ناقابل فراموش

مصنف : وقاص عبید

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : نومبر 2011

کتے نے شکریہ ادا کیا (وقاص عبید)

            "یہ ایک واقعی ناقابل فرامو ش واقعہ ہے یہ تقریباً 15-20 سال پرانا واقعہ ہے جس کا میں چشم دید گواہ ہوں بلکہ بذات خود ملوث رہا ہوں۔ آپ بھی پڑھئے اور سبق لیجئے ہو ا یو ں کہ میں اپنی دکان جو کہ سٹیشنری کا کاروبار تھا بند کر کے گھر کے لیے روانہ ہو ا۔ غالباً 8/9 بجے عشا کا ٹائم تھا۔ جب میں اپنی گلی کی طر ف مڑنے والا تھاتو دیکھا کہ کچھ فاصلے پر ایک اچھا خاصا ہجو م تھا۔ حالا نکہ میری ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے کہ میں کبھی بھی اس قسم کے ہجوم یا اژدھام میں کبھی بھی نہیں گھسا۔ مگر اپنی عادت کے بر خلا ف میں نہ چاہتے ہوئے بھی اسی طر ف چلا گیا۔ جب میں اس مجمع کے نزدیک پہنچا تو لو گ آپس میں کھسر پھسر کر رہے تھے کسی کی آواز سنائی دی کہ بیچارہ جوان اور صحت مند ہے او ر کوئی کہہ رہا تھا کہ کتنا قد آور ہے۔ میں نے بڑی مشکل سے ان لو گو ں کے بیچو ں بیچ اپنے لئے راستہ بنایا اور اندر تک پہنچ گیا۔ ارے یہ تو کتا مرا پڑا ہے۔ یہ میرا پہلا تاثرتھا مگر فوراً مجھے احساس ہوا کہ یہ تو زندہ ہے اور اس کے منہ سے خو ن بھی بہہ رہا ہے اور اس کا منہ بھی کھلا ہوا ہے۔ پتہ کرنے پر مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ کتا گلی میں ہڈیا ں چبا رہا تھا کہ ایک بکرے کے پائے کی نوکدار ہڈی اس کے مسوڑھے میں پھنس گئی ہے اور اس کا محال ہو گیا ہے۔ یہ اگر اسی طر ح رہا تو خون بہہ جانے سے اس کی مو ت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ اور کچھ نہ کھانے سے بھی یعنی بھوک سے بھی میں اب گہری سو چ میں پڑ گیا بلکہ ہر کوئی پریشان ہو رہا تھا۔ میں نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ تو مہر بانی فرما اور مجھے کوئی علا ج بتا دے تاکہ یہ کتا ٹھیک ہو جائے اور اپنا راستہ لے یکدم ایک اچھوتا خیال ذہن میں کو ندا اور مجھے تسلی ہوئی کہ اب یہ اللہ مہربان کی مہر بانی سے بچ جائیگا۔ جو بات میرے ذہن میں آئی وہ یہ تھی کہ ( پٹ سن ) کی سوتلی 3 عدد لیکر ( سیبا ) ہر ایک کی پھا نس بنا کر اسے 2 حضرات کو دیکر کتے کے نچلے اور اوپر والے جبڑے میں ڈال کرپکڑے رکھیں اور ایک سوتلی کی پھا نس بنا کر کتے کے منہ میں جو ہڈی یعنی بکرے کے پائے کی نوکدار لمبی ہڈی جو پھنسی ہوئی تھی ،میں پھا نس ڈال کر ایک جھٹکے سے نکال باہر کی جائے۔ اس سے پہلے میں نے دو حضرات کو اس کتے کی اگلی اور پچھلی ٹانگیں بھی مضبوطی سے پکڑنے کا کہا اور تیسری رسی ( سوتلی ) کی پھانس بنا کر اس لمبی ہڈی جو کہ مسوڑے میں پھنسی ہوئی تھی کی طرف ڈالا۔کتا تکلیف کی وجہ سے منہ بھی نہیں بند کر سکتا تھا اور کھلاہونے کی وجہ سے سوتلی کی پھانس بڑی آسانی سے کتے کی ہڈی میں پھنس گئی اور ایک جھٹکے سے ہڈی مسوڑے سے باہر آگئی۔ کتااتنا طاقتور تھا کہ جن حضرات نے کتے کی ٹانگیں پکڑی تھیں ایک طرف گر گئے۔ اور کتا بری طرح تڑپتا رہا اور پھر ساکت ہو گیا۔ تمام لو گ اداس ہوگئے اور افسوس کا اظہا رکرنے لگے۔ ہم سب نے یہی سمجھا کہ کتا مر گیا۔ مگر ہمیں حیرت اس وقت ہوئی جب اس کے مردہ جسم میں حرکت ہوئی اورا س نے آنکھیں پہلے کھو لیں اور پھر اس نے سر اٹھایا اور جیسا کہ کتا بیٹھتا ہے بیٹھ گیا اور پھر کھڑا ہوگیا اور آہستہ آہستہ چاروں طرف گھومتا گیا۔ دراصل و ہ مجھے لوگوں میں سے ڈھونڈ رہا تھا۔ اور جب اسکی اور میری آنکھیں چار ہوئیں اور جب ہم نے ایک دوسرے کو دیکھا تو اسکی انکھو ں سے ایک عجیب قسم کی کوئی بے نام سی چیز اسکی آنکھوں سے اور میری آنکھوں سے ہوتے ہوئے میرے دل میں اتر رہی تھی۔ اور میں اس کو عجیب و غریب طرح سے محسوس کر رہا تھا۔ میں اس کو بیان نہیں کر سکتا۔ مگر یقین جانیں اتنا لطیف اتنا مزا اتنا سرورمجھے حاصل ہوا کہ بیان کرنے سے میں قاصر ہوں اللہ جانے وہ کتا شاید میرا شکریہ ادا کر رہا تھا کہ میں نے اللہ کی عنایت اور توفیق سے اس کو اس تکلیف سے نجات دلائی اور آخر میں اس نے میرے قدمو ں پر اپنا سر رکھا اور اس ہجوم سے نکل کر ایک طرف چلا گیا۔ یہ واقعہ جب بھی میں کسی بھی شخص کو بیان کرتا ہوں تو جب اس کتے کی آنکھوں میں اس چیز جس کا نام معلوم نہیں تو میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور آواز بھی بھاری ہو جاتی ہے۔"