اصحاب کہف

مصنف : ابن ذکاء

سلسلہ : قرآنیات

شمارہ : نومبر 2011

             قرآن مجید میں جہاں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے واضح احکامات نازل کئے، وہیں انسانی نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ماضی کے قصوں کے ذریعے بھی ان کی تذکیر کی ہے اور ان کو بتایا ہے کہ ان قصوں میں بڑی عبرت اور نصیحت ہے۔ اب جو کوئی نصیحت حاصل کرنا چاہے تو اس کے لئے اس میں بہت سامان ہے اور اگر کوئی قرآنی قصائص کو محض ماضی کے قصے کہانیاں سمجھ کر سنتا ہے تو اسے پھر کوئی ہدایت نہیں ملتی ہے۔ اس لئے قصص القرآن کو محض قصے کہانیاں سمجھ کر پڑھنے اور سنانے کے بجائے یہ دیکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان قصوں کے ذریعے انسانوں کو کس بات کی ہدایت دی ہے۔

            قرآنی قصوں میں سے ایک قصہ‘‘ اصحاب کہف ’’کا بھی ہے۔اور یہ قصہ سورہ کہف میں بیان کیا گیا ہے۔ اس قصے میں بھی دیکھا جائے تو نہ صرف ایمان والوں کے لئے بلکہ ہر ذی شعور اور باضمیر فرد کے لئے ہدایت موجود ہے۔ یہاں ہم اصحاب الکہف کا قصہ مختصراً بیان کریں گے اور پھر یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہمیں یہ ہدایت دی ہے اور اس قصے میں ہمارے لیے کیا اسباق ہیں۔ قصہ سنانے سے قبل یہ دیکھنا چاہئے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کا ذکر کیوں کیا ہے؟ مفسرین نے اس کی وجہ نزول یہ بتائی ہے کہ قریش مکہ نے اپنے دو آدمیوں کو مدینے کے یہودیوں کے پاس بھیجا کہ‘‘ یہودی اہل کتاب ہیں اس لئے ان سے محمد کی بابت دریافت کرو کہ وہ کیا کہتے ہیں؟ ’’ یہ دونوں افراد مدینے کے یہودی علما سے ملے اور نبی اکرم ﷺ کے حالات و اوصاف اور تعلیمات بیان کر کے آپ کے متعلق انکی رائے معلوم کی۔اس کے جواب میں یہودیوں نے ان کوبتایا کہ تم محمدسے یہ تین سوالات کرنا کہ ‘‘1 اگلے زمانے کے ان نوجوانوں (اصحاب الکہف ) کا کیا قصہ تھا؟ 2 اس شخص کے بارے میں معلوم کرو جس نے پوری دنیا کا چکر لگایا تھا اور مشرق و مغرب سے ہو آیا تھا۔ 3 جبکہ تیسرا سوال روح کی ماہیت کے متعلق تھا۔ (بعض علماکے مطابق تیسرا سوال حضرت موسیٰ و خضر علیہ السلام کے متعلق تھا۔اور سورہ کے مطالعہ سے بھی یہی بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے۔) یہودیوں نے قریش مکہ کے نمائندوں کو یہ بھی کہا کہ یہ ایسی باتیں ہیں جو صرف اللہ کا ایک نبی ہی ان کے متعلق جانتا ہے اگر وہ سچے ہونگے تو ان کے جواب دیں گے۔ قریش مکہ نے واپس آکر یہی سوالات نبی اکرمﷺ سے دریافت کئے، جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔

            بتایا جاتا ہے کہ یہ واقعہ ایشیا کوچک میں رومیو کے مشہور ساحلی شہر ‘‘افسس یا افسوس ’’ میں پیش آیا تھا، اور جبکہ آج کے دور میں موجودہ ترکی کے شہر سمرنا میں اس کے کھنڈرات پائے جاتے ہیں۔جبکہ یہ واقعہ قیصر ‘‘ڈیسس یا دقیانوس ’’ کے دور میں پیش آیا جس نے سن 229 ء تا سن 251ء تک روم پر فرمانروائی کی تھی۔ قیصر دقیانوس ایک بت پرست اور ظالم بادشاہ تھا اور اس نے اپنے دور حکومت میں اہل ایمان (نصاریٰ) پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تھے۔کہا جاتا ہے کہ یہ چند صاحبِ ایمان اور روشن ضمیر نوجوان تھے اور یہ اپنے باپ داداؤں کے ساتھ عید منانے کے لئے شہر کے ایک میلے میں گئے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ شہر اس وقت شرک اور بت پرستی کا بہت بڑا مرکز تھا اور وہاں ڈائنا نامی دیوتا کا مندر تھا جس کی پوجا کرنے کے لئے شام، مصر، فلسطین وغیرہ سے بھی لوگ وہاں آتے تھے۔ ان نوجوانوں نے وہاں شرک و بت پرستی کے جو نظارے دیکھے تو ان کا دل کھٹا ہوگیا اور ان کے دل میں خیال آیا کہ عبادت تو ایک اللہ کی ہونی چاہئے، ذبیحہ تو ایک اللہ کے نام پر ہونے چاہئیں، پس یہ سوچ کر یہ لوگ انفرادی طور پر اس میلے سے الگ ہوکر ایک درخت کے نیچے آکر بیٹھنے لگے، پہلے ایک آیا، پھر دوسرا، پھر تیسرا، اس طرح یہ لوگ ایک جگہ جمع ہوگئے۔ اگرچہ ان لوگوں میں کوئی تعارف نہ تھا لیکن ایمان کی روشنی کے باعث یہ لوگ ایک جگہ مل گئے اور ابتدا میں تو یہ سارے ایک دوسرے سے ڈر رہے تھے کہ ایسا نہیں کہ میں ان کے سامنے اپنے دل کی بات رکھوں اور وہ کسی کو بتا دے، بالآخر ان میں سے ایک نے کہا کہ دوستو! کوئی تو بات ہے کہ ہم اس سارے میلے ٹھیلے اور فضولیات کو چھوڑ کر یہاں آ بیٹھے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہر ایک اپنے دل کی بات بتائے کہ کس چیز کے باعث اس نے باپ داد ا اور قوم کے اس میلے اور رواج کو چھوڑ کر یہاں آنے میں عافیت سمجھی؟ اس کے جواب میں ایک نے کہا کہ ‘‘مجھے تو اپنی قوم کی یہ رسم بالکل نہیں بھاتی۔ جب ہمارا ،تمہارا خالق ایک اللہ ہے تو ہم اس کو چھوڑ کر ان دوسرے معبودوں کی پوجا کیوں کریں؟ دوسرے نے کہا یہی بات مجھے بھی یہاں لیکر آئی ہے، پھر تیسرے نے اس کی تائید کی اور پھر چوتھے نے، اس طرح ان لوگوں نے اپنے دل کی بات ایک دوسرے سے کی۔اب چونکہ یہ سب لوگ مذہبی، نظریاتی، اور روحانی طور پر ایک تھے اس لئے فطرتی طور پر ان میں ایک تعلق قائم ہوگیا اور ایک محبت پیدا ہوگئی۔اب ان لوگوں نے ایک جگہ مقرر کرلی اور وہاں آکر یہ لوگ ایک دوسرے سے ملنے اور ایک اللہ کی عبادت کرنے لگے۔ آہستہ آہستہ لوگوں کو ان کے بارے میں پتہ چلتا گیا اور پھر ایک دن لوگوں نے ان کو پکڑ لیا اور بادشاہ کے سامنے پیش کردیا اور بادشاہ کو شکایت پیش کی کہ ‘‘ ان لوگوں نے باپ دادا کا دین چھوڑدیا ہے اور گمراہ ہوگئے ہیں’’ بادشاہ نے جب ان سے اس بابت دریافت کیا تو انہوں نے بڑی دلیری اور صاف گوئی سے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا اور کہا کہ ‘‘ہمارا رب وہی ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا مالک و خالق ہے۔ ناممکن ہے کہ ہم اس کے سوا کسی کو اپنا معبود بنائیں۔ اب ہم سے یہ نہ ہوسکے گا کہ اس کے سوا کسی اور کو پکاریں یہ نہایت باطل چیز ہے۔ ہم اس کام کو کبھی نہیں کرنے کے۔ یہ نہایت بے جا بات اور لغو حرکت اور جھوٹی راہ ہے۔’’ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بادشاہ اور تمام اہل دربار و شہر والوں کو ایمان کی دعوت دے ڈالی۔ان کی اس صاف گوئی اور دلیری سے بادشاہ بہت غضب ناک ہوا اور کہا کہ اگر یہ باز نہ آئے تو میں انہیں سخت سزا دونگا۔ انہوں نے جب یہ محسوس کرلیا کہ ہم یہاں رہ کر اپنے دین پر قائم نہیں رہ سکتے تو پھر انہوں اپنے، ماں باپ، رشتے داروں اور دوست احباب کو چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا اور ایک روز یہ لوگ موقع پا کر اس بستی سے بھاگ نکلے اور پہاڑ کے غار میں چھپ رہے۔بادشاہ اور ان کی قوم نے ان کو بہت ڈھونڈا لیکن ان کو کہیں نہ پاسکے۔ ادھر ان نوجوانوں کا معاملہ یہ ہوا کہ جب یہ بستی سے نکلے تو ایک کتا بھی ان کے ساتھ ہولیا۔ یہ چھپتے چھپاتے ایک پہاڑ کے ایک غار میں چھپ کر بیٹھ گئے جبکہ وہ کتا غار کے منہ پر بیٹھ گیا۔ تھکن کے باعث وہ اس غار میں لیٹ گئے اور یہاں اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک طویل نیند طاری کرلی۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ان سے دور رکھنے کے لئے دو انتظامات کئے، ایک تو یہ کہ جو کتا انکے ساتھ آیا تھا اور غار کے دھانے پر بیٹھ گیا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس پر بھی نیند طاری کرلی لیکن وہ ایسی پوزیشن بھی بیٹھا ہوا تھا کہ دور سے دیکھنے پر لگتا کہ گویا کہ وہ کتا بالکل چوکس و چاق و چوبند ہے اور کسی چیز کی نگرانی پر بیٹھا ہے اس طرح لوگوں پر ایسا تاثر قائم ہوا کہ شائد اس غار میں کوئی خطرناک ڈاکو ہیں اور یہ ان کا کتا ہے اس خوف سے کوئی اس غار کے نزدیک نہ جاتا تھا اس کے ساتھ دوسرا انتظام یہ کیا گیا کہ انہوں نے جس غار کا انتخاب کیا وہ شمالاً جنوباً واقع ہوا تھا اس طرح اس غار میں کسی بھی موسم میں سورج کی روشنی نہ پہنچی تھی اور غار میں اندھیرا ہی رہتا اس طرح اگر کوئی فرد بھولے بھٹکے سے غار تک پہنچ بھی جاتا تو اس کو غار میں جھانکنے پر کچھ بھی نظر نہ آتا۔پھر ایک خاص مدت کے بعد ( جس کا شمار اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن کم وبیش یہ تین سو سے تین سو نو سال کے لگ بھگ ہے) اللہ نے ان کو بیدار کیا،انہیں بالکل بھی اندازہ نہ تھا کہ وہ کتنی دیر تک سوتے رہے ہیں۔ بیدار ہونے کے بعد انہوں نے ایک دوسرے سے پوچھا کہ ہم کتنی دیر تک سوتے رہے ہونگے؟ان کا خیال تھا کہ ایک دن یا اس سے بھی کچھ کم۔ بہرحال اب ان کو بھوک محسوس ہورہی تھی اس لئے انہوں نے بازار سے کچھ کھانے پینے کا سامان منگوانے کا ارادہ کیا۔ ان کے پاس کچھ درہم تھے انہوں نے وہ اپنے ایک ہوشیار ساتھی کو دیتے ہوئے کہا کہ وہ جاکر بازار سے کچھ لے آئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ نصیحت بھی کی ‘‘دیکھو ذرا احتیاط سے جانا ایسا نہ ہو کہ بادشاہ کے لوگ تمہیں دیکھ لیں اور ہم لوگ پھر پکڑیں جائیں اور اس طرح وہ لوگ ہمیں دوبارہ اپنے دین میں داخل کردیں’’۔

            یہ نوجوان جب سکے لیکر بستی میں داخل ہوا تو اسے سب کچھ بدلا بدلا محسوس ہوا، گھر بار اگرچہ ویسے ہی تھے لیکن شہر کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیا ماجرا ہے کیوں کہ اپنے تئیں تو یہ لوگ ایک دن سے بھی کم مدت سوئے رہے تھے۔ اس نوجوان نے سمجھا کہ شائد میری ہی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور مجھے جلد از جلد سودا لیکر اس شہر سے نکل جانا چاہئے۔ ایک دکان پر جاکر جب اس نے سودا لیا اور سکے دام میں دیئے۔ قدیم سکے دیکھ کر دکان دار حیران رہ گیا اور وہ سمجھا کہ اس کے پاس کوئی پوشیدہ خزانہ ہے۔اس نے وہ سکہ اپنے ایک پڑوسی کو دیا کہ ذر دیکھنا تو یہ سکہ کیسا ہے؟ الغرض وہاں ایک مجمع لگ گیا اور ہر فرد یہ سمجھنے لگا کہ اس نوجوان نے کہیں سے کوئی خزانہ پالیا ہے اب وہ سارے اس نوجوان کے پیچھے پڑ گئے کہ ہمیں بتاؤ یہ سکے تمہیں کہاں سے ملے؟اس نوجوان نے استعجاب سے جواب دیا کہ یہ سکے تو ہمارے ہی ہیں اور ہم کل شام کو تو یہاں سے گئے ہیں۔ یہاں کا بادشاہ دقیانوس ہے نا؟ یہ سن کر تمام لوگ ہنسنے لگے اور اس نوجوان کو پاگل سمجھنے لگے کہ دقیانوس کو تو مرے ہوئے بھی سینکڑوں سال گزر گئے، بالآخر اس کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ مفسرین و مورخین کے مطابق اس بادشاہ کا نام تیندوسس تھا اور یہ ایک مسلمان بادشاہ تھا۔ اس نوجوان نے اپنا سارا قصہ ان کو کہہ سنایا۔بادشاہ اور درباریوں نے انتہائی حیرت کا اظہار کیا اور پھر ان کو پتہ چلا کہ یہ تو وہی چند نوجوان ہیں جن کے بارے میں ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ وہ اپنا ایمان بچانے کے لئے کہیں روپوش ہوگئے ہیں۔آناً فاناً یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی کہ دقیانوس کے دور میں جو پیروان مسیح روپوش ہوگئے تھے وہ اب ظاہر ہوئے ہیں۔ بادشاہ نے اس نوجوان سے کہا کہ مجھے اپنے ساتھیوں کے پاس لے چلو، وہ نوجوان بادشاہ کو وہاں لیکر گیا جبکہ بادشاہ کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑا مجمع بھی ان نوجوانوں کو دیکھنے کے لئے ساتھ چل پڑا، غار کے پاس پہنچ کر اس نوجوان نے اپنے ساتھیوں کو سارا قصہ بتایا اور جب ان نوجوانوں کو یہ معلوم ہوا کہ وہ اتنے طویل عرصے تک سوتے رہے ہیں تو انہوں نے اپنے دینی بھائیوں کو سلام کیا اور دوبارہ لیٹ گئے اور ان کی روح جسدِ خاکی سے پرواز کر گئی۔اب لوگوں میں دو گروہ بن گئے ایک کہتا تھا کہ اس غار کا منہ بند کردو اور ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو اللہ ہی ان کا معاملہ بہتر جانتا ہے، جبکہ جو لوگ اس قوم کے معاملات میں غالب تھے انہوں نے کہا کہ ہم تو ان کی قبر پر ایک مسجد(عبادتگاہ ) بنائیں گے۔

            قارئین کرام یہاں ان نوجوانوں کا قصہ ختم ہوجاتا ہے۔ اب ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ اس قصے میں ہمارے لئے کیا اسباق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اس میں کیا نصیحتیں پوشیدہ رکھی ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات بتانا ضروری ہے کہ اس سورہ کے بارے میں مفسرین کے مطابق جو فرد بھی سورہ کہف کی ابتدائی و آخری دس آیات حفظ کر لے گا وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا۔ اس لئے کوشش کر کے اس کی ابتدائی و آخری د س آیات کو حفظ کرلینا چاہئے۔

            سب سے پہلی بات جو کہ سورہ کی وجہ نزول ہے اور اصحاب کہف کے قصے کے فوراً بعد ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ‘‘ہرگز ہرگز کسی کام پر یوں نہ کہنا کہ میں اسے کل کرونگا۔ مگر ساتھ ہی انشااللہ کہہ لینا اور جب بھی بھولے اپنے پروردگار کو یاد کرلینا مجھے پوری امید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے زیادہ ہدایت کے قریب کی بات کی رہبری کرے۔’’ (سورہ کہف آیت 23-24 ) اس آیت کی شان نزول یہ بتائی جاتی ہے کہ جب قریشِ مکہ نے نبی اکرم سے یہ سوالات پوچھے تو آپنے فرمایا کہ ‘‘میں کل ان کے جوابات دیدوں گا ’’ لیکن انشاء اللہ کہنا بھول گئے پھر ایسا اتفاق ہوا کہ کچھ دنوں تک آپ پر وحی کا نزول نہ ہوا۔اب مشرکین کو ایک بہانہ ہاتھ آگیا کہ دیکھا اگر یہ سچے نبی ہوتے تو ہماری باتوں کا جواب دیتے،اس طرح نبی اکرم کو دوہری تکلیف محسوس ہوئی اول تو یہ کہ وحی کا سلسلہ نامعلوم وجہ سے منقطع ہوگیا اور دوم مشرکین کے طنز کے باعث آپ رنج و غم محسوس کر رہے تھے۔ بالآخر حضرت جبرئیل علیہ السلام اللہ کے اذن سے ان سوالوں کے جواب لیکر حاضر ہوئے اور ساتھ ہی اس طرف اشارہ کیا کہ کسی بھی کام کا ارادہ کرو تو انشاء-04 اللہ ضرور کہہ لیا کرو۔ یہاں کسی فرد کو یہ غلط فہمی نہ ہونے چاہئے کہ نبی اکرم انشاء اللہ کہنا بھول گئے تھے بلکہ یہ سوچنا چاہئے کہ انبیا کرام کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشا کے مطابق ہوتا ہے، اس لئے ان کا بھولنا بھی اللہ کی مرضی کے مطابق تھا اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس کی طرف اشارہ کر کے رہتی دنیا تک اہل ایمان کو ایک سبق دیدیا کہ کوئی بھی کام کرتے وقت انشا اللہ ضرور کہہ لیا کریں کیوں کہ انسان کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ دوسری جانب اس کے ذریعے یہ پیغام بھی دیا گیا کہ انبیا کرام بھی بشر ہوتے ہیں۔

            دوسرا سبق جو ہمیں اس قصے کے ذریعے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی فرد اللہ پر ایمان لاتا ہے تو اب اس کو اپنے دین پر ،اپنے ایمان پر ثابت قدم رہنا چاہئے، اور آزمائش سے گھبرانا نہیں چاہئے اور نہ اس بات کو دیکھنا چاہئے کہ باپ دادا کا طرز عمل کیا تھا۔ اگر باپ داداد کا طرزِ عمل غلط تھا تو محض ان کی تقلید میں ،آنکھیں بند کر کے ان رسوم و رواج کی پابندی نہیں کرتے چلے جانا چاہیئے بلکہ ایسی فضولیات سے گریز کرنا چاہئے اور ان سے اعلان برات کرنا چاہئے۔ آج ہماری مشکلات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے خاندانی رسوم و رواج کے پابند ہوکر رہ گئے، ہم نے احکام الٰہیہ پر رواجوں کو ترجیح دیدی ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ہم شادی بیاہ کی رسومات دیکھ لیں، رشتہ ڈھونڈنے سے لیکر رشتہ طے کرنے تک، اور اس کے بعد شادی ہونے تک ہم ہر معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے خاندانی روایات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں، پھر اس کا نتیجہ ہے کہ جہیز کی قبیح رسم کا خاتمہ نہیں ہوسکتا، انہی رسوم و رواج کی پابندی کا نتیجہ ہے کہ آج بچیاں اپنے گھروں پر بیٹھی رہ جاتی ہیں اور ان کے رشتے نہیں ہوپاتے ہیں کہ ‘‘خاندان کی روایت یہ ہے کہ خاندان سے باہر لڑکیوں کے رشتے نہیں دینے ہیں ’’۔ جن کے رشتے ہوجاتے ہیں ان کی رخصتی میں اچھا خاصا وقت لگ جاتا ہے کہ جب تک ڈھائی تین سو افراد کی دعوت شاندار طریقے پر کرنے کا انتظام نہ ہوجائے اس وقت تک شادی ملتوی کی جاتی ہے اور شادی کے بعد دونوں گھرانے (لڑکا اور لڑکی کا گھرانہ) اچھے خاصے مقروض ہوجاتے ہیں۔ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟ یہ ساری باتیں اسی لیے ہیں کہ ہم نے اللہ کے احکامات کو نظر انداز کر کے روسم و رواج کو اپنا لیا ہے۔

            تیسرا سبق جو کہ اس قصے سے ہمیں ملتا ہے کہ اللہ کی راہ میں اگر گھر بار، ماں باپ، اولاد، دوستو، رشتہ داروں کو چھوڑنا پڑے تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ اسی بات کو قرآن پاک میں ایک دوسری جگہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ‘‘اے نبی کہہ دو ! کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔’’ (سورہ توبہ آیت نمبر24 ) آئیے ذرا چند لمحے یہاں رک کر غور کریں کہ کہیں ہماری تنزّلی،اقوام عالم میں پیچھے رہ جانے،انتشار اور نفسا نفسی کی وجہ یہی تو نہیں ہے کہ آج ہم نے دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ ہمیں اپنے کاروبار،اپنے جان و مال اللہ اور اس کے رسول کے احکامات سے زیادہ عزیز تر ہوگئے ہیں؟

            یہاں ضمنی طور پر اس بات کا بھی ذکر کرتے چلیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کی کروٹیں بدلنے کا بھی ذکر کیا ہے اور اس طرح انسان کو یہ بات سمجھائی کہ اگر کوئی فرد خدانخواستہ معذو رو مفلوج ہوجائے اور صرف بستر پر ہی پڑا رہ جائے تو اس کو ایک ہی رخ پر نہیں رہنا چاہئے بلکہ اس کی کروٹ بدلنے کا انتظام کرنا چاہئے تاکہ ایک ہی کروٹ پر رہنے سے انسان کا جسم گل نہ جائے،اس میں کیڑے نہ پڑ جائیں۔ یہی کچھ آج کی میڈیکل سائنس کہتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات ساڑھے چودہ سو سال قبل ہی مسلمانوں کو سمجھا دی تھی۔

            چوتھا سبق اس قصے کے ذریعے حیات بعد الموت کا عملی ثبوت فراہم کیا گیا ہے۔ جس دور میں یہ سورت نازل ہوئی اور جس دور میں اصحاب الکہف دوبارہ نیند سے بیدار ہوئے، دونوں میں ایک حیرت انگیز مماثلث یہ ہے کہ اصحاب کہف کی بیداری کے وقت ان کی بستی میں اور سورت کے نزول کے وقت مکہ میں مشرکین کے درمیان یہ بات موضوع بحث ہوتی تھی کہ ‘‘ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک انسان مرنے کے بعد خاک میں مل جائے، اس کی ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں، حتیٰ کہ وہ ہڈیاں بھی گل جائیں اور اس کے بعد انسان دوبارہ پیدا کیا جائے اور اس سے اس کے اعمال کی باز پرس کی جائے۔ اصحاب کہف کی ہی طرح کا ایک واقعے کا اجمالی ذکر اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں فرمایا ہے ‘‘ یا پھر اس مثال کے طور پر اس شخص کو دیکھو جس کا گزر ایک بستی پر ہوا، جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی تھی۔ اْس نے کہا ‘‘یہ آبادی جو ہلاک ہوچکی ہے اسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا؟’’ اس پر اللہ نے اس کی رْوح قبض کرلی اور وہ سو برس تک مردہ پڑا رہا۔ پھر اللہ نے اسے دوبارہ زندگی بخشی اور اس سے پوچھا ‘‘بتاؤ کتنی مدت پڑے رہے ہو؟’ ’ اس نے کہا ‘‘ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا’’ فرمایا ‘‘تم پر سو سال اسی حالت میں گزر چکے ہیں اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو اس میں ذرا تغیّر نہیں آیا۔ دوسری طرف اپنے گدھے کو بھی دیکھو ( کہ اس کا پنجر تک بوسیدہ ہورہا ہے ) اور یہ ہم نے اس لئے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لئے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اس پنجر کو کس طرح اْٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں’’ اس طرح جب حقیقت اس کے سامنے بالکل نمایاں ہوگئی تو اس نے کہا ‘‘ میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز ہر قادر ہے ’ ’ (سورہ بقرہ آیت 259) اس بات کو سورہ انعام میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ‘‘ قیامت کے روز وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا، جوکہ ایک بالکل غیر مشتبہ حقیقت ہے مگر جن لوگوں نے اپنے آپ کو خود تباہی کے خطرے میں مبتلا کرلیا ہے وہ اسے نہیں مانتے’’ (سورہ الانعام آیت 12 ) اصحاب کہف کے واقعے کے ذریعے مشرکین اور منکرین آخرت کی باتوں کا جواب دیا گیا ہے۔

            میرے دوستوں ! کیا عقیدہ آخرت اور حیات مابعدالموت کا انکار صرف زبان سے ہی کیا جاتا ہے؟ اگر غور کریں تو آج کے دور میں شائد ہی کوئی ایسا فرد ہو جو کہ زبان سے اس کا انکار کرتا ہو لیکن اپنے عمل کے ذریعے وہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ وہ مر کر اللہ کے آگے پیش ہونے اور آخرت کی جوابدہی کا یقین نہیں رکھتا ہے۔ چور بازاری، رشوت ستانی، معاشرے میں برائی اور بے حیائی پھیلانے والے، دوسروں کا حق کھانے والے، ذخیرہ اندوزی کرنے والے، عوام کا حق غصب کرنے والے حکمران، اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانے والے، بیگناہ اور پاک باز لوگوں پر جھوٹی تہمتیں لگانے والے، شعائر اسلام کے خلاف عمل کرنے والے الغرض ایسے تمام ہی لوگ زبان سے تو اللہ کی وحدانیت، اسلام کی تعلیمات اور آخرت کی جوابدہی کا کہتے ہیں لیکن دراصل ان کے اعمال ان کے اقوال کی نفی کرتے ہیں۔ اس سورہ میں ایسے ہی لوگوں کے لئے حیات بعد الموت کا عملی ثبوت فراہم کیا گیا ہے۔

            پانچواں سبق جو اس قصے سے ہمیں ملتا ہے اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہیں کرنی چاہئے اور قبر پرستی نہیں کرنی چاہئے انبیا کرام اور اولیا کرام کی تعلیمات کو اپنا کر ان کی سے ہدایت و روشنی حاصل کرنی چاہئے نہ کہ قبر پرستی یا قبرو کو سجدہ گاہ بنالینا چاہئے۔ اسی سورہ میں اصحاب کہف کے قصے کے آخر میں فرمایا گیا کہ ‘‘اس وقت وہ آپس میں اس بات پر جھگڑ رہے تھے کہ ان (اصحاب کہف ) کے ساتھ کیا کِیا جائے۔ کچھ لوگوں نے کہا ‘‘ان پر ایک دیوار چن دو ان کا رب ہی ان کے معاملہ کو بہتر جانتا ہے’’ مگر جو لوگ ان کے معاملے پر غالب تھے انہوں نے کہا ‘‘ہم تو اس پر ایک عبادت گاہ بنائیں گے’’ (سورہ کہف آیت 21 ) تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے کہ ابن جریر نے لوگوں کے بارے میں دو قول نقل کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان سے مسلمانوں نے یہ کہا تھا دوسرے یہ کہ یہ قول کفار کا تھا واللہ اعلم۔لیکن بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس کے قائل کلمہ گو تھے ہاں یہ اور بات کہ ان کا یہ کہنا اچھا تھا یا برا؟ تو اس بارے میں صاف حدیث موجود ہے رسول اللہ نے فرمایا اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے انبیااور اولیاء-04 کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔ جو انہوں نے کیا اس سے آپ اپنی امت کو بچانا چاہتے تھے۔ اس لئے امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں جب حضرت دانیال کی قبر عراق میں پائی تو حکم فرمایا کہ اسے پوشیدہ کردیا جائے اور جو رقعہ ملا جس میں بعض لڑائیوں کا وغیرہ کا ذکر ہے اسے دفن کردیا جائے (تفسیر ابن کثیر ) جبکہ اسی حوالے سے کچھ احادیث مبارکہ بھی ملتی ہیں نبی اکرم نے فرمایا ‘‘خبردار رہو تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیتے تھے۔ میں تمہیں اس حرکت سے منع کرتا ہوں (مسلم ) نبی اکرم نے فرمایا ‘‘اللہ نے لعنت فرمائی ہے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں پر مسجدیں بنانے اور چراغ روشن کرنے والوں پر ’’(احمد ،ترمذی،ابو داؤد، نسائی ،ابن ماجہ ) ‘‘ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ اگر ان میں سے کوئی مرد صالح ہوتا تو اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر مسجدیں بناتے اور اس کی تصویریں تیار کرتے تھے۔ یہ قیامت کے روز بدترین مخلوقات ہونگے ’’ ( احمد،بخاری،مسلم ،نسائی )۔

            چھٹا اور آخری سبق یہ ہے کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرمایا کہ ‘‘کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا۔ اور کچھ دوسرے کہہ دیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔ یہ سب بے تکی ہانکتے ہیں۔ اور کچھ اور لوگ کہتے ہیں کہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ کہو میرا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے تھے۔ کم ہی لوگ ان کی صحیح تعداد جانتے ہیں۔ پس تم سرسری بات سے بڑھ کر ان کی تعداد کے معاملے میں لوگوں سے بحث نہ کرو اور نہ ان کے متعلق کسی سے کچھ پوچھو ( سور کہف آیت22) ‘‘ اسی طرح ہم نے انہیں جگا کر اٹھا دیا کہ آپس میں پوچھ گچھ کرلیں ایک کہنے والے نے کہا کہ کیوں بھئی تم کتنی دیر ٹھہرے رہے، انہوں نے جواب دیا کہ ایک یا ایک دن سے بھی کم، کہنے لگے تمہارے ٹھہرنے کی مدت کا بخوبی علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے۔۔۔(سورہ کہف آیت 19 ) اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بحث میں نہ پڑا جائے کہ وہ کتنی عرصے تک سوتے رہے، تین سو سال، سوا تین سو سال یا زائد، ان کی تعداد کتنی تھی تین پانچ، سات؟ ان کے کتے کا نام کیا تھا وغیرہ وغیرہ یہ باتیں غیر ضروری ہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اس قصے میں سبق کیا دیا جارہا ہے اس پر غور کرنا چاہئے اور جو نصیحت اور جو پیغام اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں دیا ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ فی زمانہ جو سیکولر، لادین عناصر ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ منکرین حدیث کا جو گروہ ہے بالخصوص وہ ایسی ہی بے بنیاد باتوں پر لوگوں کو الجھانے کی باتیں کرتے ہیں مثلاً سورہ بقرہ میں آیت الکرسی کا جب ذکر کیا جاتا ہے تو وہ اصل بات کے بجائے اس بحث میں لوگوں کو الجھاتے ہیں کہ اللہ کی کرسی کیسی ہے؟ اللہ اس کرسی پر کیسے بیٹھتے ہیں؟ اللہ کی کرسی کتنی بڑی ہے وغیرہ وغیر ہ یا پھر جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر آئے تو ساری سور ت کو چھوڑ کر ان کا سوال یہ ہوتا ہے کہ ‘‘حضرت موسیٰ کے والد کا کیا نام تھا؟ ان کے دور میں جو فرعون تھا وہ کون تھا؟ اس کا نام کیا تھا؟ یہ پھر یہ سوالات کہ فلاں نبی کی عمر کتنی تھی؟ فلاں نبی کہاں مدفون ہیں؟ اور اسی طرح کی غیر ضروری اور الٹی سیدھی باتوں میں لوگوں کو الجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تو یہاں یہ بیان کیا جارہا ہے کہ اصل بات کو چھوڑ کر غیر ضروری باتوں کی جانب دھیان نہیں دینا چاہئے صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں سے مخاطب ہوکر انہیں کس بات کی تعلیم دینا چاہ رہا ہے۔

            سورہ کہف کے مطالعے سے یہ کچھ باتیں جو ہم نے اپنی بساط اور محدود عقل کے مطابق سیکھی ہیں اور وہی باتیں یہاں آپ لوگوں سے شئیر کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دین کے صحیح راستے کی جانب ہماری رہنمائی فرمائے۔ اور فتنوں کے اس دور میں ہمیں کسی فتنے میں مبتلا نہ کرے بالخصوص فتنہ دجال سے ہمیں محفوظ رکھے۔ آمین (بشکریہ قلم کارواں)

٭٭٭