ایک طرح کے لفظ ، دو طرح کے مطلب

مصنف : عارف وقار

سلسلہ : لسانیات

شمارہ : ستمبر 2011

            اْردو میں کچھ الفاظ ایسے ہیں جو دیکھنے میں ایک جیسے لگتے ہیں لیکن اْن کا تلفظ اور مطلب مختلف ہوتا ہے۔

اَتَم: (الف پر زبر، ت پر بھی زبر) یہ لفظ عربی سے آیا ہے اور اسکا مطلب ہے پورا، مکمل، کامل۔ اُتّم: (الف کے اوپر پیش، ت کے اوپر زبر اور تشدید) یہ لفظ سنسکرت سے آیا ہے اور اسکا مطلب ہے اْونچا۔

اَثناء: ( الف کے اوپر زبر، ث کے اوپر جزم) عرصہ، وقفہ، دوران، مثلاً دریں اثناء یا اسی اثنامیں۔

اِثنا عَشَر: ( الف کے نیچے زیر) بارہ 12 مثلاً وہ اِثنا عشری عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں، یعنی بارہ اماموں کو مانتے ہیں۔

اِشفاق: ( الف کے نیچے زیر) خوش خلقی ، اچھا سلوک، مہربان رویّہ۔

اَشفاق: (الف کے اوپر زبر) شفقت کی جمع۔

اِشکال: (الف کے نیچے زیر) مْشکل، دشواری، پیچیدگی۔

اَشکال: (الف کے اوپر زبر) شکل کی جمع، شکلیں، صورتیں۔

اَعراب: (الف پر زبر) عرب کی جمع یعنی خطہّء عرب کے باشندے، عربی لوگ۔

اِعراب: ( الف کے نیچے زیر) حروف کے اوپر نیچے لگنے والے نشانات جیسے زیر، زبر، پیش وغیرہ۔

اَقدام: ( الف کے اوپر زبر) قدم کی جمع۔

اِقدام: ( الف کے نیچے زیر) قدم اْٹھانے کا عمل، آغازِ کار۔

اَمارَت: (الف کے اوپر زبر) امیری، دولت مندی

اِمارت: (الف کے نیچے زیر) ریاست، حکومت، سٹیٹ، اسکی جمع ہے اِمارات، چنانچہ متحدہ عرب اِمارات میں الف کے نیچے زیر آئے گی۔

آذر: ( ذال کے ساتھ) آگ، شمسی سال کا نواں مہینہ۔

آزر: (زے کے ساتھ) حضرت ابراہیم کے والد کا نام۔

پارس: ( رے کے اوپر جزم) ایران کا پرانا نام۔

پارَس: ( رے کے اوپر زبر) ایک داستانی پتھر جسکے چھونے سے ہر چیز سونا بن جاتی ہے۔

ثَقَل: ( ث پر زبر، ق پر بھی زبر) بوجھ، سامان، قیمتی یا اہم چیز۔

ثِقل: ( ث کے نیچے زیر، ق پر جزم) بوجھل ہونے کی کیفیت، بھاری پن، مثلاً ثِقلِ سماعت یا کششِ ثِقل۔

جَدّی: ( جیم ہر زبر، دال پر تشدید) آبائی، مثلاً جدّی پْشتی اِملاک۔

جَدی: ( جیم پر زبر لیکن کہیں کوئی تشدید نہیں) خطِ اِستِوا کے جنوب میں ایک اور فرضی خط۔ نجوم کی اصطلاح میں ایک برج کا نام۔

جْرم: ( ج پر پیش، رے پر جزم) خطا، قصور، کرائِم۔

جِرم: ( ج کے نیچے زیر، رے پر جزم) جسم، باڈی، وجود، اسکی جمع اَجرام ہے مثلاً اَجرامِ فلکی۔

َجگ: (جیم پر زبر) دْنیا، عالم۔

ْجگ: (جیم پر پیش) دَور، زمانہ، مثلاً ْجگ ْجگ جیو۔ اسکی پرانی سنسکرت شکل ْیگ بھی مستعمل ہے مثلاً کل ْیگ اور ست ْیگ وغیرہ۔

جْھری: ( جھ کے اوپر پیش) شکن، سِلوٹ مثلاً جھْریوں سے بھرا چہرہ۔

جِھری: ( جھ کے نیچے زیر) درز، دراڑ، مثلاً دروازے کی جھِری سے دکھائی دینے والا منظر۔

چَنٹ: ( چ پر زبر، ن پر جزم) چالاک، تیزطرار، چالباز۔

ْچنّٹ: ( چ کے اوپر پیش، ن کے اوپر تشدید) کپڑے میں سلائی کے وقت ڈالی جانے والی فیشنی سلوٹ۔

حْب: ( ح کے اوپر پیش) پیار، لگاؤ، محبت۔

حَبّ: ( ح کے اوپر زبر) گولی، دانہ، مثلاً حَبِّ قبض یعنی قبض کی گولی۔

حَرّ: ( ح پر زبر) گرمی، تپش، اسی لفظ سے حرارت بنا ہے۔

حْرّ: ( ح پر پیش) آزاد، فری، اسی لفظ سے حْریّت بنا ہے۔

حْکم: ( ح پر پیش، ک پر جزم) امر، آرڈر، فرمان۔

َحکَم: ( ح پر زبر، ک پر بھی زبر) ثالِث، مْنصِف۔

حِکَم: ( ح کے نیچے زیر، کاف کے اوپر زبر) حِکمت کی جمع۔

خَبَث: ( خ پر زبر، ب پر بھی زبر) زنگ، آلائش، گندگی، مَیل

خْبث: ( خ کے اوپر پیش، ب پر جزم) کپٹ، کینہ، بدی، کھوٹ مثلاً خبثِ باطِن۔

خَفا: ( خ کے اوپر زبر) ناراض، ناخوش،

حِفاء: ( خ کے نیچے زیر) چھْپنا، پردے میں ہونا، پوشیدگی۔

خَلَف: ( خ کے اوپر زبر، ل کے اوپر بھی زبر) بیٹا، جمع اخلاف یعنی اولادیں۔

خَلف: ( خ کے اوپر زبر، ل پر جزم) پیچھے، عقب میں۔ فوج کا پچھلا حصّہ

خِیام: ( خ کے نیچے زیر) خیمہ کی جمع

خَیّام: ( خ پر زبر‘ی’ پر تشدید) خیمے بنانے والا۔

دَہاڑ: ( دال پر زبر) شیر کی گرج۔

دھاڑ: جتھا، گروہ، ٹولا۔

ذَبح: ( ذال پر زبر، ب پر جزم) حلال کرنا، قربانی کرنا

ذِبح: ( ذال کے نیچے زیر، ب پر جزم) قربان کیا ہوا جانور۔

رَسَد: ( رے پر زبر، س پر بھی زبر) اشیائے ضرورت کی دستیابی، سپلائی۔

رَصَد: ( رے پر زبر، ص پر بھی زبر) دوربین سے آسمان کا مشاہدہ کرنا۔ چنانچہ آبزرویٹری کو رصد گاہ کہا جاتا ہے۔

سْدھارنا: ( س کے اوپر پیش) سنوارنا، درست کرنا، اِصلاح کرنا۔

سِدھارنا: ( س کے نیچے زیر) جانا، روانہ ہونا، راستہ پکڑنا۔

َصدِیق: ( ص پر زبر، دال کے نیچے زیر) دوست، رفیق، ساتھی۔

ِصدِّیق: ( ص کے نیچے زیر، دال کے نیچے بھی زیراور دال کے اوپر تشدید) نہایت سچّا انسان۔

َصفَر: ( ص پر زبر، ف پر بھی زبر) قمری سال کا دوسرا مہینہ

صِفر: ( ص کے نیچے زیر، ف پر جزم) زِیرو۔

َضلال: ( ض پر زبر) گْمراہی، راستے سے بھٹک جانا۔

زْلال: ( ز کے اوپر پیش) نتھرا ہوا صاف پانی۔

عَیّار: ( ع پر زبر ‘ی’ پر تشدید) چالاک، بدمعاش، چالباز۔

عِیار: ( ع کے نیچے زیر) کسوٹی، معیار، سٹینڈرڈ۔

کم عیار کا مطلب ہو گا غیر معیاری یا کھوٹا مال مثلاً زرکِم عیار

َعمد: ( ع پر زبر م پر جزم) ارادہ، نیّت، مثلاً قتلِ عمد یعنی جان بوجھ کر کسی کو مار ڈالنا۔

عْمَد: ( ع پر پیش، م پر زبر) عْمدہ کی جمع، معاشرے کے اہم لوگ، اْردو میں عمائدین زیادہ استعمال ہوتا ہے جوکہ جمع الجمع ہے۔ مثلاً عمائدینِ سیاست، عمائدینِ حکومت وغیرہ۔

غَیض: نامکمل، ادھورا، کچّا۔ عربی کا یہ لفظ اْردو میں استعمال نہیں ہوتا۔

غَیظ: غصّہ، قہر۔ اْردو میں یہ غضب کے ساتھ مِل کر مرکب بناتا ہے۔

غیظ و غضب۔ نوٹ کیجئے کہ غیظ میں ظ استعمال ہوتا ہے نہ کہ ض۔

فَرّار: ( ف پر زبر، رے پر تشدید) تیز دوڑنے والا۔

فِرار: ( ف کے نیچے زیر) بھاگ جانا، چنپت ہوجانا۔

قُوّت: ( ق کے اوپر پیش، واؤ کے اوپر زبر اور تشدید) طاقت، زور، توانائی۔

قْوت: ( سْوت اور بھْوت کے وزن پر) غذا، خوراک۔ قوتِ لایمْوت سے مْراد ہے بس اتنی سی خوراک جو جسم اور جان کا رشتہ برقرار رکھ سکے۔

کوڑی: گنتی کا پیمانہ جو 20 کے عدد کی نمائندگی کرتا ہے۔ دو کوڑی مالٹے سے مْراد ہو گی چالیس مالٹے۔ پانچ کوڑی کا سینکڑہ ہوتا ہے۔

کَوڑی: ( ک کے اوپر زبر) ایک طرح کا سمندری گھونگھا جو کھیلنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ ماضی میں سِکّے کے طور پر استعمال ہوتا تھا، چنانچہ کَوڑی کَوڑی کو محتاج انتہائی غریب شخص کو کہتے ہیں۔

لیس: چِپک جانے والی چیز، چپچپامادّہ۔

لَیس: ( ل کے اوپر زبر) تیار، آراستہ، سجابنا، ریڈی، مثلاً کِیل کانٹے سے لیس۔

لَیَلہ: (ل کے اوپر زبر) عربی کا لفظ ہے۔ مْراد ہے رات۔ مثلاً لَیَلْۃالقدر

لَیلیٰ: ( لَے+لا) مجنوں کی محبوبہ کا نام۔

لِیلا: ( لام کے نیچے زیر) ہندی کا لفظ ہے، مْراد ہے جلوہ، تماشا مثلاً رام لِیلا۔

ماندا: (ہندی) بیمار، نحیف، کمزور، ناتواں، مثلاً تھکاماندا،

ماندہ: (فارسی) بچا ہوا، رہا ہوا، ٹھہرا ہوا۔ عموماً تراکیب میں جزوِ ثانی کے طور پر آتا ہے مثلاً پس ماندہ یعنی پیچھے رہ جانے والا۔

ْمثبَت: ( م کے اوپر پیش، ث پر جزم، ب پر زبر) محکم، اقراری، موافق، منفی کی ضِد۔

ْمثبِت: ( ب کے نیچے زیر) عربی کا اسمِ فاعل ہے اور اْردو میں عموماً استعمال نہیں ہوتا۔ مْراد ہے ثابت کرنے والا۔

مْصَنِفّہ: ( م کے اوپر پیش، ص کے اوپر زبر، ن کے نیچے زیر اور ف پر تشدید) مْصنف کی مؤنث یعنی خاتون رائیٹر۔ مثلاً اس کتاب کی مْصنفہ عصمت چْغتائی ہیں۔ؒؒ

مْصَنَفّہ: ( ن کے اوپر زبر) اسمِ مفعول ہے یعنی لکھی گئی یا تحریر کی گئی چیز مثلاً تاریخِ لاہور مْصنفہ عبداللطیف یعنی عبداللطیف کی لکھی ہوئی تاریحِ لاہور۔

مکاتِب: ( ت کے نیچے زیر) مکتب / مکتبہ کی جمع مثلاً مکاتبِ فکر۔

مکاتیِب: (ی کا اضافہ دیکھیئے) مکتوب کی جمع یعنی خطوط۔ مثلاً مکاتیبِ اقبال، مکاتیبِ غالب۔

مَلَکہ: ( م کے اوپر زبر، لام کے اوپر بھی زبر) مہارت، مشّاقی۔

مَلِکہ: ( ل کے نیچے زیر) بادشاہ کی بیگم۔

نَظِیر: مثال، جیسے ماضی میں اسکی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ بے مثال چیز کو بے نظیر بھی کہتے ہیں۔

نَذِیر: خبردار کرنے والا، ڈرانے والا، تنبیہ کرنے والا۔

نَفَس: ( ن پر زبر، ف پر زبر) سانس، اسکی جمع ہے انفاس۔

نَفس: (ف پر جزم) ذات، من، جی، دِل، روح، جان، اسکی جمع ہے نفوس۔

نْقطہ: نشان، بِندی، جیومیٹری میں دو خطوط کے قطع ہونے کا مقام۔

نْکتہ: ( جمع نِکات) کوئی باریک بات یا بات کا کوئی لطیف پہلو جس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہو، نیز کسی بیان یا اعلان کی کوئی شِق مثلاً قائدِاعظم کے چودہ نکات

            ملتے جْلتے الفاظ میں سب سے عام غلطی اْن مرکبات میں نظر آتی ہے جو ‘کن’ پہ ختم ہوتے ہیں چنانچہ یہ نکتہ ذرا وضاحت سے بیان کیا جارہا ہے۔

فارسی میں ایک مصدر ہے ‘ کردن’ جسکا مطب ہے‘ کرنا’۔دوسرا مصدر ہے کَندن ( ک پر زبر) جسکا مطلب ہے کھودنا یا گودنا۔ پہلے مصدر سے ہمیں‘ کْن’ حاصل ہوتا ہے جسکا تعلق کچھ کرنے سے ہوتا ہے۔ مثلاً کارکْن یعنی کام کرنے والا، پریشان کْن پریشان کرنے والااور حیران کْن یعنی حیران کرنے والا۔ اِن تمام مرکبات میں کْن استعمال ہوا ہے جسکے کاف پر پیش ہے۔ اب دوسرے مصدر کی طرف آئیے جس سے ہمیں ‘ کَن’ کا لفظ ملتا ہے ( کاف پر زبر) اور اسکا تعلق کھودنے سے ہوتا ہے۔ چنانچہ کان کَنی اور بیخ کَنی(جڑ کھودنا) وغیرہ لکھتے ہوئے اور بولتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کاف کے اوپر زبر ہے ، پیش نہیں ہے۔ موازنے کے لئے ایک بار پھر دیکھیئے کہ کام کرنے والے کو کہتے ہیں کارکْن ( ک کے اوپر پیش) لیکن کان کھودنے والے کو کہیں گے کان کَن، اسی طرح پہاڑ کھودنے والا کہلا ئے گا کوہ کَن ( کاف کے اوپر زبر ہے)

زبان کی نازک باریکیاں

            جہاں تک جمع بنانے کے ہندی یعنی دیسی طریقے کا تعلق ہے وہ ہم لوگ فطری طور پر ہی سیکھ جاتے ہیں مثلاً یہ جاننے کے لئے کسی پاکستانی یا ہندوستانی کو گرامر کی کتاب درکار نہیں ہے کہ لڑکا کی جمع لڑکے اور دوات کی جمع دواتیں ہے۔ قواعد کے اصول پڑھے بغیر بھی ہمیں معلوم ہے کہ لڑکی کی جمع لڑکیاں ہے اور عورت کی جمع عورتیں ہے۔ ذرا سا غور کرنے پر ہمیں اسکے پسِ پْشت کارفرما صوتی اصول بھی معلوم ہو سکتا ہے لیکن عملی زندگی میں ہمیں تجزئیے کی ضرورت کبھی نہیں پڑتی۔ ہمارے لئے مسئلہ اْس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ بحر (سمندر ) کی جمع بحور بھی ہے اور ابحر بھی جبکہ کبھی کبھی بحار بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ اسی طرح عبد ( بندہ) کی جمع عباد، عبود، اعباد، اعبدہ، اعبد غرض یہ سلسلہ چلتا ہی جاتاہے۔ اْردو کے پْرانے قواعد نویسوں نے عربی کے 29 اَوزان درج کئے ہیں جن پر اسماء کی جمع بنائی جاسکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ سب کے سب اْردو میں مستعمل نہیں ہیں۔ذیل میں عربی کے چند معروف اوزان درج کئے جا رہے ہیں جن کے آگے اْن عربی الفاظ کی مثالیں بھی ہیں جو اْردو میں استعمال ہوتے ہیں۔ پہلے نمونے کا عربی سانچہ درج ہے جسکے مطابق اسماء کی جمع بنائی جاتی ہے مثلاً فْ عْ ل محض ایک عربی سانچہ ہے اور ْفعْل کے سانچے میں ڈھلے ہوئے جمع کے صیغے والے الفاظ کی مثالیں یہ ہیں: کْتْب، رْسْل، صْحْف وغیرہ۔ آئیے اب عربی کے کْچھ سانچوں اور اْن میں ڈھلے ہوئے صیغہء جمع کے الفاظ پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔

َمفاعِل: مَجالس، مَحافِل، مَقابِر، مَواقِع

فْعَلاء : عْلَماء ، رْؤَساء ، اْمَراء، غْرَباء، ْطلَباء

فَعالِل: خَصائِل، فَضائِل، قَبائِل، عَزائِم

فَعالِیل: مکاتِیب، مضامِین، اقالِیم، صنادِید

فْعْل: کْتْب، رْسْل، صْحْف (صحیفہ کی جمع)

فْعْول: نْفْوس، نْجْوم، نْقْوش، طْیْور، اْصْول (اصل کی جمع)

اَفعال: اَسرار، اَطفال، اَہداف، اَخبار (خبر کی جمع)

فْعّال: عْمّال، حْکّام، حْجّاج، عْشّاق، خْدّام

فِعال: نِکات، جِہات، خِصال، عِظام، کِبار

فَعَلَہ: طَلَبہ، عَمَلہ، عَمَدہ

فِعَل: حِصَص، قِصَص، ِسیَر ( سیرت کی جمع) مِلَل ( مِلّت کی جمع)

اَفعْل: اَنجْم، اَنفْس

فَعَلات: دَرَجات، حَشَرات، غَزَوات، عَزَلات

            اِن کے علاوہ بھی کچھ عربی اوزان ہیں جن میں بنے ہوئے جمع کے صیغے اْردو میں استعمال ہوتے ہیں لیکن وہ اوزان زیادہ معروف نہیں ہیں۔

            یہاں یہ سوال بالکْل جائز ہے کہ محض ایک واحد کوجمع میں بدلنے کے لئے اتنے زیادہ طریقے کیوں استعمال کئے جاتے ہیں؟ اسکا سادہ سا جواب یہ ہے کہ کلاسیکی عربی میں اِن تمام سانچوں کا مفہوم ایک دوسرے سے تھوڑا تھوڑا مختلف تھا۔ سوائے چند صورتوں کے، اب مفہوم کی وہ کلاسیکی باریکیاں ختم ہو چْکی ہیں اور اْردو میں تو اْن کا وجود بالکْل ناپید ہے، لیکن پْرانے سانچے ابھی تک چل رہے ہیں۔

            اس موقعے پر ہم طْلَباء اور طَلَبہ کا مسئلہ بھی حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

            یہ دونوں الفاظ جمع کے صیغے میں ہیں اور دونوں کا مطلب ہے: سٹوڈنٹس لیکن طْلَباء عربی کے سانچے ‘ فْعَلا ’ کے وزن پر ہے اور درحقیقت یہ طالب کی نہیں بلکہ ‘طلیب’ کی جمع ہے۔ عربی لفظ طلیب کا مطلب ہے کسی شے کا متلاشی یا جْویا۔

             طْلَباء کے ضمن میں جا ن ٹی پلیٹس اپنی معروف ہندوستانی انگلش ڈ کشنری میں لکھتے ہیں: ہندوستان میں اس لفظ کو بالعموم طالب کی جمع سمجھاجاتا ہے جو کہ درست نہیں کیونکہ طالب کی جمع ‘طلبہ’ ہے۔ گویا ماہرین کے نزدیک سٹوڈنٹس یا طالبعلموں کے لئے زیادہ مناسب لفظ ‘طلبہ’ ہے کیونکہ فَعَلہ کے وزن پہ بننے والا یہ لفظ طالب کی اصل جمع ہے۔ہمارے خیال میں اِن الفاظ کے عربی مادوں تک جانا اور وہاں سے گوہرِ مقصود کی شکل میں کسی ایک لفظ کو مْٹھی میں بھینچ لانا، دْور کی کوڑی لانے والی بات ہے۔ طلیب کا لْغوی مفہوم بھی طالب سے مختلف نہیں بلکہ اس میں تلاش اور طلب کی شدّت پائی جاتی ہے اس لئے علم کی تلاش کرنے والوں کے لئے طلباء کا لفظ بھی جائز سمجھا جانا چاہیئے۔ویسے جھگڑے سے بچنے کے لئے ہم فارسی کا سہارا بھی لے سکتے ہیں اور دانش جْو کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں۔ حیرت ہے کہ ہم نے یونیورسٹی کے لئے تو دانش گاہ کا لفظ کسی حد تک قبول کر لیا ہے لیکن طالبِ علم کو دانش جْو کہنے سے گْریزاں ہیں۔ مقامی فرہنگ میں بھی ہمارے پاس دو متبادلات موجود ہیں: وِدیارتھی اور مْنڈا۔ اوّل الذکر، وِدّیا (عِلم) سے ماخوذ ہے اور ایک خالص ہندی لفظ ہونے کے باعث ہمارے لئے نا قابلِ قبول ہے۔ مْنڈا کا لفظی مطلب ہے ایسا لڑکا جِس کا سر مْنڈا ہوا ہو۔ چونکہ پْرانے وقتوں میں گْرو جسے بھی تعلیم دیتے تھے اْس کا سر مونڈ دیتے تھے۔ چنانچہ گْرو کے تمام چیلوں کے سر مْونڈے ہوئے ہوتے تھے اور اسی نسبت سے‘ مونڈے’ کہلاتے تھے، بعد میں یہی لفظ مْنڈے بن گیا۔ آج کل چونکہ یہ لفظ لڑکے یا چھوکرے کے معانی میں مستعمل ہے اور طالب علمی کا مفہوم تاریخ کی دبیز چادر میں چھْپ چْکا ہے اس لئے ہم سٹوڈنٹس کے لئے مْنڈے کا لفظ بھی استعمال نہیں کر سکتے، چنانچہ پلڑا ایک بار پھر دانش جْو کے حق میں جھْک جاتا ہے۔

            اْردو میں اسم کی تعداد ظاہر کرنے کے لئے دو ہی صورتیں ہیں: چیز اکیلی ہو تو واحد ہے اور ایک سے زیادہ ہوں تو جمع ہیں۔ لیکن ہر زبان میں ایسا نہیں ہوتا۔ سنسکرت، کلاسیکی یونانی اور عربی میں واحد اور جمع کے علاوہ ایک تیسرا صیغہ تثنیہ کا بھی ہے جس سے مْراد ہے دو اشیاء۔عربی کے وہ اسماء جو اْردو میں آگئے ہیں اپنے ساتھ یہ صیغہ بھی لے کر آئے ہیں۔ مثلاً ‘فریقین’ یعنی دو فریق۔ جانِبیَن یعنی دو جانِب، اسی طرح درجِ ذیل الفاظ بھی تثنیے کے صیغے میں آتے ہیں:والدَین، بحَرین، مشرقَین، نعلَین، قطبَین وغیرہ

            بعض زبانوں میں عدد کے چار صیغے ہوتے ہیں واحد، تثنیہ، ثلاثہ اور جمع۔ گویااِن زبانوں میں دو کے علاوہ تین کو بھی ‘جمع’ نہیں سمجھاجاتا اور جمع کا صیغہ چار سے شروع ہوتا ہے۔ اِن کے برعکس ہنگری اور جارجیا ( سابق سویت جمہوریہ) کی زبانوں میں دو آنکھیں واحد شمار کی جاتی ہیں۔ اسی طرح دونوں ہاتھ، دونوں پیر، دونوں ٹانگیں، دونوں کان وغیرہ بھی ایک یْونٹ شمار ہوتے ہیں اور اْن کے لئے واحد کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہنگری یا جارجیا میں کسی کو ایک کان یا ایک آنکھ یا ایک ٹانگ کا ذکر کرنا ہو تو کیسے کرے گا؟ جواب آسان ہے: وہ کہے گا، آدھا کان، آدھی آنکھ اور آدھی ٹانگ۔