڈاکٹر کہنے لگے۔ جیسے ڈاکٹر آف فلاسفی یا ڈاکٹر آف سائنس۔ اسی طرح یونیورسٹی سے طب کی ڈگری لے کر نکلنے والے کے لیے ڈاکٹر کا لفظ استعمال ہونے لگا۔ آپریشن کر کے علاج کرنے والے کو ‘‘سرجن’’ کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ ایک جرمن لفظ پر مبنی ہے جس کا مطلب ہوتا ہے ہاتھ سے کام کرنے والا۔ اس وقت تک زیادہ تر معالج مریضوں کا دواؤں سے علاج کیا کرتے تھے لیکن جب کچھ لوگوں نے جراحی کا کام شروع کیا اور انھوں نے چیر پھاڑ کے ذریعے علاج کا طریقہ اپنایا تو یہ کہا جانے لگا کہ یہ لوگ بجائے دواؤں کے اپنے ہاتھوں سے لوگوں کا علاج کرتے ہیں۔ طبی دواؤں کو طبیب کے نسخے کے مطابق تیار کر کے دینے والے کو عطار کہتے ہیں حالانکہ یہ لفظ دراصل عطر تیار کرنے والے یا اس کا بیوپار کرنے والے کے لیے بنا تھا۔ یورپ میں دوا فروش کو کیمسٹ کہا گیا۔ قرون وسطیٰ میں کیمیا بنانے کی دھن عام تھی اور جس شخص کو جڑی بوٹیوں دھاتوں اور دوسرے مادوں کا علم ہوتا تھا، اسے کیمیا گر سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ یہ لفظ دوا فروشوں کے لقب کے طور پر استعمال ہونے لگا۔

تعلیم و تدریس کے میدان میں استاد کا کلیدی کردار ہے، لیکن لفظ استاد نے ایک خاص سماجی پس منظر میں جنم لیا تھا۔ اس کا تعلق زرتیشوں کی مقدس کتاب ‘‘اوستا’’ سے ہے۔ پہلوی زبان میں ‘‘اوستادو’’ ان لوگوں کو کہتے تھے جو اپنی ساری عمر اوستا کے مطالعے اور اس کی تعلیمات پر بحث و مباحثے میں گزار دیتے تھے۔ ان کا ایک کام دوسروں کا اوستا پڑھنااور سمجھانا بھی ہوتا تھا۔ بعد میں یہ لفظ کسی بھی معلم کے لیے استعمال ہونے لگا۔ انگریزی ‘‘ماسٹر ’’ بھی اکثر استاد کے لیے مستعمل ہے، حالانکہ اس کے اصل معنی ‘‘مالک’’ کے ہوتے ہیں۔ دراصل یہ لفظ اسکول ماسٹر کا مخفف ہے اور اس زمانے کی یاد دلاتا ہے جب بعض لوگ بچوں کو تعلیم دینے کے لیے بورڈنگ اسکول کھول لیا کرتے تھے۔ جس کے وہ خود مالک بھی ہوتے تھے اور خود ہی بچوں کو پڑھایا بھی کرتے تھے۔ تعلیمی اداروں کے سربراہ کو آج کل پرنسپل کہا جاتا ہے جبکہ اس لفظ کے اصلی معنی ‘‘خاص’’ یا ‘‘اہم’’ کے ہوتے ہیں۔ دراصل یہ ‘‘پرنسپل ٹیچر’’ تھا جو ہیڈماسٹر کی طرح سب سے بڑے معلم کے لیے بولا جاتا تھا۔ یونیورسٹی کے چانسلر کی داستان اور ہی ہے۔ لفظ چانسلر کی ابتدا کو تلاش کرتے ہوئے ہم ایک لاطینی لفظ تک پہنچ سکتے ہیں، جس کے معنی کیکڑے کے ہوتے ہیں۔ بعد میں اس سے ایک اور لفظ ‘‘بانس’’ لکڑی یا لوہے کی جالی کو بتانے کے لیے بنایا گیا۔ اس قسم کی جالیاں عام طور پر گرجا کے اس حصے کو علیحدہ کرنے کے لیے لگائی جاتی تھیں جہاں پادری بیٹھا کرتے تھے۔ چانسلر کا لفظ سب سے پہلے اس دربان کے لیے استعمال کیا گیا جو گرجا میں قائم عدالت کی جالی کے باہر تعینات کیا جاتا تھے۔ پھر اسے عدالتوں کے چپراسی کے لیے بولا جانے لگا ۔ بعد میں عدالت کے سیکرٹری اور نوٹری کو اس نام سے پکارنے لگے اور دھیرے دھیرے چانسلر کو مقدموں پر فیصلہ دینے کے اختیارات حاصل ہو گئے اور اب انگلستان میں اعلیٰ ترین قانونی اختیارات رکھنے والا عہدے دار لارڈ چانسلر کہلاتا ہے اور جرمنی وغیرہ بعض ملکوں میں ملک کے سربراہ کو چانسلر کہتے ہیں۔ اسی طرح یونیورسٹی کے معاملات میں اعلیٰ ترین اختیارات رکھنے والے عہدے دار کو بھی چانسلر کہنے کا رواج پڑا۔

دفتری دنیا میں کلرک کا اپنا مقام ہے، لیکن لفظ کلرک نے بڑے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ یونانی زبان کے جس لفظ سے ‘‘کلرک’’ بنا ہے۔ اس کے معنی نصیب یا قسمت کے ہیں اور اس سے ورثے یا ترکے کا مطلب لیا جاتا ہے۔ عیسائی اس سے حصہ کا مطلب لینے لگے اور اس سے وہ چھوٹا پادری مراد لیا گیا جو رسوم کی ادائیگی میں گرجا میں بڑے پادری کے ساتھ حصہ لے۔ پھر کیونکہ اس قسم کی مذہبی معلومات رکھنے والے پادری تعلیم یافتہ ہوتے تھے۔ کلرک کا مطلب تعلیم یافتہ ہونے لگا اور یہ کلرک گرجا کاحساب کتاب اور دوسرا تحریری ریکارڈ رکھنے لگے۔ سولہویں صدی تک اس لفظ کے ساتھ مذہبی مفہوم ختم ہو گیا اور لکھنے پڑھنے اور دفتری کام کرنے والے کو ہی کلرک کہنے لگے۔ ہندوستان میں انگریزوں نے کلرک کو بابو کہنے کا رواج ڈالا، حالانکہ مشرقی ہندوستان میں بابو کا لفظ زمین داروں اور دوسری حیثیت کے مالک لوگوں کے نام کے ساتھ تعظیماً استعمال کیا جاتا تھا۔ انگریزوں نے بنگال میں اپنی حکومت کے دوران ہندوستانی کارندوں کو بابو کے نام سے پکارنا شروع کیا۔ پھر بابو سے ایسا کلرک مراد لیا جانے لگا جو انگریزی میں دفتری کام کر سکتا ہو اور اب تو یہ لفظ کلرکوں کے لیے عام ہو گیا ہے۔ دفتروں میں تحریری کام کرنے والوں کے لیے ایک قدیم لفظ منشی بھی تھا۔ یہ لفظ عربی لفظ ‘‘انشاء’’ پر مبنی ہے اور انشا پردازی سے ایسی تحریر مراد لی جاتی ہے جو ادبی وصف کے مالک ہو۔ ان معنوں میں منشی پریم چند صحیح معنوں میں منشی کہلانے کے مستحق ہیں، لیکن دفتری زبان میں ہر ایسا اہلکار منشی کہلانے لگا جو دستاویزات اور فرامین تیار کرتا ہو یا دفتری خط و کتابت کو سنبھالتا ہو۔

دفتروں میں سامان، کاغذات کو اٹھانے رکھنے یا لانے لے جانے کے لیے جن لوگوں کی خدمت لی جاتی ہے، ان کے لیے کئی اصطلاحات جیسے اردلی، چپراسی، پیون وغیرہ استعمال کی جاتی ہیں۔ اردلی تو انگریزی لفظ (Orderly) کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ یہ لفظ فوج میں استعمال ہوتا تھا اور اسے سارجنٹ یا غیر کمیشن یافتہ افسر کے لیے بولا جاتا تھا، جو اپنے سے بڑے افسر کے لیے سرکاری پیغامات لے جائے۔ بعد میں یہ دوسرے معمولی کام کرنے والے خدمت گاروں کے لیے استعمال ہونے لگا۔ چپراسی کا لفظ یوں تونیا نہیں ہے، لیکن انگریزوں کے عہد میں اس نے ایک خاص رسمی اہمیت حاصل کی۔ اس بارے میں یقین سے تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس لفظ کا تعلق فارسی الفاظ ‘‘چپ’’ اور ‘‘راست’’ سے ہے یا نہیں، ان سے بادشاہ کے جلو میں دائیں بائیں پھریرے لے کر چلنے والے سپاہی مراد ہیں، لیکن اس بات کا علم ہے کہ انگریزوں نے ان ملازموں کو دفتری عملے کا حصہ بنا کر انھیں وردی کے ساتھ ساتھ کپڑے کی پٹی یا چمڑے کی پیٹی پہننے کے لیے پابند کیا، جس میں پیتل کا ایک بلا لگا رہتا تھا اور اس پر محکمے کا نام کھدا ہوتا تھا۔ یہ بلا چپراس کہلاتا تھا اور اسے پہننے والا چپراسی۔ جنوبی ہندوستان میں چپراسی کے مقابلے میں پیون (Peon) کا لفظ زیادہ مستعمل رہا۔ اسپینی زبان کے اس لفظ کا اصل مفہوم پیادہ ہے اور یہ بنیادی طور پر فوج اور پولیس میں استعمال ہوتا ہے، لیکن بعد میں یہ چپراسی کے مترادف ہو گیا۔ فوج کی مناسبت سے پولیس میں سپاہی بھی ہونے لگے۔ انگریزوں کے دور حکومت میں جب فوج کا محکمہ منظم ہوا تو کانسٹبل کا لفظ بھی رواج میں آیا۔ ‘‘کانسٹبل’’ کے لفظ نے بھی بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ یہ لفظ دو لاطینی الفاظ سے نکلا تھا جن کا مطلب ‘‘اصطبل کا ساتھی’’ ہوتا ہے۔ کانسٹبل نے اصطبل کے خدمت گار کی حیثیت سے ابتدا کی ، لیکن بعد میں اس نے کبھی قلعہ دار کی حیثیت حاصل کی تو کبھی ریاستی انتظامیہ میں اس نے اعلیٰ ترین مقام حاصل کیا۔ اس وقت بھی اس کو انگلستان میں ایک بااختیار اعلیٰ حیثیت حاصل ہے۔ لیکن ہندوستان میں کانسٹبل کا درجہ محض سپاہی جیسا ہے۔

پیشہ وروں کے ناموں کا موضوع کافی طویل ہے، لیکن یہاں بات ختم کرنے سے پہلے پیشہ ور عورتوں سے متعلق بعض الفاظ پر نظر ڈالنا بھی مناسب ہو گا۔ ‘‘لونڈی’’ یا ‘‘باندی’’ جیسے الفاظ ابتداء ً زر خرید یا قیدی خادماؤں کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ یورپ والوں کے ساتھ لفظ ‘‘آیا’’ ہمارے یہاں پہنچا۔ ‘‘آیا’’ ایک پرتگالی لفظ ہے۔ جس کا مطلب نرس یا گورنس ہوتا ہے، لیکن بعد میں اس کاکام محض بچوں کی دیکھ بھال نہیں رہا بلکہ ‘‘آیا’’ کا لفظ مالکہ کی خاص خادمہ کے لیے مخصوص ہو گیا۔ ‘‘دائی’’ کا لفظ جو بعد میں بچے کی پیدایش کے وقت زچہ کی مدد کرنے والی کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ دراصل بچے کو دودھ پلانے کے لیے رکھی جانے والی ملازمہ کے لیے تھا۔

اپنے جسم کا دھندا کرنے والی عورتوں کے لیے مستعمل الفاظ میں سے ایک ‘‘بیسوا’’ ہے جو کہ سنسکرت لفظ ویشیا کی بدلی ہو شکل ہے۔ یہ لفظ ایک ایسے لفظ کے مادے کے سے نکلا ہے جس کا قدیم مفہوم محض آدمی ہے اور ‘‘ویشیا’’ کا مطلب ایک عام عورت ہے جس سے بعد میں یہ مفہوم مراد لیا جانے لگا کہ وہ عورت جو عام لوگوں کے لیے ہو۔ عام زبان میں ناچنے والی عورتوں کو ‘‘کنچنی’’ بھی کہا جاتا ہے۔ محمد حسین آزاد نے بتایا ہے کہ بادشاہ اکبر نے کنجر قوم کی عورتوں کو بجائے کنجری کے کنچنی کا نام دیا تھا اور ہم جانتے ہیں کہ کنچن کا مفہوم سونے کی دھات ہوتا ہے۔ (پتا نہیں کہ لفظ سونے میں ہم بستری کا ابہام تو نہیں تھا) پیشہ کرنے والی عورت کے لیے ‘‘کسبی’’ کا لفظ بھی استعمال کیا جاتا ہے جو کہ عربی لفظ کسب (کمانے ) سے نکلا ہے۔ چنانچہ کسبی وہ عورت ہے جو کمائی کرتی ہے۔ (ظاہر ہے اپنے جسم سے)

اپنے جسم کا دھندا کرنے والی عورت کے لیے عام طور پر طوائف کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لفظ کی ابتدا کی کھوج ہمیں عربی لفظ ‘‘طواف’’ تک لے جاتی ہے۔ جس کا مطلب کسی چیز کے گرد چکر لگانا ہے۔ جو چکر لگاتا ہے اسے طواف کہتے ہیں اور چکر لگانے والے گروہ کو طائفہ کہنے لگے۔ چنانچہ جگہ جگہ ناچ گانا پیش کرنے والی کو بھی طائفہ کہا جانے لگا۔ طائفہ کی جمع طوائف ہے، لیکن اسے واحد شکل دے کر پیشہ کرنے والی عورت کے معنی میں استعمال کیا جانے لگا۔

طوائفوں کے لیے خریدار لانے والے کو ان کا دلال کہا جاتا ہے۔ جب کہ لفظ دلال کے سیدھے سادے معنی راہ دکھانے والے کے ہیں۔ اصطلاحاً دلال وہ شخص ہے جو خریدار کی صاحب مال تک اور صاحب مال کی خریدار تک رہنمائی کرے۔ آج کل اس طرح خرید و فروخت کرنے والوں کے درمیان معاملہ کروانے والے کو ایجنٹ کہا جاتا ہے۔ جبکہ ایجنٹ کا مفہوم ہے ‘‘فاعل’’۔ حقیقت حال یہ ہے کہ تجارتی معاملے میں اصل فاعل یا تو خریدار ہے یا فروخت کنندہ۔ دلال تومحض ایک درمیانی کڑی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ پوری اصطلاح ‘‘کمیشن ایجنٹ’’ ہے یعنی کمیشن لے کر کام کرنے والا۔

طوائفوں سے دھندا کرانے والی ‘‘نائکہ’’ کہلاتی ہے جبکہ ‘‘نائک’’ کا اصل مفہوم ہوتا ہے ‘‘قائد’’ یا ‘‘رہنما’’۔ جیسے فوج کا سپہ سالار یا پھر سردار۔ اسی بنا پر کہانی یا ڈرامے کے مرکزی کردار کو بھی ‘‘نائک’’ کہتے ہیں، لیکن اس کی مؤنث شکل یعنی ‘‘نائکہ’’ بجائے ہیروئن ہونے کے اس عورت کے لیے مخصوص ہو گئی جو دوسری عورتوں سے پیشہ کرواتی ہے۔

دنیا کے سب سے حیرت انگیز کرتب، لفظوں کا سرکس پیش کرتا ہے۔ لفظوں کی ابتداکہیں سے ہوتی ہے اور اپنے موجودہ مفہوم تک پہنچتے پہنچتے وہ کچھ سے کچھ شکل و معنی اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کا تھوڑا بہت اندازہ آپ نے پیشوں اور پیشہ وروں کے ناموں کی اس داستان سے کر لیا ہو گا۔

٭٭٭