آخری خط

مصنف : میجر عمران احمد شہید

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : اکتوبر 2011

وطن اوراس کے بچوں کے لیے قربانی کی ایک عظیم مثال
ایک جوان کاشہادت سے قبل ہسپتال سے اپنی بیوی کے نام
 آخر ی خط جوشاید اس نے کسی سے لکھوایا ہوگا
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے

مائرہ کے نام
۱۔۷۴ خیابان بحریہ لاہور
۱۴۔ اگست 2011
السلام علیکم !

کیسی ہو مائرہ؟ امید ہے خیریت سے ہو گی ، میں بھی خیریت سے ہی ہوں ۔ مائرہ شاید یہ خط میرا آخری خط ہو اس لیے اس کو سنبھال کر رکھنا، کم سے کم جب تک زید بڑا نہیں ہو جاتا۔ کل زید کی دوسری سالگرہ تھی ، میں نہیں آ پایا ۔ کیسے آتا ؟ ہم لوگوں کو ایک فیملی کے لیے نہیں ، سترہ کروڑ لوگوں کی خاندانوں کے لیے کام کرنا پڑ رہا ہے ۔ میری طرف سے زید کو بہت پیار کرنا اور ہماری سٹڈی کی کیبنٹ کی سب سے آخری دراز میں سبز فائل کے نیچے ایک لفافہ ہے ، وہ زید کو دے دینا۔ میں نے اس لفافے کو ایسے ہی وقت کے لیے رکھ چھوڑا تھا۔ اس میں اس کے لیے میرا تحفہ اور ایک خط بھی ہے جو اس کو اکیلے پڑھنے دینا۔

اس وقت تک تو اِس خط پر دو آنسو گر چکے ہوں گے ، آخر تم عورتیں اتنی جذباتی کیوں ہوتی ہو، میں کبھی سمجھ نہیں پایا۔ زید کو اس طرح کا مت بنانا ، پہلے کبھی نہیں کہا اب کہہ رہا ہوں ، وہ بالکل تم پر گیا ہے۔ اسکی آنکھیں، اسکے بال ، اس کا ماتھا ، سب کچھ تم پر ہے۔ پہلے کبھی شاید مردانہ Ego کی وجہ سے نہیں کہا ، اب سوچا کہہ ہی دوں۔ مائرہ یہ جنگ بہت مشکل ہے کیونکہ اس میں دونوں طرف ہمارے اپنے ہیں ، اور جنگ کا اصل مرحلہ اپنوں کو گولیاں مارنا ہوتا ہے۔ اکثر تو دس بار سوچتے ہیں ، پر جب پہلی گولی وہاں سے آتی ہے تو جواب میں ہمیں بھی گولی چلانی پڑتی ہے۔ یہاں رہنے والے بہت تکلیف سے گزر رہے ہیں ، صرف اس لیے تاکہ ہم ان کے گھروں کو اس آپریشن کے لیے استعمال کر سکیں۔ سب کسی نہ کسی طرح اس ملک کے لیے قربانیاں دینے پر لگے ہوئے ہیں ، آخریہ ملک ہے ہی اتنا پیارا۔

پرسوں ہماری ڈیوٹی ایک سکول میں لگائی گئی۔ ایک فوجی کے لیے چوکیدار کی طرح سکول کی رکھوالی کرنے سے بدتر کچھ نہیں ہے ، یہی سوچ کر بہت دیر تک میرا منہ بنا رہا۔ پر جب سارے بچوں کو سکول آکر بلند آواز میں پاکستان کا قومی ترانہ گاتے ہوئے سنا تویوں سمجھو سارا غصہ پگھل گیا ۔ ان بچوں کو بنا ڈر کے پڑھتا (ترانہ) دیکھ کر دل کو بہت خوشی ہوئی ، ان کے چہرے مطمئن تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ کچھ نہیں ہو گا کیونکہ ہم وہاں ہیں۔

ایک دہشت گرد نے سکول کی عمارت کے اندر بم نصب کر دیا تھا ۔ اگر ہم سکول خالی کرواتے تو بہت سا جانی نقصان ہوسکتا تھا ، اسی لیے میں نے وہی کیا جو ایک فوجی کا فرض تھا اپنے ملک کے بچوں کے لیے میں اس بم کو ہاتھ میں اٹھا کر اور اس کو لیکر سکول کی عمارت سے دور بھاگ گیا۔ باہر جاکر دھماکہ ہو گیا اور میں یہاں اسپتال میں داخل ہوگیا۔ مجھے اس سب کا کوئی افسوس نہیں ہے مائرہ! کیونکہ وہ بچے سلامت رہے۔ میں نے تو فوج جوائن ہی اس لیے کی تھی تاکہ اپنے اس پاک وطن کو اپنی جان کا نذرانہ دے سکوں۔ میں شہید ہوں مائرہ! مجھے انہی الفاظ میں یاد کرنا اور زید سے کہنا کہ وہ بھی سب کو فخر سے بتائے کہ اس کا باپ ملک کی خدمت کرتے ہوئے حاضر سروس شہید ہوا ہے۔ زید بہت پیارا بچہ ہے مائرہ! اور اب تمہیں اکیلے اس کو پالنا ہو گا۔ آج مرتے مرتے وصیت کر رہا ہوں زید کو بھی فوجی بنانا مائرہ! اس کام میں ایک عجیب سا نشہ ہے ، شہادت کا نشہ ، ملک کے لیے جان قربان کرنے کا نشہ، اور اس نشے کے آگے دنیا کا ہر کام پیچھے ہے۔ میری موت پر افسوس نہ کرنا ، جشن منانا کیونکہ میں تو سب بچوں کو بچا کر جان دے رہا ہوں اور ویسے بھی شہیدوں کی موت پر رویا نہیں فخر کیا جاتا ہے۔

مائرہ! تمہیں اب خود ہی اپنا خیال رکھنا ہو گا۔ اپنے امی ابو کو اپنے پاس بلا لینا ، تمہیں اکیلے رہنے کی عادت نہیں ہے ۔ مائرہ تم جب میری ramp ceremony (جنازہ) پر آؤ گی تو وہاں میری یونیفارم ، میڈلز اور بیجز زید سے Collect کروانا۔ میں چاہتا ہوں وہ اس عمر میں ہی ایک فوجی ہونے کے جذبے کو محسوس کرے۔ بس میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ مجھے اب انتظار ہے اپنے ملک کے ہلالی پرچم سے لپٹ کر شہید کہلائے جانے کا! میں آؤں گا اپنی Ramp ceremony پر ، دیکھنے کے لیے کہ ایک شہید کی موت پر کتنی رونق ہوتی ہے۔ جب میرے اعزاز میں گولیاں فائر کر کے سلامی دیے جانے کی آواز سنوں گا ، تبھی میری روح کو سکون پہنچے گا۔

اب الوداع کہتا ہوں کیونکہ اس سب کو کہنے کے بعد نہ ہی تم ،اور پڑھنے کے قابل ہو گی اور نہ میں لکھنے کے۔ اس لیے الوداع!!! اپنا اور زید کا بہت خیال رکھنا ، تمہارے پاس زید اس ملک کی امانت ہے اور امانت کو ایک دن لوٹانا ہی ہوتا ہے۔ میں انتظار کروں گا زید کی شہادت کا! خیال رکھنا!!!!

With Love
میجر عمران احمد ، پنجاب رجمنٹ

بشکریہ
www.eaglesofpakistan.com