سوال ، جواب

مصنف : مولانا طالب محسن

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : اگست 2011

جواب :درج بالا صورت میں کسی کفارے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ قرآن مجید کے حکم کے مطابق روزوں کی تعدادپوری کرنا ضروری ہے۔ اس لیے جو روزہ بھی کسی وجہ سے چھوٹ گیا ہو اسے رمضان کے بعدرکھا جاتا ہے۔         

(مولانا طالب محسن)

جواب :قرآن مجید میں روزے کے جو احکام بیان ہوئے ہیں، ان میں عارضی طور پر روزے کا فدیہ دینے کی اجازت دی گئی تھی۔ پھر کچھ عرصے کے بعد یہ اجازت ختم کر دی گئی۔ رمضان کے بعد عام دنوں میں روزہ رکھنا چونکہ مشکل ہوتا ہے ، اِس لیے جب تک طبائع اِس کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہو گئیں، اللہ تعالیٰ نے اِسے لازم نہیں کیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ہے کہ فدیے کی یہ اجازت اِس لیے ختم کردی گئی ہے کہ تم روزوں کی تعداد پوری کر و اور جو خیروبرکت اْس میں چھپی ہوئی ہے، اْس سے محروم نہ رہو۔اصل میں بیماری یا سفر کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ضرور ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ رمضان گزرنے کے بعد چھوٹنے والے روزے پورے کیے جائیں۔میرا آپ کو مشورہ یہ ہے کہ آپ کسی ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ ممکن ہے اس کا کوئی حل نکل آئے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آپ کچھ روزے چھوڑ دیا کریں اور رمضان کے بعد تعداد پوری کر لیا کریں۔علما فدیے کا آپشن اب صرف ان مریضوں کے لیے بیان کرتے ہیں جن کا مرض مستقل نوعیت کا ہواور روزے رکھنا اب ان کے لیے کبھی بھی ممکن نہیں ہے۔ میرا خیال نہیں ہے کہ آپ اس نوع سے تعلق رکھتی ہیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ اپنا مناسب علاج کرائیں اور جب تک ٹھیک نہ ہوں، کچھ روزے چھوڑ کر بعد میں تعداد پوری کر لیں۔آپ نے کہا کہ آپ نقاہت محسوس کرنے کی وجہ سے خوش دلی سے روزے نہیں رکھ پاتیں۔ اگر آپ یہ بات اپنے سامنے رکھیں کہ اس مشقت کو جھیلنے میں آپ کا اجر دوسرے روزے داروں سے زیادہ ہے تو یہ نفسیاتی کیفیت ختم ہو سکتی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب :قرآن مجید میں رمضان میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی طے ہے کہ روزے اور حج کے مہینے قمری تقویم، یعنی چاند کی ماہانہ گردش سے طے ہوتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ قمری مہینے کا تعین کیسے ہو۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ یہ کام چاند دیکھ کر کیا جائے گا،لیکن انسان نے بہت پہلے یہ بات جان لی تھی کہ چاند کی گردش معین ہے اور ہلال کے طلوع کو حساب کتاب سے متعین کیا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قمری مہینے کے ہونے اور نہ ہونے کا تعین دونوں طریقوں سے ممکن ہے۔ رؤیت ہلال سے بھی اور گردش قمر کے حساب سے بھی۔ اب یہ حساب کتاب اتنا یقینی ہو چکا ہے کہ اہل فن سیکنڈ کے حساب سے چاند کے طلوع ہونے کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا دین میں چاند کے تعین میں کسی خاص طریقے کو ترجیح دی گئی ہے؟ قرآن مجید میں اس حوالے سے کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ چنانچہ مدار بحث ایک روایت ہے۔ آپ ﷺکا ارشاد ہے:''چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔اگرمطلع صاف نہ ہو تو گنتی پوری کرو۔''اس روایت کا مطلب یہ سمجھا گیا ہے کہ رمضان اور عید کا تعین صرف چاند دیکھ کر کرنا چاہیے۔ دراں حالیکہ یہ بات اس جملے سے لازم نہیں آتی۔روزے کے حوالے سے سحر اور افطار کا تعین بھی طلوع فجر اور غروب آفتاب سے متعلق ہے، لیکن وہاں ہم نے کسی رؤیت صبح صادق اور تعین غروب آفتاب کا اہتمام نہیں کیا۔ سورج کی گردش کے متعین حساب کتاب کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے اوقات متعین کر دیے گئے ہیں اور لوگ گھڑیاں دیکھ کر سحر اور افطار کرتے ہیں،حالاں کہ قرآن مجید نے یہاں بھی دو مظاہر فطرت کو آغاز صوم اور اختتام صوم کا نشان قرار دیا تھا۔ جس طرح سورج کی گردش کے حساب پر اعتماد کیا گیا ہے، اسی طرح چاندکی گردش کے حساب پر اعتماد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا منشا اس صورت میں بھی بہ تمام وکمال پورا ہوتا ہے۔قدیم علما بھی جب مطلع صاف نہ ہو اور رؤیت ممکن نہ رہے تو حساب کتاب ہی کو فیصلے کا مدار قرار دیتے ہیں۔ اس باب میں دو آرا ہیں: ایک رائے یہ ہے کہ شعبان کے تیس دن پورے کیے جائیں گے اور دوسری رائے یہ ہے کہ گردش کا حساب دیکھ کر طے کیا جائے کہ آج طلوع ہلال ممکن تھا یا نہیں۔ جو رائے قائم ہو، اس پر عمل ہونا چاہیے۔یہ دوسری رائے امام شافعی سے بھی مروی ہے۔ اس رائے میں بھی بنیادی اصول یہی کار فرما ہے کہ اصل مسئلہ آغاز رمضان یا اختتام رمضان کا تعین ہے۔ رؤیت ہلال اس کا ذریعہ ہے، اس کی شرط نہیں ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ اختلاف مطالع کے باعث مختلف علاقوں میں عید اور رمضان کے اوقات بدل جاتے ہیں، اس کا کیا حل ہے؟ ہمارے نزدیک سارے عالم اسلام یا سارے ملک میں ایک ہی دن عید کرنے کی کوئی دینی وجہ نہیں ہے۔ جن علاقوں کا مطلع مختلف ہے، ان میں عید کا دن مختلف ہی ہونا چاہیے۔ جب اللہ تعالیٰ نے قمری گردش کو مذہبی تقویم قرار دیا ہے تو یہ فرق اسی کا نتیجہ ہے۔

ہوائی سفر میں نماز اور روزے کا حساب ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ جس علاقے سے سفر شروع کیا گیا ہے، وقت کا فرق کم ہو تو اس علاقے کے اوقات ملحوظ رکھنے چاہییں، لیکن اگر فرق زیادہ ہو تو جس علاقے سے جہاز گزر رہا ہو یا پہنچنے والا ہو، اس کا اعتبار بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ مسافر کی صواب دید پر ہے، وہ جسے بھی اختیار کرے گا، امید یہی ہے کہ اس کے روزے اور نماز کے مقبول ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔

(مولانا طالب محسن)