میں کیوں مسلمان ہوئی؟

مصنف : عائشہ/ بلوندر کور (فیروز پور، پنجاب)

سلسلہ : من الظلمٰت الی النور

شمارہ : دسمبر 2011

میں ضلع فیروز پور پنجاب کے ایک قصبے کے سکھ گھرانے میں ۳ جون ۱۹۶۵ میں پیدا ہوئی۔ میرے پتا جی (والد صاحب) شری فتح سنگھ تھے۔ وہ علاقے کے پڑھے لکھے اور زمین دار لوگوں میں تھے۔ میرا پرانا نام بلوندر کور تھا۔ میں نے اپنے شہر کے گرو گووند سنگھ کالج سے گریجویشن کیا۔ میری شادی جالندھر کے ایک پڑھے لکھے خاندان میں ہو گئی ۔ میرے شوہر اس وقت پولیس میں ایس او (S.O) تھے۔ ان کی بہادری اور اچھی کارکردگی کی وجہ سے ان کے پروموشن ہوتے رہے اور وہ ڈی ایس پی بن گئے۔ میرے دو بیٹے اور بیٹی ہے او رتینوں پڑھ رہے ہیں۔

میری ایک چھوٹی بہن آشا کور تھی۔ اس کی شادی بھی میرے والد نے ایک پولیس تھانہ انچارج سے کر دی تھی۔ وہ خوب صورت تھی۔ اس کا شوہر اس کو بہت چاہتا تھا، لیکن شادی کے بعد وہ اکثر بیمار رہنے لگی۔ روز روز اس کو کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا تھا۔ علاج کراتے تو ٹھیک ہو جاتی، پھر بیمار ہو جاتی۔ اس کے شوہر نے اس کا دہلی تک علاج کرایا، اور لاکھوں روپے خرچ کیے، مگر کوئی خاص فائدہ نہ ہوا۔ مجبوراً سیانوں او رجھاڑ پھونک کرنے والوں کو دکھایا۔ کسی نے بتایا کہ اس پر تو اوپری اثر ہے۔ علاج کے لیے بہت لوگوں کو دکھایا۔ سب یہی کہتے تھے کہ اس پر اوپری اثر ہے، مگر علاج کوئی نہ کر پایا۔ کسی نے بتایا کہ مالیر کوٹلہ میں ایک صاحبہ ہیں، وہ علاج کرتی ہیں۔ اس کو وہاں بھیجا گیا۔ انھوں نے جھاڑا پھونکا، اس سے اس کو بڑی راحت ہوئی، لیکن انھوں نے آشا سے کہا: جب تم کو دو چار روز کی تکلیف برداشت نہیں ہوتی تو تم دوزخ کی ہمیشہ کی تکلیف کو کیسے برداشت کر سکتی ہو؟ اس لیے اس تکلیف کی فکر کرو، اور اس کا علاج یہ ہے کہ تم مسلمان ہو جاؤ، اگر تم مسلمان ہو جاؤ گی تو مجھے امید ہے کہ تم یہاں بھی ٹھیک ہو جاؤ گی، پھر میں تمھیں مولوی کلیم صدیقی صاحب کے پاس بھیجوں گی، وہ دعا کریں گے۔ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھیں ضرور ٹھیک کر دے گا۔ آشا نے ان سے کہا کہ میں اپنے شوہر سے مشورہ کروں گی۔ انھوں نے آشا سے کہا کہ ایمان لانا اتنا ضروری ہے کہ اس میں شوہر سے مشورے یا اجازت کی بھی ضرورت نہیں، بلکہ شوہر مخالفت کرے، اور وہ اس بات پہ جان سے مار دے یا چھوڑ دے تو بھی انسان کی بھلائی اسی میں ہے کہ ایمان قبول کر لے، تاکہ اپنے پیدا کرنے والے مالک کو راضی کر کے ہمیشہ کی جنت حاصل کر لے۔ آشا نے کہا: پھر بھی گھر والوں سے مشورہ کرنا اور سوچنا سمجھنا تو ضروری ہے۔ انھوں نے کہا: تم جلدی مشورہ کر کے آ جاؤ، میں تمھیں کلمہ پڑھا کر مولوی کلیم صاحب کے پاس بھیج دوں گی۔ وہ وہاں سے بھنڈہ آئی۔ اپنے شوہر سے کہا: مجھے بہت آرام ملا ہے، مگر باجی کہتی ہیں کہ اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو بالکل ٹھیک ہو جاؤ گی۔ اس کے شوہر اس سے بہت محبت کرتے تھے۔ بولے: تو کچھ بھی کر لے اور کچھ بھی بن جا، مگر تو ٹھیک ہو جا، مجھے خوشی ہی خوشی ہے۔ ا س نے فون پر باجی سے بات کی کہ مجھے مولوی صاحب کے یہاں جانے کا پتا بتا دیں، میں ان کے پاس جا کر ہی مسلمان ہونا چاہتی ہوں۔ انھوں نے مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب کا فون نمبر دیا۔ ۲۵ مئی ۲۰۰۴ کو صبح صبح آشا نے مولوی صاحب کو فون کیا۔ آشا نے مجھے بتایا کہ میں نے مولوی صاحب سے کہا میں اسلام قبول کرنے کے لیے آنا چاہتی ہوں۔ میرے شوہر، میرے بچے اور گھر کا کوئی بندہ مسلمان نہیں ہو گا، بس اکیلے میں ہی مسلمان ہوں گی۔ مولوی صاحب کے معلوم کرنے پر آشا نے ان کو مالیر کوٹلہ کی باجی سے جو باتیں ہوئیں تھیں، بتائیں۔ مولوی صاحب نے آشا سے کہا: تم نے ان سے ہی کلمہ کیوں نہ پڑھ لیا؟ آشا نے اصرار کیا کہ مجھے کلمہ آپ ہی کے پاس پڑھنا ہے۔ مولوی صاحب نے کہا: مجھ سے پڑھنا ہے تو ابھی فون پر پڑھ لو۔ آشا نے کہا: نہیں، آپ کے پاس آ کر ہی کلمہ پڑھوں گی۔ مولوی صاحب نے کہا: بہن، موت و زندگی کا کوئی اطمینان نہیں، تم تو بیمار بھی ہو، تندرست آدمی کے بھی ایک سانس کا اطمینان نہیں کہ اگلا سانس آئے گا بھی کہ نہیں۔ اس لیے کلمہ فون پر پڑھ لو۔ جب یہاں آؤ گی تو دوربارہ نیا کر لینا۔ مولوی صاحب کے کہنے پر آشا نے کہا کہ پڑھوا دیجیے، مگر اصل تو میں آ کر ہی پڑھوں گی۔ مولوی صاحب نے کہا: اصل تو اسی وقت پڑھ لو، نقل یہاں آ کر کر لینا۔ وہ تیار ہو گئی۔ مولوی صاحب نے اس کو کلمہ پڑھوایا، اس کو موٹی موٹی باتیں سمجھائیں اور کہا کہ اب تمھیں نماز یاد کرنی ہے اور کسی بھی غیر اسلامی تہوار، پوجا یا رسم سے بچنا ہے، نام معلوم کرنے پر مولوی صاحب نے اس سے کہا: تمھارا اسلامی نام آشا سے بدل کر عائشہ ہو گیا ہے۔ یہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ کا نام بھی ہے۔ فون پر بات کر کے اس نے خوشی خوشی سارے گھر کو بتایا۔ اپنے شوہر کو بھی بتایا۔ میں بھی جالندھر سے اس سے ملنے آئی ہوئی تھی۔ مجھے بھی بتایا۔ مجھے برا لگا کہ دھرم (مذہب) بدل کر یہ کیسی خوش ہو رہی ہے۔ مولوی صاحب سے فون پر بات کر کے اور کلمہ پڑھ کر نہ جانے اس کو کیا مل گیا تھا۔ میں بار بار اس کے منہ کو دیکھتی تھی، جیسے پھول کھل رہا ہو۔ عجیب سی چمک اس کے چہرے سے پھوٹ رہی تھی۔ میں نے اس سے کہا بھی کہ آشا! آج تیرا چہرہ کیسا دمک رہا ہے۔ بولی: میرے چہرے پر ایمان کا نور چمک رہا ہے۔ سارا دن اس قدر خوش تھا کہ شاید دس سال میں پہلی بار گھر والوں نے اسے ایسا خوش اور تندرست دیکھا۔ کئی سال کے بعد اس نے اپنے ہاتھوں سے کھانا بنایا۔ خوب ضد کر کے سب کو کھلایا۔ سونے سے پہلے و ہ نہائی اور کلمہ پڑھنا شروع کیا۔ ایک کاغذ پر ا س نے وہ لکھ رکھا تھا۔ پہلے اس نے اسے خوب یاد کیا اور پھر زور زور سے پڑھتی رہی۔ اچانک وہ بہلی بہکی باتیں کرنے لگی۔ کہنے لگی: یہ سونے کا محل کتنا اچھا ہے؟ یہ کس کا ہے؟ جیسے کسی سے بات کر رہی ہو۔ بہت خوش ہو کر بولی کہ یہ میرا ہے ، یہ میرا ہے۔ یہ جنت کا محل ہے۔ بہت خوش ہوئی۔ اچھا ہم جنت میں جا رہے ہیں۔ تھوڑی دیر میں کہنے لگی: پھولوں کے اتنے حسین گلدستے کس کے لیے لائے ہو؟ کتنے پیارے پھول ہیں یہ! اچھا تم لوگ ہمیں لینے آئے ہو۔ تھوڑی دیر میں ہنس کر بولی: اچھا! ہم تو اپنی جنت میں چلے، تمھاری جیل سے چھوٹ کر او رزور زور سے پھر تین بار کلمہ پڑھا، اور بیٹھی بیٹھی بیڈ پر ایک طرف کو لڑھک گئی۔ ہم سبھی لوگ گھبرا گئے۔ ا سکو لٹایا، بھائی صاحب ڈاکٹر کو بلانے چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب آئے تو انھوں نے کہا: یہ تو مر چکی ہے، مگر وہ جیسے ہنستے ہنستے سو گئی ہو۔ گھر میں کہرام مچ گیا۔ گھر میں مشورہ ہوا کہ یہ مسلمان ہو کر مری ہے۔ اگر ہم لوگوں نے اس کو اپنے مذہب کے مطابق جلایا تو کبھی ہم پر کوئی بلا نہ آ جائے۔ صبح کو جیجا (بہنوئی) نے مالیر کوٹلہ باجی کو فون کیا کہ آشا کا رات کو انتقال ہو گیا ہے۔ ہمارے یہاں تو مسلمان نہیں ہیں۔ ان کے کریا کرم (تجہیز و تکفین) کے لیے مالیر کوٹلہ سے کچھ لوگ آ جائیں۔ دس بجے تک ایک گاڑی بھر کر مالیر کوٹلہ سے مرد عورتیں آ گئیں اور ان کو دفن کیا گیا۔ ۴۷ء کے بعد پہلی مرتبہ اس شہر میں کوئی آدمی دفن ہوا تھا۔ قبرستان ابھی تک موجود ہے۔

اصل میں میرا اسلام عائشہ کے اسلام سے جڑا ہوا ہے۔ آشا او رمجھ میں حد درجہ محبت تھی۔ اس کی اچانک موت نے مجھے توڑ کر رکھ دیا تھا، مگر اس کی موت اور اسلام قبول کرنے کے بعد ایک دن کی زندگی مجھے بار بار سوچنے پر مجبور کرتی تھی کہ اس دنیا کی جیل سے وہ جنت کے محل کی طرف صرف ایک کلمے کی برکت سے پہنچ گئی۔ وہ کس طرح ہنستے ہوئے دنیا سے گئی۔ میں نے اپنے میکے او رسسرال میں کئی لوگوں کو مرتے دیکھا۔ کس طرح تڑپ تڑپ کر کتنی مشکل سے جان نکلی۔ میں سوچتی کہ آشا کو کیا مل گیا، جس کی وجہ سے اتنا مشکل مرحلہ آسان ہو گیا! ایک رات میں نے خواب دیکھا۔ آشا بہت خوبصورت ہیرے اور موتی ٹکے کپڑے پہنے تخت پر خوبصورت تکیہ لگائے بیٹھی ہے۔ تاج سر پر لگا ہے، جیسے کوئی رانی یا شہ زادی ہو۔ میں نے اس سے سوال کیا کہ آشا! تجھے اتنی آسان موت کیوں کر مل گئی؟ بولی: ایمان کی وجہ سے۔ اور دیدی، میں تجھے سچ بتاتی ہوں کہ مجھے ایمان کے ساتھ صرف ایک دن ہی تو ملا ہے۔ ایمان کے ساتھ ایک دن جینے میں جومزہ ہے، سیکڑوں سال بغیر ایمان کے جینے میں وہ مزہ نہیں ہے۔ یقین نہ آئے تو کچھ وقت کے لیے مسلمان بن کر دیکھ لے۔ میری آنکھ کھل گئی اور میرے دل میں یہ شوق پیدا ہوا کہ کچھ روز کے لیے مجھے بھی مسلمان ہو کر دیکھنا چاہیے۔ میں نے اپنے شوہر سے اپنی خواہش کا ذکر کیا کہ میں ہفتے دو ہفتے کے لیے مسلمان ہونا چاہتی ہوں اور دیکھنا چاہتی ہوں کہ ایمان کیا چیز ہے۔ آشا کی موت کے بعد میں چونکہ ہر وقت غمگین رہتی اور چپکے چپکے کمرہ بند کر کے روتی رہتی، تو میرے شوہر نے مجھے اجازت دے دی کہ تجھے تسلی ہو جائے گی تو کر کے دیکھ لے، مگر یہ سوچ لے کہ کہیں تو بھی آشا کی طرح ایک دن بعد مر نہ جائے۔ میں نے کہا: اگر میں مر گئی تو شاید میں بھی جنت میں چلی جاؤں اور آپ کوئی اچھی دوسری بیوی کر لیجیے گا، مگر دیکھیے میرے بچوں کو وہ نہ ستائے۔

دو روز بعد میں نے اپنے بہنوئی سے مالیر کوٹلہ والی باجی کا فون نمبر لیا اور ان سے مولوی محمد کلیم صدیقی صاحب کا فون نمبر لیا اور میں نے ان سے فون پر کہا کہ میں مولوی صاحب کے پاس جانا چاہتی ہوں، اور مقصد یہ ہے کہ میں ایک ہفتے کے لیے مسلمان ہونا چاہتی ہوں، وہ بہت ہنسیں کہ مسلمان ہونا کوئی ناٹک یا ڈرامہ تو نہیں ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے اپنا روپ بدل لیں، پھر بھی انھوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ آپ مولوی صاحب کے پاس جائیں گی تو وہ آپ کو بہت اچھی طرح سمجھا دیں گے۔ میں نے مولوی صاحب کو فون ملایا، کئی روز کی کوشش کے بعد ان سے بات ہو پائی۔ میں نے ان سے ملنے آنے کی خواہش کا ذکر کیا۔ وہ مجھ سے ملنے آنے کی وجہ معلوم کرتے رہے اور بولے آپ مجھے خدمت بتائیے۔ کیا معلوم فون پر ہی وہ مسئلہ حل ہو جائے۔ مجھے خیال آیا کہ کہیں مجھے بھی فون پر ہی کلمہ پڑھوا دیں اور مسلمان ہونے کو کہیں، اس لیے میں نے بتایا نہیں۔ مولوی صاحب نے مجھ سے کہا: بہن! میں بالکل بے کار آدمی ہوں۔ اگر آپ ہاتھ دکھانا چاہتی ہیں یا جادو وغیرہ کا علاج کرانا چاہتی ہیں یا کوئی تعویذ گنڈہ وغیرہ بنوانا چاہتی ہیں تو ہمارے باپ دادوں کو بھی یہ کام نہیں آتا۔ آپ مجھے ملنے کا مقصد بتائیں، اگر وہ مقصد یہاں آنے پر ہی حل ہو سکتا ہے تو سفر کرنا مناسب ہے، ورنہ اتنا لمبا سفر کر کے پریشان ہونے سے کیا فائدہ؟ مولوی صاحب نے جب بہت زور دیا تو مجھے بتانا پڑا کہ میں ایک ہفتے کے لیے مسلمان ہونا چاہتی ہوں اور میں اس آشا کی بڑی بہن ہوں، جس کو آپ نے فون پر کلمہ پڑھوایا تھا اور اسی رات کا اس کا انتقال ہو گیا تھا۔ آشا کا نام سن کر مولوی صاحب نے بڑی محبت سے کہا: اچھا، اچھا! آپ ضرور آئیے او رجب آپ کو سہولت ہو آپ آ جائیے۔ مجھے آج بتا دیجیے۔ میں آپ کے لیے اپنا سفر ملتوی کر دوں گا۔ مولوی صاحب نے مجھے جالندھر سے آنے کا راستہ بتایا کہ شالیمار ایکسپریس سے سیدھے کھتولی اتریں او راسٹیشن سے آپ کو کو ئی لینے آ جائے گا۔ سفر کی تاریخ طے ہو گئی۔ کوئی مناسب آدمی میرے ساتھ جانے والا نہیں تھا۔ میں نے اپنی نن سس (شوہر کے رشتے کی نانی) کو تیار کیا۔ میں، گھر میں کام کرنے والی اور نانی ہم تین لوگ ۱۴ نومبر کو صبح کو نو بجے کھتولی پہنچے۔ کھتولی مولوی صاحب کی گاڑی لینے کے لیے آ گئی تھی۔ پھلت آرام سے پہنچ گئے۔ مولوی صاحب پھلت میں موجود نہیں تھے، مگر امی (مولوی صاحب کی اہلیہ) نے مجھے بتایا کہ مولوی صاحب ابھی دوپہر تک پھلت پہنچ جائیں گے ان شاء اللہ۔ ہم لوگوں نے نہا کر ناشتہ کیا او رتھوڑی دیر آرام کیا او راس کے بعد گھر کی عورتوں سے ملاقا ت ہوئی اور میں نے اپنے آنے کی غرض بتائی۔ منیرہ دیدی اور امی جان نے مجھے سمجھایا کہ ایک ہفتے کے لیے کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ یہ تو موت تک کے لیے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ میں پریشان ہو گئی کہ مجھے اپنا مذہب اور سب کچھ بالکل چھوڑنا ہو گا! یہ کس طرح ہو سکتا ہے! دوپہر دو بجے مولوی صاحب آ گئے۔ باہر بہت سے مہمان آئے ہوئے تھے۔ مولوی صاحب دومنٹ کے لیے ہمارے پاس آئے۔ ہمیں تسلی دی کہ بہت خوشی ہوئی، آپ آئیں۔ عائشہ مرحومہ کی وجہ سے آپ کے پورے خاندان سے مجھے تعلق ہو گیا ہے۔ میرا واپسی کا نظام معلوم کیا۔ جب میں نے بتایا کہ میں تین روز کے لیے آئی ہوں تو کہا: اصل میں باہر بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں، جن میں کئی ایسے ہیں، جو دو تین روز سے باہر پڑے ہوئے ہیں۔ رات کو ان شاء اللہ اطمینان سے آپ سے ملیں گے۔ میں نے مولوی صاحب کی کتاب ‘‘آپ کی امانت، آپ کی سیوا میں’’ کو شام تک تین دفعہ پڑھا۔ میرا دل ایمان کوہمیشہ کے لیے قبول کرنے کے سلسلے میں صاف ہو گیا۔ مغرب کی نماز پڑھ کر مولوی صاحب ہمارے پاس آئے۔ مجھے ایمان کی ضرورت کے بارے میں بتایا۔ مرنے کے بعد کی زندگی میں جنت و دوزخ اور اپنے پیدا کرنے والے کو راضی کرنے کے بارے میں بتایا ۔ کتاب ‘‘آپ کی امانت ، آپ کی سیوا میں’’ پڑھ کر میرے ذہن سے ایک ہفتے کے لیے اسلام قبول کرنے کا خیال ختم ہو گیا تھا۔ میں نے اپنے اسلام قبول کرنے کے سلسلے میں آمادگی کا اظہار کیا تو مجھے کلمہ پڑھوایا۔ گھر کی سب عورتیں جمع تھیں۔ میں نے کہا: کیا آپ میرا نام، جو آشا کا نام رکھا تھا، رکھ سکتے ہیں؟ انھوں نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ کا نام بھی عائشہ ہی رکھتے ہیں اور عائشہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت لاڈلی اہلیہ محترمہ ہیں۔

اس موقع پر میں نے مولوی صاحب سے دوسوال کیے۔ میں نے دیکھا کہ مولوی صاحب بات ہم سے کر رہے تھے، مگر رخ ان کا اپنے گھر والوں کی طرف تھا، میں نے سوال کیا کہ آپ ہم سے منہ پھیر کر کیوں بات کر رہے ہیں! تومولوی صاحب نے کہا: اسلام عورتوں اور مردوں کے درمیان پردے کا حکم دیتا ہے۔ وہ سب عورتیں جن سے اسلام کے قاعدے کے مطابق شادی ہو سکتی ہے، وہ سب اسلام میں ایک مرد کے لیے نامحرم ہیں۔ ان سے پردہ کرنے کا اسلام حکم دیتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے پردے کے پیچھے سے آپ سے بات کرنی چاہیے تھی، مگر مجھے خیال ہوا کہ آپ کو بڑی اجنبیت سی لگے گی، اس لیے میں نے سامنے آ کر اپنے رخ کو دوسری طرف کر کے نامحرم پر نگاہ نہ ڈالنے کے اسلام کے حکم پر عمل کیا۔

دوسرا سوال میں نے یہ کیا میری بہن آشا نے جب آپ سے ایمان لے آنے کی بات کی تو اتنا انکار کرنے پر بھی آپ نے ان کو فون پر کلمہ پڑھوایا، میں اس لیے آپ سے آنے کی غرض نہیں بتا رہی تھی کہ کہیں آپ مجھے بھی فون پر کلمہ پڑھوا کر نہ ٹال دیں، مگر آپ نے مجھے فون پر کلمہ پڑھنے کے لیے نہیں کہا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ مولوی صاحب نے جواب دیا: فون پر کلمہ پڑھوانا ٹالنا نہیں، بلکہ ناپائیدار، پانی کے بلبلے کی طرح فانی زندگی کا خیال اور سچی ہمدردی ہے۔ واقعی نہ جانے مجھے کیوں خیال نہیں آیا، میں نے غلطی کی۔ اللہ نہ کرے آپ کا راستے میں یا اس دوران انتقال ہو جاتا تو کیا ہوتا ، یا میرا انتقال ہو جاتا تو خود میرے لیے بڑی محرومی تھی۔ نہ جانے کس خیال میں مجھ سے بھول ہوئی اور پھر آپ چار پانچ روز اسلام سے محروم رہ گئیں اور اتنی بڑی ضرورت اور خیر میں تاخیر ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے۔ واقعی میں نے بڑی غلطی کی۔ اصل میں اللہ تعالیٰ کام کرنے والوں کے دلوں میں خود ہی تقاضے ڈالتے ہیں۔ آپ ایک ہفتے کے لیے اسلام قبول کرنا چاہتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی کھیل تھوڑی ہے۔ اقبال ایک شاعر ہیں، انھوں نے کہا ؂

یہ شہادت گہ ِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا

اسلام قبول کرنا تو اپنی چاہت کو، اپنی انا کو قربان کر دینا ہے، اس کے لیے آپ کے ساتھ فون پر بات کرنا کافی نہیں تھا، اس لیے اللہ نے دل میں فون پر کلمہ پڑھوانے کی بات نہیں ڈالی۔ آشا سے بات کر کے تو مجھے خود اندر سے لگ رہا تھا کہ اگر اس نے اسی وقت کلمہ نہ پڑھا تو شاید اس کی موت ایک دو روز میں ہو جائے۔ مولوی صاحب نے سمجھایا کہ اب ہر قربانی دے کر اس ایمان کو قبر تک ساتھ لے جانا ہے۔ اس کے لیے آپ پر مشکلیں بھی پڑ سکتی ہیں، قربانیاں دینی پڑ سکتی ہیں۔ ایک مٹی کا برتن بھی کمہار سے کوئی خریدتا ہے تو ٹھونک ٹھونک کر دیکھتا ہے۔ اتنا قیمتی ایمان لانے والے کو آزمایا بھی جا سکتا ہے۔ اگر آپ ایمان پر جمی رہیں تو موت کے بعد کی زندگی میں یہ محسوس ہو گا کہ کتنے سستے داموں میں یہ نعمت ملی ہے۔ مولوی صاحب نے گھر کے لوگوں کو مجھے نماز اور کھانے وغیرہ کے طریقے کو سکھانے کو کہا۔ میری نانی اور کام کرنے والی کے بارے میں معلوم کیا۔ امی جان اور منیرہ دیدی ان لوگوں کو سمجھاتی رہیں، اگلے روز مولوی صاحب سفر پر چلے گئے۔ ہماری واپسی سے دو گھنٹے پہلے لوٹے۔ ہماری بوا اور نانی کو سمجھایا۔ آپ دولت سے محروم کیوں جا رہی ہیں۔ کافی حد تک وہ پہلے ہی تیار ہو گئی تھیں۔ مولوی صاحب کے سمجھانے سے وہ کلمہ پڑھنے پر تیار ہو گئیں۔ ان کوکلمہ پڑھوایا اور بوا کا نام مولوی صاحب نے ماریہ او رنانی کا نام آمنہ رکھا۔ خوشی خوشی ہم بامراد ہو کر رخصت ہوئے۔ گھر کے سبھی لوگوں نے ہمیں ایسی محبت سے رخصت کیا جیسے میں اسی گھر میں پیدا ہوئی ہوں، اسی گھر کی ایک فرد ہوں، نہ جانے کیوں آج تک میں جب پھلت یا دہلی آتی ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں اپنے میکے آئی ہوں۔

مولوی صاحب نے مجھے بتایا کہ اب اپنے رشتے داروں سے محبت کا حق یہ ہے کہ آپ سب کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر کریں اور اپنے شوہر کو بھی اسلام کی طرف لائیں، بچوں کو بھی مسلمان کریں۔ مجھے یہ بھی بتایا کہ اسلام کے لیے تمھیں آزمایشیں سہنی پڑیں گی۔ مجھے ایسے لگا جیسے مولوی صاحب دیکھ کر کہہ رہے تھے۔ مجھے سخت امتحان سے گزرنا پڑا۔ میں نے جا کر اپنے شوہر سے اپنا پورا حال بتایا او رتبایا کہ اب میں ہمیشہ کے لیے مسلمان ہو گئی ہوں او ران پر زور دیا کہ وہ بھی مسلمان ہو جائیں۔ وہ مجھ سے بہت والہانہ محبت کرتے تھے۔ پہلے تو سرسری طور پر لیتے رہے۔ جب میں نے زور دینا شروع کیا تو انھوں نے مخالفت کرنا شروع کر دی او رمجھے اسلام پر رہنے سے روکا۔ میں اپنے اللہ سے دعا کرتی، میں نے مولوی صاحب سے فون پر بات کی کہ ایک مسلمان اور ایک سکھ میاں بیوی کس طرح رہ سکتے ہیں؟ مولوی صاحب نے بتایا کہ سچی بات یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد آب سے ان کا شوہر بیوی کا رشتہ نہیں رہا اور شادی (نکاح) ٹوٹ گیا، مگر اس امید پر آپ احتیاط کے ساتھ ان کے ساتھ رہیے کہ ان کو ایمان نصیب ہو جائے اور بچوں کی زندگی، ایمان او رمستقبل کا مسئلہ بھی حل ہو جائے۔ یہ معلوم کر کے مجھے ان کے ساتھ رہنے میں بڑی گھٹن محسوس ہونے لگی۔ روز رات کو ہم میں لڑائی ہوتی۔ آدھی آدھی رات گزر جاتی، مجھے مولوی صاحب نے اللہ سے دعا کے لیے کہا اور بتایا کہ تہجد کی نماز میں دعا کروں۔ ایک رات ساری رات ہی نماز پڑھتی رہی اور روتی رہی۔ میرے اللہ! آپ کے خزانے میں کس چیز کی کمی ہے۔ آپ میرے شوہر کو ہدایت کیوں نہیں دے سکتے؟ میرے اللہ نے میری دعا سن لی ، اگلی رات جب میں نے ان پر مسلمان ہونے کے لیے زور ڈالا تو انھوں نے مخالفت نہیں کی اور بولے روز روز کے جھگڑوں سے میں بھی عاجز آ گیا ہوں۔ اگر تو اس میں خوش ہے تو چل میں بھی مسلمان ہو جاتا ہوں۔ کر لے مجھے مسلمان۔ میں نے کہا: میری خوشی کے لیے مسلمان ہونا کوئی مسلمان ہونا نہیں، بلکہ پیدا کرنے والے، دلوں کا بھید جاننے والے مالک کو راضی کرنے کے لیے مسلمان ہونا چاہیے۔ میں نے ان کو مولوی صاحب کی کتاب ‘‘آپ کی امانت، آپ کی سیوا میں’’ دی۔ اس سے پہلے جب بھی میں نے ان کو یہ کتاب پڑھوانا چاہی تو وہ اسے پھینک دیتے تھے، مگر اس روز انھوں نے وہ کتاب لے لی اور اسے پڑھنا شروع کیا۔ پوری کتاب بڑے غور سے پڑھی، جیسے جیسے و ہ کتاب پڑھتے رہے، میں نے محسوس کیا کہ ان کا چہرہ بدل رہا ہے اور پھر اس کتاب ہی میں سے دیکھ کر زور زور سے تین بار کلمۂ شہادت پڑھا۔ بولے: یہ کلمہ اب میں تیری خوشی کے لیے نہیں، بلکہ اپنی خوشی اور اپنے رب کی خوشی کے لیے پڑھ رہا ہوں۔ میں بے اختیار ان سے چمٹ گئی۔ میں بیان نہیں کر سکتی دو مہینے کے مسلسل کہرام کے بعد میرے گھر میں خوشی آئی تھی۔ اگلے روز معلوم ہوا کہ ان کا روپڑ ٹرانسفر ہو گیا ہے۔ وہاں گئے ایک ہفتہ گزرا تھا کہ وہاں چیف منسٹر کا دورہ ہوا۔ ان کے پروگرام میں وہ مصروف تھے۔ ایک جگہ سیکورٹی کا معائنہ کرنے کے لیے وہ گئے اور کالج کی باؤنڈری کے نیچے کھڑے تھے۔ تیز ہوا چلی اور ہوا کا ایک بگولہ ایسا آیا کہ باؤنڈری کا وہ حصہ جس کے نیچے وہ کھڑے تھے، ان کے اوپر گر گیا اور اس دیوار کے نیچے دب کر اسی وقت ان کا انتقال ہو گیا۔

میں بیان نہیں کر سکتی کہ یہ حادثہ میرے لیے کتنا سخت تھا، مگر میرے اللہ کا کرم ہے، اس نے مجھے ہمت دی۔ ایمان پر اس کا الٹا اثر نہیں ہوا۔ مجھے اندر سے اس بات کا احساس دل کو تھامے رہا کہ انھوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اور وہ جنت میں چلے گئے۔ جہاں چند دن کے بعد مجھے بھی ان شاء اللہ جانا ہے۔ ان کے گھر ان کے کریا کرم (تجہیز و تکفین) کے موقع پر بڑا ہنگامہ ہوا۔ میں نے کہا: میں ہر گز ان کو جلنے نہیں دوں گی۔ میں اس لاش کی وارث ہوں۔ مجھے اس کا قانونی حق ہے، مگر گھر کے سب لوگ ضد کر رہے تھے کہ یہ ہمارے خاندان کا فرد ہے۔ ڈی جی پی، اے ڈی جی پی، آئی جی، ڈی آئی جی، سب موجود تھے۔ بہت محنت کے بعد یہ طے ہوا کہ ان کی سمادھی بنا دی جائے۔ ان کی سمادھی بنا دی گئی اور میں نے ایک مولوی صاحب کو بلا کر ان کی جنازے کی نماز سمادھی بنانے کے بعد پڑھوائی۔

روپڑ چھوڑ کر میں جالندھر آ گئی۔ مولوی صاحب کے بتانے کے بعد میں نے اپنی عدت پوری کی۔ میرے بھائی لندن میں رہتے ہیں۔ انھوں نے مجھ سے انگلینڈ آنے کے لیے کہا۔ میں نے پاسپورٹ بنوایا۔ ایک روز میں نے کعبہ کو خواب میں دیکھا۔ اٹھ کر میں نے فون پر مولوی صاحب کو بتایا۔ مولوی صاحب نے بتایا کہ آپ پر حج فرض ہو گا، مگر کوئی محرم ہونا ضروری ہے اور آپ کا کوئی محرم نہیں ہے، اس کے لیے آپ کسی سے شادی کر لیں۔ میں اپنے بچوں کے مستقبل کی وجہ سے لاکھ کوشش کے باوجود اپنے کو راضی نہیں کر پائی، مگر نہ جانے کیوں مجھے حج کو جانے کی جنون کی حدت دھن لگ گئی۔ اس کے لیے بار بار پھلت اور دہلی کا سفر کیا، مگر ایجنٹوں کے پاس پاس بار بار کوشش کے باوجود کوئی صورت نہ بن سکی۔ مولوی صاحب کے گھر کے سب لوگ حج کو چلے گئے، اور میں تڑپتی رہ گئی۔ یہ حج سے محرومی خود میرے لیے بڑا امتحان تھا۔ میں بہت رویا کرتی تھی۔ اپنے اللہ سے فریاد کرتی تھی۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ شاید اب بھی میں حج کو چلی جاؤں۔ بقر عید سے تین پہلے جب مجھے خیال آیا کہ اب حج کے تین دن باقی ہیں، اس لیے کہ مجھے یہ معلوم تھا کہ حج بقر عید کے دنوں میں ہوتا ہے۔ میں صبح تہجد میں روتے روتے بے ہوش ہو گئی۔ میں نے نیم بیداری میں دیکھا کہ میرے سر پر احرام کا اسکارف بندھا ہوا ہے اور میں حرم میں ہوں اور پھر منیٰ کے لیے چلے۔ غرض مکمل حج کیا۔ میری آنکھ کھلی اور ہوش آیا تو میں بیان نہیں کر سکتی کہ مجھے کتنی خوشی تھی۔ میں نے کسی طرح مولوی صاحب کا مکہ مکرمہ کا فون لیا اور خوشی خوشی تقریباً پچیس منٹ تک پورے حج کی یہ تفصیل بتائی۔ مولوی صاحب حیران رہ گئے۔

میں اپنے اللہ کے قربان جاؤں کہ اس نے میری حج کی دعا سن لی۔ پہلے سال تو مجھے بغیر جائے حج کرا دیا، اگلے سال میں نے اپنے ایک بھائی پر کوشش کی اور اس کو باہر کا سفر کرانے یعنی حج کا لالچ دے کر مسلمان ہونے پر زور دیا اور بتایا کہ گرو نانک جی بھی حج کو گئے تھے۔ کوشش کے بعد وہ مسلمان ہو گئے اور ہم دونوں کو پچھلے سال حج کی سعادت نصیب ہو گئی۔

آخر میں اپنی بہن عائشہ کی بات دہراتی ہوں کہ مسلمان ایمان کی نعمت کی قدر کریں اور ایمان کے ساتھ ایک دن بغیر ایمان والی سینکڑوں سال کی زندگی سے افضل ہے اور پھر سارے جہانوں کے لیے رحمت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کی حیثیت سے سارے انسانوں کو اس دنیا کی قید سے نکال کر جنت میں لے جانے کی فکر کریں اور میرے اور میرے گھر والوں کے لیے دعا کریں کہ سب کا خاتمہ ایمان پر ہو۔ آمین!

٭٭٭